اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

تجريبي
Anonym
/ Categories: Main_Category

تجريبي

بسم الله الرحمن الرحيم

ابو ظہبی میں مشرق ومغرب کے حکماء کے مابین ہونے والے چوتھے مذاکرہ کے افتتاحیہ میں امام اکبر کی ایک جھلک

امارات اپنی بہترین قیادت کی وجہ سے متوازن کشادگی اور مقبول ترقی میں ایک  بے مثال قابل قدر نمونہ ہے

لوگوں کی جنگی کشمکش، ڈر وخوف اور غریبی کو ختم  کرنے والی ایک متفقہ اور مکمل دنیا بنانے کیلئے اس اجلاس  کا ہمارا عزم وارادہ

انسانی المیہ ادیان سماویہ کے مخالف ظالمانہ سیاست، الحاد کے فلسفے اور مادی فکر کی وجہ سے ہے

بدقسمتی سے آج کی دنیا میں شاندار سائنسی ترقی اخلاقی اقدار کے مساوی نہیں ہے

اگر دینی علماء ایک مربوط دنیا میں امن وسلامتی کو قائم کرنا اور لوگوں کی امیدوں کو بر لانا چاہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے درمیان امن وآشتی اور افہام وتفہیم کو قائم کریں

مذہبی علماء کے درمیان امن قائم کرنے کے لئے ازہر کی طرف سے عملی اقدامات کا آغاز اور سنٹر بیری چرچ، پوپ فرانسس کی زیارت اور گرجا گھروں کی عالمی کونسل کا دورہ ان اقدامات کی حقیقی عکاسی ہے

ابو ظہبی میں اخوت وبھائی چارگی پر مبنی ہماری یہ ملاقات انسانی معاشرے کو گمراہی سے نکال کر دنیا وآخرت کی سعادت مندی کے راستہ پر ڈالنے کے لئے ہے

دین اسلام، انسان کے ساتھ نیک بختی، جانور کے ساتھ رحم وکرم اور نباتات وجمادات کی حفاظت کیلئے کی جانے والی ہر کوشش کا فراخدلی کے ساتھ استقبال کرتا ہے

 

بسم الله الرحمن الرحيم

محترم ومکرم بشپوں  کے سردار جناب جستون ویلی صاحب، اس محفل میں موجود مشرق ومغرب کے چیدہ وچنیدہ دانشمند افراد اور اس میں تشریف فرماں معزز حاضرین کرام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شاید مشرق عربی میں بلکہ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والا ہمارا یہ پروگرام اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام ہے، یہ ملک اپنی بہترین قیادت کے تحت اور اپنے عمدہ اور مخلص منتظم کاروں کے باعث مکمل ہم آہنگی کے ساتھ متوازن کشادگی اور ترقی، جدید وقدیم کے  مابین ہم آہنگی، روایت ومعاصرت اور ورثے وجدیدیت میں ایک  بے مثال نمونہ بن گیا ہے ۔

مجھے نہیں لگتا ہے کہ ہمارے دورے حاضر کی تاریخ میں ایسا ہوا ہو کہ مسلم اور ایوینجلیکل چرچ کے پیروکار عیسائی دانشمن افراد آج کی طرح متحد ہو کر ایک محفل میں ایک مقصد کے تئیں سرجوڑ کر عزم وارادہ سے بیٹھے ہوں کہ ہم ایک متفقہ اور مکمل دنیا بنانے  کے لئے ایک نیا قدم اٹھائیں  گے اور اس دنیا کے اندر لوگوں میں موجود جنگی کشمکش، ڈر وخوف اور حزن والم کو کم نہیں بلکہ ختم  کریں  گے۔

معزز سامعین حضرات!

