اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

مشترکہ زندگی اور امن وسلامتی کے لئے انسانی اخوت وبھائی چارہ کا پیغام
Anonym
/ Categories: مقالات

مشترکہ زندگی اور امن وسلامتی کے لئے انسانی اخوت وبھائی چارہ کا پیغام

ازہر شریف                                                                      کیتھولک چرچ

مشترکہ زندگی اور امن وسلامتی کے لئے انسانی اخوت وبھائی چارہ کا پیغام

مقدمہ:

اسلام مسلمانوں کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ ہر دوسرے شخص کو اپنا بھائی تصور کریں، اور اسی بنیاد پر ان کی مدد کریں اور ان سے محبت بھی کریں۔ جس اللہ رب العزت نے تمام انسانوں، تمام مخلوقات اور اس کائنات کو پیدا فرما کر ان میں برابری قائم کی ہے، اس پر ایمان لانے کی بنیاد پر مسلمانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ تمام کائنات اور تمام مخلوقات کی اہمیت سمجھ کرے اور اس انسانی اخوت وبھائی چارہ کا اظہار کریں۔

اسی بنیاد پر ہم نے اخوت وبھائی چارہ سے معمور مختلف ملاقاتوں میں اس موجودہ دنیا کی خوشیوں، اس کے غم واندوہ اور اس کے بحرانات کے سلسلہ میں مختلف سطح پر ہونے والی گفتگو میں شرکت کی ہے، خواہ سائنسی وٹیکنالوجی، علاج ومعالجات کی کامیابیاں، اعداد وشمار کے زمانہ اور نئے ذرائع ابلاغ کی سطح پر ہو، یا فقر وفاقہ اور جنگوں کی سطح پر ہو، یا اسلحہ کے مقابلہ کرنے، سماجی ظلم وزیادتی، فساد وبدعنوانی، عدم مساوات، اخلاقی گراوٹ، دہشت گردی، نسل پرستی اور انتہاء پسندی جیسے دیگر اسباب کے نتیجہ میں رونما ہونے والی رنج والم کی ان كيفيات کی سطح پر ہو جن سے ہمارے بھائی اور بہنیں دنیا کے مختلف علاقوں میں دوچار ہیں۔

ہر بنی نوع انسان کے لئے روشن مستقبل کی امید میں ہمارے درمیان ہونے والی ملاقات اور سچائی پر مبنی بھائی چارہ کے مذاکرات کے ذریعہ انسانی اخوت وبھائی چارہ کا پیغام نامی ایک دستاویز کا ظہور ہوا، اور سنجیدگی واخلاص کے ساتھ اس پر عمل بھی کیا گیا، اور اس كا صرف اور صرف مقصد یہ تھا کہ جن کے دلوں میں اللہ رب العزت پر ایمان ہے، انسانی بھائی چارہ پر ایمان ہے، وہ نیک اور سچی نیت کے ساتھ آگے بڑھ کر مشترکہ طور پر اعلان کریں کہ وہ ایک ہو جائیں، اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اس دستاویز کو دلیل بنانے کے ارادہ سے مل جل کر کام کریں تاکہ ان کے اندر ایک دوسرے کا احترام کرنے کا جذبہ پیدا ہو، اور وہ اللہ رب العزت کی اس بڑی نعمت کا ادراک کر سکیں جس نے ساری مخلوق کو بھائی بنایا ہے۔

 

دستاویز:

اس اللہ رب العزت کے نام سے جس نے تمام انسانوں کو حقوق وواجبات اور عزت وشرافت میں برابر پیدا فرمایا ہے، اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ اس زمین کو آباد کر سکیں، خیر وبھلائی، پیار ومحبت اور امن وسلامتی کو فروغ دے سکیں۔

اس پاکیزہ انسانی جان کے نام جس کے خون بہانے کو اللہ رب العزت نے حرام قرار دیا ہے اور بتایا کہ جس نے ایک جان پر ظلم وزیادتی کی گویا کہ اس نے ساری انسانیت پر ظلم وزیادتی کی، اور جس نے ایک جان کو زندگی بخشی گویا کہ اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔

