اسلام ميں اقليتوں كےحقوق

  • 28 جولائی 2020
اسلام ميں اقليتوں كےحقوق

 

اسلام نے انسان كو ايك عظيم مرتبہ عطا كيا ہے،  قرآن پاك ميں يہ صاف طور پر واضح كرديا گيا ہے كہ الله رب العزت نے اس   كائنات كو اس كى خدمت كےلئے مسخر كيا ہے. انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم  کے  سامنے سجدہ کرنے کاحکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوقات  پر فضیلت عطا کی گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً" [سوره  الاسراء : 70] "اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیا"۔ايك اور جگہ فرمانِ الہى ہے"أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ" [القرآن، لقمان، 31 : 20] "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب کو تمہارے ہی کام لگا دیا ہے"۔

          اسلام نے  بنى نوع انسان کے درميان مساوات  كو  بے حد اہمیت دی ہے۔ اس حوالے سے کوئی   مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی مساوات کی  حقيقت  بیان کرتے ہوئے  يہ ارشاد فرمایا: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ" [سوره الحجرات13]"اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تو تم  ميں سے سب عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہے"۔

خطبہ حجۃ الوداع میں حضور نبی اکرم ؐ نے واضح الفاظ میں اعلان فرمایا: «یا أیھا الناس إلا أن ربکم واحد وأن آباکم واحد  لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي ولا لأحمر علی أسود ولا لأسود على أحمر إلا بالتقویٰ»[احمد بن حنبل، المسند، 5 : 411، رقم: 23536] (اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ تمہارا  رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے)۔

حضور نبی اکرمؐ نے مزید ارشاد فرمایا: «الناس کلهم بنو آدم و آدم خلق من تراب۔» (تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے)۔

اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اسلام دینِ امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو ، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے ۔ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے ۔

اسلامی ملكوں  میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے ،جو انہیں ہر قسم کے بيرونى اور اندرونى  ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہو تا ہے تا کہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔حضور نبی اکرم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت ، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے ۔یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔“[بخاری شریف]

لہٰذا کسی بھی انسان کو نا حق قتل کرنا ،اس کا مال لوٹنا ،  اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے . حضرت ابو بکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا :”جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو نا حق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔“[نسائی شریف]

حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے غیر مسلم شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدہ امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ملك کے شہری جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں معاہد کے زمرے میں آئیں گے ۔ جیسے پاکستان  يا مصر کی غیر مسلم اقلتیں جو اس كے  آئین کے تحت با قاعدہ شہری اور رجسٹرڈ  ووٹر  ہیں ۔ اور اپنے ملك  کے آئین و قانون کو اس کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں ۔ آج كے دور  ميں تو يہ اصطلاح استعمال نہيں كى جاتى  چنانچہ جدید تناظر میں معاہد کا ترجمہ غیر مسلم شہری ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا:«جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد ) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گاحالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کے فاصلہ تک محسوس ہوتی ہے ۔»[صحیح بخاری]گویا کسی غیر مسلم کا نا حق قتل کرنے والا جنت کے قریب بھی نہیں جا سکے گا بلکہ اس كو  جنت سے چالیس برس کی مسافت سے بھی دور رکھا جائے گا۔

اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے ۔قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بد ترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لئے آئے تو اس کا قتل حرام ہے ۔حضور اکرم کے پاس کئی موقعوں  پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے ،لیکن آپ نے ان سے ہمیشہ خود بھی اچها  سلوک فرمایا اور صحابہ کرام کو بھی یہی تعلیم دی ۔حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوئے دار "مسیلمہ کذاب " کے نمائندے آئے جنہوں نے صاف صاف  اِرتداد  كا اعتراف اور اعلان کیا تھا لیکن آپ ان کے سفارت کاروں سے بھی حسن سلوک سے پیش آئے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود  فرماتے ہیں :”میں حضور اکرم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص "عبد اللہ بن نواحہ"  ایک آدمی  "مسیلمہ کذاب " کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور اکرم نے فرمایا:کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے )کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ(معاذ اللہ ) اللہ کا رسول ہے ۔حضور نبی اکرم نے (کمال برداشت و تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد )فرمایا:میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ (مگر حضور اکرم نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی)۔

غور کیجئے کہ بارگاہ رسالت میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا ،کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی ،نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا ۔ صرف اس لئے  کہ وہ سفارت کار (Diplomats)تھے ، وه جنگ كى غرض سے نہيں آئے تهے ، يعنی اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو ،ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے ۔

حضور نبی اکرم کے مندرجہ بالا ارشاداور آپ کے عمل مبارک سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنت نبوی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”(اس عمل سے)سنت جاری ہو گئی کہ سفارت کار کو قتل نہ کیا جائے ۔" [امام احمد بن حنبل، نسائی شریف]

