اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

دارالافتار المصریہ کی  قاہرہ میں  " معاشروں کے استحکام میں فتوے کا کردار  " کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب حفظہ اللہ کا خطاب  ۔
Anonym
/ Categories: Main_Category

دارالافتار المصریہ کی  قاہرہ میں  " معاشروں کے استحکام میں فتوے کا کردار  " کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب حفظہ اللہ کا خطاب  ۔

دارالافتار المصریہ کی  قاہرہ میں  " معاشروں کے استحکام میں فتوے کا کردار  " کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب حفظہ اللہ کا خطاب  ۔

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدُ لله، وصلَّى الله وسَلَّم وبارك على سَيدِنا محمَّد وعلى آلِه، وصحبِه أجمَعين.

قابل احترام صاحبان علم ، مفتیان کرام اور حاضرین محترم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !

مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے بھائی پروفیسر ڈاکٹر شوقی علام مفتی جمہوریہ مصر کے ساتھ  آپ کو آپ کے ملک مصر میں خوش آمدید کہوں جوکہ تہذیبوں کا گہوارہ ، انبیاء کی سرزمین ، مختلف ادیان کا سنگم اور مشرق ومغرب میں مسلمانوں کے مرکز اور وسطیت کے قلعہ ازہر شریف کا ملک ہے ۔

آپ کو اپنے گھر میں ، اپنے بھائیوں اور اپنے دوستوں کے درمیان  خوش آمدید ۔

جناب عالی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے سامنے اپنی گفتگو میں فتوی کے مسائل کے متعلق تھوڑی سی جدید اکیڈمک بحث کروں، خواہ وہ شرعی فتووں کا معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے یا لوگوں کی زندگی ، ان کے رہن سہن اور حالات کو آسان بنانے سے متعلق ہوں یا فتاوی جات کی تشکیل سازی اور ان کو واقعات اور نئے رونما ہونے والے مسائل پر لاگو کرنے وغیرہ جیسے خالص فقہی نوعیت کے مسائل سے متعلق  ہوں جس کا کچھ حصہ میں نے پچھلے سال کی کانفرنس میں پیش کیا تھا جو کہ نکاح و طلاق کی افراتفری اور کمزوروں کی مدد ، مظلوموں کو انصاف دلانے ، عدل اور حق کی شریعت کے نام پر عورت پر ظلم ڈھانے سے تعلق رکھتا ہے۔

آج صدر مصر محترم المقام جناب عبد الفتاح السیسی کی زیرنگرانی منعقد ہونے والی اس اہم کانفرنس میں مجھے جو گفتگو کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے وہ کسی زخمی دل کی آواز یا کسی زخمی کی سانس کے مشابہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا شکوہ ہے جس کو میں اہل علم ، شریعت کے پاسداروں اور آسمانی اقدار کے محافظوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، آج فتوی کے میدان میں اصلی کا نہیں بلکہ نقلی  سکہ کا دور دورہ ہے، بعض مدعیان علم کا اسلام کی حقیقی صورت کو مسخ کرنے ، قرآن و سنت اور مسلمانوں کے ورثہ کے خلاف دلیری کرنے ، اور غیر مقبول جرات کے ساتھ علماء کی جگہوں پر براجمان ہونے والوں سے میدان بھرا ہوا ہے، یہ بات  سب کے سامنے صاف واضح ہے، اور امیر غریب سب کی پریشانی کا باعث ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ماضی سے لے کر اب تک ہماری عرب اور مسلم  دنیا میں فتوی،  مخلص اہل علم اور امانت دار علماء  کے سپرد ہی کیا جاتا آرہا ہے ، دار الافتاء ہی وہ واحد ادارے ہیں جن کو لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور جب بھی انہیں دین و دنیا کے معاملات کے متعلق اللہ کے حکم کو جاننے کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ بری الذمہ ہونے اور اللہ کے ہاں اجر کی امید رکھتے ہوئے  اس کی راہنمائی میں اپنی زندگیوں کو درست کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو وہ انہیں اداروں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں ۔

