حقوق كے سلسلے ميں الله نے نہ صرف اپنےحقوق ادا كرنےكى تاكيد كى ہے ، بلكہ حقوق العباد كى ادائيگى كو بہت بلند مرتبہ عطا كيا ہے ، ان حقوق ميں والدين كے حقوق سر فہرست ہيں . دنيا كے تمام بڑے مذاہب نے والدين كى تعظيم وتكريم اور ان كى خدمت كى تلقين كى ہے،ارشاد بارى ہے :" وبالوالدين إحساناً"[البقرة: 83]،ترجمۂ:(اور ماں باپ كے ساتھ نيك برتاؤ كرو"۔انسانى زندگى كے ديگر معاملات كى طرح والدين كے حقوق كے مسئلہ ميں بھى اسلام ميں ہمہ گير وہمہ جہت احكام موجود ہيں۔
اللہ تعالى نے قرآن پا ك ميں جہاں اپنے حقوق كو بيان فرمايا ہے وہاں والدين كے حقوق كى نشان دہى بھى كى ہے ، اس كى وجہ يہ ہے كہ والدين اللہ تعالى كى حقيقى شان ربوبيت كى مجازى مثال ہيں ،جس طرح اللہ تعالى نے اپنى تمام مخلوق كے معرضٍٍِ وجود ميں جينے اور نشو ونما كے لئے انتظام فرما ديا ہے، اس طرح اولاد كے وجود كے لئے والدين كو ذريعہ بنايا ہے لہذا والدين بھى انسان كے تشكر كے مستحق ہيں۔اللہ تعالى كا ارشاد ہے:"وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحساناً"[البقرة:23]،ترجمۂ(اور تيرے رب نے حكم ديا ہے كہ بجز اس كے كسى عبادت مت كرو اور ماں باپ كے ساتھ حسن سلوك كرو)۔يہ امر لائق توجہ ہے كہ اطاعت الہى كے حكم كے ساتھ ہى والدين كے ساتھ حسن سلوك كاحكم دے كر اللہ رب العزت نے سے نظريہ توحيد كے ساتھ منسلك كر ديا ، اسى بات سے حقوق والدين كى خصوصى اہميت ظاہر ہوتى ہے۔
اللہ تعالى بوڑھے والدين كى شان ميں معمولى نا گوار لفظ كے استعمال سے بھى منع فرماتے ہيں،بڑھاپے كا ذكر خصوصيت سے اس لئے كيا گيا ہے كہ اس عمر ميں ماں باپ بعض مرتبہ چڑچڑے ہوجاتے ہيں، بيمارياں لاحق ہوجاتى ہيں، اس لئے ايسے موقع پر اولاد كو صبر وتحمل كى تلقين كى گئى ہے،جب "اف" تك كہنا جائز نہيں تو والددين كو جھڑكنے سے احتراز كرے بلكہ والدين سے ادب سے بات كرنے كا حكم ہے۔
والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنے كى بہت اہميت حامل ہے،حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روايت ہے كہ ميں نے حضور پاك ؐ سے دريافت كيا كہ سب كاموں ميں اللہ تعالى جل شانہ كو كون سا كام زياده پسند ہے؟حضور پاك ؐ نے فرمايا :" بروقت نماز پڑھنا "،ميں نے عرض كيا اس كے بعد كون سا عمل زياده محبوب ہے،فرمايا:" والدين كے ساتھ حسنٍٍِ سلوك كا برتاؤ كرنا"، ميں نے عرض كيا اس كے بعد كون سا عمل اللہ تعالى كو زياده پسند ہے، آپؐ نے فرمايا:"الہ تعالى كى راه ميں جہاد كرنا"۔
ماں باپ كى موت كے بعد بھى حسن سلوك اور ادائيگى حقوق كا اہتمام ہونا چاہئے ، انسان كى موت كے ساتھ سلسلہء حصول ثواب ختم ہوجاتا ہے مگر بعض خاص صورتوں ميں قائم بھى رہتا ہے، اس ضمن ميں اچھى اولاد كے لئے يہ حديث راه نما ئى كرتى ہے:حضرت ابوہريره سے روايت ہے كہ حضور پاكؐ نے ارشاد فرمايا كہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس كے سب اعمال ختم ہوجاتے ہيں،ليكن تين چيزوں كا نفع اسے پہنچتا رہتا ہے ،"صدقہ جاريہ،ايسا علم جس سے لوگ نفع حاصل كرتے ہوں ،نيك اولاد جو اس كے لئے دعا كرتى ہو""۔
انسان پر والدين كى اطاعت وعزت ہر حال ميں لازم ہے سوائے اس حكم كے جو براه راست اللہ كے حكم سے متصادم ہو ، ليكن اس حالت ميں بھى رب العزت نے حكم ديا كہ دنيا ميں اپنے مشرك والدين كے ساتھ نيك برتاؤ اور نيك سلوك كرو اور بھلائى سے پيش آؤ،ارشاد ربانى ہے:"ووصينا الإنسان بوالديه حسناً وإن جاهداك على أن تشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما"[العنكبوت:8]، ترجمہ:((ہم نے انسان كو اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك كا حكم ديا ہے، اگر وہ تجھ پر زور ڈاليں كہ تو ميرے ساتھ كسى ايسے معبود كو شريك ٹھہرائے جسے تو نہيں جانتا تو تو ان كى اطاعت نہ كرو) ۔