ايك دفعہ كا ذكر ہے كہ ايك شیطان اپنے قبيلہ كو چهوڑ كر كہيں اور جانا چاہتا تها۔ راستہ ميں اسے ايك خيمہ نظر آيا ، اس نے دل ميں تان لى كہ جانے سے پہلے وه خيمہ ميں رہنے والوں كو كسى نہ كسى طريقہ سے تكليف ضرور دے گا، اس نے خیمے میں جا کر دیکھا کہ ایک گائے کو کھونٹی سے بندھی ہوئی ہے اور ایک عورت اس گائے کا دودھ دوہ رہی ہے۔ چنانچہ اس نے اٹھ کر کھونٹی کو ہلكى سى حرکت دی تو گائے ڈر گئی اور دودھ زمین پر گر گیا، اور، گائے اس عورت کے بچے كى طرف بھاگی اور اس بچے كو مار ڈالا۔ عورت نے غصے میں آکر گائے کو چھری سے مارا اور قتل كر ديا ، جب اس کے شوہر نے واپس آکر اپنے بچے اور گائے کو دیکھا تو اس نے اپنی بیوی کو زور سے مارا اور اوپر سے اس كو طلاق بهى دے دی۔ تهوڑى دير ميں عورت کے گھر والے بهى آپہنچے اور شوہر كو بہت مارا پیٹا، پهر شوہر کے گھر والے بهى آگئے، اور دونوں خاندانوں کے درمیان بہت بڑى لڑائی ہوئى۔ يہ سب ديكہ كر شیطان کا خاندان حیران ہوگيا اور اس سے پوچھا: تم نے يہ سب كيسے کیا؟ اس نے جواب ديا: کچھ نہیں، میں نے صرف کھونٹی کو حرکت دی ہے۔
انتہا پسند گروہ ایسے ہی شیطانی کام کرتے ہیں۔ جہاں وه سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس کے ذریعے بہت سی غلط فہمیاں پھیلا کر نوجوانوں کو اپنى طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور شیطان ہر راستہ سے آدم ؑ کی اولاد کو بھٹکانے کے لئے زور لگاتا رہتا ہے. مثال کے طور پر برصغیر میں القاعدہ نے پولیس كے افراد کو نشانہ بنانے يا انہيں مار ڈالنے كے جواز پر ایک مضمون شائع کیا۔ اس مضمون كے مطابق پوليس والے حكومت کی حمایت کرتے ہیں، اس حكومت كى جو انتہا پسند گروہوں كى نظر ميں ظالم اور كافر ہيں تاہم ان كو مارنا ان كے نقطہ نظر ميں نہ صرف حلال ہوتا ہے بلكہ الله سے قربت حاصل كرنے كا ايك راستہ بهى۔ بدقسمتی سے ان جھوٹے فتووں کی بنیاد پر فوج اور پولیس کو تقریباً روزانہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حاليہ دنوں پاکستان میں پولیو ٹیموں پر حملوں کی اطلاعات بھی وقتاً فوقتاً میڈیا کے ذریعے سامنے ملتی رہتی ہیں۔ یہ درحقیقت اس غلط پراپیگنڈا کا نتیجہ اور ردعمل ہے جس میں ناخواندہ لوگوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پولیو کے قطرے درحقیقت انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کی مغربی سازش ہے اس لئے اس قسم کے قطرے پلانے والوں کو اس عمل سے جبراً روکا جائے۔چنانچہ انتہاپسند اس پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر پولیو ٹیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس كے علاوه داعش افغانستان اور پاکستان میں شیعوں کے قتل کے فتوے بهى جاری کر تے رہتے ہیں۔اسى لئے وه افغانستان کی شیعہ ہزاراہ اقلیتی برادری کا سخت دشمن رہا ہے۔ افغانستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کی مساجد میں داعش کے خود کش حملوں میں اب تك ہزاروں افراد ہلاک اور لاكهوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسى طرح وہ عیسائیوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کا کام بهى کر رہےہیں اور اپنے پیروکاروں کو ان کو قتل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ حالانكہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص ایسی جان کو مار ڈاے جس سے عہد کر چکا ہو (اس كو امان دے چکا ہو) جیسے ذمی يا کافر کو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا حالانکہ بہشت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے معلوم ہوتی ہے۔“ [صحيح البخاري]۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی ذمی اور معاہد کو بلاوجہ اور کسی شرعی حق کے بغیر قتل کرنا حرام ہے۔
اس كے ساتھ ساتھ داعش نے اپنے پيروكاروں سے کہا ہے کہ داعش جوائن کرنے سے پہلے اپنے ہی رشتہ داروں کو قتل کرنا ضروری ہے۔ اس فتوی کا اہم مقصد واپسی کا راستہ بند کرنا ہے تاکہ داعش میں شرکت کے بعد اگر کوئی ممبر پشیمان ہوتا ہے تو واپس نہ جاسکے ۔ اس فتوی کی بنیاد پر كئى واقعات بهى رونما ہوچکے ہیں جن میں مختلف افراد داعش جوائن کرنے سے قبل اپنے رشتہ داروں کو قتل کرچکے ہیں، گویا یہ وہی ہے جو شیطان نے کھونٹی کو ہلا کر گائے کو آزاد کرتے وقت کیا تھا، ان فتووں کو شائع کرنے کا مقصد دنيا میں لا اینڈ آرڈر کو خراب کر کے افراتفری پھیلانا ہے، اورعلما کے مطابق ان اقدامات کا مقصد صرف دنیا میں اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنا ہے۔ یہ فتوے ہر لحاظ سے غلط ہیں اور ان سے مسلمانوں کے بارے میں بہت ہی غلط تصور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ دراصل جن لوگوں نے اس قسم کے فتوے جاری كئے ہيں وه مسلمان نہیں کیونکہ اسلام دہشت گردی کی نہیں بلكہ امن کی تعلیم دیتا ہے۔ گویا وہ اور شیطان ایک جیسے ہیں۔ شیطان نے عورت کو نہیں مارا اور نہ دونوں خاندانوں کو آپس ميں لڑایا بلكہ اس نے بس اس کھونٹی کو حرکت دی جس سے گائے بندھی ہوئى تھی۔ یہاں بھی وہی ہوا ان فتووں كو جارى كرنے والوں نے اپنے ہاتهوں سے پولیس یا عوام کو قتل نہیں کیا بلکہ صرف اس كهونٹى كو حركت دى!