اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

تجريبي
Anonym
/ Categories: Main_Category

تجريبي

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ و الصلاۃ و السلام علی سیدنا رسول اللہ و علی آلہ و من اھتدی بھداہ۔

حاضرین محترم !

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

آپ حضرات کو ازہر شریف  میں ، مسلم حکماء کونسل کی دعوت پر خوش  آمدید ،

 اور گرجاگھروں کی بین الاقوامی کونسل کے عزیز مہمانان گرامی اور دنیا میں تمام عیسائی گروہوں کی نمائندگی کر نے والے محترم ڈیلیگشن کو خوش آمدید  جن میں سرفہرست گرجا گھروں کی عالمی کونسل کے جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر اولاف فیکس تافیت ہیں جب ہم نے جنیف میں ان سے پہلی ملاقات کی تو مسلم حکماء کونسل نے پہلے لمحہ ہی ان کے اندر ایسا  دل محسوس کیا جو تمام انسانیت کے لئے بھلائی سے بھرا ہوا  اور تمام لوگوں کو ضمیر کی راحت اور سکون نفس کی صورت میں عکاسی کرنے والی حقیقی  امن و سلامتی اور خوشی  سے بہرہ ور کرنے میں صداقت سے لبریز ہے ، یہی سارے آسمانی ادیان کا پیغام ہے ، ان کی جڑ مشترک ہے جس سے عقائد ، عبادات ، معاملات اور اخلاق پر مشتمل ان  ادیان کی شریعتیں نکلتیں ہیں

۔۔ میں آپ حضرات کی اجازت چاہوں  گا کہ میں پچھلے سال اکتوبر 2016 کو جنیف میں ہونے والی ہماری پہلی ملاقات میں اختتامی کلمات کی یاد دہانی سے  آپ کے سامنے اپنی گفتگو کا آغاز کروں، اور وہ اختتامی کلمات یہ ہیں کہ مشرق ومغرب میں لوگوں کے درمیان محبت ، عدل وانصاف اور امن و سلامتی کو عام کرنے کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے لئے کوششوں کو متحد کرنا ہے اور ہماری اگلی ملاقات یعنی آج کی ملاقات ازہر یونیورسٹی قاہرہ میں ہو گی اور پھر ہماری آخری باہمی خط وکتابت میں ہم نے طے کیا کہ آج کا موضوع بعنوان <<بقائے باہمی اور ہم وطنی کے اقدامات کو مؤثر بنانے میں دینی راہنماؤں کا کردار >> ہوگا۔

 

میں غلط بھی ہو سکتا ہو  لیکن میرے گمان کےمطابق یہ موضوع  اس لئے تجویز کیا گیا تاکہ یہ  ہماری عربی و اسلامی مشرقی دنیا میں دینی راہنماؤں کی توجہ کا مرکز ہو کیونکہ اس وقت دہشت گردی وغیرہ جیسی آوازوں کی گونج میں یہ ہی سب سے بڑا چیلج ہے جو مشرق و مغرب میں نوجوانوں کی عقل کو گمراہ کرنے ، ان کے ذہنوں میں اسلامی مملکت کے بارے میں غلط تصورات پختہ کرنے ، 1924 م میں خلافت عثمانیہ کے گرنے کے وقت سے فقہ اسلامی اور شریعت اسلامی کے نظر انداز کے ہوئے  مفاھیم و اصطلاحات کو واپس لانے کی کوشش کر رہیں ہیں جیساکہ ذمی ، جزیہ اور قیدی بنانے کی اصطلاحات وغیرہ ہیں ۔۔۔۔

 

جب ماضی میں خلافت اسلامیہ اپنی حدود میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق کے متعلق اس وقت کے تقاضوں کے مطابق متعین قانونی احکامات سے فیصلہ کرتی تھی تو منطقی سی بات ہے بلکہ بذات خود اسلامی فقہ کا تقاضا ہے کہ جب یہ سیاسی نظام تبدیل ہوتا ہے تو لازمی طور پر اس نظام سے مربوط تھوڑے یا زیادہ احکام بھی تبدیل ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا تعلق قائم ہوتا ہے ۔ ،