میں سمجھتا ہون کہ آپ حضرات میری اس بات سے متفق ہی ہونگے کہ آج دنیا میں انسانیت جن پریشانیوں اور دشواریوں سے دوچار ہے اس کی وجہ صرف اور صرف مادی افکار، الحاد کے فلسفے اور ادیان سماویہ کی مخالفت اور ان کا مذاق اڑانے والی ظالمانہ اور جابرانہ سیاست ہے، اور یہ سیاست ان ادیان سماویہ کا متبادل پیش کرنے میں  بہت ہی ناکام ہے کیونکہ ان  کے پاس کوئی ایسا قانون یا ضابطہ نہیں ہے جو انسانیت کو سعادت بخش سکے، بامقصد زندگی کے اندر امید کی روح پھوک سکے یا ادیان سماویہ کی طرف سے عدل وانصاف، مساوات وبرابری، آزادی، اختلاف رائے جیسے عطا کردہ حقوق کی طرح حقوق  دے سکے ۔

بے شک وشبہہ آج انسانیت دینی جوہر اس کی انسانی اور اخلاقی تعلیمات کی تلاش میں سر گرداں ہے، جبکہ  اس نے اس سے قبل بہت سارے ایسے افکار ونظریوں کا تجربہ کیا جن سے اسے بڑے پیمانہ پر ہلاکت وبربادی اور تباہی کے علاوہ کچھ نہ ملا، ان تجربوں نے قوموں کے حقوق، ان کی صلاحیتوں کا استغلال کیا، اور تکبر واہنکار، طاقت وقوت، توسیع  کے فلسفہ، تسلط کی ہوس اور انانیت وانفرادیت جیسے ناموں کی سیاست پر ان کا استعمال کیا ۔

گزشتہ دو صدیوں میں ہوئے سائنسی ترقی، تکنیکی اور فلسفیانہ ارتقاء کی وجہ سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی میں ادیان سماویہ کا کردار ختم ہو چکا ہے، اب وہ میوزیم میں رکھنے کے قابل ہے، اور مذکورہ تمام میدانوں میں ترقی ہی انسانیت کی قیادت کا استحقاق رکھتی ہے، اور وہی انسان کو مہذب بنانے، ان کے شعور واحساس کو ترقی دینے اور ان کے مابین کے شر وفساد کو ختم کرنے کی ذمہ دار ہے، لیکن واقعیت اور حقیقت نے ان تمام خوابوں اور وہموں کو ایک ایک کر کے ختم کر دیا ہے، اور ان میں سے بہت سارے مصنفین کی کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ اگر انیسویں صدی سائنسی تحقیقات اور فلسفہ ارتقاء کا زمانہ ہے تو یہ سامراج میں توسع، نوآبادکاروں کے مفادات اور ان کی سیاسی خواہشوں کی تکمیل کے لئے سائنس کو استعمال کرنے کا زمانہ بھی ہے، حتی کہ اس صدی کے علماء ومفکرین نے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ انسانیت ادیان سماویہ کے مطابق ایک اصل کی طرف نہیں لوٹ سکتی ہے بلکہ مختلف اصول کی طرف لوٹے گی، پھر اس کی تلاش وجستجو بندر اور اس کے جیسے دوسرے جانوروں میں کرے گی، پھر اس کے بعد ان گمانوں کی بنیاد پر ایسے نظریے قائم کئے کہ جو لوگوں کے مابین تفریق پیدا کرتے ہیں، رنگ اور عنصر کی بنیاد پر ان میں تقسیم کرتے ہیں، اسی بنیاد پر آریہ نامی ایک نظریہ سامنے آیا جس کے افراد اپنے آپ کو دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں بہتر قرار دیتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ سائنسی، ثقافتی اور تہذیبی تمام فتوحات کا سہرا انہیں کے سر ہے، اور ان کے سلسلہ میں اس طرح کی بے شمار باتیں ہیں جو آپ جانتے ہی ہیں، یہ نظریے نوآبادکاری تسلط اور دوسروں پر دھوس جمانے کی سیاست کو جائز قرار دیتے ہیں، اور انسان کی تخلیق کے سلسلہ میں ادیان سماویہ اور نصوص الہیہ کے متفقہ فیصلے سے اعراض کرتے ہیں، یعنی سائنس خواہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر لے  تخلیق انسانی کے آغاز کا مسئلہ ما بعد الطبیعہ کا مسئلہ ہی رہے گا، اس کی حقیقت وماہیت کو نہ سائنس معلوم کر سکتی ہے اور نہ تجربہ گاہیں اور نہ اس کی تہ تک لیبرٹیاں پہونچ سکتی ہیں اور اللہ رب العزت نے سچ فرمایا ہے

