انسانی حقوق (Human rights) آزادى اور حقوق کا وہ نظریہ ہے جس کے تمام انسان یکساں طور پر حقدار ہیں- اس نظریہ میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جس کے تحت كره ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر بنیادی ضروریات اور سہولیات کے لحاظ سے حقوق کے حقدار ہیں-
آفاقی فلسفہ میں انسانی حقوق اس طرح ہمیشہ سے بنیادی ضرورت رہتے ہیں اور حقوق کے حصول کے لیے کسی بھی خطے یا معاشرے میں انسانی اخلاقيات، انصاف، روایات اور قدرتی طور پر سماجی عوامل کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کے نظریے کو اسی وجہ سے معاشرتی طور پر عوامی رائے اور قومی و بین الاقوامی قوانین کی مدد سے نافذ کیا جاتا ہے۔
اِنسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔اسلام انسانوں كو اس كے تمام حقوق عطا كرتا ہے اور انسان كو اس كے تمام حقوق كى ضمانت ديتا ہے - كيونكہ اسلام كا انسان كے بارے ميں يہ تصور ہے كہ تمام انسان ايك باپ اور ايك ماں سے پيدا ہوئے ہيں، قوموں اور قبيلوں ميں تقسيم باہمى تعاون اور تعارف كے ليے ہے قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت دی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
)وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً ((سورةالإسراء:70)
”اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیا “
حقوق ِانسانی کے سلسلہ میں اسلام کا تصور بہت ہی واضح اور اس کا کردار بالکل نمایاں ہے ۔ اس نے فرد اور جماعت اور مختلف سطح کے افراد اور طبقات کے حقوق کا تعین کیا اور عملاً یہ حقوق فراہم کیے ۔ جن افراد اور طبقات کے حقوق ضائع ہور ہے تھے ان کی نصرت وحمایت میں کھڑا ہوا اور جو لوگ ان حقوق پر دست درازی کر رہے تھے ان پر سخت تنقید کی اور انہیں دنیا اورآخرت کی وعید سنائی ،معاشرہ کو ان کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم وترغیب دی۔ قرآن مجید انسانی حقوق کی ان کوششوں کی اساس ہے اور احادیث میں ان کی قولی وعملی تشریح موجود ہے –
انسانى حقوق ، قرآن و سنت كے آئينہ ميں
اسلام نے انسانى حقوق كى آزادى كے ليے جو تصور پيش كيا ہے وه ہميں كہيں اور نظر نہيں آتا - اسلام جملہ شعبہ ہائے حيات ميں اعتدال اور توازن كا درس ديتا ہے- حضور اكرم صلى اللہ عليہ وسلم نے خطبہ الوداع كے موقعہ پر يہ واضح كرديا كہ كسى كو كسى پر كوئى فوقيت نہيں، فوقيت اس كى ہے جو تقوى اختيار كرتا ہے، جو الله رب العزت سے ڈرتا ہے اور جو اس سے ڈرے گا وه نہ صرف انسان بلكہ تمام مخلوقات كے حقوق كا احترام كرے گا. اسلام ايك نظريہ حيات ہے اور اس كى عملى مثال مدينہ منوره كى وه اسلامى رياست ہے جہاں انسانوں كے تمام اختلافات كو ختم كر كے ان كو ايك برادرى كى صورت ميں جمع كرديا گيا-
اور قرآن كى شكل ميں عطا كرده دستور حيات كے ذريعے حقوق انسانى كو بهى اسلامى قانون كا ايسا جز وبنا ديا ہے جو قيامت تك ختم نہيں ہو سكتا –
- زندہ رہنے اور حفاظت جان کا حق
انسانى حقوق ميں سب سے پہلے انسانى جان كا تحفظ ہے قرآن نے كہا ہے كہ "مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا:جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہو"ا (المائدة: 32) اسلام كى نظر ميں ايك انسان كى جان بچانا پورى انسانيت كو بچانے كے برابر قرار ديا گيا ہے
اسلام نہ صرف کسی امتیاز رنگ و نسل کے بغیر تمام انسانوں کے درمیان مساوات کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے ایک اہم اصول حقیقت قرار دیتا ہے اور اگر كسى كو كسى پر فضيلت ہے تو وه اخلاق كے اعتبار سے ہے- فرمايا گيا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
(يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ) (الحجرات:13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔ اس آيت مباركہ ميں يہ بتايا گيا كہ تم سب كى اصل ايك ہے، اگر خلافت راشده كے دور كو ديكهيں تو وہاں پر بهى ہميں تمام انسانوں كے ليے مساوات اور برابرى كے اصول بر قرار نظر آئيں گيں .
