اس دنيا ميں تمام انسانى رشتےلين دين كےاصول پر مبنى ہيں، جيسا كرنا ويسا بهرنا ... جيسا بو گے ويسا ہى كاٹو گے ، جيسى عبارات ہم ہميشہ سےسنتےآرہے ہيں . ہم سب پر كچھ فرائض واجب ہيں ، اور اسى طرح زندگى كے مختلف مراحل ميں ہمارے مختلف حقوق بهى ہوتے ہيں . اس دنيا ميں انسان كا جس سے بھى كوئى رشتہ يا ناتا ہے ، اس پر اس كے كچھ نہ كچھ حقوق ضرور ہوتے ہيں، كچھ لوگ تو حقوق مانگ كر لےليتے ہيں، ليكن كچھ ايسے بھى ہوتے ہيں جو مانگنے كى طاقت نہيں ركھتے، انھيں حقوق خود دينے پڑتے ہيں، بچہ جب پيدا ہوتا ہے تو اس كى پيدائش كے ساتھ ہى اس كے والدين پر كچھ حقوق عائد ہوجائے ہيں كيونكہ وه خود نہيں مانگ سكتا، وه اپنا حق طلب كرنے سےقاصر ہوتا ہے ۔
اسلام ميں جس طرح والدين كے اولاد پر حقوق ہيں، اسى طرح اولاد كے كچھ حقوق والدين پر بھى عائد ہيں،دوسرے مذاہب نے ماں باپ كے حقوق كى تو نشان دہى كى ہے، ليكن اولاد كے حقوق كے معاملے ميں كچھ نہيں كہا، اسلام كو چونكہ ہر طبقے كے افراد كى كار كردگى كى اصلاح كرنا اور معاشرے ميں اعتدال قائم كرنا تھا، لہذا اس ميں اولاد كے متعلق بھى والدين كو پابند كيا گيا، اور اس كى بنياد انس رضہ سے مروى وه حديث ہے جس ميں رسول اللہ ؐ نے فرمايا:" جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ كرے اور بڑوں كى عزت نہ كرے، وه ہم ميں سے نہيں"۔
(1)والدين كا اولاد پر پہلا حق يہ ہے كہ وه ان كى حفاظت كريں اور اس پہلے حق ميں شامل ہے كہ مائيں اپنے بچوں كو دودھ پلائيں ، كيونكہ اسى دودھ سے ان كى نشو ونما ہوگى، ان كے اندر قوت وتوانائى آئے گى اور يوں ان كى حفاظت ہوگى، ماؤں كے اس حق كو اللہ تعالى نے يوں فرمايا ہے:﴿ والوالدت يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة وعلى المولو د له رزقهن وكسوتهن بالمعروف﴾، ترجمہ :" مائيں اولاد كو دو سال كامل دودھ پلائيں جن كا اراده دودھ پلانے كى مدت پورى كرنے كا ہو اور باپ كے ذمے دستور كے مطابق ان ماؤں كا روٹى كپڑا ہے"۔
والد پر فرض يہ ہےكہ بچے اور اس كى والده كى كفالت كرے ، اور ان كے اخراجات برداشت كرے
(2) والدين پر يہ فرض بھى ہے كہ اولاد كوم حبت ارو شفقت سے پاليں اور مناسب پرورش كريں ، حضور پاك ؐ نے فرمايا كہ"جو رحم نہيں كرتا، اس پر رحم نہيں كيا جائے گا"۔
(3) والدين پر اولاد كا ايك حق يہ بھى ہے كہ وه اپنى اولاد كے درميان فرق نہ كريں، تمام اولاد كساتھ ايك جيسا سلوك كريں ، كيونكہ نبى كريم ؐنے اولاد كے درميان مساوات قائم كرنے كاحكم فرمايا ہے، جيسا كہ ايك صحابى نے اپنے بيٹوں ميں سے كسى كو ايك غلام ہبہ كيا، وہ چاہتے تھے كہ اس بات پر نبى كريم ؐگواه ہوں،آپ ؐ نےان سے پوچھا "كيا تم نے اپنے ب(دوسرے) بيٹے كو بهى ايك ايك غلام ہبہ كيا ہے؟، انھوں نے عرض كيا:جى نہيں ، نبى كريم ؐنے فرمايا:"ميں ايسے ظالمانہ عطيے پر گواه نہيں بنوںگا"۔
(4) والدين كا ايك حق يہ بھى ہے كہ والدين انھيں اچھى تعليم دلائيں، والدين پر فرض ہے كہ وه خود بھى علم حاصل كريں اور اپنى اولاد كو بھى علم كى دولت سے مالا مال كريں،والده كى گود بچے كےليے پہلى اور بہترين درس گاه ہے ، حقيقت ميں انسان كى سيرت ماں كى گود ميں بنتى اور سنورتى ہے، بچے كا سب سے زياده رابطہ ماں كے ساتھ ہوتا ہے اور بچہ ماں اور اس كے ماحول كا اثر قبول كرتا ہے، لہذا والد ہ ہى بچے كو ابتدائى تعليم دے تاكہ اسے دين فطرت يعنى اسلام كى خوبيوں كا علم ہو اور اس كى زندگى اسلام كے سانچے ميں ڈھل سكے، اس كے علاوه بچے كو سائنسى تعليم كى ترغيب بھى دى جائے ، كيونكہ سائنسى علوم كو حاصل كرنے سے انسان كار خانہ قدرت ميں اس كے قوانين سے آگاه ہوگا اور اللہ كے احكام كے مطابق كائنات كى تسخير كا فريضہ انجام دے سكے گا اور اس طرح حقيقى معنوں ميں زمين ميں خليفہ ہونے كا خود كو حق دار ٹھہرا سكے گا۔
