اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

تقدس مآب پوپ کو گرینڈ امام کے استقبال تقریر
Anonym
/ Categories: Main_Category

تقدس مآب پوپ کو گرینڈ امام کے استقبال تقریر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بطریق اعظم فرانسس – ویٹیکن کے بطریق ، اور قابل قدر مہمانان گرامی

 السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میں ازہر شریف اور مسلم حکماء کونسل کی طرف سے سلام پیش کرتا ہوں  اور اس دعوت کو قبول کرنے پر دل کی اتہاہ گہرایوں سے شکر گزار ہوں ، ہم آپ کے ازہر شریف اور مصر کے اس دورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔۔یہ دورہ جو  ازہر کی پکار کی تعمیل  اور ہم سب کے کندھوں پر عائد ہونے والی تاریخی ذمہ داری  کو نبھانے ، اور تباہ ہونے جانے والی امن و سلامتی  کے لئے خدائی مذاہب کے قائدین ، اس کے علماء اور شخصیات کے ساتھ شرکت کرنے کیلئے منعقد کیا گیاہے  ، وہ امن و سلامتی جس کو قومیں ، ممالک ، مصیبت زدہ اور بیمار لوگ، صحراوں میں بھٹکتے ہوئے ، اپنے وطنوں سے فرار دوسرے دور دراز وطنوں کی طرف منتقل ہونے والے لوگ  تلاش کر رہے ہیں   اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اس وطن تک پہنچ سکیں گے یا راستے ہی میں موت ، ہلاکت اور تباہی ان کے درمیان حائل ہو جائے گی یا ان کا انجام  سمندروں کے ساحلوں پر بکھرئی لاشیں ہوں گی۔ یہ صورت حال انتہائی پریشان کن انسانی المیہ کی صورت اختیار کرگیا ہے ، اگر ہم کہیں کہ تاریخ میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی تو حقیقت سے تجاوز نہیں ہو گا ۔

دانشمند اور  زندہ ضمیر کے حامل حضرات    اس المیہ کے پیچھے حقیقی سبب کو تلاش کر رہے ہیں جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے اور جس کی جس کی بھاری قیمت  ہم اپنی جانوں اور وطنوں سے ادا کررہے ہیں ، انہیں کوئی ایک بھی منطقی وجہ نہیں مل رہی جو ان حادثات کا جواز پیش کرے جنہوں نے غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں اور عمر رسیدہ لوگوں کے گھروں میں اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں ، البتہ ایک وجہ کسی حد تک معقول دکھائی دیتی ہے ، اور وہ  ہتھیاروں کی تجارت ، اس کی مارکیٹنگ کرنا ، ایک ہی وطن کے بیٹوں کے درمیان مذہبی اختلافات ، گروہی ، نسلی امتیازات کو ہوا دینا ، دینی فتنہ و فساد کو بھڑکانے اور کشیدگی پیدا کرنے کے لئے موچے بنانے ، عالمی جذباتی فیصلوں اور سودی کاروبار سے گراں  فائدہ حاصل کرنا ہے تاکہ  ایک پل ان کی زندگی ایک ناقابل برداشت جھنم میں تبدیل ہو جائے ۔

عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ سخت بحران اکیسویں صدی میں رونما ہو رہا ہے جو کہ تہذیب ، ترقی ، انسانی حقوق کی صدی ، بہت بڑے علمی و فنی عروج ، معرفت و شعور کی بلندی اور عالمی امن و سلامتی کی حفاظت کا اہتمام کرنے والی سلامتی کونسلوں کا زمانہ ہے ، جن کے چارٹرز عالمی تعلقات میں طاقت کو استعمال کرنے یا صرف اس کے ذریعے دھمکی دینے کو جرم قرار دیتے ہیں ، بلکہ یہ انسانی فلسفوں اور مذاہب ، مطلق مساوات کے لئے آواز اٹھانے ، جدید لا دینیت اور جدت کے علاوہ  ہمارے عصر حاضر کی امتیازی حیثیت دینے والی دوسری معاشرتی اور فلسفی کامیابیوں کا زمانہ ہے ۔

 

