امن كے راستے

  • 14 ستمبر 2017
امن كے راستے

            الله تعالى نے انسان كو اشرف المخلوقات كو مرتبہ دے كر اسے ايك عظيم ذمہ دارى سونپى ہے، اس زمين كو آباد كرنے كى ذمہ دارى، اس ميں خير اور بهلائى پهيلانے كى ذمہ دارى اور اسى لئے اس نے انبيا اور رسل كا ايك منظم نظام قائم كيا۔  تمام انبياء كا پيغام الله كى توحيد پر ايمان لانا اور عمل صالح ہى تها اور عمل صالح امن وسلامتى كى موجودگى كے بغير ہرگز قائم نہيں ہو سكتا۔

            آج كى دنيا ميں مختلف مذاہب، متعدد مسالك، مختلف رنگوں اور قوموں كے لوگ آباد ہيں اسى لئے اُن كے درميان اچهے تعلقات قائم كرنے سے امن كے راستے ہموار ہو سكتے ہيں۔اور اس راه كو مساوات وبرابرى، عدل وانصاف اور حقيقى آزادى ہى ہموار كر سكتى ہے ليكن كيا اس گلزارِ ہستى ميں موجود تمام لوگ امن وسلامتى كى ان راہوں كو ہموار كرنے كے راغب ہيں!!؟ ايك ايسى دنيا جس ميں انسانى جان كى كوئى قيمت نہيں رہى، جہاں غريب غريب تر اور امير امير  تر بنتا جا رہا ہے، جہاں طاقت ظلم كو روكنے كے لئے نہيں بلكہ ظلم كو مزيد بڑهانے كے لئے استعمال ہو رہى ہے،  جہاں كمزوروں كو بچانے كے لئے كوئى حقيقى قدم اٹهانے كى كوئى بهى ہمت نہيں ركهتا۔ جہاں حقوق پامال ہو رہے ہيں اور جہان امن وسلامتى محض ايك كونسل كا نام ہے امن وسلامتى كى راه اس وقت تك ہموار نہيں ہو سكتى جب تك دنيا ميں ظلم اور زيادتى كا خاتمہ نہ ہو اور جب تك حقيقى عدل وانصاف كى بنياديں نہ ركھى جائيں ، مشرق ہو يا مغرب انسان انسان ہے ، غريب ہو يا  امير  اس كو  دكھ درد اور مصائب كا احساس ہوتا ہے . 

            پورى دنيا گزشتہ كئى دنوں بلكہ سالوں سے سوشيل ميڈيا اور ديگر ذرائع ابلاغ كے ذريعہ ميانمار كے صوبہ رخائن ميں ہونے والے قتل وغارت، ظلم وبربريت جبرى نقل مكانى، آتش زنى، نسل كشى اور قتل عام كى خوفناك تصويروں اور وحشت انگيز مناظر كا مشاہده كر رہى ہے جس ميں ہزاروں كو نہايت  بے رحم طريقہ سے موت كے كنويں ميں دهكيل ديا جا رہا ہے۔ اخلاق كے تمام مفاہيم ان مناظر كو ديكھ كر دم توڑ رہى  اور  انسانى حقوق كى حفاظت كے تمام بين الاقوامى معاہدے محض كاغذ پر سياہى  ره گئے ہيں۔

             پچھلے دنوں امامِ اكبر شيخ الازہر پروفيسر ڈاكٹر احمد الطيب نےراخين ميں ہونے والے انسانيت سوز مظالم كے بارے ميں  اپنے اور دنيابھر كے مسلمانوں كے دكھ كا اظہار كيا اور اس كو انسانيت كے خلاف ايك سنگين جرم كا نام ديا  انہوں نے كہا كہ " جہاں تک آج کی بات ہے، اس سائنس وفن اور ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ زمانہ کی بات ہے، اقوام متحدہ کی تنظیموں کی بات ہے، حقوق  انسان کی بین الاقوامی جمعیتوں کی بات ہے، شہری سوسائٹیوں کی تنظیموں اور ان بین الاقوامی دستاویزات کی بات  ہے جنہوں نے فقیر ومحتاج بے بس ولاچار اور بیواؤں کی حمایت کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیا ہے، اسی طرح اس نے لوگوں کے لئے امن وسلامتی بحال کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری جمعیتیں اور تنظیمیں ایک دنيا میں ہیں تو قتل وغارت گری، وخوںریزی، بکھرى منتشر لاشیں، بچوں کی آہ وفغاں، یتیموں کے آنسو اور اپنی اولاد کھونے والی خواتین کی چیخ وپکار ایک دوسری دنيا میں۔ اس اکیسویں صدی کے نئے زمانہ میں موت کی ترقی یافتہ مشینوں کی وجہ سے جنگ کا مفہوم ہی بدل چکا ہے کیونکہ جب اس زمانہ میں جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو گھروں میں آرام وسکون سے رہنے والے، سڑکوں پر چلنے والے، اپنے گاؤں اور شہروں میں زندگی گزارنے والے اور اپنے مدرسوں ومجلسوں میں بیٹھے تمام لوگوں کو اپنا نشانہ بنا لیتی ہے یا وہ لوگ اس مہلک اسلحہ سے فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنے انجام سے بے خبر ہو کر نامعلوم علاقہ کا رخ کر لیتے ہیں جہاں ان کو مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ گھبرا کر اور پریشان ہو کر سمندر کا رخ کر لیتے ہیں تاکہ وہ اسی سمندر کی وسعت میں ڈوب کر اپنی زندگی کو موت کے حوالہ کر دیں۔                                                       

