اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

امام اکبربرمی یوتھ فورم برائے امن مذاکرات " کے پہلے دورکی سرگمیوں کے افتتاحی تقریب میں
Anonym
/ Categories: Main_Category

امام اکبربرمی یوتھ فورم برائے امن مذاکرات " کے پہلے دورکی سرگمیوں کے افتتاحی تقریب میں

" امام اکبربرمی یوتھ فورم برائے امن مذاکرات " کے پہلے دورکی سرگمیوں کے افتتاحی تقریب میں:

 

  • روہنگی بحران تباہ کن خطرہ جو برما کو دھمکا رہا ہے

 

  • دین اور نسل کے نام پر قتل و غارت گری سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہیں

 

  • اللہ عزوجل کی مشی‍ت  یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین و زبان کا اختلاف رہے

 

  • اقلیت کے کم ظرف مفہوم کی انتہا ہمیشہ خون بہانے اور بے قصوروں کو بے گھر کرنے پر ہوتی ہے

 

  • برمی شہریوں کے درمیان دہری پالیسی معاملات میں مزید پیچیدکی پیدا کریگی بلکہ تعمیر و ترقی میں رکاوٹ ہوگی

 

  • برما سے نفرتوں کو مٹانے کیلئے ضروری ہے کہ دین و نسل کی تمیز کے بغیر فرزندان وطن کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے

 

  • امید کرتے ہیں کہ برما کو مصر کے بيت العائلة  (فیلمی ہاؤس) کے تجربہ سے فائدہ ہوگا جس نے بہت کم مدت میں قومی یکجہتی اور مشترک زندگی کی جڑوں کو مضبوط بنایا

 

معزز حاضرین کرام !

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی بات کی ابتدا نئے سال کی مبارکباد سے شروع کرتا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس سال کو ساری دنیا کیلئے امن و سلامتی اور خوشیوں کا سال بنائے، اور ایسا سال بنائے جس میں خون کی حفاظت ہو اور جنگ کی آگ جو برادران وطن و ملت اور انسانی بھائی چارگی کے درمیان لگی ہوئی ہے وہ بجھ جائے۔

 برما کے دینی و نسلی اختلاف رکھنے وا لے چیدہ نوجوان لڑکےاور لڑکیوں کو دعوت پیش  کرنے کی سعادت حاصل کرنے والے مسلم حکما کونسل  کو  خوشی ہے کہ آپ لوگوں کا آپ کے اپنے دوسرے ملک مصر میں استقبال کرے ۔۔۔۔

یہ وہ سرزمین ہے  جس میں مذاہب باہم گلہ ملتے ہیں اور انکی جلوہ گری ایک ہی قومی دھارے میں بہتی ہے، گویا کہ ایک ایسا فولادی چٹان ہے جس پر ان مجرمین و مفسدین کی طالہ آزمائی بیکار ہوچکی ہے، جنہوں نے یہاں کے باشندوں کے تئیں اپنے دلوں میں شرو فساد اور  تباہی کو چھپا رکھا ہے۔

 

اے برما کے فرزندوں اور بھائیوں آپ کو  مزید ان  تباہ کن خطرات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو آپ کے ملک کو ریاست راخائن میں جاری بحران کے سبب دھمکا رہا ہے۔ ایسا بحران جو دینی ، انسانی اور تہذیبی اسباب سے عاری ہے، بیشک برما کی قوم پریہ واقعی عجیب بحران ہے، کیونکہ یہ ایسی قوم ہے جس کی جڑیں پرانے زمانے سے دین و حکمت اور سلامتی کی تاریخ میں مضبوط نظر آتی ہیں، اور جس نےانسانوں کو بہت کچھ سیکھایا ہے، اور جس کی تہذيب اور  دین تمام انسانیت کیلئے سلامتی کا مشعل تھا۔

میں کبھی دین اور کبھی نسل کے نام پر قتل و غارت گری اور خونریزی سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہیں جانتا ،  چنانچہ کوئی بھی نبی یا رسول قتل کی غرض سے نہیں بھیجے گئے اور نہ ظلم و زیادتی اور بے گھر کرنے کے لئے کوئی حکیم اور خدا پرست آئے۔

ایسا کیوں ہے ! جبکہ تمام الہی دین اور انکی کتاب مقدس نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اللہ عزوجل کی مشی‍ت  یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین و زبان کا اختلاف رہے، اگر وہ چاہتا تو ایک ہی رنگ و نسل اور زبان اور ایک ہی دین میں سب کو پیدا کر دیتا، اور وہ ایسا کرنے پر قادر بھی ہے، اور خلق و تکوین کے فلسفہ کی اس محوری حقیقت کی تاکید تمام مذاہب کرتے ہیں: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ﴾ {الروم: 22}