مفتی کا انتخاب اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانے والے کے انتخاب کے قائم مقام ہے، مجھے وہ دن یاد ہے جب آپ کے سامنے موجود بندہ فقیر کو فتوی کی ذمہ داری سونپی گئی تو یہ کافی عرصہ اس خوف سے تردد کا شکار رہا کہ کہیں یہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام قرار نہ دے دے ، میرا مسئلہ فقہی اہلیت نہیں تھا ، میرا تعلق اس نسل سے ہے جن کو اللہ تعالی نے ایسے علماء سے شرف تلمذ بخشا ہے جو ایک جیگتی جاگتی انسائیکلوپیڈیا تھے اور جنہوں نے اصول وفروع میں ان سے رہنمائی حاصل کی، خاص طور پر فقہ کے مضمون میں جس کو اسکول کے اسباق کی گھڑیوں میں سب سے بڑا حصہ  حاصل تھا کیونکہ یہ مضمون نو سال کی تعلیمی مدت میں ہر ہفتہ کے پانچوں دن صبح کی پہلی گھڑیوں میں پڑھایا جاتا تھا ، پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی کی ابتداء میں، جب ہم نے فیکلٹی اصول الدین میں داخلہ لیا تو ہم نے لگاتار دو سال کی تعلیمی مدت تک علامہ ابو زہرہ کے ہاتھوں اصول فقہ اور احوال شخصیہ کی پڑھائی کو جاری رکھا ، اس فقہی اور اصولی ذخیرے اور دوسرے علوم میں سے اس کے لوازمات جن کا ہم نے جوانی کی عمر میں سہارا لیا تھا انہوں نے ہی مجھے افتاء کی ذمہ داری قبول کرنے پر ابھارا ، میرے لئے یہ بات واضح ہوئی کہ فتوی لینے والوں کے اکثر سوالوں کا جواب دینا آسان ہے ان میں سے بعض سوال ایسے ہیں جس کا جواب صرف ایک مفتی نہیں دے سکتا، چاہے وہ جس قدربھی علم فقہ اور اصول فقہ کا احاطہ کرنے والا کیوں نہ ہو، جس طرح کہ بنکوں کے انٹرسٹ کا مسئلہ ،انسانی اعضاء کی نقل ، دودھ کے بنک ، مائکروسکوپک انجکشن ، ماں کے پیٹ میں بچہ کی جنس کو متعین کرنے وغیرہ کے مسائل ۔

برئ الذمہ ہونے کے لئے میں اس نوعیت کے مسائل پر اسلامک ریسرچ سنٹر کے اجلاسوں میں بحث کرتا تھا جس کے پاس وہ متخصصین موجود تھے جو کہ دار الافتاء کے پاس نہیں تھے جیساکہ ڈاکٹرز ،اکانمسٹ، بینکرز، جینیٹنگ انجینئرز اور قانون دان وغیرہ ، پھر ہم مجلس کی متفقہ رائے  پر اعتماد کرتے ۔

                اس تجربہ میں اس بات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں سابق شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر محمد سید طنطاوی مرحوم کی رفاقت میں مشیر فاروق سیف النصر مرحوم سے ملا جو اس وقت وزیرعدل تھے ،اس نئے عہدہ کے کاغذات سپرد کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ہر وہ بات کہیں جو آپ کے ضمیر کو راضی کرے اور اللہ تعالی کے سامنے آپ کو شرمندہ نہ کرے ہم نے یہ عہدہ آپ کے سپرد کر کے اپنے ذمہ کو بری کر دیا ہے۔

میں نے ڈیڑھ سال فتوی دینے کی ذمہ داری سنبھالی ، میں نے مکمل آزادی کے ساتھ کام کیا، ذمہ داران ، صحافت اور میڈیا اس مہم اور زمہ داری کا احترام کرتے لیکن آج کل کے اہل علم اور فتوی کئی قسم کی پریشانیوں اور دباو کا شکار ہیں اور انہوں نے پہلے اس قسم کے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا ، اس سے میری مراد ایسے لوگوں کا مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ پر حملہ کرنا اور اس کو مسخ کرنا ہے جو نہ تو اس کی معرفت و سمجھ کی اہلیت رکھتے ہیں ، نہ علم و ثقافت اور نہ ہی ڈیڑھ ارب لوگوں کا ادب و احترام کرتے ہیں جو اس ورثہ پر فخر، اور اس کی حقیقی قدردانی کرتے ہیں، نوجوانوں کو دھوکہ و فریب دینے کے لئے  روشن خیالی، آزادی اظہار اور حق اظہار بلکہ تبدیلی کے حق کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں، اگرچہ وہ تبدیلی دین اور شریعت ہی  میں کیوں نہ ہو ،اور یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے کہ  فقہائے کرام کی عبارات کی ان کے سیاق و سباق اور دلالت کی جگہوں سے کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے تاکہ یہ شاذ اور ناپسندیدہ نظر آئیں  جن سے سماعت اور ذوق  متنفر ہوجائے اور ان کو باحثہ و مباحثہ کی مجالس میں پیش کرنے سے پہلے ایسے ٹاک شو  کے ذریعے شریعت اسلام اور مسلمانوں کی فقہ کے احکام کے ساتھ چسپا کیا جاتا ہے جو بذات خود فعل کی خصوصیت اور اس پر مرتب ہونے والے شرعی اثرات کے درمیان فرق کے ادراک سے عاجز  ، علم کی کمی ، غلطیوں اور مغالطات سے بھرا ہوتا ہے ، بعض اوقات ان دونوں( فعل اور اس کےاثر)  کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری  ہوتی ہے ، بعض اوقات فعل اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات ایسے افتراضی مسائل  ہوتے ہیں جن کا عقلی احتمال ذہن میں تقاضا کرتا ہے نہ کہ خارج میں یا ایسے افتراضی مسائل  ہوتے ہیں جن کا صرف وہی ٹیڑھی فطرت والے ہی شکار ہوتے ہیں جنہیں  مغرب کی تہذیب کے بین الاقوامی معاہدے اور قوانین کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔

                افراتفری کی اس حالت کا جب ہمارے خطے میں اٹھنے والی ان تندوتیز اور تباہ کن آندھیوں کے دا‏ئرکار میں جائزہ لیا جائے تو کسی حد تک متوقع نظر آتی ہے، لیکن غیر متوقع بات یہ ہے کہ علم کا لبادہ اوڑھنے والے شہرت اور مال کے شکنجے میں پھنس کر اس قسم کے جھوٹ کی نشر واشاعت میں شریک ہوں ۔

خواتین وحضرات! ہم پر لازم ہے کہ ہم سارے ادیان میں سے صرف  اسلام پر ہی اس ناپسندیدہ حملہ کی صورت حال پر تھوڑا سا غور کریں اور پوچھیں : کیا ہم نے عبرانی یا کسی اور زبان میں نشر کئے جانے والے یہودی پروگرامز سنے یا دیکھے ہیں جوسرعام تورات اور تلمود سے تمسخر کرنے، ان کا مذاق اڑانے اور یہودی خاندانوں کو ان کے دین اور شریعت سے پھیرنے کے واضح مقصد میں مختلف کرداروں کا تبادلہ کرتے ہوں؟ کیا ہم نے اپنے اسلامی یا عربی خطے میں ایسے  پروگرامز دیکھے یا سنے ہیں جو انجیل سے تمسخر کرتے ہوں یا عیسائیوں کو اپنے دین کی تعلیمات کو ترک کرنے کی تلقین کرتے ہوں؟ اور اگر ہوا بھی تو کیا یہ اتنی آسانی سے گزر سکتا ہے جس طرح کہ علمائے اسلام کی نظروں اور سماعتوں کے سامنے اسلام کے ساتھ ایسے کھیل کھیلے جانے والوں کا گزر ہو جاتا ہے؟


قابل قدر علماء !

صرف چند سالوں میں تمام عربی اور اسلامی ممالک کی تباہی اور ان خطرناک دعوتوں کا ایک ساتھ رونما ہونا محض اتفاق نہیں ہے جو آغاز میں پس پردہ کام کرتیں ہیں، بڑوں کے ادب و احترام ختم کرنے کا نعرہ لگاتیں ہیں ، تقلید جس پر ہم اپنے اولاد کی تربیت کرنے پر فخر کرتے ہیں اس کو ایک ایسا طریقہ کار گمان کرتے ہوئے حقارت کی نگاہ سے دیکھتیں ہیں جس کی موجودہ افراتفری کی تہذیب میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ کو تباہ کرنے اور ان کے ائمہ اور عظیم شخصیات سے تمسخر اور مذاق کرنے کا ایسا خطرناک پلان تیار کرتیں ہیں جو اسلامی تہذیب کے خلاف سازش کے حجم کی عکاسی کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ازہر شریف کے خلاف سازش ہو رہی ہے،  یہاں تک کہ مسلمانوں کے دلوں سے ازہر شریف کے مقام و مرتبہ کو کم کرنے کی ناکام کوشش میں دہشت گردی کے رونما ہونے والے واقعات میں سے ہر واقعہ کے بعد ازہر اور اس کے نصاب کی مذمت کرنا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے  ، ہم نے اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہ حملہ دو صورتوں  میں ہوتا ہے پہلی صورت : دہشت گردی کے کسی واقعہ کےرونما ہونا اور دوسری صورت: جب بھی ازہر شریف نے اندرون یا بیرون ملک اپنے پیغام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہو تو اس کے خلاف حملہ کیا جاتا ہے  ، دوسری صورت میں پلان یہ ہوتا ہے کہ یا تو مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور اچھائیوں کو چھپا دیا جاتا ہے  یا کوئی نقص و خامی تلاش کی جاتی ہے، اور اس کو بڑھا چڑھا کر عام کیا جاتا ہے  ، اسلام اور دہشت گردی کے درمیان ربط قائم کرنے پر اس اصرار کا سبب میرے نزدیک  صرف اور صرف مسلمانوں کو گمراہ کرنا  اور اس حقیقی سبب سے ان کی نظروں کو پھیرنا ہے جس نے دہشت گردی کو جنم دیا ، اس کو بڑا کیا اور اس کو پروان چڑھایا  ، میری نظر میں یہ سبب  بین الاقوامی ظالمانہ سیاستیں ہیں جو نہ تو انسانی بھائی چارے کو جانتیں ہیں  اور نہ ہی عمومی اخلاق ، یہ وہ ممالک ہیں جن کی معیشت اسلحہ سازی اور اس کو برآمد کرنے پر قائم ہے اور اس اسلحہ سے صرف مسلم ممالک میں جنگیں بھڑکانا  اور فتنوں کو ہوا دینا ہے ۔