(5) اولاد كا اہم حق ہے ، اخلاق كى تربيت ، اسلام ميں صرف ذاتى نجات كافى نہيں ، اسلام يہ ذمے دارى ہر شخص كے سپرد كرتا ہے كہ وہ دوسروں كى نجات كا بھى بندوبست كرے ،خاندان كے سربراه كا يہ فرض ہے كہ وه اہل وعيال كى ايسى تربيت كرے كہ وه اللہ كى عظمت كے قائل ہوں ، اللہ كے احكام كو مانيں اورآخرت كى فكر كريں، دنيا وى خوش حالى كے علاوه ابدى زندگى ميں سرخروئى كا خيال كريں جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:﴿ يا أيها آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم ناراً وقودها الناس والحجارة﴾، ترجمۂ:"اے ايمان والو! تم اپنے آپ كو اور اپنے اہل وعيال كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن انسان اور پتھر ہيں"۔
(6) اولاد كا والدين پر ايك حق يہ بھى ہے كہ اس كے لئے اچھا نام تجويز كيا جائے
بچے كے اس دنيا ميں آجانے كے بعد والدين كى ذمے دارى ہے كہ اس كا اچھا سا نام تجويز كريں، اچھے نام ركھنے سے مراد ايسے نام ہيں جن ميں عبوديت (اللہ كابنده ہونے) كا اظہار ہو، حضور پاك ؐ نے فرمايا :"تمہارے ناموں ميں سے اللہ كو سب سے زياده محبوب نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہيں"۔
(7) اخلاق وكردار كى اصلاح:
اخلاق اور كردار كے اعتبار سے بچے كى تربيت نہايت ضرورى ہے، رسول اللہ ؐ كى شان ميں قرآن كريم كے الفاظ ہيں:﴿وإنك لعل خلق عظيم﴾،ترجمہ: "اور آپ بڑے عمده اخلاق پر ہيں"، والدين كى ذمہ دارى ہے كہ اولاد كے عادات واطوار اور ان كى مصروفيات كى نگرانى كريں، اچھے اخلاق كے حصول كےليے ان كےدلوں ميں ايمان اور اللہ اور اس كے رسول ؐ كى محبت كا بيج بوئيں، بالخصوص اوقات فارغ كى نگرانى كريں اور ان اوقات كو مفيد طريقے سے استعمال ميں لانے كے ليے مفيد مصروفيات كا اہتمام كريں۔
والدين پر يہ بڑى ذمے دارى عائد ہوتى ہے كہ اولاد كو خير اور بهلائى كے كام كرنا سكھائيں، اخلاق كى بنيادى باتيں ان كے دل ودماغ ميں راسخ كريں، بچپن ہى سے انھيں سچائى، امانت ، استقامت،ايثار، پريشانيوں ميں گھر ے لوگوں كى مدد،بڑوں كا احترام ،مہمانوں كا اكرام ،پڑوسيوں كے ساتھ احسان اور دوسروں كے ساتھ محبت سےپيش آنے كا عادى بنائيں، تربيت دينے والے حضرات اس بات كے ذمے دار بهى ہيں كہ وه بچوں كى زبان كو گالى گلوچ اور بُرے الفاظ كہنے سے منع كريں جو دراصل اخلاق كى خرابى كا سبب بنتى ہيں، يہ حضرات اس بات كے بھى ذمے دار ہيں كہ بچوں ميں انسانى احساسات كا شعور بيدار كريں ، مثلا يتيموں كے ساتھ احسان، غريبوں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا، بيواؤں اور مسكينوں پر شفقت كرنا، ان سے ہمدردى وغيره برتنا ۔
خلاصہ كلام يہ ہے كہ بچے كى پرورش اور تربيت كے سلسلے ميں والدين پر كچھ حقوق عائد ہوتے ہيں، تو انھيں ان حقوق پر پورا اتارنے چاہيئے ،ورنہ اگروہ ان حقوق پر پورا نہيں اترتے تو انھيں دنيا ميں وآخرت ميں خطرناك نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا، والدين كى يہ ذمہ دارى ہے كہ وه اولاد كى تربيت كے حوالے سے ان كےحقوق كو پہنچانيں تاكہ دنيا وآخرت ميں سرخروئى حاصل ہو ۔