حقوق كى ادائيگى ايك پُر امن اور خوبصورت معاشرے كى بنياد

  • | هفته, 2 نومبر, 2019
حقوق كى ادائيگى  ايك پُر امن اور خوبصورت معاشرے كى بنياد

     ہم كسى نہ كسى حيثيت ميں  ايك دوسرے كے حقوق  ادا كرنے كے ذمہ دار ہيں، حضور پاكؐ نے فرمايا:" ايك  مسلمان كے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہيں:پوچھا گيا، وه كون كون سے ہيں، آپؐ نے  فرمايا:"جب تو اسے ملے تو سلام كرے  (السلام عليكم كہے)، اورجب وه تجھے دعوت دے تو اس  كى دعوت قبول كر، اور جب وه تجھ سے خير خواہى طلب  كرے تو اس كى خير خير خواہى كر، اور جب اسے چھينك آئے اور الحمد للہ كہے تو  يرحمك اللہ  كہہ ، اور جب وه بيما ہو تو اس كى عيادت كر، اور جب وه مرجائے تو اس كے جنازے ميں شامل ہو"۔ اس حديث سے ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے كئى باہمى  حقوق  ہيں  اور وہ درج ذيل   ہيں :

1- السلام عليكم كہنا  :  يہ  سنت مؤكده ہے، اور مسلمانوں  ميں  انس ومحبت   پيدا كرنے كے ذرائع ميں سے ايك ذريعہ ہے ، اس پر نبى پاك ؐ كا ارشاد دلالت كرتا ہے : « جب  تك  تم   ايمان نہ لاؤ جنت ميں داخل نہ ہوگے اور جب تك تم آپس ميں  محبت نہ كرو گے ، مومن نہ ہوگے، كيا  ميں  تمھيں ايسى چيز كى خبر نہ دوں كہ جب تم اسے كرو  تو آپس ميں محبت  كرنے لگو؟ آپس  ميں" السلام   عليكم "كو خوب پھيلاؤ »۔

      آپ ؐ  بڑوں  يا حتى كہ بچوں  كے پاس سے گزرتے  تو  انھيں سلام كہتے، سلام كہنا سنت ہے مگر اس كا جواب دينا فرض كفايہ ہے كہ اگر ايك شخص ايك جماعت  پر سلام كہے اور ان  ميں سے  ايك جواب  دے تو باقى سب كى طرف سے كافى ہو جائے گا ۔

2- دعوت كو  قبول كرنا: دعوت  كو قبول كرنا سنت مؤكده ہے ، كيونكہ اس  ميں بلانے والے دل كى عظمت  ہے، اور اس  سے محبت اورالفت پيدا ہوتى ہے، اس لئے جب آپ كو كوئى  مسلمان بھائى  دعوت دے تو اسے قبول كر، يعنى جب تجھے اپنے گھر  كھانے پر، يا كسى اور كام   كے ليے بلائے  تو اس كى  بات مان ى چاہيے ، حضو پاك كا ارشادہے: « جس نے دعوت قبول نہ كى اس  نے اللہ عز وجل اور  اس كے رسول ؐ كى نا فرمانى كى»۔

اگر ايك  دعوت كسى كارِ ِ خير يا اس ميں معاونت كےليے ہے، تو اس سے بھى گريز  نہيں  كرنا چاہئے ، كيونكہ مسلمانوں كو باہم ايك دوسرے كى مدد كرنے كى بڑى تاكيد ہے جيسے نبى اكرم ؐ نے فرمايا ہے :

« ايك مؤمن دوسرے مومن  كے ليے  عمارت كى طرح ہے جس كا ايك  حصہ  دوسرے كو مضبوط كرتا ہے»۔

