كيا اخلاق ميں تبديلى لانا ممكن ہے؟

اسلام ميں اخلاق: حصہ دوم

  • | بدھ, 11 اپریل, 2018
كيا اخلاق ميں تبديلى  لانا ممكن ہے؟

اس سوال كے جواب ميں مفكرين كا اختلاف ہے، بعض لوگوں كى رائے ہے كہ اخلاق ثابت  ہوتے ہيں ، اچها انسان اچهے كام كرتا ہے، اور برا انسان برے !!  اور يہ سلسلہ تا ابد  چلتا  رہتا ہے، ايسے ہى جيسے گدها  پورى زندگى لاچار  رہتا ہے  اور چيتا پيدا ہوتے ہى چير پهاڑ كرنے والا شكارى بن جاتا ہے.

اسى طرح بعض لوگوں كى رائے ہے كہ علمِ اخلاق ميں بهى كسى انسان كے اخلاق كو اچهے اور بہتر اخلاق سے بدلنے  كى صلاحيت نہيں ہے، پس علمِ اخلاق كى ذمہ دارى لوگوں كى عام ذمہ داريوں سے زياده نہيں ہےبالكل ويسے ہى جيسے طبيعى تاريخ نے كائنات كے نظام كى صفت بيان كى ہے، تو اس نظريہ كے اعتبار سے انسان اچهى يا برى فطرت كے تقاضوں كے مطابق اچهے يا برے كام كے كرنے پر مجبور ہے، اور انسان جو آزادى يا اراده كا اختيار محسوس كرتا ہے وه صرف ايك جهوٹا احساس ہے-

 بعض لوگوں كى رائے ہے كہ اخلاق تبديلى كو قبول كرتا ہے، اور اچهے برے اخلاق كو حاصل كرنے كے سلسلہ ميں ہر انسان كے اندر دوہرى صلاحيت ہوتى ہے. سقراط وه پہلا شخص ہے جو علم كے ذريعہ اخلاق كى تبديلى كا قائل ہے، ان  كى نگاه ميں علم فضيلت  اور جہالت رذيلت ہے.

اسلام ميں اخلاق كے فلسفے  بهى اسى رائے كى تاكيد كرتے ہيں كہ اخلاق سنوارا اور تبديل كيا جا سكتا ہے، اور اس كى دليل يہ پيش كرتے ہیں كہ: اگر اخلاق كا بدلنا نا ممكن  ہوتا تو آسمانى كتابوں اور رسولوں كے اتارے جانے كى كوئى وجہ نہ ہوتى ، اور قانون وشريعت اور مربى ومصلح كى دعوت وتبليغ كا كوئى معنى نہ رہتا. ليكن جب الله تعالى نے لوگوں كو بشارت دينے اور خوف دلانے كيلئے رسولوں كو بهيجا اور ان كے ساتھ ہدايت اور شريعت كو نازل فرمايا تاكہ لوگوں كى خصائل  وعادات اور طبيعت كى اصلاح ہوسكے، تو اخلاق كا خير اور شر كو قبول نہ كرنے والى بات درست نہیں ہو سكتى.

اس موضوع كے تحت آنے والى قرآن كى تمام آيتيں اس رائے كى تاييد كرتى ہيں كہ انسان دوہرى صلاحيتوں  كا مالك ہے، ارشاد الہى ہے:

"ہم نے اسے راه دكهائى اب خواه وه شكر گزار بنے خواه نا شكر" (سورۂ انسان: 3). "ہم نے دكها ديئے اس كو دونوں راستے" (سورۂ البلد: 10). "قسم ہے نفس كى اور اسے درست بنانے كى (7) پهر سمجھ دى اس كو بد كارى كى اور بچ كر چلنے كى" (سورۂ الشمس: 7، 8).

اخلاق ميں  تبديل ہونے كى صلاحيت  كے سلسلہ ميں امام غزالى اس حديث نبوى سے استدلال كرتے ہيں: "اپنے اخلاق كو اچها بناؤ"، اگر اخلاق كا تبديل ہونا ممكن نہ ہوتا تو  رسولِ اكرم ايسا واضح اور صاف حكم ہرگز نہ ديتے ، اور نہ  ہى انسانوں كو ترغيب وترہيب اور وعظ ونصيحت كى ضرورت ہوتى، جب جانوروں كے اخلاق بدلے جاسكتے ہيں  تو  اس انسان كے كيسے بدلے نہيں جاسكتے جس كو الله رب العزت نے اشرف المخلوقات كا درجہ ديا !!!

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.