 

ان چیلنجوں کے بیچ جو اسلامی ممالک میں حکمرانی کے موجودہ نظاموں کو انکے ذہنوں میں موجود ایسے تخیلاتی نظاموں کی طرف واپس لوٹانے کی کوششیں کررہے ہیں جن کا شریعت اور فقہ کے ساتھ کوئی علاقہ اور تعلق ہی نہیں ہے بلکہ یہ شریعت اسلام اور اس کی ہمیشہ رہنے والی نصوص سے سب سے زیادہ  دور  ہے،  ہمیں ان خطرات کے حجم کا ادراک ہوا ، جو اس کمزور مفہوم اور نقلی دینداری پر مرتب ہوتا ہے جو پچھلے زمانوں کے حالات کے تقاضوں کے مطابق علماء کے اجتھادات اور صحیح سنت نبوی و قرآن کریم میں محفوظ  دینی اقدار کے درمیان ملاوٹ کرتی ہے ۔ ان اختلافات ، حالات ، واقعات کے تقاضوں کو مد رکھتے ہوئے ہم وطنی کا مسئلہ سرفہرست نظر آتا ہے جس کے بارے میں دینی راہنماؤں کا گفتگو کرنا واجب ہے کیونکہ یہ ان اوہام کا علمی رد ہے جو ایسا مالی اور ادبی تعاون جس کے بارے  میں  مذہبی رہنماؤوں کو بحث ومباحثہ کرنااور آگاہی پیھلانا  لازمی ہے   کیونکہ یہی ان اوہام کے شکار لوگوں کا عملی جواب ہے جو سمجھتے ہیں کہ  ان اوہام کو پورا کرنے کے لئے کام کرنا اللہ کے راستہ میں جھاد ، اور اسلام کو عزت و شرف کے زمانے کی طرف واپس لے کر جانا ہے ، مجھے اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ہم وطنی ہی غیر مسلموں کے لے اس فقہی قاعدہ کو لاگو کرنے کی سب سے بڑی ضامن ہے ، اور وہ فقہی قاعدہ یہ ہے کہ << ان کے لے بھی وہی حقوق ہیں جو ہمارے لے ہیں اور ان کے اوپر بھی وہی واجبات ہیں جو ہم پر ہیں >> اور موجود دور کی اصطلاح نے ان کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ : حقوق و واجبات میں مطلق مساوات ۔۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ : پچھے فروری میں ازہر شریف اور مسلم حکماء کونسل نے مل کر < آزادی ، ہم وطنی ۔۔ تنوع اور تکمیل > کے عنوان کے تحت اس موضوع کے متعلق ایک کانفرنس منعقد کی  ، اور ہماری موجودہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کے اندر یہ اعلان کیا کہ : ہم وطنی کا نظام ہی خالص اسلامی نظام ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں لاگو کیا ۔

 

میں امید کرتا ہو کہ میں اس بات میں غلط نہیں ہوں  گا کہ اس طرح کی دعوت غرب میں اپنی بہت سی اہمیت کھو بیٹھی ہے کیونکہ وہاں معاشروں میں ہم وطنی کوئی مشکل پیدا نہیں کرتی  ، یقینا وہ معاشرے ہم وطنی اور حقوق و واجبات کی برابری پر قائم ہیں ۔

 

لیکن وہاں اس سے بڑا کر چیلج اسلام فوبیا کا"سامنا" کرنا ہے ،  یہ ایک خطرنا ک صورتحال کی شکل اختیار کرسکتی ہے ہے اگر اس کو  برف کے گولے کی طرح لڑھکتا پھرنے چھوڑ دیا  جائے ۔ اس خطرناک صورتحال کا سامنا لوگوں کو ادیان کی حقیقت بتانے میں ہے کہ ادیان  انسان کو خوشی پہنچانے ،اس کو روحانی ، عقلی اور اخلاقی کمال کے درجوں میں بلندی پر لے جانے کیلئے ہے۔  جس بات کا مجھے سب سے زیادہ ڈر ہے کہ اسلام فوبیا کی آج کی صورت حال کہی مستقبل قریب میں ترقی کر کے دین فوبیا میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ آج کی  فضا تمام ادیان خصوصا  دو بڑے دین عیسائیت اور اسلام  کا انکار کرنے والے سیاہ بادلوں سے آلودہ ہے

