کورونا وائرس کے مقابلہ کے لئے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے الازہر الشریف کى سپریم علما کونسل کا بیان
منگل, 29 دسمبر, 2020
  -    مجاز ریاستی حکام کے ذریعہ طے شدہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا شرعا  واجب ہے۔ سپریم علما کونسل۔ -    جماعت کی نماز میں اور جمعہ كے  خطبہ سننے میں نمازیوں کے ما بین کچھ فاصلہ رکھنے سے صحتِ نماز میں کوئی...
خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن....
هفته, 28 نومبر, 2020
    ہر سال 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ ہر معاشرے کے اہم ترین رکن ہونے کے باوجود آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں عورتیں قسم قسم کے تشدد کا شکار ہیں۔ داعش کی دہشتگرد تنظیم  نے بھی...
كيا غير مسلمانوں سے دوستى ركهنا گناه ہے؟؟
جمعرات, 12 نومبر, 2020
    غير مسلمانوں كے ساتھ معاملات ميں كبهى كبهى ہمارے  ذہن ميں كئى سوال نمودار ہوسكتے ہيں ، جيسے كہ  دوستی اور عدم تعلقی کس کيلئے ہو !؟ اور کفار سے دوستی کا کيا حکم ہے!؟كچھ لوگوںكا كہنا ہے كہ  کافروں سے ايسی دوستی...
First45679111213Last

ازہرشريف: چھيڑخوانى شرعًا حرام ہے، يہ ايك قابلِ مذمت عمل ہے، اور اس كا وجہ جواز پيش كرنا درست نہيں
اتوار, 9 ستمبر, 2018
گزشتہ کئی دنوں سے چھيڑ خوانى كے واقعات سے متعلق سوشل ميڈيا اور ديگر ذرائع ابلاغ ميں بہت سى باتيں كہى جارہى ہيں مثلًا يه كہ بسا اوقات چھيڑخوانى كرنے والا اُس شخص كو مار بيٹھتا ہے جواسے روكنے، منع كرنے يا اس عورت كى حفاظت كرنے كى كوشش كرتا ہے جو...
فضیلت مآب امام اکبر کا انڈونیشیا کا دورہ
بدھ, 2 مئی, 2018
ازہر شريف كا اعلى درجہ كا ايک وفد فضيلت مآب امامِ اكبر شيخ ازہر كى سربراہى  ميں انڈونيشيا كے دار الحكومت جاكرتا كى ‏طرف متوجہ ہوا. مصر کے وفد میں انڈونیشیا میں مصر کے سفیر جناب عمرو معوض صاحب اور  جامعہ ازہر شريف كے سربراه...
شیخ الازہر کا پرتگال اور موریتانیہ کی طرف دورہ
بدھ, 14 مارچ, 2018
فضیلت مآب امامِ اکبر شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب ۱۴ مارچ کو پرتگال اور موریتانیہ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں وہ دیگر سرگرمیوں میں شرکت کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور صدرِ پارلیمنٹ سے ملاقات کریں گے۔ ملک کے...
123578910Last

مونسٹر یونیورسٹی میں امام اکبر کى تقرير

  • | اتوار, 27 مارچ, 2016

بسم الله الرحمن الرحيم

محترمہ ومکرمہ جناب ڈاکٹر سٹيفن لوڈون قابل قدر   نائب صدر مونستر یونیورسٹی، علماء کرام، درس وتدریس میں مشغول کارکنان اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات۔     

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

میں سب سے پہلے قابل قدر صد احترام استاد ڈاکٹر نیلیس کا دل کی گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے دعوت نامہ کو قبولیت سے نوازا اور اس علمی کانفرنس کو اپنے قدوم میمنت سے  مشرف  فرمایا، اسی طرح میں آپ حضرات کا بہت  ہی ممنون  اور مشکور ہوں کہ مجھے آج آپ حضرات کے رو برو  بہت ہی اہم اور نازک موضوع پر گفت وشنید کا موقعہ ملا ہے، جو موضوع ہمارے موجودہ دور میں ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، بلکہ یہ کہیں کہ ساری تہذیبی وثقافتی کامیابیوں اور حصولیابیوں کے لئے ایک چیلنج ہے، اور قریب ہے ان تمام تہذیبی اور ثقافتی کارناموں کو لمحہ بھر میں نيست ونابود کر دے، اور یہ موضوع ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امن وسلامتی کا موضوع ہے، مختلف خطروں سے دوچار انسانی تہذیب وثقافت کی حفاظت کا مسئلہ ہے، ان میں سر فہرست سارے بر اعظموں میں پائے جانے والے دہشتگردی کے عناصر ہیں اگر ان کو یونہی ترقی کرتے ہؤے اور طاقت اختیار کرتے ہؤے چھور دیا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ساری انسانیت یورش ویلغار اور انارکی کی اس  حالت کی طرف لوٹ آئے گی کہ تاریخ نے اس سے قبل اس کی مثال بھی نہیں دیکھا ہوگا ۔