ان فقیر ومحتاج، بے بس ولاچار اور محروم افراد کے نام جن کے ساتھ اللہ رب العزت نے حسن سلوک کرنے اور ان كى مدد کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ تو ہر انسان پر فرض ہے خاص طور پر خوشحال اور صاحب استطاعت شخص پر، تو لازم ہے کہ وہ ان جیسے افراد کی مدد اور معاونت کرے۔

ان یتیموں، بیواؤں، اپنے ملک ووطن اور گھر بار سے دور بے گھر پناہ گزینوں، جنگ وجدال اور ظلم وزیادتی کے شکار کمزور وناتواں، ڈرے سہمے قیدی اور مصائب زمانہ کے مارے افراد کے نام۔

اس قوم کے نام جو قتل وقتال، ہلاکت وبربادی کے شکار اور امن وسلامتی اور باہمی زندگی کے خواہاں ہیں۔

اس انسانی اخوت وبھائی چارہ کے نام جو تمام انسانوں کے لئے ہے، اور جو ان کو ایک جان دو قالب کا مصداق بنا سکتی ہے۔

اس اخوت وبھائی چارہ کے نام جس کا گلا تعصب اور امتیازی سلوک پالیسیوں نے دبا دیا ہے، اور انہیں پالیسیوں، فائدہ کی اندھی تنظیموں اور نفرت انگیز نظریات وافکار نے قوم وملت کے انجام ان کی صلاحیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے۔

اس آزادی کے نام جو اللہ رب العزت نے ہر فرد بشر کو عطا کیا ہے، اور اسی آزادی کی فطرت پر پیدا فرما کر اسے دوسروں سے ممتاز فرمایا ہے۔

اس عدل وانصاف اور رحم وکرم کے نام جو ملک وملت اور اصلاح وصلاح کی اصل ہے۔

ان افراد واشخاص کے نام جو اس کائنات کے ہر علاقہ میں صحیح عزم وارادہ کے حامل ہیں۔

اللہ رب العزت اور اوپر بیان کردہ باتوں کے نام ازہر شریف مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اور کیتھولک چرچ مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام  کیتھولک چرچ کی نمائندگی کرتے ہوئے گفت وشنید، مشترکہ تعاون اور دو طرفہ تعارف کے طریقہ کو اختیار کرنے کا اعلان کرتا ہے۔

ہم اللہ رب العزت پر، اس سے ملاقات ہونے پر اور حساب وکتاب پر ایمان رکھتے ہیں، اور ہمارے اوپر دینی اور ادبی ذمہ داریاں ہیں- اس ناحیہ سے ہم اس دستاویز کے ذریعہ اپنے آپ، دنیا کے رہنماؤں، عالمی اقتصاد اور بین الاقوامی پالیسیاں بنانے والوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عفو ودرگذر، مشترکہ زندگی گذارنے اور امن وسلامتی کی نشر واشاعت میں سنجیدگی کے ساتھ کام کریں، معصوم لوگوں کی خونریزی بند کرنے کے لئے فوری طور پر مداخلت کریں اور آج دنیا کے اندر موجود جنگ اور کشمکش کی صورتحال، اخلاقی وثقافتی گراوٹ اور ماحول کے اندر ہونے والی تبدیلیوں پر روک لگائیں۔

اب ہم ہر جگہ کے مفکرین، فلاسفہ، علمائے دین، فنکار، میڈیا کے افراد اور نئی چیز پیش کرنے والے افراد کی طرف متوجہ ہو کر ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن وسلامتی، عدل وانصاف، خیر وبھلائی، جمال وخوبصورتی، انسانی اخوت وبھائی چارہ اور مشترکہ زندگی کے اقدار کو دوبارہ قائم کریں، تمام لوگوں کی نجات کے لئے ان اقدار کی اہمیت کو اجاگر کریں، اور ہر جگہ لوگوں کے درمیان ان اقدار کی نشر واشاعت کی کوشش کریں۔