ملحدین کے بقول عیسائیت نے ہی شرق میں صلیبی جنگیں اور غرب میں دینی جنگیں برپا کیں ہیں ، اسلام ہی دہشت گردی ، خون ریزی ، پرامن لوگوں میں دھماکہ خیزی کو  عام کرتا ہے اور لوگوں کی زندگی کو خوف ودبدبہ کے جھنم میں تبدیل کر دیتا ہے ، ملحدین  کے گمان کے مطابق اگر لوگ امن و سلامتی اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں تو ان دونوں دینوں کو لوگوں کی زندگی سے نکلنے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے یہ لوگ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ : ان جنگوں کا کیا نتیجہ ہے جن کے ساتھ  دین کا دور و نزدیک سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ؟ جن کو ملحدین اور ادیان کا انکار کرنے والوں نے بھڑکایا ، اور عربی کہاوت کی زبانی  ان میں دین کی کوئی اونٹ اور اونٹنی شامل نہیں تھی ۔ اگر کوئی ہمارے اس موجودہ زمانے میں نئے معاشرتی مذاہب کے مقتولوں کا جائزہ لے تو حساب و کتاب کی لیسٹ اس کے سامنے واضح ہو جائے گی کہ تاریخ نے ماضی سے لے کر عصر حاضر تک مختلف ادیان میں قتل ہونے والے کو جھوٹی پشینگویوں کے راستہ میں لاکھوں کی تعداد میں قتل و غارت ، جلاوطنی ، اور عذاب کی صورت میں ضا‏ئع ہونے والوں کے دسوے حصہ کے دس فیصد تک بھی شمار نہیں کیا ، ان جھوٹی پشینگویوں میں سے کوئی ایک بھی پشینگوئی ثابت نہیں ہوئی  ، اس گراہقدر قیمت کے بعد ثابت یہ ہوا کہ یہ پشینگویاں ابھی تک ورق پر سیاہی کی صورت میں باقی ہیں بلکہ ان کو عملی طور پر لاگو کرنا محال ہے (

 

دین کے مستقبل کے بارے میں  اور اسکے پیام کے  علمبردار علماء اور اہل دین کے متعلق  ،اپنی پریشانی کا اظہار ر کرنے میں گفتگو لمبی  ہوجانے پر معذرت خواہ ہوں۔

 

لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ بد اخلاقی  کا سیل رواں دین کو نیست و نابود کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے، انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کے اخلاق و کردار میں پیوست ہوتا جا رہا ہے، قانون اسکی حفاظت کرتا ہے اور معاشرہ اسکے جواز کی باتیں بناتا ہے اور گلوبلائزیشن  اسکی ترویج کر تا ہے، یہ سب کے سب تمہید ہے جو دیر سویر اہل ایمان اور ملحدوں کے درمیان ایک زبردست جنگ برپا کر دیگا

 

آسمانی مذاہب کے مسائل آج آپس میں  جھگڑوں میں پڑنے سے حل نہیں ہونگے بلکہ میرے نزدیک حل کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ تاریخی وراثت میں ملی ہوئی کشیدگیوں کو ختم کریں ہم اسکے منفی اثرات کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتے یا ایسے وقت میں اسکو نہیں چھیڑ سکتے جب کہ دین کے دشمنوں کے ساتھ معرکہ برپا ہے، اور ہم ایک ایسے خونخوار کے سامنے ہیں جو سب کو ہڑپنے کے لئے تیار بیٹھا ہے

 

انہی مقاصد کے پیش نظر  جو ہمارا نصب العین ہے یعنی کہ دینی اداروں کے درمیان تفاہم اور تعارف  پیدا کرناچنانچہ  ازہر نے خود ویٹیکن سٹی، لندن، جنیوا، پیرس اور برلن کے بڑے بڑے دینی اداروں کے قائدین کے ساتھ ملنے کی پہل کی، اور امن و آشتی کے قافلوں کو روانہ کیا، جس نے دنیا کے پائے تختوں  ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ کا  دورہ کیا۔