محترم علماء کرام اور دانشوران قوم !مجھے آج اس محفل میں غیر تقلیدی اسلوب میں اس موضوع پر اپنی رائے پیش کرنے کا موقعہ فراہم فرمائیں، یہ رائے میرے ذہن میں اس وقت آئی جب میں امن وسلامتی کی تلاش وجستجو میں مصروف عمل تھا خاص طور پچھلے کئی سالوں میں اسے بہت ہی تلاش کیا جس وقت کہ ہمارا عالم عرب قتل وغارتگری وحشت وبربریت اور لوٹ  کھسوٹ کی آماج گاہ بنا ہے ۔

سامعین حضرات !آپ کے رو برو گفتگو کرنے والا یہ شخص ایک مکمل نسل کی نمائندگی کر رہا ہے، اگر میں کہوں تو حقیقت سے تجاوز نہیں کرونگا کہ ایک لمحہ امن وآشتی کی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوتا کہ مدت دراز  کے لئے مصیبتوں اور جنگوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، وہ بھی بے جا بغیر کسی معقول سبب کے، میں نے دس سال کے بچہ ہونے کی حالت میں مصر کی سر زمیں پر سن1956ء میں تین طرفہ ظلم وعدوان کا منظر دیکھا ہے، اپنے ہم عمروں اور ہم پلوں کے ساتھ رعب وخوف کی حالت سے اس طرح دوچار ہوا ہوں کہ آج عمر کی اس ساتویں دہائیوں میں ہونے کے باوجود میں اس کا ذکر کرنا چاہوں تو نہیں کر سکتا، ابھی دس سال بھی نہیں ہوے کہ1967کی جنگ نے ہمیں آدبوچا، اسی ذہنی اضطراب اور بے اطمینانی کی کیفیت کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے کہ پلک جھپکتے ہی  سیینا کا پورا علاقہ ہمارے ہاتھ سے نکل کر دشمنوں کے قبضہ میں چلا گیا اور خطرہ ہمارے دروازوں پر دستک دینے لگا، پھر ہم سب کا سامنا اگر صحیح کہنا ہو تو اقتصادی جنگ سے ہوا کہ ہماری روز مرہ کی ضرورتیں بمشکل مکمل ہو پاتی تھیں، اور اگر بھولنا چاہوں بھی تو نہیں بھول سکتا کہ مدرسے تعلیم کے دوران ،طلبہ اور  طالبات کی موجودگی میں زمیں بوس کر دئیے جاتے تھے ۔

اس کے بعد پھر۱۹۷۳ء میں جنگ آزادی کی صدا بلند ہوئی اور اس جنگ کی نوعیت کچھ اور ہی تھی،  پہلی مرتبہ کامیابی اور فتح مندی کے مفہوم کو سمجھا، عزت وشرف کی اہمیت کو جانا، اور ہم سب نے گمان کیا کہ ہمارا عالم عربی حقیقی معنی میں استقلال اور وسیع پیمانہ پر ترقی کے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے اور امن وسلامتی اور خوشحالی کی کیفیت سے معمور ملکوں میں اس کا شمار بھی ہوگا لیکن جلد ہی نئی قسم کی جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور نئے نظریات کے مہیب بادل ہمارے سروں پر منڈلانے لگے، اور یہ مسلح کشمکش کسی خارجی دشمن کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کا سرا ایک قوم وملت اور ایک وطن کے فرزندوں سے ملتا ہے، پہلے پہل خاندانی، قبائلی اور مذہبی انتشار اور خلفشار کی فضا قائم کی گئی پھر جانبین کے مابین کشمکش کے لئے اسلحہ درآمد کئے گئے تاکہ اس کے بعد ایسی خونریز جنگیں شروع کی جائیں جس کا نتیجہ ہلاکت وبربادی ہے ۔