{مَا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُدًا}(الكهف:51)

(ﻣﯿﮟ ﻧﮯ انہیں ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺯﻣﯿﻦ ﻛﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ نہیں رکھا تھا ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﻛﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻣﯿﮟ, ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﻤﺮﺍہ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ بھی نہیں)

اپنے ما قبل کے مقابلہ میں بیسویں صدی بھی کوئی اچھی حالت میں نہیں تھی کیونکہ اس میں دو عالمی جنگیں ہوئیں ہیں، جن میں ستر کروڑ سے زیادہ لوگ قربان ہوئے، لیکن ان دونوں جنگوں کا تعلق دین سے نہیں تھا اور نہ دین اس کا سبب تھا بلکہ یہ جنگیں یورپ میں نسل اور نسلی برتری کی بنیاد پر ہوئی تھیں،  پھر اس کے فورا بعد ہی پوری دنیاء انسانیت کو لرزا دینے والی ایٹمی دفاعی صلاحیت کا ظہور ہوا ۔

پھر اکیسویں صدی میں نوآبادکاری پر مبنی بہت ہی سخت سیاست کا آغاز ہوا، اور اہل مغرب کو اس سے جتنا دوچار ہونا تھا وہ دوچا ہو چکے، اب ہم عرب مسلمان اس سے دوچار ہیں، زندگی خون، مٹی، آنسو اور ہلاکت وبربادی کا مجموعہ بن چکی ہے، اور اس جدید استعمار کی سیاست کو جواز فراہم کرنے والے نظرئے کے افراد ملتے رہتے ہیں جیسے کہ تہذیبوں کے تصادم، تاریخ کا اختتام، تخلیقی افراتفری اور مرکز اور علاقے نامی نظرئے

طول اور اکتاہٹ کی ڈر کی وجہ میں اس بات کو اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ حیرت انگیز یہ سائنسی ترقی اخلاقی معیار کے بالکل مخالف ہے، اور تکنیکی ترقی خاص طور پر مہلک اسلحہ سازی کے میدان میں  انسانی قدروں سے بالکل بے نیاز ہے، اور یہ دیکھا گیا ہے کہ جنگیں ویسے ہی بھڑک رہی ہیں جیسے جیسے سائنس میں ترقی ہو رہی ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ سائنس اور جنگ دو باہم مربوط حلقے ہیں جو ایک دوسرےکو مضبوط اور طاقت وقوت فراہم کرتے ہیں، اور فلسفہ، ادب، سماج اور فنون سے متعلق میدانوں میں ہونے والے ترقی کا بھی یہی حال ہے، یہ سارے موضوعات تو ترقی کر چکے ہیں پر ان میں دین کی روح نہیں ہے، اخلاقی قدروں کی کمی ہے، ما بعد الطبیعہ اور عقلی نقطہ نظر سے  بےاعتنائی ہے،  انسانی تراث اور اس کے دینی ذخیروں کے ساتھ مکمل لا پرواہی ہے، پس ان نئے نظریات کے مفاسد منافع  کے مقابلہ میں زیادہ ہیں ۔

میرے پیارے عزیز بھائیوں!

آج کی رات گزشتہ رات سے کتنی مشابہ ہے، اور ہمارا آج کا یہ کانفرنس 1936ء میں ادیان سے متعلق لندن میں منعقد ہونے والے کانفرنس سے کتنا ہی مشابہ ہے جس میں اس وقت کے شیخ الازہر جناب محمد مصطفی المراغی صاحب کی شرکت ہوئی تھی، اور ان کو انسانی بھائی چارگی اور عالمی دوستی کے نام سے ایک پیغام دیکر بھیجا گیا تھا، دونوں پروگراموں  کے مابین پائے جانے والے مشابہت نے مجھے تشویش میں ڈال دیا ہے، ایک تو یہ ہے کہ اس وقت جس بے چینی وبےقراری کی حالت میں اہل یورپ زندگی گزار رہے تھے آج ہم اسی پریشانی اور اضطراب کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، دوسری مشابہت کل اور آج کے عنوان میں موجود ہے ، کل شیخ الازہر کا پیغام انسانی ہمدردی اور عالمی امن وآشتی کا پیغام تھا اور آج تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہمارا پیغام بھی وہی پیغام ہے یعنی ایک متفقہ کامل ومکمل دنیا کی طرف بازیافت، اور لندن کے کانفرنس میں پیش کردہ پیغام ہی کی طرح  ہمارے ابو ظہبی کے  اس کانفرس کے پیغام کے بھی نتائج ہونگے ۔

