بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد للہ والصلاة والسلام على نبى الرحمة ورسول السلام محمد بن عبد اللہ وعلى آلہ وصحبہ
مسلم علماء كونسل كے فاضل اور جليل علماء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سب سے پہلے ميں دہشت گردى كى اُس مصيبت كے بارے ميں بات كرنا چاہتا ہوں جس سے سارى دنيا مبتلى ہے اور جو دور دراز ملكوں اور ان علاقوںتک پہنچ چکی ہے جس تک پہنچنے کا اندازه كافى مشكل تها. دہشت گردى كى يہ آفت لبنان اور علم و ثقافت كے شہر فرانس كے دار الحكومت پاريس تک پہنچ گئى ہے جس سے ديگر موت كى آغوش ميں چلے گئے اور كئى نوجوان اور معصوم شہرى شديد زخمى ہوئے جن ميں سے كئى زندگى اور موت كے درميان ہيں آپ اندزه لگا سكتے ہيں كہ كتنے فرانسيسى خاندان كے حالات پُر أمن اور خوشحالى كے بجائے غم ، اُداسى اور نا اُميدى سے بهر گئى ہے . ان معصوموں كو اس طرح كى مصيبتيں اور بربادى ديكهنے كا كيا قصور تها.
پاريس كے اس المناک واقعے كے بعد جمہوريہ مالى كا واقعہ برپا ہوا اور باماكو ميں كئى يرغمال كو بغير كسى جرم كے قتل كيا گيا .
الله ہى جانتا ہے كہ انسانيت كا مستقبل موت اور شر كى ان جماعتوں كے ہوتے ہوےکیسا ہوگا .
ہم نے سمجها تها كہ مشرقِ وسطى ميں عرب اور مسلمانوں كے ساتھ ہونے والى مصيبتيں اور بربادى جس كا شكار بشر ، حيوان اور حجر ہوئے ،اوربہت سے عرب ممالک جو اپنے لوگوں سميت موت گهاٹ برّ اور بحر ميں اتر گئے سے زياده كچھ بُرا نہيں ہو سكتا اور اس سے زائد زمانہ ہمارے لئے كيا چهپا سكتا ہے ؟!
ليكن يہ آفت تو مغرب ، شمال اور جنوب تک پهيل رہى ہے . اسى لئے ہم سب كے لئے يہ جاننا نہايت ضرور ہو گيا ہے كہ دہشت گردى دراصل عقيده اور فكرہے .اور بعضوں كے ہاں يہ زندگى كا ايک فلسفہ ہے جس كى وجہ سے وه اپنى زندگى قربان کرنے كے لئے تيار ہوجاتے ہيں . يہ كسى بهى آسمانى مذہب كى پيداوار نہيں بلكہ ايک نفسياتى اور فكرى بيمارى اور مرض ہے .
يہ مريض دينى نصوص اور مفسرين كى آراء كے پردے كے پيچهے چهپنے كى كوشش كرتے ہيں . جديد اور معاصر تاريخ سے ثابت ہوتا ہے كہ دہشت گردى صرف مذاہب كى غلط سمجھ یا فہم كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ دہشت گردى تو معاشرتى ، معاشى اور سياسى حالات كى پيداوار بهى ہے جس كى وجہ سے ہزاروں بلكہ لاكهوں مختلف جنگوں ميں مرے.
دنيا ميں ہونے والے ان سنگين حالات كو مدّ نظر ركهتے ہوئے ہميں يہ سبق اچهى طرح سيكهنا چاہيے كہ دہشت گردى كا كوئى مذہب يا كوئى شناخت نہيں ہوتى اور اس كو اسلام سے محض اسى لئے منسوب كرنا كہ وه الله اكبر كا نعره بلند كرتے ہوئے اپنے خوفناک جرم كا ارتكاب كرتے ہيں سراسر ظلم اور بڑى زيادتى ہے .