عالم اسلام کے اکثر وبیشتر ممالک میں ہونے والی ہلاکت وبربادی کے ایک معقول سبب کی تلاش میں عقل انسانی حیران وپریشان ہے، مطلق العنان حکومت سے آزادی حاصل کرنے کا مطلب امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے والے عوام پر بمباری کرنا نہیں ہے اور نا ہی انکے گھروں کو انکے اور ان کی عورتوں اور بچوں کے گھر میں ہونے کی حالت میں ڈھانا ہے، جبکہ ان علاقوں میں بہت ساری مذہبی جماعتیں امن وسکون کے ساتھ ایک دراز مدت تک سکون پذیر تھیں، اور یہ ادیان اور مذاہب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ ازل سے ہیں، یہ جماعتیں ویسے ہی قدیم ہیں جیسے کہ یہ مذاہب اور ادیان قدیم  ہیں، اور یہ اسلامی تہذیب وثقافت کے سائے میں ایک پر امن زندگی گزار چکے ہیں، ان کے معتقدات اور پیما نے مصیبت کے سبب نہیں تھے بلکہ مال ودولت، سماجی یکسانیت ویکجہتی، آپسی قرابت ورشتہ داری اور باہمی اتحاد واتفاق  کے عنصر تھے ۔ 

جیسے کہ عقل حیران وششدر ہے کہ روئے زمیں کے تمام قوم وملت کو چھوڑ کر  ایک ہی علاقہ میں ایک ہی قوم وملت کے افراد کے مابین جنگ کے شعلے کیسے بھڑک رہے ہیں ۔

ایک موقعہ سے میں نے اپنے سامنے دنیا کا نقشہ رکھ کر سوچا کہ سارے بر اعظموں کے مابین کسی ایسے علاقہ کی تلاش کر پاؤں، جہاں اسلحوں کی جھنکار سن سکوں یا خونوں کا فوارہ دیکھ سکوں یا کھانا، دوا اور پناہ کے بغیر بارشوں اور برفوں کے دوران صحراء میں بے یارومددگار منزل کی جستجو میں بھاگنے اور حیران وسرگرداں پھرنے والی جماعت کی متابعت کر سکوں، بہت تلاش وجستجو کے بعد اگر ان سارے المناک واقعے اور دردناک حادثے کی آماجگاہ بنا کوئی علاقہ نظر آیا تو وہ ہمارا عالم عربی اور عالم اسلامی کا علاقہ نظر آیا ۔

اور میں ہمیشہ یہ سوال کرتا رہتا ہوں کہ کیا ہمارے اسلامی ممالک اس طرح کے حالات سے کبھی گزرے تھے؟ کیا کبھی یہاں اس طرح کی تبدیلیاں ہوئیں کہ جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے؟ معلوم نہیں کہ ان کا انتہا کب ہے، کیا  موجودہ دور میں کسی نظام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چند سالوں کے لئے ایسے داخلی جنگ کو بھڑکا دیگی جس میں ہر دن خون کے فوارے بہتے ہوں، اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات معقول جواب کے متلاشی ہوتے  ہیں لیکن ان کا کوئی معقول جواب نہیں مل پاتا ہے، ان حیران کن سوالات کے مابین میرا یقین صرف یہی ہے کہ کسی بھی صورت میں اسلام یا کسی دوسرے مذاہب کے پس پردہ مقصد یہ جہنم نماں زندگی نہیں ہے جو آج بھڑک رہی ہے اور جس پر قابو پانا بہت ہی مشکل اور ناممکن ہو چکا ہے، اگر چہ ان جنگوں سے استفادہ کرنے والے دین کو  استغلال کرنے میں کامیاب ہیں جیسے کہ ایندھن جو جنگ کو مشتعل کرنے اور ہلاکت وبربادی کے تسلسل اضافہ کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔

حضرات علماء کرام !میں آپ کے سامنے شرق اوسط میں ہونے والے دردناک اور المناک واقعات پیش کر کے اپنی بات طویل نہیں کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ ممکن ہے کہ مجھ سے ذیادہ دقیق اور عمیق انداز میں اس سے باخبر ہوں،  لیکن میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم مفقود امن وشانتی کو آسمانی تعلیم میں تلاش کریں بلکہ واجب ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور غیر سیاسی حالات میں، عالمی تسلط کی سیاستوں میں، اخلاقی ضوابط سے الگ تھلگ اقتصادی طریقوں میں  تلاش کریں، جس کے داعی اور فلاسفہ کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں کہ لوگوں کی مٹھی بھر جماعت جم غفیر کی وجہ سے سعادت کا شرف حاصل کرے، اور غنی ومالداری، مال ودولت، علم ومعرفت، ترقی وپیش رفت اور فارغ البالی اور خوشحالی کی نعمتوں سے شمال میں مالا مال ہو اور جنوب میں فقر وفاقہ، مرض وبیماری، جہل ونادانی اور نحوست کی کثرت سے دوچار ہو، ضروری ہے کہ بحر متوسط کے دونوں کناروں کے مابین واقع فساد میں امن وسلامتی کے فقدان کے اسباب کو تلاش کریں بلکہ دنیا کی موجودہ بڑی تہذیب کے سلوکیات میں اسے تلاش کریں جسے وہمی دشمن کے وجود بخشنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جو جنگ کو کنٹرول کرے اور دور بیٹھ کر کشمکش کو ہوا دیے تاکہ وہ متحد ٰہوں اور خارجی دشمنوں کے مقابلہ میں داخلی اجتماعی امن وسلامتی حاصل کر سکے ۔

عالم عرب اور عالم اسلام میں آج کل ہونے والے سارے مشکلات کے ذمہ دار تھوڑا یا کم یہی بین الاقوامی پیچیدگیاں ہیں (جس کی بعض  منفی  صورتوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے)، اور اقوام متحدہ کی قدرت اور امکانیات میں ہے جس کا مقصد بین الاقوامی امن وسلامتی کی حفاظت ہے شرق اوسط کے مسائل کو حل کرنے، اس دائرے میں بھڑکنے والی آگ کو بجھانے اور بیواؤں یتیموں کی امداد میں حصہ لینا ہے ۔

محترم حضرات !میں امید کرتا ہوں کہ آپ میری صراحت گوئی پر مجھے معاف کریں گے اور ممکن ہے کہ میں اپنی گفتگو میں حد سے آگے نکل چکا ہوں لیکن میں گفتگو اپنے دوست واحباب اور علماء سے کر رہا ہوں اور میں نہیں سمجھتا ہوں کہ پیچیدہ مسائل کے حل کی تلاش میں ان کا منہج ،صحیح نتیجہ اخذ کرنے میں بعض فرضی امور کے نقد اور بعض امور سے غفلت برتنے پر ہو سکتا ہے، اور یہیں وضاحت ضروری ہے جس کی وضاحت میں نے آپ حضرات کے سامنے کیا اور مشرق میں اکثر علماء مفکرین اور تجزیہ نگاروں کی رائے بھی یہی  ہے، ذرائع ابلاغ اور اجتماعی نیٹورک بھی اسی کو پیش کرتی ہے گویا کہ یہ ثابت شدہ اور متفق علیہ مسئلہ ہے۔

اور جہاں تک ادیان میں امن وسلامتی کی بات ہے تو پچھلے پندرہ سالوں کی مدت میں ،میں یوروپ امریکا اور ایشیا میں منعقد ادیان سے متعلق کانفرنسوں میں کی گئ گفتگو میں ایک لفظ بھی اضافہ نہیں کرونگا، اور اسی طرح مجھے آپ اجازت دیں کہ میں اپنے عقیدہ کا اظہار اس دین کے ذریعہ کر سکوں جس کی طرف میری نسبت ہے اور جس میں سارے عالم کے لئے رحمت اور  سماحت ہے۔

ایک یہ کہ آسمانی ادیان کے نزول کا مقصد صرف اور صرف انسان کو دنیا اور آخرت کی سعادتمندی کی طرف رہنمائی کرنا ہے، اچھائی، حق اور رحمت جیسے قدروں سے تعارف کرانا ہے اور یہ باور کرانا ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے اسے دوسرے تمام مخلوق کے مقابلہ میں ترجیحی حیثیت عطا فرمایا ہے، اور اسے زمیں میں اپنا خلیفہ متعین فرمایا ہے، اور اسکے خون، مال اور عزت وآبرو کو حرام قرار دیا ہے، اگر آپ نے سنا کہ آسمانی دینوں میں سے کسی دین نے ناحق خون بہانے اور حق تلفی کا حکم دیا تو جان لیں اس دین کی حقیقت کی تصویر کشی میں کوئی جھول اور جعلسازی ہے۔