           روئے زمین پر ستائے ہوئے بے بس لوگوں کے جسموں کو پامال کرنا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا انسانیت کے جسم کو پامال کرنے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مرادف ہے کیونکہ اس انسان کو وہ سب حقوق حاصل ہیں جو مشرق سے لے کر مغرب تک پوری دنیا کے انسان کو حاصل ہیں، احترام، امن وسلامتی اور آزادی  کے ساتھ اپنے وطن میں رہنے کے سارے حقوق حاصل ہیں۔ غربت اور مالداری نیز علاقائی، رنگ ونسل اور دینی بنیادوں پر ان حقوق میں تفرقہ بازی اور دوہرا معیار اپنانا صرف اسلامی مفہوم ہی میں نہیں بلکہ سارے خدائی ادیان ومذاہب کی رو سے انتہائی غلط اور وحشیانہ عمل ہے. جن لوگوں نے بھی دینداری اور اخلاق کے ماحول میں تربیت پائی ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے اور انسانیت میں وہ اس کا شریک ہے اور انسانیت قرابت داری وتعلقات کا ایک بندھن ہے جس میں انسانوں کے درمیان آپسی حقوق اور واجبات مرتب ہوتے ہیں، خواہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی، قومی سطح پر ہو یا ملکی پیمانے پر" امام صاحب كى يہ باتيں اكثر وبيشتر مسلمانوں بلكہ ہر عاقل وبالغ انسان كے احساسات كى عكاسى كرتى ہيں . جرمنى ميں " امن كے راه " كے عنوان سے ايك كانفرنس ميں بھى  انہوں نے اسى بات پر  تاكيد كى كہ مشرق میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے مغرب میں ہتھیار کی تجارت، اس کی مسلسل صناعت اور فروخت  کی وجہ سے ہے، نیز  انہيں ایسے علاقوں کی تلاش بھی رہتى ہے جہاں دینی ومذہبی اور فرقہ وارانہ تنازعات اور فسادات کو بھڑکايا جاسكے جس کی وجہ سے خونریز تصادم قائم اور برقرار رہے، معاصر مفکر الہیات "ہنس کنگ"  کی (عالمی اخلاقی منصوبہ) نامی کتاب کے مقدمہ میں اعداد وشمار کے متعلق  آيا ہے کہ دنیا اسلحہ اور ہتھیار پر ہر ایک منٹ پر1.8 ملین ڈالر خرچ کرتی ہے جبکہ بھوک اور بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہر ایک گھنٹے میں 1500 بچے مرتے ہيں ۔تیسری عالمی جنگ کے علاوہ بھی پچھلى آٹھ دہائیوں نے ہر ہفتہ میں گرفتاری، عذاب، قتل وغارت گری اور جبرا نقل مکانی کے واقعات دیکھے ہیں اور اس وقت کی ظالم حکومتوں کی طرف سے ظلم وزیادتی کی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہيں جنہیں تاریخ کے کسی دور میں نہیں دیکھا گیا ۔ ہر ماہ 7.5 بلین عالمی اقتصاد کے نظام میں  قرض کا اضافہ کیا جاتا تھا جس کی مقدار 1500 بلین ڈالر تک ہوتی تھی ، امام صاحب كى نظر ميں  ان تمام مشكلات کا حل مزید سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے سے حاصل نہیں ہوگا جبکہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں اس کی بلا شك بہت اہمیت اور ضرورت ہے۔ اس كا حل ان مادی فلسفوں میں بھى پوشیدہ نہیں ہے جنہیں اللہ رب العزت کے ادیان ومذاہب اور اس کے اخلاق سے کوئی سرو کار نہیں اور نہ ہی یہ حل مفید اور انسانی طریقۂ کاروں میں موجود ہے کیونکہ یہ سارے فلسفے ایک شخص کے ارد گرد ایک فرد کی حیثیت سے گردش کرتے ہیں نہ کہ ایک انسانی جماعت کے رکن کی حیثیت سے کیونکہ اس انسانی جماعت کے حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہبانی افراد کی طرف سے لازمی ہوتی ہے ورنہ یہ انسانی جمعیت برباد ہو جائے گی اور وہ خود اسی انسانیت کے لئے خطرہ بن جائے گی۔                                                                                                              