}ﺍﺱ (ﻛﯽ ﻗﺪﺭﺕ) ﻛﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻤﺎﻧﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻦ ﻛﯽ ﭘﯿﺪﺋﺶ اور تمہارى زبانوں اور  اور رنگتوں كا ا ﺧﺘﻼ (ﺑﮭﯽ) ﮨﮯ،  دانش مندوںﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﮍ ﻧﺸﺎﻧﯿﺎ ﮨﯿﮟ{  اور جیساکہ ہم نے دینی اخوت سیکھی ایسے ہی ہمنے انسانی اخوت بھی سیکھی ہے، تو مؤمن کے پیمانہ سے یا تو لوگ دینی بھائی ہونگے یا انسانی، چنانچہ مسلمانوں کے نبی صل اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد دھراتے اور اس بات کی گواہی دیتے آپ صل اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو مخاطب کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: "میں گواہ ہوں بیشک محمد تیرا بندہ اور رسول ہے، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب میں گواہ ہوں کہ تمام لوگ اپس میں بھائی ہیں"۔۔۔ تو اس گواہی سے بڑھکر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی جو انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین کی تمیز کے بغیر ہمیشہ کیلئے بھائي چارگی کا دروازہ کھولے، تو دین نے ہمیں سکھایا کہ جیسے اللہ تعالی نے مؤمن کو پیدا کیا ایسے ہی کافر کو بھی پیدا کیا ہے، ہم مسلمان قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان پڑھتے ہیں :   ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ {التغابن: 2} ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ ﺳﻮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌﻀﮯ ﺗﻮ کافر  ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺗﻢ ﻛﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ الله تعالى ﺧﻮﺏ ﺩﯾﻜﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ، 

علمائے قرآن کہتے ہیں کہ اس آیت میں کافر کو مؤمن پر مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں میں کفر غالب اور زیادہ ہے، اور ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اللہ کی  حکمت اس سے بالا ہے کہ کافروں کو پیدا کر کے مؤمنوں کو ان کے قتل اور نسل کشی کا حکم دے، یہ مخلوق کی حکمت کے مطابق بیکار سی بات ہے تو بھلا  خالق کی حکمت کا کیا کہنا، کیونکہ تمام اسی کی خلقت اور پیداوار ہے، حدیث شریف میں ہے : "تمام مخلوق اللہ تعالی کی عیال ہے، اور ان کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو عیال کیلئے زیادہ نفع بخش ہو" تو مؤمن اور کافر کے درمیان حکمت کے ساتھ دعوت اور اچھی بات اور نصیحت ہے، اس کے بعد ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔

اہل یمن کے نام  ایک خط میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو یھودی یا عیسائی اسلام کو ناپسند کرے اسے اپنے دین پر چھوڑ دیا جائے"،  جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :  " ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ﴾  {الكهف: 29} اور اعلان كردے  ﻛﮧ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺑﺮﺣﻖ قرآن ﺗﻤﮩﺎرے رب ﻛﯽ طرف ﺳﮯ ﮨﮯ۔ اب ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎن لائے اور جو چاہے كفر كرے.

جب تمام  مذاہب اپنی دعوت میں مؤمن اور غیر مؤمن کے درمیان تعلق میں اس بلند انسانی ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا یہ معقول ہے کہ  مذاہب کی تعلیم اور انسانی حقوق اور اخلاقی واجبات کو فراموش کردیا جائے!

 

بورما کے تمام رنگ ونسل اور دین ومذہب کے  نوجوانو!

آپ کی سرزمین بدھ مت،  ہندو مت،  مسیحیت  اور اسلام کی حکمت سے بھری پڑی ہے،  یہ حکمت صبح وشا م آپ کو پکار پکار کر یہ کہ رہی ہے کہ قتل مت کرو ، جھوٹ مت بولو،  عفت وپاکدامنی کاد امن پکڑے رہو،  شراب نوشی مت کرو ۔ ہم نے ازہر شریف میں اصولِ دین کے کالج میں مشرق کے حکماء  کا مطالعہ کرتے  ہوئے یہ سیکھا ہے کہ بدھ مت بنیادی طور پر  انسانی اور اخلاقی تعلیمات ہیں اور یہ خاموش حکیم  بدھ، انسانی تاریخ میں عظيم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کی نمایاں صفات متانت وسنجیدگی، عقلمندی،  تےبے تحاشہ محبت وشفقت  اور لطف وکرم ہیں۔  ادیان ومذاہب کے بڑے مورخین ان کی تعلیمات سے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی تعلیمات غیر معمولی رحمت وشفقت پر مبنی تھیں اور وہ خود  بردبار، صلح پسند،  ملنسار اور متواضع  تھے ، اسی طرح وہ بہت ہی سہولت پسند ، نرم مزاج اور لوگوں کے قریب تھے ۔ ان کی وصیت یہ ہے کہ لوگ آپس میں محبت کریں،  ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا ماملہ کریں۔