انسانى حقوق ميں سے انسان كى پرائيويٹ لايف جو اسلام نے اس كو كما حقہ تحفظ فراہم كيا ہے اور اس كے ليے بهى كچھ اصول وآداب مقرر كيے ہيں (1) كسى كے گهر ميں بغير اجازت داخل ہونے كى اجازت نہيں- اجازت لے كر داخل ہونے پر السلام عليكم كہا جائے- (2) اجازت نہ ملنے پر بغير داخل ہوئے ايسے گهر سے واپس ہونے كى تعليم دى گئى ہے- (3) البتہ غير آباد گهروں ميں داخل ہونے كى اجازت ہے- (4) دوسروں كے گهروں ميں جانے كے ليے تين اوقات احتراز كرنے كا حكم ديا گيا ہے كيونكہ يہ آرام كرنے اور سونے كے اوقات ہيں- نماز فجر سے پہلے، ظہر كے بعد قيلولہ كے وقت اور نماز عشاء كے بعد، گهروں ميں كام كرنے والے نا بالغ بچے جوان ہونے كے بعد دوسروں كى طرح اجازت لے كر داخل ہوں-
نبى اكرم صلى اللہ وسلم نے كسى كے گهر داخل ہونے كے ليے تين دفعہ دستك دينے كى تعليم دى ہے اور گهر والے نام پوچهيں تو "ميں ہوں" كہنے كى بجانے اپنا نام اور شناخت بتانى چاہيے اس كے بعد اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو ورنہ واپس چلا جائے-
بلا شک وشبہ اظہار رائے انسان كے حقوق ميں سے ایک اہم ترين حق ہے . کیونکہ اس کے ذريعہ انسان مختلف مسئلوں کے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش كرتا ہے خواه يہ مسئلے ذاتى ، سماجى يا خاندانى مسئلے ہی کیوں نہ ہو ۔اسلام ميں اظہارِ رائے حاكم اور محكوم دونوں پر فرض ہے۔ حاكم كا شورى اور انصاف كى تحقيق كے ذريعہ اور محكوم كا ذاتى يا جماعى طور پر ۔حضرت محمد ؐنے اپنے صحابيوں کو اظہارِ رائے كا موقع ديا اور خلفائے راشدين نے بهى اپنی رعيت كو مكمل آزادى دى جو نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں کے لئے بھی تھی۔ ایک دفعہ ایک عورت نے حضرت عمرt کے رائے کی مخالفت كى جس پر حضرت عمر tنے کہا " ایک عورت ( كى رائے ) صحيح نكلى جبكہ عمر ( كى رائے ) غلط نكلى ...
آخر ميں اسلام پورى انسانيت كے لئے آيا تهااور اسلام نے انسان کی انسانیت كا احترام كيا ہے۔ اسى لئے اُس نے اسى انسانيت كی تحقيق كے لئے اس كے لئے حقوق طے کئے ہیں۔ اور اس كے مقام کے مطابق اُس پر واجبات بهى عائد كئے ہیں۔ انسانى معاشروں ميں فرق، تعدد اور تنوع ايك خاص مفہوم اور قاعدے پر مبنى ہونا چاہيے كيونكہ اس مفہوم كا اصل مصدر قرآن پاك ہے اور يہ الله رب العزت كےى موجودگى اور قدرت كا ثبوت ہے .