اس موجودہ دنیا کی حقیقت وماہیت، اس کی کامیابیوں، اس کے رنج وغم اور تکلیف وپریشانی کے سلسلہ میں مکمل طور پر غور وخوض کرنے کے بعد یہ اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جائے کہ آج دنیا کے بحران کا سب سے اہم سبب انسانی ضمیر کا فقدان اور دینی اخلاق سے دوری ہے۔ اسی طرح انسان کو معبود بنانے اور دنیوی مادی اقدار کو بلند پایہ اعلی اخلاق ومبادی کی جگہ رکھنے والے مادی فلسفوں اور انفرادی رجحانات کا بول بالا ہے۔

ہم اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر سائنس وٹیکنالوجی، طب وصناعت اور آرام وراحت کے میدانوں میں موجودہ تہذیب کے ذریعہ ہونے والے مثبت پہلؤوں کو سراہتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ قابل تعریف اس عظیم تاریخی ترقی کے باوجود بین الاقوامی تصرفات کو کنٹرول کرنے والے اخلاق گر چکے ہیں، ذمہ داری کا احساس اور روحانی قدریں ختم ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے آج ناکامی، دوری اور ناامیدی کا شعور واحساس عام ہے اور اسی وجہ سے بہت سارے لوگ یاتو لادینی اور الحادی دہشت پسندی کے کٹھ پتلی بن گئے ہیں یا اندھے تعصب، شدت پسندی اور دینی دہشت پسندی کے شکار ہو گئے ہیں، اور بعض لوگوں نے تو ذات اور جماعت کو تباہ وبرباد کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دینی وقومی دہشت پسندی اور تعصب نے پوری دنیا کے اندر خواہ مغرب ہو یا مشرق ہو ہر جگہ تیسری عالمی جنگ کے اشاروں اور اسباب کو جنم دے دیا ہے، اور بہت ساری جگہوں میں تو اس کے آثار کھل کر سامنے آنے لگے ہیں، اور ایسی صورتحال دیکھنے کو ملنے لگے ہیں کہ نہیں معلوم کہ اس صورتحال کی وجہ سے کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں! کتنی خواتین بیوائيں ہوئی ہیں! کتنی خواتین آہ وگریہ کر رہی ہیں! اور کتنے بچے یتیم ہوئے ہیں، اور ان کے علاوہ مزید دوسرے علاقے بھی ہیں جہاں مزید دھماکے ہو رہے ہیں! ہر سمت ہتھیاروں کی آوازیں گونج رہی ہیں! گولہ بارود کا ذخیرہ کیا جا رہا ہے! اور اس عالمی صورتحال میں ہر جگہ دھواں ہی دھواں ہے! ناامیدی ہی ناامیدی ہے! مستقبل سے خوف لگا ہوا ہے، اور ہر جگہ تنگ مادی مفادات کا غلبہ اور بول بالا ہے۔

ہم پرزور انداز میں یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ یہ غیر معمولی سیاسی بحران، ظلم وزیادتی اور اس طبیعی مال ودولت کو انصاف کے ساتھ تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے جسے چند مالدار لوگوں نے اپنے لئے خاص کر لیا ہے اور دیگر تمام عوام اس سے محروم ہیں، ان کی وجہ سے بیماروں، تنگ دستوں اور مرنے والے افراد کی غیر معمولی تعداد سامنے آئی ہے، اور انہى کی وجہ سے ممالک میں قتل کرنے والے بحران کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے جبکہ ان ممالک میں مال ودولت کے خزانے ہیں، ان ممالک کی بنیادیں قوی ہیں، وہاں کے نوجوان بھی باہمت اور کچھ کردکھانے والے ہیں۔ ان تمام بحرانات کی وجہ سے بچے بھوک سے اپنی جان دے رہے ہیں، بھوک اور فقر وفاقہ کی وجہ سے ان کے جسم بوسیدہ ہڈی کے مانند ہو گئے ہیں، لیکن پھر بھی پوری دنیا اس صورتحال کا نظارہ کر رہی ہے اور خاموش تماشائی بنی ہے۔