اس وقت مغرب میں لوگ نحوست کی زندگی گزار رہے تھے کہ یکا یک ایک ہمت وعزم کا پیکر دیندار عالم یورپ میں کھڑا ہوکر یہ اعلان کرتاہے کہ یہ دنیا موجودہ صورتحال سے دینداری اور دین کو مضبوطی سے پکڑنے  کے بعد ہی نکل سکتی ہے، اور سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور میں تہذیبی اور ثقافتی انحطاط کا ذمہ دار دین نہیں ہے بلکہ اس کا سبب الحاد اور مادی فلسفیانہ رجحانات ہیں، اور یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس وقت کے بہت سے علماء ودانشوران اس کی جرات نہیں کر سکے تھے، اور سائنسی ترقی  کے اس زمانہ میں اس  کے مبادیات پر اس طرح تنقید کرنا بہت آسان نہیں تھا، جیسے کہ اس وقت وضع کردہ ان فلسفوں پر تنقید کرنا آسان نہیں تھا جو دل ودماغ طاری ہوجاتی تھیں، معاشرتی اور سیاسی نظریات ہی نہیں بلکہ دینی فکر پر بھی بے حد اثر انداز ہوتی تھیں یہاں تک کہ بہت سارے عیسائی اور مسلمان علماء مقدس دینی نصوص اور ان نصوص  کے مخالف علماء اور فلاسفہ کے نظریوں کے مابین مناسبت اور قربت پیدا کرنے کی طرف مجبور ہوئے، خواہ  یہ نظرئے صرف احتمالات ہی کیوں نہ ہوں اور علمی قانون نہ بنے ہوں، اور بعد میں بہت سارے ایسے نظریے بھی سامنے آئے ہیں جو مقدس نصوص کے مطابق تھے، اور ان کے دلائل بھی واضح تھے، اور اس وقت بہت سارے لوگوں کو ایسا بھی لگا کہ دین اپنی آخری سانس لے رہا ہے ۔

شیخ صاحب کو اپنے پیغام کو پہونچانے میں ذرا برابر بھی تردد نہیں ہوا بلکہ یہ اعلان کیا کہ  اس انحطاط کا علاج صرف اور صرف دینداری اور دینی شعور میں ہے اور یہ صفت انسان کے اندرون میں جاں گزیں ہے، اور عدل وانصاف، امن وآشتی اور مساوات وبرابری کی طرف انسانی قیادت ورہنمائی میں انسانی معاشرہ کو برباد کرنے والے الحاد پر مبنی افکار کے مقابلہ میں اس صفت کا اثر زیادہ ہے، ملحدین اور ان جیسے دین کا مذاق اڑانے والے لوگوں کی طرف سے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی آفات اور المیوں سے بھری پڑی ہے "دینی شعور کی وجہ سے تشدد اور ہلاکت وبرباوی کے مظاہر سامنے آئے ہیں" اور شیخ  کے کلام کے مطابق یہ افسوسناک حقیقت پسندی صحیح ہے، لیکن وہ حقیقت یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعات دین  کے سبب سے نہیں ہوئے تھے اور نا ہی کسی دین وملت کی طبیعت میں یہ ہے کہ وہ کسی المیے کا سبب بنے بلکہ حقیقی سبب یہ ہے کہ لوگ دینی شعور کا استغلال کرتے ہیں، اور دین کے مخالف مقاصد کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں اور دین اس طرح کے معاملہ پر بہت سخت نکیر کرتا ہے ۔

