اسلام كے پانچ اركان ہيں، ان ميں ايك اہم ركن "حج" ہے- الله تعالى نے فرمايا: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا" (اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے) [سورۂ آل عمران: 97] حضرت عبد الله بن عباس نبى اكرم سے روايت كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا «فريضہ حج ادا كرنے كے لئے جلدى كرو كيونكہ كسى كو معلوم نہيں كہ اسے كيا عذر پيش آ جائے۔» [رواه احمد] "حج" كا معنى قصد اور اراده كرنا ہے- جبكہ "عمره" كا لفظ زيارت كے لئے استعمال كيا جاتا ہے۔ شريعت كى اصطلاح ميں مخصوص زمانے ميں، مخصوص فعل سے، مخصوص مكان كى زيارت كرنے كو حج كہتے ہيں۔
عمرے کی طرح حج کے لیے بھی پہلا کام یہی ہے کہ اِس کی نیت سے اِس کا احرام باندھا جائے۔ جبكہ حج کی تین قسمیں ہیں؛ اِفراد، قِران اور تمتع:
- افراد یہ ہے کہ عازم میقات سے صرف حج کا احرام باندھے عمرہ اس میں شامل نہ ہو اور احرام ہی کی حالت میں حج کے خاص ایام تک رہے حتیٰ کہ 10ذی الحجہ کو "رمی" اور" حلق" یا "قصر" کے بعد ہی احرام کھولے۔
- قِران یہ ہے کہ عازم میقات سے عمرہ اور حج دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کے تمام اعمال ادا کرے سوائے "حلق" یا "قصر" کے اور احرام ہی کی حالت میں 10ذی الحجہ تک بالکل اسی طرح رہے جیسے اِفرادوالے۔
- تمتع یہ ہے کہ عازم میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھے حج کو اس میں شامل نہ کرے اور مکہ پہنچ کر عمرہ کے اعمال پورے کرکے احرام کھول دے اور 8ذی الحجہ کو از سر نو مکہ سے حج کا احرام باندھے۔
الله تعالى كے ان احكام كى خلاف ورزى سے بچيں، الله رب العزت فرماتا ہے: "وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"
ترجمہ: (اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے) [سورۂ بقره: 196]۔
خلاصۂ قول يہ ہے كہ حج اسلام كے بنيادى اركان ميں سے ہے یہ فریضہ جو ہر عاقل وبالغ اور آزادمسلمان (مرد يا عورت) پر زندگى ميں ايك بار فرض ہے ، یہ بندۂ مومن پر زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہونے کے ساتھ بہت زیادہ ثواب کا حامل ہے۔ اس ميں الله تعالى كےاحكامات كى خالص اطاعت كے تمام پہلو روزِ روشن كى طرح عياں ہوتے ہيں. يہ ايك ايسى عبادت ہے جس ميں مسلمان اپنے رب كى خوشنودى حاصل كرنے كے لئے اپنا مال خرچ كرنے سے نہيں كتراتا، اس ميں مالى مشقت بهى ہوتى ہے اور جسمانى مشقت بهى، ليكن اس كى ادائيگى پر جو روحانى تسكين حاصل ہوتى ہے وه نا قابلِ وصف ہوتى ہے. الله ہم سب كو اس كى اطاعت كى قدرت عطا فرمائے، اور نيك اعمال ميں پہل كرنے كا شرف عطا فرمائے .