دوم: ہم مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اسلام  اس سے پہلے نازل ہونے والے مذاہب ، عیسائیت، یہودیت اور ابراہمیت سے الگ یا جدا نہیں ہے ، بلکہ قرآن پاک تو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ الہی مذہب صرف ایک مذہب ہے، اس کا نام ہے اسلام، بمعنی: اللہ تعالی کہ سامنے جھکنا ، اس کی عبادت کرنا اور اسکی اطاعت کرنا ۔ ہماری گفتگو یا زبان میں مذہب کا مطلب: وہ وحی الہی ہے جو ایک مذہب کی جڑی ہوئی زنجیر میں ایک کڑی ہو۔

یہاں سے ہمیں معلوم ہوا کہ اسلام عقائد کے اصول اور اخلاق وضوابط کے لحاظ سے گزشتہ مذاہب سے نہایت نزدیک ہے۔ گزشتہ انبیاء، رسولوں اور ان پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے ایمان کا ایک حصہ ہیں۔

بلکہ قرآن تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ دین جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے ،وہی دین نوح،ابراہیم،موسی اور عیسی پر نازل ہوا،یہی وجہ ہے کہ اسلام گزشتہ آسمانی مذاہب خاص طور پر عسائیت سے کافی قریب ہے، یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں اور اس کو کسی قسم کے ظہور یا وضاحت کی ضرورت نہیں۔

سوم: قرآن میں تین حقائق ہیں جو ایک دوسرے پر مبنی ہیں ، جن کا تعلق اسلام میں شریعت اور انسانیت کے مقام اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں مسلمانوں کے معاملات کی جدیدیت سے ہے : پہلی حقیقت :اپنے مخلوقات کی خلقت میں اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ مذہب ، عقیدے ، رنگ ،زبان اور جنس میں ایک دوسرے سے مختلف ہوں ، اور یہ اختلاف ہرگز تبدیل یا زائل نہیں ہو سکتا ۔ دوسری حقیقت : پہلی حقیقت پر منطقی طور پر مترتب ہے اور وہ یہ کہ قبائل اور قوموں کے درمیان تعلقات "تعارف" پر مبنی ہیں جس کا مطلب : متبادل تعاون ہے قرآن مجید نے اس تعلق کا قرآن میں ذکر " التعارف" کے لفظ سے آیت نمبر (13) اور سورة نمبر (49) میں کیا ہے

ان دونوں حقیقتوں کے درمیان رشتہ منطقی اور مضبوط ہے ، کیونکہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالی لوگوں کو مختلف مذاہب پر پیدا کرے اور پھر اسی وقت ان کو اس بات کی اجازت دے کہ انکے درمیان رشتے لڑائی ، جنگ اور قتل کے رشتے بن جائیں ، کیونکہ یہ عقائد میں تعددیت کی آزادی کے متضاد ہوگی یہاں ایک تاریخی حقیقت واضح ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے کبھی بھی عقیدہ یا مذہب کی وجہ سے تلوار نہیں اٹھائے بلکہ صرف حملے کی حالت میں اور دشمن کے مقابلے کے لئے تلوار اٹھائے ۔

تيسرى حقيقت : نتيحے ہمیشہ شروعات یا بنیاد پرمترتب ہوتے ہیں اسلام کی بنیادوں میں عقیدے كى آزادی  شامل ہے اسلام نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے ۔ اس موقع پر میں آپ کو اس فرمان الہی کی یاد دلاتا ہوں ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ﴾(بقره: 256) ترجمہ (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے اللّٰہ رب العزت کا دوسری جگہ فرمان ہے ﴿فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ﴾ (كہف: 29) ترجمہ (پس جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے انکار کرے)،:حضرت محمد نے فرمایا : ﴿مَنْ كَرِهَ الْإِسْلَامَ مِنْ يَهُودِيٍّ وَنَصْرَانِيٍّ، فَإِنَّهُ لَا يُحَوَّلُ عَنْ دِينِهِ﴾،ترجمہ (یھود اور نصاری میں سے جس نے بھی اسلام کو ناپسند کیا اسے اس کے مذہب سے پھیرا نہیں جائیگا(.