اس ستم ظریفی میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آج ان تمام کامیابیوں کے باوجود کس طرح عالمی سلامتی ایک گمشدہ باغیچہ بن گئی ہے ؟ کس طرح انسانی حقوق کے زمانے نے ان حملہ آور کاروائیوں کا مشاھدہ کیا جن کا زمانے نے اس سے پہلے مشاھدہ نہیں کیا ؟  میرا یقین ہے کہ آپ حضرات بھی اس بات میں  مجھ سے اتفاق کرو گے کہ اس کا جواب جدید تہذیبوں کا خدائی مذاہب  کو نظر انداز  کرنا ہے، کیونکہ یہی مذاہب ہی تو ہیں

جو  مقاصد اور مصلحتوں کے تبدیل ہونے کے ساتھ تبدیل نہ ہونے والی اور خواہشات اور شھوات کے پیچھے نہ چلنے والی اخلاقی اقدار کو استوار کرتے ہیں  ، ان اقدار میں سرفہرست لوگوں کے درمیان  بھائی چارے ، باہمی پہچان اور باہمی رحمدلی کی قدریں ہیں اور لوگوں کو اس بات کی یاد دہانی کروانی ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبہ کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے ، یہ اس لئے ہے تاکہ دنیا وحشی درندوں کے جنگل کی شکل اختیار نہ کر جائے جو ایک دوسرے کے گوشت پر پلتے ہیں ۔۔

مشرق و مغرب میں مفکر علماء اس امر کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ اس صورت حال  کا حل صرف اور صرف آسمانی پیغام سے آگاہی کو واپس لانے اور  جدید منحرف خطاب کو ایسے گہرے تنقیدی مطالعہ کے تابع کرنے میں ہے جو انسانی عقل کو اسے پہنچنے والے تجریبی فلسفہ کی کمی اور کھوکھلا پن ، مطلق العنان انفرادی عقل کی سرکشی اور اس کے لوگوں کی زندگی پر مسلط ہونے سے نجات دلائے ، اور یہ کہ جدت کے بعد کا مرحلہ خیالی و وجدانی فلسفوں کے ساتھ محض ان مذاہب کی تزیین و مرمت تک نہیں محصور نہ ہو ۔۔   فلاسفہ اور مومنین کے نزدیک اس ساری صورتحال کو بھائی چارے اور باہمی رحمدلی کے اسلوب  میں واپس لانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ([1])  یہ اسلوب  فلسفی مذاہب ، جامع علمی اورعملی ڈھانچھوں میں زندگی ڈال دینے والا تریاق ثابت ہو گا ، اور یہ تریاق صرف اور صرف دین کےدوا خانہ سے ہی دستیاب ہو گا ۔ 

میرا دعوی ہے کہ اس وقت زمین اس بات کے لے تیار ہے کہ تمام مذاہب سلامتی ، عدل و انصاف ، مساوات اور ہر انسان کے احترام کی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، خواہ اس انسان کا جو بھی مذہب ، رنگ ، نسل اور زبان ہو ، صبح و شام مسلمانوں کے تلاوت کئے جانے والے قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں کہ " یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی " [ سورت الاسراء : آیت نمبر 70 ]۔

لیکن اس سے قبل ہم پر لازم ہے کہ ہم ان مذاہب کے ساتھ مل جانے والے غلط مفاھیم ، نقلی تشکیلی شکل اور اس جھوٹی دینداری سے ان کو پاک و صاف کریں جو لڑائی کو ہوا دیتی ہے ، نفرت پیدا کرتی ہے اور انتہاء پسندی پر ابھارتی ہے ۔۔ اور یہ کہ ہم کسی بھی دین کے چند فضول پیروکاروں کے جرائم کی وجہ سے اس دین کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اسلام اس وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے کہ  اس کے پیروکاروں کے ایک گروہ نے اس کی بعض نصوص کو  غلط اور جاہلانہ تاویلیں کرکے ان کی بنا پر خون بہانے لگے ، جانیں قتل کرنے لگے ، زمین میں فساد برپا کرنے لگے اور انہیں ایسے ذرائع بھی مل گئے جو ان کی مال ، ہتھیار اور ٹرینگ سے پشت پنائی کرنے لگے ، عیسائیت اس وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے کہ اس پر ایمان رکھنے والے ایک گروہ نے صلیب کو اٹھایا اور مرد و عورت ، بچے ، جنگجو ، اور قیدی میں تمییز کئے بغیر لوگوں کو قتل کرنے لگے ، اور یہودیت  زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے موسی علیہ السلام – جبکہ وہ اس سے پاک ہے -  کی تعالیمات کو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے دہشت گردی کا دین نہیں ہے جس میں مغلوب فلسطین قوم کے کڑوڑوں حقدار لوگوں قربان ہو گئے ہیں ، بلکہ یورپی تہذیب ان  دو عالمی جنگوں کی وجہ سے دہشت گرد تہذیب نہیں ہے جو یورپ کے وسط میں بھڑکیں اور اس میں سات کڑوڑوں سے زیادہ لوگوں قربان ہوئے ، اور نہ ہی امریکی تہذیب دہشت گردی تہذیب ہے جب اس کے ایٹم بموں نے  ہیروشیما اور ناگا ساکی انسانوں و جمادات کو تباہ کر کے رکھا دیا تھا ، اگر اس دروازہ کو کھول دیا گیا جیساکہ آج اسلام کے خلاف کھول دیا گیا ہے تو  ہرگز  کوئی دین ، کوئی نظام ، کوئی تہذیب ،  بلکہ تاریخ  بھی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی تہمت سے محفوظ نہیں رہ سکے  گی ۔