3- خير خواہى  كرنا:خير خواہى دين كا حصہ ہے،  جب آپ سے  كوئى خير خواہى طلب كرے تو اس كى خير خواہى كر، يعنى جب وه آپ كے پاس آكر اپنے ليے كسى  چيز ميں  تيرى  خير خواہى  كا طالب  ہو تو اس كى خير خواہى كر ،اور يہ خير خواہى  اتنى  ضرورى   ہے كہ اگر وه خير خواہى طلب كرنے كےليے نہ بھى آئے اور صورتِ حال يہ ہوكہ اسے كوئى نقصان  پہنچنے والا ہو تو آپ  پر واجب ہےكہ اس كى خير خواہى كريں، اور اس كو صورتحال  سے آگاه  كر كے  اسےنقصان سےبچانے كى كوشش كريں، حضور پاكؐ كا ارشادہےكہ:" دين خير خواہى  كا نام ہے "ہم نے كہا: كس سے ؟ آپ  نے فرمايا:"اللہ سے ، اس كى كتاب سے ،  اس كے  رسول سے ، مسلمانوں   سے، مسلمانوں كے حكمرانوں سے اور عام مسلمانوں سے"۔

4-  مريض كى عيادت: جب وه بيما ہو تو  اس كى بيمار پرسى كر،  مريض كى عيادت كے معنى اس سے ملاقات كرنا ہيں ، يہ مسلمان بھائيوں كا  اس پر  حق ہے، لہذا مسلمانوں پر  مريض كى عيادت   كرنا  واجب ہے اور جب مريض   سے آپ كى   قرابت ،  دوستى  يا  ہمسائيگى ہو تو عيادت اور بھى ضرورى ہو جاتى ہے . مريض كى عيادت كرنے  والے شخص  كےليے سنت يہ ہےكہ وه اس كا حال  پوچھے اور اس كے ليے دعا كرے اور كشادگى اور اميد كا درواز ه كھولے ،  كيونكہ يہى    چيز صحت اور شفايابى كے بڑے بڑے اسباب ميں سے ايك سبب ہے ۔

5- جنازے ميں شركت  :  جب مسلمان بھائى مرے تو ا س كے  جنازے  ميں شريك ہو"، گويا مسلمان كا يہ حق ہےكہ اپنے بھائى  كے جنازے  ميں  شريك  ہو اور اس ميں بہت بڑا  اجر ہے، نبى كريم ؐ نے فرمايا:

    «جس نے جنازے مين شركت كى  اور نماز ِ جنازه پڑھى ، تو اسے قيراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تك ساتھ رہا  تو اسے دو قيراط  كاثواب   ملتا ہے، پوچھا گيا كہ دو قيراط كتنے ہوں گے؟ فرمايا كہ "دو عظيم پہاڑوں كے برابر»۔

6- جب اسے چھينك آئے اور "الحمد لله"كہے تو اس كےليے "يرحمك الله "كہيں اور يہ اس ليے شكر  كے طور پر  ہوگا كہ اس نے چھينك كے وقت اپنے پروردگار كى تعريف بيان كى، چھينكنے والے كےليے ضرورى ہے كہ وه اس كے جواب ميں كہے "يهديكم الله ويصلح بالكم" اللہ تجھے ہدايت دے اور تيرا حال درست  كرے" اور جب اسے بار بار چھينكيں  آ رہى ہوں تو تين  بار "يرحمك الله" كہے اور اس كے بعد چاہے تو جواب دے اور چاہے تو نہ دے۔

          خلاصۂ كلامۂ ہےكہ مسلمان پر مسلمان كے حقوق  تو بہت ہيں ليكن جامع معنى كے طور پر وہى بات كہى جا سكتى  ہے جو نبى  كريم ؐ كا قول ہے كہ" المسلم  أخو المسلم" ،مسلمان ،مسلمان كا بھائى  ہے ، جب  وه اخوت كے مقام پر آگيا تو اس كا تقاضا يہى ہےكہ وه ہر چيز جس ميں  خير ہو، وه اس كے ليے اختيار كرے اور ہر اس چيز سے باز  رہے جو اس كو تكليف پہنچا سكتى ہو۔

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.