میرے محترم دوستو

اب یہاں علماء ملت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آج امت جس مسئلہ سے دوچا ہے اسے حل کریں، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم بین الاقوامی اخوت قائم کریں، جس کا پچھلے تیس سالوں میں ازہر نے خواب دیکھا تھا اور ابھی تک دیکھ رہا  ہے، اور اس کے لئے ضروری ہے ہم سب سے پہلے یہ اخوت وہمدردی علماء دین کے مابین قائم کریں، جیسا کہ ایک عظیم مذہبی عالم کہتے ہیں کہ "دینی امن وآشتی کے بغیر  دنیاوی امن وشانتی ممکن ہی نہیں ہے"، اگر مختلف ادیان ومذاہب کے علماء کرام یہ چاہتے ہیں کہ وہ امن وسلامتی قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں، کشمکش کی جگہ افہام وتفہیم کو جگہ دیں، اور ایک متفقہ کامل ومکمل دنیا بنانے کے سلسلہ میں لوگوں کی امیدوں کو بر لائیں، تو ان پر ضروری ہےکہ وہ سب سے پہلے اپنے مابین امن وآشتی کے پیغام کو فروغ دیں تاکہ وہ لوگوں کو اس کی طرف دعوت دے سکیں، اور ازہر اسی کا حریص ہے، اور اسی کی بنیاد پر ہم لوگ آپ کے کنٹربری نامی اس مقدس چرچ میں حاضر ہوئے ہیں، اور 9 -12 جون سن 2015ء کو آپ لوگوں کی طرف سے ازہر کے وفد کی مہمان نوازی بھی ہمارے لئے سعادت مندی کی بات تھی، پھر 23 مئی 2016ء کو جناب فاتيكان اورفادر فرنسيس کی زيارت سے ازہری وفد مشرف ہوا، پھر تیسری مرتبہ 30 ستمبر سے 2 اکتوبر 2016ء تک مدت کے دوران جنیوا میں گرجا گھروں کی عالمی کونسل میں ازہری وفد کو حاضری کا موقع ملا ۔

اور آج ہم یہاں محبت واخوت اور بھائی چارگی بنیاد پر جمع ہوئے ہیں، اللہ رب العزت سے مدد کے طلبگار ہیں کہ ہمارا یہ اجتماع کامیاب ہو، اور ہم انبیاء اور رسولوں کو اسوہ بنائیں کیونکہ انہوں نے اللہ رب العزت پر مکمل بھروسہ کیا تھا اور انسانی معاشرہ کو گمراہی سے دنیا وآخرت کی سعادت مندی کی طرف نکالنے کے لئے بہت کچھ برداشت کیا ہے ۔

قابل قدر مہمانان

اگر اس محفل سے میری کوئی امید وابستہ ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم ماضی اور ماضی کی وجہ سے ہونے والی ناپسندیدگی اور حسد کو بھول جائیں، اور آگے کی طرف دیکھیں، اور ہمارا یقین ہے کہ ہم ماضی کے حادثات کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ وہ تو ہم سے اس زمانہ کے بارے میں سوال کرےگا جس میں زندگی گزار رہے ہیں، اور اس زندگی سے متعلق ہماری ذمہ داری اور اپنی مخلوق سے متعلق ہماری امانت داری سے متعلق سوال کرےگا، اور ہر شخص کے پاس پختہ عزائم اور مضبوط ارادے ہیں، اگر ہم مشترکہ طور پر کوشش کریں تو اس کے نتائج بھی مستقبل قریب میں بہت ہی اچھے ہونگے ان شاء اللہ ۔

میں اب اپنی بات اس پیغام کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ دین اسلامی جس کا میں پیروکار ہوں وہ دین ہر اس کوشش کو نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ استقبال کرتا ہے جس میں انسان کے ساتھ نیک بختی، جانور کے ساتھ رحم وکرم اور نباتات وجمادات کی حفاظت ہو ۔

آپ کی توجہ وعنایت کے لئے آپ کا شکریہ

والسَّلامُ عليكُم ورَحمـــة الله وبركاته

Print
5026 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.