آج ہم ازہر ِ شريف اور مسلم علماء كونسل كے نام سے يورپ، افريقيا اور ايشيا ميں متاثرين كے خاندانوں كو تعزيت پيش كرتے ہيں . ہمارى سب سے – اور خاص طور پر مفكرين ، ادباء ، سياستدانوں اور علمائے دين-سے اُميد ہے كہ وه تمام امور كو اپنے نصاب ميں ركهيں اور اسلام اور اُس كى تہذيب وثقافت اور چند نادان اور جاہل مسلمانوں كے غلط افكار وخيالات كے درميان كوئى مقارنہ نہ كريں كيونكہ مسلمان ہى ان دہشت گردوں كى تشدد كا نشانہ ہيں جس كى وجہ سے خون كے دريا آج تک عرب دنيا ميں بہہ رہے ہیں۔
مسلمانوں كے ذہنوں ميں ان دہشت گرد جرائم اور كسى دين يا مذہب جس كے نام پر يہ جرائم كئے جاتے ہيں كے مابين بہت بڑا فرق ہے مغرب ميں جن لوگوں نے قرآن پاک كو نذرِ آتش كيا يا جنہوں نے مسجدوں كو شہيد كيا كو يہ جانننا چاہيے كہ يہ دہشت گردى كى ايک خطرناک صورت ہے اور يہ كاروائياں دہشت گردى كى آگ كو مزيد بهڑكاتى ہيں .دہشت گردى كے جواب ميں اسى طرح كى دہشت گردى كرنا نادانى ہے . ان تہذيب يافتہ اور ترقى يافتہ افراد سے دوسروں كى مقدسات كى توہين كرنا غير متوقع ہے .ٍ
محترم دانشور!
ہم سب كو يہ بوجھ جو روز بروز بهارى ہور رہا ہے ،اٹهانا ہوگا . ہمارى مہم نہايت پيچيده ہو گئى ہے : ہمارا فرض ہے كہ ہم عالمِ عربى اور اسلامى ميں بهڑكنے والى آگ كو بجهائیں۔
آج ہمارے درميان صوماليا كے وزير ِاوقاف اور مذہبى امور كے وزير عبد القادر شيخ على ابراہيم موجود ہيں ، اُن كى موجودگى ميں ہم صومالى قوم كى وحدت اور اس كى مشكلات كو حل كرنے پر عمل كر سكتے ہيں اس ملک ميں طويل عرصے سے بغير معقول سبب كے مشكلات درپيش آرہے ہيں جس كى قيمت اس ملك كے فقير لوگ چُكا رہے ہيں.
دہشت گردى كى اس آگ كو بجهانے كے لئے عالمِ عربى اور اسلامى كے تمام نامور علماء اور مفكرين كو متحد ہونا ہوگا اور ايک مكمل تعليمى، ثقافتى اور دينى نظام كى بنياد ركهنى ہوگئى .تمام دنيا ميں نفرت اور بغض كى ثقافت كو دور كرنے اور بهائى چارے اور اخوت كے مفہوم كى تعزيز كے لئے شيخ ازہر محمد مصطفى المراغى نے بہت پہلے 1936 ميں لندن ميں ہونے والى كانفرنس ميں دعوت دى تهى .
اس موقع ميں كاروان ِ امن ميں شريک ہونے والے نوجوانوں كا شكر ادا كرنا پسند كروں گا جنہوں نے يورپ ، امريكا ، افريقا اور ايشيا كے گياره مختلف ملكوں ميں امن وسلامتى كا علم اُٹها كر باہمى تعاون اور روادارى كى دعوت دى۔اسى غرض سے آج ہم دنيا كے سولہ مختلف ملكوں ميں كاروانِ امن بهيجنے كا اعلان كرتے ہيں جن كا شعار" انسانيت كى رُو ميں تمام قوميں ايک ہيں اور سب كو امن وامان سے رہنے كا حق ہے"ہے۔ان تعاليم كو پهيلانا ہمارا فرض ہے اللہ كى بركت سے ہم اس كى شروعات كرتے ہيں ہميں وہى كافى ہے اور وہى اچها كار ساز ہے .