اس مناسبت سے ایک بیج کی طرح فیملی کی ضرورت واہمیت کا احساس ہوتا ہے جس سے کسی سماج ومعاشرہ اور انسانیت کو کوئی چارہ کار نہیں ہے، کیونکہ اس کے بغیر اولاد پیدا کرنا، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا، اور ان کو اچھے اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنا ناممکن ہے، لہذا فیملی سے متعلق ادارہ پر حملہ کرنا، اس کی اہمیت کو کم کرنا اور اس کے کردار کی قیمت واہمیت میں شک کرنا ہمارے زمانہ کی سب سے خطرناک بیماری ہے۔

ہم پرزور انداز میں یہ بھی کہتے ہیں کہ آج صحیح تعلیم وتربیت کے ذریعہ نئی نسلوں کے دلوں میں دینی احساس وشعور بیدار کرنے، ہر قسم کی اندھی عصبیت، دہشت پسندی، انانیت اور انفرادی رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لئے صحیح دینی تعلیم سے وابستہ ہونے اور اخلاق عالیہ سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے۔

ادیان ومذاہب کا سب سے پہلا اور اہم مقصد اللہ رب العزت پر ایمان لانا اور اس کی عبادت کرنا ہے، اور تمام لوگوں کو اس بات پر ایمان لانے کے لئے امادہ کرنا ہے کہ اس کائنات کا ایک معبود ہے جس کی حکومت یہاں چلتی ہے، اور وہی خالق ہے جس نے ہمیں اپنی حکمت الہیہ سے پیدا فرمایا ہے، اس نے زندگی کا ایک تحفہ عطا کیا ہے تاکہ ہم اس کی حفاظت کریں، اور یہ تحفہ ایسا ہے کہ کسی کو کسی سے اسے چھیننے یا اس کے ساتھ ناروا سلوک کرنے یا اس کے ساتھ جیسا چاہے تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ شروع سے آخر تک تمام لوگوں پر اس کی حفاظت ضروری ہے، اسی وجہ سے ہم انسانی اعضاء کی تجارت، جبرا نقل مکانی، دہشت گردی پر مبنی کاروائی اور اجتماعی قتل عام جیسے تمام افعال اور کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

اسی طرح ہم پورے عزم وارادہ کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ادیان ومذاہب کبھی بھی جنگ وجدال کے سبب نہیں رہے ہیں۔ عصبیت، نفرت وعداوت کے جذبات واحساسات کے سبب نہیں رہے ہیں اور نہ ہی تشدد اور خون بہانے کو جائز قرار دیا ہے- یہ سارے واقعات دینی تعلیم سے دوری کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں- سیاست میں دین کو استعمال کرنے کے وجہ سے رونما ہوئے ہیں، اور اسی طرح چند دینی رہنماؤں کی تاویلوں کی وجہ سے اس طرح کے مسائل رونما ہوئے ہیں، کیونکہ بعض علماء نے سیاسی اور تنگ دنیاوی معاشی مقاصد کو پورا کرنے کے مقصد سے ایسی چیزیں کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کو امادہ کرنے کے لئے دینی شعور واحساس کا استعمال کیا ہے جن کا دین  سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی لئے ہم تمام لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اندھی عصبیت، انتہاء پسندی، نفرت وعداوت کی فضاء عام کرنے میں ادیان ومذاہب کو استعمال کرنا بند کریں۔ قتل وقتال، دہشت گردی اور پکڑ دھکڑ کے کاموں کو جائز قرار دینے کے لئے اللہ رب العزت کا نام استعمال نہ کریں، کیونکہ ہمارا مشترکہ ایمان ہے کہ اللہ رب العزت نے لوگوں کو اس لئے پیدا نہیں فرمایا ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، یا وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں، یا انہیں عذاب دیا جائے، یا ان کی زندگی اور ان کی روزی کو تنگ کر دیا جائے - اور اللہ رب العزت کو ضرورت نہیں کہ کوئی اس کا دفاع کرے، یا اس کے نام سے دوسروں کو دہشت میں ڈالیں۔