          ان كى رائے كے مطابق اس بیماری کا صرف ایک علاج ہے اور وہ عام انسانی اخلاق ہیں جو دنيا كے  تمام بر اعظموں میں ہوں، مشرق ومغرب ہر جگہ لوگ اس پر متفق ہوں، اس موجودہ دنیا پر اسی کا راج ہو اور یہی اخلاق لوگوں میں ان متضاد اخلاق کی جگہ لے ليں جس نے ہمارى اس موجودہ دنیا کى تہذیب وتمدن کو خود کشی کی راہ پر لا کھڑا کیا ہے اور ہم اس اخلاق کریمانہ کو ادیان ومذاہب کے راستہ ہی سے تلاش کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ ہم خود مذاہب وادیان کے درمیان امن وسلامتی قائم کریں اور اس سلسلہ میں ایک مشہور قول بھی ہے کہ "دینی امن وسلامتی کے بغير دنیا وى  امن وسلامتی قائم نہیں ہو سکتی" ۔ اسی کہاوت کو زندہ کرنے کے لئے ازہر شریف نے یورپ کے بڑے دینی اداروں کا قصد کیا ہے کیونکہ یہ کہاوت کلی طور پر ازہر بلکہ اسلامی پیغام کے مطابق ہے،  ازہر شريف اپنے اور تمام دیگر ادیان ومذاہب کے درمیان امن وسلامتی قائم کرنا چاہتا  ہے ، امن وسلامتى كى راہ كو ہموار كرنا چاہتا ہے كيونكہ ہمارى  دنيا  آج ايك نہايت  خطر ناك موڑ پر كھڑى ہے ، اور امن كے راستوں كو اختيار كرنے ہى ميں  اس دنيا اور انسانيت كى بھلائى ہے۔

Print
Tags:

Please login or register to post comments.

 

دہشت گردی كا دين سے تعلق !
بدھ, 10 مئی, 2023
(حصہ اول)
اسلام كے نام سے دہشت گردى!
بدھ, 1 مارچ, 2023
اسلام امن وسلامتى، روادارى اور صلح كا   مذہب ہے، اسلام  نے انسانى جان   كا قتل سختى سے ممنوع قرار ديا ہے. ارشاد بارى :" اور جس جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت) ۔...
زندگى كے حريف...فلاح وبہبود وترقى كے دشمن!!
منگل, 14 فروری, 2023
    آنے والا ہر سال پاکستان میں سیکیورٹی کے نئے چیلنج لے کر آتا ہے۔  پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، جہادی گروپوں کی سرگرمیاں، بلوچستان میں باغیوں کی کارروائیاں اور خودکش حملے، یہ وہ تمام...
12345678910Last

جرمنى كے دورے كى شروعات ميں امام اكبر شيخ ارہر كرسچین چرچز كے سربراهوں ملاقات كرتے ہوئے تاكيد كرتے ہیں كہ..
منگل, 15 مارچ, 2016
جرمنى كے دورے كى شروعات ميں امام اكبر شيخ ارہر كرسچین چرچز كے سربراهوں ملاقات كرتے ہوئے تاكيد كرتے ہیں كہ: دنيا ميں امن وامان كو نشر كرنا ميرا اولين مقصد ہے اور.. ميں عن قريب وتيكن كے پوپ سے ملاقات كروں گا فضيلت مآب امام اكبر شيخ ازہر اور مسلم...
آج پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب جرمنی کے قومی اسمبلی سے مغربی دنیا کے لۓ ایک عالمی خطاب پیش کریں گے
منگل, 15 مارچ, 2016
آج شیخ ازہر اور مجلس علماء کونسل کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب جرمنی کے قومی اسمبلی سے مغربی دنیا کے لۓ ایک عالمی خطاب پیش کریں گے۔  دورے میں امام اکبر قومی اسمبلی کے سربراہ "نوربرت لامرت" سے ملاقات کریں گے۔  علاوہ ازیں...
آج... امام اکبر شیخ ازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب مغربی دنیا کے لۓ ایک عالمی خطاب پیش کریں گے
هفته, 12 مارچ, 2016
جرمنى کے قومی اسمبلی (بوندستاج) کے سربراہ کی دعوت کے بنا پر امام اکبر شیخ ازہر جرمنی کے دار الحکومت "برلین" پہنچے۔ یہ دورہ چند دن تک رہے گا جس کے دوران پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب مغربی دنیا کے لۓ ایک عالمی خطاب پیش کریں گے۔ دورے میں امام...
First45678101213

روزه اور قرآن
  رمضان  كے رروزے ركھنا، اسلام كے پانچ  بنيادى   اركان ميں سے ايك ركن ہے،  يہ  ہر مسلمان بالغ ،عاقل ، صحت...
اتوار, 24 اپریل, 2022
حجاب اسلام كا بنيادى حصہ
جمعه, 25 مارچ, 2022
اولاد کی صحیح تعلیم
اتوار, 6 فروری, 2022
اسلام ميں حقوقٍ نسواں
اتوار, 6 فروری, 2022
123457910Last

دہشت گردى كے خاتمے ميں ذرائع ابلاغ كا كردار‏
                   دہشت گردى اس زيادتى  كا  نام  ہے جو  افراد يا ...
جمعه, 22 فروری, 2019
اسلام ميں مساوات
جمعرات, 21 فروری, 2019
دہشت گردى ايك الميہ
پير, 11 فروری, 2019
1234567810Last