گویا حضور نبی اکرم کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا ۔اس حکم سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی Embassyمیں سفارت کاری پر تعینات ہو اِسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی حدیث  كى رو سے حرام ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم کی ان تعلیمات سے  مكمل طور پر دور ہيں،  گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان  اور  بعض اسلامى ممالك کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی سفارت کاروں اور انجینئرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں  اور اس كے باوجود اپنے آپ كو  ”مجاہدین اسلام“ سمجھتے ہیں۔

جس طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی رہنماﺅں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :”حضور نبی اکرم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے :غداری نہ کرنا ،دھوکہ نہ دینا ،نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔“(احمد بن حنبل)مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی رہنماﺅں کا قتل عام حالات ميں  تو  كيا ، دورانِ جنگ بھی جائز نہیں ہے ۔

قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ اسلامى قانون كے مطابق   سزا  کا  وہی  شخص مستحق ہے جس نےخود وه كام كيا ہو  ،اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں ۔اس کے جرم کی سزا اس کے گهر والوں  ،دوستوں یا اس کی قوم کے دوسرے افراد کو نہیں دی جا سکتی ۔ ارشادِ ربانی ہے : وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَـفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْـتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ”اور ہر شخص جو بھی (گناہ ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت سے آگاہ فرما دے گا جن میں اختلاف کیا کرتے تھے۔)“(سوره الانعام: 164)

 اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پر امن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے:«کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض سزا نہیں دی جائے گی۔»[ابو یوسف الخراج] لہٰذا  ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً دوسری مخالف قوم بے گناہ افراد کو قتل کریں ،ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی کی مخالفت کرنے والے ہیں۔اُن کا عمل پھر کس طرح اسلام ہو سکتا ہے ۔۔۔۔؟

اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ"اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں نا حق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِرشوت “حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم(بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے )۔"[ سوره البقرہ:188 ]

حضور نبی اکرم نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے ۔”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔“[بخاری شریف]. غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاظت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے ۔ہر دور میں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے ۔حضرت امام ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے :”اللہ اور اللہ کے رسول محمد اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لئے ان کے مالوں ،ان کی جانوں ،ان کی زمینوں ،ان کے دین ،ان کے غیر موجود و موجود افراد ،ان کے خاندان کے افراد ،ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے ،تھوڑا یا زیادہ ،ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔“[ابو یوسف کتاب الخراج]

حضرت عمر نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا:”(تم بحیثیت گورنر شام)مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے ،انہیں نقصان  پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔“(ابو یوسف کتاب الخراج)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ”غیر مسلم شہری ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اموال کے برابر محفوظ ہو جائیں۔“[ابن قدامہ ،المغنی]

اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”الدر المختار“ میں ہے :”غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرےگا۔“چہ جائیکہ ان کے گھروں کو جلا دیا جائے ۔ایسے عمل سے اسلام کی بد نامی ہوتی ہے ۔غیر مسلم شہری کا مال چرانے والے پر بھی اسلامی حد کا نفاذ ہو گا. اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور ا س پر نہایت سخت  سزا مقرر کی ہے ۔حضور نبی اکرم کے زمانے میں قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی تو آپ نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا ۔ لوگوں نے آپ سے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُس پر بھی حد جاری کی جاتی۔(بخاری شریف)

امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں:"یقینا غیر مسلم شہری ،معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح ہے ۔" [الدرالمختار] ۔

اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی تذلیل حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔کسی مسلمان کو اجاز ت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی  دے ۔اس پر الزام  لگائے ،اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے ۔اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات ،اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو۔

ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو نا حق سزا دی ۔ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جدو جہد میں روحِ رواں بنا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے سے فرمایا:”تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد جنا تھا۔؟“(کنز العمال)

غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاﺅں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا ،مارنا ،پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے ۔”الدرالمختار“میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ :”غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔“(الدرالمختار).حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:”خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کرو ں گا۔“[ابو داﺅد ]

اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمام غیر مسلم شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے ۔کوئی بھی فرد خواہ کسی قوم ،مذہب یا ریاست سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ کسی غیر مسلم شہری پر جارحیت کرے اور اس پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلا امتیازِ مذہب اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے ،چاہے اس سلسلے میں اسے جارحیت کرنے والے سے جنگ کرنی پڑے۔قرآن مجید دوسروں پر ظلم کرنے پر سخت عذاب کی وعید سناتا ہے جبکہ حرام کا ارتکاب کرنے پر سخت ترین عذاب کی وعید سناتا ہے ۔پس دوسروں پر ظلم حرام ہے اگر چہ وہ اہل ذمہ یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔

غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و زیادتی سے حفاظت کو بھی اسلام بڑی تاکید کے ساتھ لازم اور واجب قرار دیتا ہے ۔اسلام کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم و زیادتی کو ہر گز برداشت نہیں کرتا خواہ اس ظلم و اذیت کا تعلق ہاتھ سے ہو یا زبان سے۔ظلم کی قباحت و حرمت پر اور دنیا و آخرت میں اس کے درد ناک انجام پر کثرت کے ساتھ آیات اور احادیث موجود ہیں ،خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ممانعت پر تو خصوصی ارشادات گرامی وارد ہوئے ہیں۔

غیر مسلم شہریوں کی بیرونی جارحیت سے بچانے کے حوالے سے حکومتِ وقت پر وہ سب کچھ واجب ہے جو مسلمانوں کے لئے اس پر لازم ہے ۔چونکہ حکومت کے پاس قانونی و سیاسی طور پر غلبہ و اقتدار بھی ہوتا ہے اور عسکری و فوجی قوت بھی ،اس لئے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی مکمل حفاظت کا اہتمام کرے ۔اگر اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں پر کوئی باہر سے حملہ آور ہو اور انہیں پکڑنے ،مارنے یا اذیت دینے کی کوشش کرے تو اس صورت میں اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ان کا تحفظ کرے ۔

آیات قرآنی ،احادیث مقدسہ اور فقہائے اُمت کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پامال کرے ۔اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔

 

 

Print

Please login or register to post comments.

 

دہشت گردی كا دين سے تعلق !
بدھ, 10 مئی, 2023
(حصہ اول)
اسلام كے نام سے دہشت گردى!
بدھ, 1 مارچ, 2023
اسلام امن وسلامتى، روادارى اور صلح كا   مذہب ہے، اسلام  نے انسانى جان   كا قتل سختى سے ممنوع قرار ديا ہے. ارشاد بارى :" اور جس جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت) ۔...
زندگى كے حريف...فلاح وبہبود وترقى كے دشمن!!
منگل, 14 فروری, 2023
    آنے والا ہر سال پاکستان میں سیکیورٹی کے نئے چیلنج لے کر آتا ہے۔  پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، جہادی گروپوں کی سرگرمیاں، بلوچستان میں باغیوں کی کارروائیاں اور خودکش حملے، یہ وہ تمام...
123457910Last

ازہرشريف: چھيڑخوانى شرعًا حرام ہے، يہ ايك قابلِ مذمت عمل ہے، اور اس كا وجہ جواز پيش كرنا درست نہيں
اتوار, 9 ستمبر, 2018
گزشتہ کئی دنوں سے چھيڑ خوانى كے واقعات سے متعلق سوشل ميڈيا اور ديگر ذرائع ابلاغ ميں بہت سى باتيں كہى جارہى ہيں مثلًا يه كہ بسا اوقات چھيڑخوانى كرنے والا اُس شخص كو مار بيٹھتا ہے جواسے روكنے، منع كرنے يا اس عورت كى حفاظت كرنے كى كوشش كرتا ہے جو...
فضیلت مآب امام اکبر کا انڈونیشیا کا دورہ
بدھ, 2 مئی, 2018
ازہر شريف كا اعلى درجہ كا ايک وفد فضيلت مآب امامِ اكبر شيخ ازہر كى سربراہى  ميں انڈونيشيا كے دار الحكومت جاكرتا كى ‏طرف متوجہ ہوا. مصر کے وفد میں انڈونیشیا میں مصر کے سفیر جناب عمرو معوض صاحب اور  جامعہ ازہر شريف كے سربراه...
شیخ الازہر کا پرتگال اور موریتانیہ کی طرف دورہ
بدھ, 14 مارچ, 2018
فضیلت مآب امامِ اکبر شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب ۱۴ مارچ کو پرتگال اور موریتانیہ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں وہ دیگر سرگرمیوں میں شرکت کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور صدرِ پارلیمنٹ سے ملاقات کریں گے۔ ملک کے...
123578910Last

روزه اور قرآن
  رمضان  كے رروزے ركھنا، اسلام كے پانچ  بنيادى   اركان ميں سے ايك ركن ہے،  يہ  ہر مسلمان بالغ ،عاقل ، صحت...
اتوار, 24 اپریل, 2022
حجاب اسلام كا بنيادى حصہ
جمعه, 25 مارچ, 2022
اولاد کی صحیح تعلیم
اتوار, 6 فروری, 2022
اسلام ميں حقوقٍ نسواں
اتوار, 6 فروری, 2022
123457910Last

دہشت گردى كے خاتمے ميں ذرائع ابلاغ كا كردار‏
                   دہشت گردى اس زيادتى  كا  نام  ہے جو  افراد يا ...
جمعه, 22 فروری, 2019
اسلام ميں مساوات
جمعرات, 21 فروری, 2019
دہشت گردى ايك الميہ
پير, 11 فروری, 2019
123457910Last