چہارم: قرآن مجید نے اقرار کیا ہے کہ رسول پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے لئے رحمت بن کر بھیجے گئے ہیں ۔ " دونوں جہانوں" کا لفظ " مسلمانوں" کے لفظ سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ بلکہ اسلامی فلسفہ میں یہ لفظ " عالم انسان" سے بھی زیادہ وسیع ہے کیونکہ اس میں جانور، پودے اور بے جان چیزیں بھی شامل ہیں ۔

 قرآن پاک میں " محمد" صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خطاب ہے : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ترجمہ(ہم نے تم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے)لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "إنما أنا رحمة مهداه " حضور صلی اللہ علیہ وسلم پاک کے ان تمام جہانوں کے ساتھ معاملات  اور ان کے طریقہ کار کا ذکر کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہوگا۔ میں صرف اس کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے صفوف میں جنگ کے وقت بھی بوڑھوں ، کمزوروں ، عورتوں ، بچوں اور اندھوں کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا، آپ نے جانوروں کو قتل کرنے سے منع کیا سوائے یہ کہ ان کو کھانے کے لئے مارا جاۓ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھروں کو برباد ،یا خراب  کرنے یا پودوں کو اکھاڑنے سے بھی منع کیا ہے،عام طور پر جنگوںاور معرکوں کے دوران انسان، حیوان، پودوں یا بے جان اشیاء کے ساتھ رحمت سے پیش آنا ایک عجیب سی بات ہے کیونکہ دشمنی اور جنگ کے دوران بے دردی سے پیش آنا جائز اور عمومی سی بات ہے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔جو رحمت کے پیکر تھے۔ کی شفقت دشمنوں اور جانوروں کے لئے بھی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت جہنم اسی لئے داخل ہوئی کیونکہ اس نے ایک بلی کو قید کر کے رکھا ہوا تھا نہ اسے کھلایا اور نہ ہی اسے زمین کےکیڑوں سے کھانے دیا، اور یہ بھی فرمایا کہ ایک آدمی جنت اسی لئے داخل ہوا کیونکہ اس نے گرمی کے ایک شدید دن ایک کتے کو پانی پلایا تھا۔

پنجم: قرآن نے اسلام کو " امن وسلامتی" سے صرف رحمت کے بنا پر ہی نہیں باندھا اور نہ ہی مسلمانوں کو اس عظیم خلق "امن وسلامتی"  کو اپنانے یا ترک کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے بلکہ " اسلام" اور " سلام " (امن وسلامتی ) کے الفاظ کا ذکر قرآن پاک میں اتنی دفعہ ہو چکا ہے کہ اسلام اور سلام (امن وسلامتی) ایک ہی چیز کے دو روپ بن گئے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ " السلام " اور اسکے مشتقات کا ذکر قرآن پاک میں (140) دفعہ ہوا جبکہ " حرب"  (جنگ) کا ذکرصرف چھ (6) دفعہ ہوا ہے ۔ اسی لئے یہ بات ہرگز عجیب نہ ہوگی کہ " اسلام" نے " السلام " (امن وسلامتی) کو غیر مسلمانوں کے ساتھ معاملات میں بنیادی قرار دیا ہے اور قرآن کے فلسفے میں مسلمانوں کے غیر مسلمانوں کے ساتھ رشتے میں جنگ اور خونریزی کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔

 

محترم علما  اور دانشوران!

اب سوال یہ ہے کہ ہم " السلام" (امن وسلامتی) کے مفہوم کو اس پیچیدہ حقیقت کے علاج کے لئے کیسے استعمال کریں ۔

 

میرا جواب یہ ہے اور جس سے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ : " سب سے پہلے ہم صرف ایک مذہب کے علماء کے ما بین نہیں بلکہ تمام مذاہب کے علماء کے ما بین " السلام " (امن وسلامتی) قائم کریں جس کے لئے مذاہب کے ما بین مشترکہ امور کو بیان کرنا  حتمی ہوگا کیونکہ اگر مختلف مذاہب کے علماء کے ما بین مصالحت نہ ہوئی تو وہ امن وسلامتی کی دعوت کیسے دیں گے۔

آپ کے حسن استماع کا شکریہ

                                                                                    شیخ الازھر

احمد الطیب

 
Print
Categories: ہوم
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

دہشت گردى كے خاتمے ميں ذرائع ابلاغ كا كردار‏
                   دہشت گردى اس زيادتى  كا  نام  ہے جو  افراد يا ...
جمعه, 22 فروری, 2019
اسلام ميں مساوات
جمعرات, 21 فروری, 2019
دہشت گردى ايك الميہ
پير, 11 فروری, 2019
1234567810Last