اس دستاویز میں سابقہ وہ تمام عالمی دستاویزات موجود ہیں جن میں عالمی امن وسلامتی کے قیام کے سلسلہ میں ادیان ومذاہب کے کردار کی اہمیت کی طرف توجہ دی گئی ہے - لہذا یہ دستاویز مندرجہ ذیل باتوں کی تاکید کرتا ہے۔

  • دل کے اندر راسخ یقین ہو کہ ادیان ومذاہب کی صحیح تعلیمات امن وسلامتی کے اقدار کو مضبوطی سے تھامنے، مشترکہ زندگی، انسانی اخوت وہمدردی، باہمی تعارف کے قدروں کو بلند کرنے، حکمت، عدل وانصاف اور حسن سلوک کو فروغ دینے کی دعوت ديتے ہیں، اور اسی طرح قانون کی طاقت کے بجائے طاقت وقوت کے قانون پر قائم لامبالاة، اندھے نفع کی پالیسیوں کی خطرناکی اور مادی فکر کے دسترس سے نئی نسلوں کی حمایت کرنے کے لئے نوجوانوں اور بچوں کے اندر دینداری کے رجحان کو پیدا کرنے کی دعوت ديتے ہیں۔
  • عقیدہ، سوچنے سمجھنے، اپنی بات رکھنے اور مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہر شخص کا حق ہے۔ دین، رنگ، نسل، جنس اور زبان میں اختلاف مشيئت الہی کی ایسی حکمت ہے جس پر اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اسے ایک اصل قرار دیا ہے جس سے عقیدہ کی آزادی کے حقوق اور اختلاف کی آزادی متفرع ہوتی ہے، اور اسی بنیاد پر لوگوں کو کسی خاص مذہب اور دین، کسی خاص تہذیب وثقافت کے لئے مجبور کرنا، یا کسی شخص پر کوئی طریقہ تھوپنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے جرم قرار دیا گیا ہے۔
  • اچھی زندگی تک پہنچنے کے لئے رحم وکرم پر قائم عدل وانصاف ہی ایک واحد راستہ ہے جس کے سایہ میں ہر انسان زندگی گذار سکتا ہے۔
  • گفت وشنید، افہام وتفہیم، عفو ودرگذر، ایک دوسرے کو قبول کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارنا ہی وہ طریقہ ہے جس کی بنیاد پر تمام سماجی، سیاسی، اقتصادی اور ماحول کی وہ ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی جن سے آج کا انسان دوچار ہے۔
  • مسلمانوں کے درمیان گفت وشنید کے طریقہ کا مطلب مشترکہ سماجی انسانی اور روحانی اقدار میں یکسانیت پیدا کرنا ہے، اور انہیں کی بنیاد پر وہ اخلاق کریمانہ کو فروغ حاصل ہوگا جس کی دعوت تمام ادیان ومذاہب نے دی ہے اور ہر قسم کے جنگ جدال ختم ہو جائیں گے۔
  • مسجد، مندر اور گرجا گھر جیسے تمام عبادت گاہوں کی حمایت اور حفاظت کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے تمام ادیان ومذاہب، انسانی اقدار اور بین الاقوامی عرف اور دستاویزات نے قبول کیا ہے، اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا، یا انہیں ڈھا دینا، یا انہیں بم سے اڑا دینا ان کا ادیان ومذاہب کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ تو بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
  • مشرق ومغرب اور شمال وجنوب ہر جگہ لوگوں کے امن وامان کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی اور ڈر وخوف کا ماحول کسی دین کے نتیجہ میں نہیں رونما ہوا ہے اگر چہ دہشت گردوں نے دین کے پرچم کو استعمال کیا ہے، دین کے لبادہ کو اپنے اوپر ڈال لیا ہے، بلکہ یہ تو فقر وفاقہ، ظلم وزيادتى کی پالیسیوں اور ادیان ومذاہب کے نصوص کی غلط فہم وفراست کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ اسی لئے مال یا ہتھیار یا منصوبہ بندی یا جواز یا میڈیا کے سایہ کی فراہمی کے ذریعہ دہشت گرد تحریکوں کی امداد بند کرنا لازم ہے، کیونکہ اس کا شمار عالمی امن وامان اور سلامتی کو نشانہ بنانے والے بین الاقوامی جرم میں ہے، اور اس طرح کی ہر دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی شکل وصورت کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔
  • شہریت کا مفہوم ان حقوق اور ذمہ داریوں کی برابری پر قائم ہے جن کے سایہ میں تمام لوگ عدل وانصاف کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں، اسی لئے ہمارے سماج میں شہریت کے مکمل مفہوم کو راسخ کرنے کے سلسلہ میں کام کرنا اور اقلیات جیسے اس اصطلاح کے استعمال سے پرہیز کرنا ضروری ہے جس کے اندر دوری اور کمتری کا احساس ہے، اور اس سے فتنے اور آپس میں علیحدگی ہونے کے اندیشے ہیں۔ اسی کی وجہ سے بعض شہریوں کے حقوق کے پامال ہونے کے خطرات رونما ہوتے ہیں، پھر آپس میں ایک دوسرے کے درمیان امتیازی شان برتنے کی کیفیت پیدا ہوگی۔
  • مشرق ومغرب کے درمیان کا تعلق دونوں کے لئے بہت ضروری ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے غفلت برتی جا سکتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں تہذیب وثقافت کی گفت وشنید اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کی تہذیب وثقافت سے مستفید ہو سکیں۔ ایسا ممکن ہے کہ مغرب کو مشرق کی تہذیب وثقافت میں کوئی ایسی چیز مل جائے جس سے وہ مادی پہلو کے غلبہ کے نتیجہ میں رونما ہونے والی کسی دینی اور روحانی بیماری کا علاج کر سکے، اور ایسا بھی ہو سکتا ہے مشرق کو مغربی تمدن میں بہت ساری ایسی چیزیں مل جائیں جن کی بنیاد پر وہ اپنی ثقافتی، تکنیکی، سائنسی گراوٹ، کشمکش، انتشار اور کمزوری کی صورت حال کی اصلاح کر سکے، اور سب سے اہم بات اس تاریخی، ثقافتی اور دینی فرق کی طرف متوجہ کرانا ضروری ہے جو مشرقی انسان کی شخصیت، اس کی تہذیب وثقافت میں ایک بنیادی عنصر کے مانند ہے، اور اسی طرح مشترکہ عام انسانی حقوق کو دلوں کے اندر راسخ کرنے کے سلسلہ میں کام کرنے کے اہمیت پر تاکید کرنا ضروری ہے، کیونکہ اسی کے ذریعہ دو ترازو سے وزن کرنے کی پالیسی سے دور ہو کر مشرق ومغرب کے تمام انسانوں کے لئے اچھی زندگی کی حفاظت ممکن ہے۔
  • کام اور تعلیم وتربیت کے میدان میں خواتین کے حق کا اعتراف کرنا اور ان کو سیاسی حقوق حاصل کرنے کا موقع دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اسی طرح اپنے عقیدہ اور عزت وشرافت کے منافی سماجی اور تاریخی دباؤ سے آزاد ہونے کے سلسلہ میں کام کرنا بھی ضروری ہے، فائدہ اور لطف اندوزی کے سامان یا سامان تجارت کی طرح ان کے ساتھ معاملہ کرنے اور جنسی استغلال سے بھی ان کی حفاظت کرنا ضروری ہے، اسی لئے خواتین کی عزت وآبرو کے منافی ہر طرح کے عادات وتقالید اور غیر انسانی کاموں کو بند کرنا ضروری ہے، اور ان قوانین کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو خواتین کو اپنا مکمل حق حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔
  • فیملی کے اندر تعلیم وتربیت، کھانے پینے اور نگرانی جیسے بچوں کے بنیادی حقوق سماج ومعاشرہ اور فیملی پر واجب ہیں، اور ان حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت بھی ضروری ہے، اور یہ بھی کوشش کرنی ہوگی کہ کوئی بچہ کسی بھی جگہ اپنے ان حقوق سے محروم نہ ہو سکے، اور ان کے حقوق یا ان کی عزت کو پامال کرنے والی ہر کوشش کی مذمت کی جائے گی، اور اسی طرح اس بات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ بچے معصوم بچوں کی تجارت اور حقوق کی پامالی جیسے خطرناک امور میں نہ پھنس جائیں۔
  • عمر دراز، کمزور اور ضرورت مندوں کے حقوق کی حفاظت دینی اور سماجی فریضہ ہے، اور بین الاقوامی دستاویزات اور غیر معمولی قانون کے ذریعہ ان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

