علم اور جہالت دو متضاد چيزيں ہيں جو بالكل بهى برابر نہيں ہو سكتيں، علم سے ہى انسان كو الله ربّ العزت اور اپنى پہچان حاصل ہوتى ہے، الله تعالى فرماتا ہے: (اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے) (سورۂ بقره: 282) علم سے اچهے برے كى تميز ہوتى ہے، علم سے سيدهے راستے كا تعين ممكن ہو جاتا ہے، جو انسان كو نہ صرف اپنے رب تك ، بلكہ دنيا ميں بهى اسى راستہ پر چلنا ہى اس كو كاميابى كى منزل تك پہنچا سكتا ہے. الله تعالى نے رسولِ كريمؐ كو حكم ديا كہ آپ اپنے رب تعالى سے علم كى دعا كرتے رہيں: (اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے) (سورۂ طہ: 114)
علم كا مطلب ہے " جاننا" اورحقيقى معرفت تك پہنچنے كے لئے صرف يہ كافى نہيں كہ آدمى كے پاس الفاظ اور معلومات كا ذخيره ہو، بلكہ يہ بهى ضرورى ہے كہ اس كے اندر صحيح سوچ اور فكر ہو- الله كا ڈر آدمى كے اندر يہى صحت مند فكر پيدا كرتا ہے۔ آدمى جتنا زياده سنجيده ہو اتنا ہى زياده اس كے اندر اچهے فكر كى صلاحيت پيدا ہوتى ہے، اور الله رب العزت كا ڈر ہى آدمى كو سب سے زياده اس قابل بناتا ہے كہ وه صحيح اور درست طريقہ سے سوچ سكے۔
علم اور خشيت الہى يا تقوى دونوں لازم وملزوم ہيں- انسان كے پاس جتنا دين اور دنيا كا علم زياده ہوگا، اتنا ہى اس كے دل ميں الله تعالى كا ڈر اور خوف ہو گا۔ اگر دل ميں علم تو ہو، ليكن الله كا ڈر نہ ہو تو ايسے علم كا كوئى فائده نہيں ہے، بلكہ ايسا علم ہلاكت اور تباہى كا سبب بن سكتا ہے - ارشادِ بارى تعالى ہے: (انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ بےشک خدا غالب (اور) بخشنے والا ہے) (سورۂ فاطر: 28)
الله تعالى نے كتمان علم كى سزا قرآنِ حكيم ميں ان الفاظ ميں بيان كى ہے: (جو لوگ (خدا) کی کتاب سے ان (آیتوں اور ہدایتوں) کو جو اس نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے اور ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں محض آگ بھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خدا قیامت کے دن نہ کلام کرے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا۔اور ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے ( 174 ) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی اور بخشش چھوڑ کر عذاب خریدا۔ یہ (آتش) جہنم کی کیسی برداشت کرنے والے ہیں!) (سورۂ بقره 174: 175) اور رسول اللهؐ نے فرمايا: «جس شخص سے علم كے باره ميں سوال كيا گيا، اور اس نے اسے چهپايا تو اسے قيامت كے دن اس كے منہ ميں آگ كى لگام پہنائى جائے گى۔»
الله كا ڈر آدمى كے الفاظ اور معلومات كے لئے ايسا ہى ہے جيسے سانچہ خام اشياء كے لئے سانچہ خام اشياء كو بامعنى صورت ميں تبديل كرتا ہے۔ اسى طرح الله كا ڈر الفاظ اور معلومات كو معرفت ميں ڈهال ديتا ہے۔
علم حاصل كرنا اور اس كے بعد اپنے دين كو اچهى اور صحيح طرح سمجهنا ايك بہت ہى عظيم عمل ہے- ارشادِ بارى تعالى ہے: (اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے) (سورۂ توبہ: 122) دين كى سمجھ اور فہم وراست الله ربّ العزت كى طرف سے ہوتى ہے۔ چنانچہ ارشادِ بارى تعالى ہے: (وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں) (سورۂ بقره: 269)
حقيقى عالم وه ہے جس كے دل ميں الله كا خوف ہو حضرت عبد الله بن مسعود فرماتے ہيں: "علم بہت زياده احاديث كو ياد كر لينے كا نام نہيں، بلكہ علم، كثرتِ خشيت الہى كا نام ہے۔" اس سے واضح ہوتا ہے الله كے ہاں عزت وتكريم كى مقدار تقوى كے مطابق ہے، اور تقوى كى مقدار علم كے مطابق۔ علم اور معرفت كى وجہ سے ہى الله نے انسان كو اشرف المخلوقات كا مرتبہ ديا اور علم ہى وه خزانہ ہے جو انسان كو امير بناتا ہے ، پس جس انسان كى جهولى اس خزانہ سے خالى ہو وہى حقيقى فقير ہو تا ہے، علم ہى انسان كو طاقت بخشتا ہے، رسول پاك پر نازل ہونے والا پہلا لفظ " اقرا" تها جو اس بات پر تاكيد كرنے كے لئے كافى ہے كہ " امت اقرا" كا حال اس وقت تك بہتر نہيں ہوسكتا جب تك وه اس حكم الہى كى تعميل نہ كرے !!