 

معزز حضرات ! ہم یہاں ازہر میں شب و روز اپنے بھائیوں اور عیسائی برادران وطن کے ساتھ مصر میں کوشاں ہیں، آپ بہتر طریقے سے غور کریں کہ) مصری  بیت العائلہ یعنی مصری خاندانی   گھر)  ازہر کے دل میں ہے، آپ  پر امن بقائے باہمی اور ہم وطنی سے متعلق سے ازھر سے جاری کردہ بیان پر بھی ایک نگاہ ڈالیں، جو  اقلیت اور اقلیتوں کے اصطلاح کا متبادل ہے، اقلیات کے اصطلاح کو  ازہر نے ترک کردیا دیا، اور میرا خیال ہے کہ یہ دونوں زمین پر  حقیقی اور عملی قدم ہیں جس کے بعد مزید اقدامات بھی لیے جائیں گے۔۔ ان شاء اللہ

 

معزز دوستو اور بھائیو! 

میں  آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میڈیا کی جانب سے پھیلائی جانے والے جھوٹے پروپیگنڈوں اور اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بات کرتی ہے اور یہ مسلمان اپنے عیسائی بھائی پر ظلم کرتے ہیں انکی تصدیق نہ کریں،  اور نہ ہی اس بات کو سچ  مانے کہ   اسلام یا  ازہر آخری دو بم دھماکوں کے پیچھے ہے اسطرح کہ جھوٹی باتیں کسی عقل و دانش مند شخص کو ہضم نہیں ہوتی جو واقعات اور حوادث کا صحیح تجزیہ کرتے ہیں، میں آپکا قیمتی وقت  اس جھوٹ پر جس نے سارے حدود پار کردئے دلیل دینے میں برباد نہیں کرونگا، لیکن  ایک ایسی حقیقت کی طرف آپکی توجہ دلاؤں گا جو واقعات اور  حوادث کی عکاسی کرتے ہیں ارقام کے اعتبار سے

میرا مطلب ہیکہ دہشت گردی عیسائی سے پہلے مسلمانوں کو قتل کرتی ہے، اگر آپ ایسی دلیل چاہتے ہیں جس میں کوئی بحث نہ ہو تو  سروے اور رصد کے سینٹرس پر چلے جائیں،  عراق و شام  اور بالخصوص مصر میں تحدید ا  دہشت گردی کی  بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد کا موازنہ کریں،  تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،  اور نہ کوئی ملک، اور خون کا رسیا اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ یہ خون  مسلم کا ہے یا مسیحی کا یا ملحد کا،  اسکا مقصد وطن کی سالمیت اور امن استحکام کو برباد کرنا ہے  ، چاہے اس کو پورا  کرنے کا  ذریعہ  مسجد ہو  گرجا گھر ہو  بازارہو یا پر امن سیدھے سادھےلوگوں کی بھیڑہو۔

 

لیکن ازہر یہ امید کرتا ہیکہ انٹرنیشنل گرجا گھر کونسل جنیوا  اسلاموفوبیا کے ظاہری منظر نامہ کا مقابلہ کرے، اس طرح  وہ قابل قدر اسلامی اور مسیحی طریقہ پر اقدامات کو جاری رکھے جسکو  اس کونسل نے سال 1982م گرجا کونسل اور اسلامی کانفرنس کے درمیان سریلنکا کی راجدھانی میں شروع کیا تھا.

 

ایک بار پھر میں  آپکا استقبال کرتا ہوں  اور امید کرتا ہوں کہ مصر میں آپکا قیام خوشگوار ہوگا،  اور مصر میں آپکی اس زیارت کے لئے شکریہ جو ہر مصری کے لئے عزیز ہے۔

 

 

آپکے حسن سماعت کا شکر گذار ہوں

السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ

 

 

تحریر کردہ در الازہر الشریف:

احمد الطیب

ازہر کے گرینڈ امام

رجب  1438 ھجری

موافق:  اپریل 2017ء

Print
5225 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.