اس ساری صورتحال کے ساتھ ساتھ جنسی بے راہ روی کو انسانی حق سمجھتے ہوئے اس کے جواز کے اجتماعی مطالبے ایسی دلیری کے ساتھ  کئے جا رہے ہیں یہ چیز مشرقی نوجوان کے لئے انتہائی عجیب ہے، جو اپنی مردانگی کی وجہ اور ان تباہ کن اخلاقی بیماریوں اور انحرافات سے فطری نفرت کی وجہ سے معروف اور مشہور ہے   ۔

                اس کے ساتھ ساتھ  مغرب والوں کے چہرے سے نقاب ہٹانے ، میراث میں مرد و عورت کی مساوات کے واجب ہونے ، غیر مسلم کی مسلم عورت سے شادی جو کہ (( سیداو)) کے معاہدے کی فصلوں میں سے ایک نئی فصل ہے اور مرد و عورت کے درمیان ہر قسم کے امتیاز کو ختم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور اب عرب اور مسلمانوں سے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں اور اس پر اپنے تحفظات ختم کر دیں  ۔

ہماری تمنا تھی کہ دنیا میں افتاء کے اداروں کے جنرل سیکرٹریٹ قرآن و شریعت پر اس کھلی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائے یا ازہر شریف کی حمایت کریں جو کتاب اللہ کی حفاظت اور حمایت کے لئے مستعد ہے،  دار الافتاء المصریہ ازہر کے شانہ بشانہ کھڑا ہے  جو شکر کا مستحق ہے کہ اس نے اس دعوت کو رد کیا اور اس سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا  ، اسی طرح ہماری بڑے اسلامک فقہی سنٹرز اور اداروں سے بڑی  تمنا تھی کہ وہ اللہ کے دین کے خلاف اس جسارت کا رد کرنے میں جلدی کریں ، اللہ تعالی تونس کے سابق مفتی شیخ علامہ حمدۃ سعید اور زیتونہ کے علماء ومشائخ کو جزائے خیر عطا کرے جنہوں نے مسلمانوں کو مرد و عورت کے درمیان میراث میں برابری اور مسلم عورت کی غیر مسلم سے شادی کی دعوت کے پیچھے چلنے سے خبردار کیا ۔

محترم حاضرین !

عرب اور مسلم دنیا کے اہل فتوی کو اکٹھا کرنے والی اس کانفرنس میں میری یہ تجویز ہے کہ شریعت یا علوم اسلامیہ کی فکیلٹی میں  (( قسم الفتوی اور علومھا )) کے نام سے ایک خصوصی علمی برانچ کا افتتاح کیا جائے  جو سال اول سے شروع ہو اور اس کے لئے ایک جامع ترین  نصاب تیار کیا جائے جو صرف فقہ پر ہی منحصر نہ ہو بلکہ علوم آلہ اور علوم عقلیہ و نقلیہ کی دقیق علمی بنیادوں پر مشتمل ہو اس کے ساتھ ساتھ علم منطق اور علم فلسفہ کا اہتمام کیا جائے  ، مقاصد شریعت اور دور حاضر میں اس کی اہمیت پر خصوصی توجہ دی جائے

اس وقت ازہر شریف کے تمام ادارے اس کام کو انتہائی اہمیت دے رہی ہے اور اس موضوع میں آپ حضرات سے آپ کی تجویزات کا منتظر ہے۔

آپ حضرات کا شکریہ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

Print
5917 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.