میں تو اس موقعہ سے اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مجلس حکماء مسلمین آپ نوجوان مرد وخواتین سے اس بات کی امید کرتی ہے کہ آپ لوگ یہاں امن وآشتی کا ماحول پیدا کریں جس کے سائے میں "ریاست راخائن" کی عوام بلکہ پورے بورما کی عوام زندگی گزار سکے اور قومیت وشہریت کی ایسی ثقافت کا آغاز کریں کہ اقلیت جیسے لفظ کا خاتمہ ہو جائے،  اسی طرح اقلیت کو کنارے اور حاشیہ پر رکھنے کے مفہوم کا بھی ہو جائے تاکہ قتل وغارت گری اور معصوموں کی جلا وطنی کا جرم ختم ہو اور ہم پر ضروری ہے کہ ہم میڈیا کے ذریعہ نقل کردہ قتل وغارت گری ،ظلم وزیادتی اور جلاوطنی کے تصویر کشی کو اپنی نگاہوں میں رکھیں اور یہ احساس کریں کہ یہ ساری حرکتیں ایک ایسی قوم کے لئے مناسب نہیں ہے جس کی ایک تہذیب وثقافت ہو یا قدیم تاریخ ہو جیسے کہ بورما کی قوم کی ہے اور ایک قوم کے درمیان تفریق سے صرف معاملہ سنگین ہی نہیں ہوگا بلکہ اس ملک کی تمام ترقی کی امیدوں اور آرزوؤں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

میں اور میرے ساتھ مجلس حکماء مسلمیں کے یہ علمائے کرام،  دانشوران قوم اور مصری میڈیا کے یہ اہلکار اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں انسانیت کو تکلیف پہنچانے والی یہ بد نما تصویر بند کر دی جائے اور ہم یہاں مجلس حکماء مسلمیں اور ازہر شریف کے پلیٹ فارم سے میانمار کی عوام کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ بغض وحسد اور ناپسندیدگی کو اپنے دلوں سے نکال پھیکیں اور ہم ایسا اس وقت تک نہیں کر سکتے ہیں جب تک کہ ہم دین ومذہب اور رنگ ونسل سے قطع نظر ایک قوم کے ما بین  مکمل قومیت اور مکمل مساوات کی بنیاد کو نافذ نہ کر دیں اور مجلس حکماء مسلمین اس سلسلہ میں ہر طرح کی امداد وتعاون کرنے کو تیار ہے۔ اسی طرح مصر کے بیت العائلہ (فیمی ہاؤس) نامی تنظیم کے تجربہ بھی پیش کرنے کو تیار ہے جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں شریک ہیں اور اسی تنظیم کی وجہ سے مختصر سے وقت میں مکمل قومیت اور باہمی مشترکہ زندگی کے مفہوم کو فروغ دیاجا سکا ہے۔

نوجوانو میں آپ سے یہ بات پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتا ہوں کہ ہم مجلس حکماء مسلمین کے نمائندہ کی حیثیت سے میانمار میں امن وآشتی سے متعلق بہت مشغول رہے ہیں اور بہت غور وخوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بورما کی عوام سے گفتگو کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ یہی عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہے، یہی اس بحران کو ختم کر سکتی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ایک نہ ایک دن سب اس کے شکار ہوں گے،  یہ عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ  ان کے افکار وسیع ہیں، ان کے اندرون صاف ہیں، ان کے ضمیر بے داغ ہیں اور وہ زیادہ امن وآشتی کے دلدادہ اور گرم جوش ہیں۔

اخیر میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات آئندہ ملاقاتوں کی تمہید ہو جس کے ذریعہ ہم میانمار میں امن وآشتی اور عدل وانصاف قائم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکیں گے۔اسی طرح میں خواہش مند ہوں کہ مجلس حکما آپ کی باتوں کو سنے ، آپ کی تکلیفوں اور آپ کی امیدوں سے باخبر ہو تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم   آپ لوگوں کی تکلیفوں کو کم اور آپ کی امیدوں کیسے پورا کر سکتے ہیں ۔

ہم آپ کا اور آپ کے قضیے کی حمایت کرنے والے  شریک حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہیں

 

Print
4567 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.