جناب عالی محترم بطریق  ہم اسلام سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی تہمت  دور کرنے اور حق کو واضح کرنے والی آپ کے سرکاری بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، ہم آپ میں اور مشرق ومغرب کے گرجاگھروں کے ذمہ داران کے اس جھڑمت میں مختلف عقائد ،  مذاہب ، ان کے شعائر کا احترام کرنے ،  ان کو غلط استعمال کرنے اور مومنین کے درمیان لڑائی بھڑکانے میں ان غلط استعمال سے فائدہ اٹھانے والے کے سامنا کرنے پر حرص کو محسوس کر رہیں ہیں ۔ ۔

بیشک ازہر نے ہمارے درمیان مشترک شعبوں میں مل کر کام کرنے ، دوسروں کے عقائد کا احترام کرنے ، ان کو نہ چھونے ، مکالمہ کو زندہ اور بقائے باہمی کو پختہ کرنے کی دعوت دینے کے لئے باہمی تعاون کے لئے کوششیں کیں تھی  اور ابھی تک کر رہا ہے ، یہ شعبے بہت زیادہ  ہیں جیساکہ ہم مختلف مذاہب کے راہنماؤں کو پیش آنے والے مشترکہ چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں ۔

ہمیں بغیر کسی تقسیم ، تمییز اور فرق کے زمین میں مصیبتوں زدوں ، قیدیوں ، خوف زدوں ، بھوکوں اور کمزوروں کے لئے مل کر کوشش کرنی چاہیئے ۔

ہمیں خاندانی ادارہ کو اس کی گھات لگائے ہوئی  اخلاقی بے راہ روی ، علمی تحقیق کی سرکشی ، بعض سکالرز کے انحرافات اور کمی عقلی سے بچانے ، اور معاشر ے کو فتنہ و فساد اور فتنہ و فساد کرنے والوں سے بچانے کے لئے مل کر کام کرنا چاہیئے ۔

ہمیں دوسروں پر تسلط  قائم کرنے والی سیاستوں ، تاریخ کی انتہاء اور تہذیبوں کے ٹھکڑاؤ والے نظریات ، لادینیت کی دعوت ، دوہرے پن والی عقل ، جدید لادینیت ، اور ہر جگہ ان تمام سے جنم لینے والی مشکلات اور المیوں کے سامنے مل کر کھڑا ھونا چاہیئے ۔

اپنی گفتگو کے اختتام میں رحمان و رحیم اللہ سے دعا کرتا ہو کہ وہ ملاقات کو ایک حقیقی اقدام بنائے جس میں باہمی رہن سہن ، بھائی چارے ، اور سلامتی کے کلچر کو عام کرنے کے لئے ہم سب ایک دوسرے سے تعاون کریں

آپ سب کا شکریہ ۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !

تحریر کردہ در الازہر الشریف:

احمد الطیب

ازہر کے گرینڈ امام

2 شعبان 1438 ھجری

موافق: 28 اپریل 2017ء

 

 

[1]  -  طہ عبد الرحمان کی کتاب روح الحداثۃ کا صفحہ نمبر   214 دیکھئے ۔  المرکز الثقافتی العربی ۔  المغرب ۔ 2006 ۔

Print
5166 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.