اسی سلسلہ میں کیتھولک گرجا گھر اور ازہر شریف کے درمیان ہونے والے مشترکہ تعاون کے ذریعہ ہم اعلان کرتے ہیں، اور یہ عہد وپیمان کرتے ہیں کہ ہم عالمی فیصلے، دنیا کے علمائے دین، اثر ورسوخ والے رہنماؤں ، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں، سول سماج کی تنظیموں، دینی اداروں اور دانشوران تک ان دستاویزات کو پہنچانے کے سلسلہ میں کام کریں گے، اور تمام بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر انہیں نشر کرنے کی کوشش کریں گے، اور تعلیم وتربیت، میڈیا، قانون سازی کے نصوص اور فیصلوں اور پالیسیوں میں انہیں داخل کرنے کی دعوت دیں گے۔

اسی طرح ہم اس بات کا بھی مطالبہ کریں گے کہ ان دستاويزات پر تمام اسکولوں، يونيورسٹيوں اور تعلیم وتربیت کے انسٹٹيوٹ میں غور وفکر کیا جائے، ان پر مقالات لکھے جائیں تاکہ ہماری نئی نسل خیر وبھلائی اور امن وسلامتی کے پیامبر بن کر نکلیں اور وہ ہر جگہ مظلوم، بے بس اور پریشان حال کے حق کا دفاع کر سکیں۔

خاتمہ:

میں امید کرتا ہوں کہ یہ دستاویز تمام نیک ارادے والے افراد، مسلمان اور غیر مسلمان اور تمام ادیان ومذاہب کے پیروکاروں کے درمیان بھائی چارہ اور صلح وصفائی کی دعوت بنے۔

یہ دستاویز بھائی چارہ، عفو ودرگذر کے بنیادی باتوں سے محبت کرنے اور اندھی انتہاء پسندی اور ناپسندیدہ تشدد سے نفرت کرنے والے ہر شخص کی زندہ ضمیر کے لئے ایک آواز بن جائے۔

یہ دستاویز الگ الگ دلوں کو جوڑنے والے اور انسان کو بلندی عطا کرنے والے اللہ رب العزت پر ایمان کی عظمت کی گواہی بن جائے۔

یہ دستاویز مشرق ومغرب اور شمال وجنوب اور ہر اس شخص کے درمیان رمز وعلامت بن جائے جس کے پاس یہ ایمان ہو کہ اللہ رب العزت نے ہمیں پیدا کیا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو جان سکیں، آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر سکیں اور آپس میں محبت کرنے والے بھائیوں کی طرح ایک ساتھ زندگی گذار سکیں۔

ہم اسی کی امید کرتے ہیں اور اس کی تکمیل کے سلسلہ میں کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ پوری دنیا کے اندر ایسی امن وسلامتی قائم ہو کہ تمام لوگ اس کے سایہ میں خوشی خوشی زندگی گذار سکیں۔

 

شیخ ازہر                                                       گریٹ فادر

احمد طیب                                                       فرانسیس

 

Print
10921 Rate this article:
1.7

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.