مذہب كى آزادى كا حق

  • | بدھ, 20 نومبر, 2019
مذہب  كى آزادى كا حق

آزادى كا مطلب:

 آزادى      ايك ايسى اصطلاح ہے جس كو بہت سے معنوں ميں استعمال  كيا جاتا ہے ليكن  اگر ہم نے آزادی کو اس کے مناسب مقام پر رکھنا نہ سیکھا تو قسم قسم كے  خطروں سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہیں گے،ہمیں ایسی آزادی کی خواہش نہيں کرنی چاہیے جو دوسروں کو دبانے والی ہو بلکہ ہمیں ایسی آزادی تلاش کرنی چاہیے جو ہمیں اپنی مرضی کے مطابق رہنے اور سوچنے کا حق دے اور ہمارے اس حق سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔

اسلامى نقطۂ نظر ميں مذہبى آزادى  :

اسلام اللہ تعالى كا نازل كرده دين ہے ، اور  اپنے ہر موقف كو دلائل  كے ساتھ پيش كرتا  ہے ليكن  كسى كو اس كو قبول كرنے پر مجبور نہيں  ;كرتا ، بلكہ اسے قبول كرنے يا نہ كرنے كى  مكمل آزادى عطا كى ہے،  الله رب العزت كا فرمان ہے  ﴿ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ [الكهف:29]،ترجمۂ: " تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے"۔

ايك اور جگہ ارشادِ الہى ہے ﴿ ولو شاء ربك لآمن من في الأرض كلهم جميعًا  افأنت تكره الناس حتى يكونوا مؤمنين﴾ [يونس: 99]،ترجمۂ: "اگر تمھارا رب چاہتا  تو زمين كے سارے  كے سارے لوگ ايمان لے ہى آتے، تو كيا تم لوگوں كو مجبور كروگے كہ وه ايمان والے ہوجائيں"۔

دنيا  كا ہر انسان  كسى  بھى نظريۂ حيات  كو قبول  يا رد كرنے كا حق ركھتا ہے تو  معقول اور منطقى بات ہے كہ  اسے  نظريۂ حيات كو اپنانے كا بھى حق ملنا  چاہيے ،ليكن  اسلام كےمخالفين  اس كے بارے ميں يہ رويہ نہيں اختيار كرتے اور وه آزادى فكر كے حق كو پامال  كرتے اور جبر كے تالے انسانوں پر لگاتے ہيں، ايك  ہى معاملہ ميں دو الگ الگ پيمانے اختيار كرنے  كا كوئى جواز نہيں ہے، اسلام نے كہا  كہ يہ جبر اور بندش خدا كے نزديك سخت ناروا  اور مذموم ہے،اس كى پكڑ سے وه قيامت كے روز بچ نہيں سكتے۔

مذہبى آزادى كا مطلب:

  مذہبى آزادى ايك  ايسا حق ہے  جس پر انسان کے بنائے قوانین کے ذریعے نہ تو کوئی پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے،يہ  فطرى  اور ناقابلِ انتقال  حق ہے ، مذہبی آزادی ریاست کی تخلیق نہیں  ہے بلکہ اسے ہر شخص کے لیے خدائی تحفہ اور خوشحال معاشرے کا بنیادی حق قرار دیا جا سكتا           ہے ۔

مذہبى آزادى  اور  معاشره:

مذہب اختيار كرنے  کی آزادی بہت بڑى  اہمیت كى حامل  ہے ، اور اس کا براہ راست تعلق انتہا پسندی کے خلاف جنگ سے ہے . اگر ہم دوسروں کو اہمیت دیں ، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اوراگر ہم اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں تو ہم انہیں وہ آلات دے سکیں گے جن سے وہ عدم برداشت کو مسترد کریں، اگرہم کھلےمساوی اوراجتماعی معاشروں کی بنیاد رکھیں تو ہم ایسی کمیونٹیز کی تعمیربھی كر سكتے  ہیں جو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہوں، ایسی کمیونٹیزجہاں ہرشخص مزاحمت کرنے کے لئےمنافرت بھرے نظریات کے خلاف دانشورانہ خودمختاری کا حامل ہو، خواہ وہ مذہبی نظريے ہوں یا کوئی اور۔

مذہبى آزادى  اور اس كا احترام  معاشروں  كو مزيد خوشحال اور مستحكم بناتاہے، اس لئے ہميں چاہيئے كہ تمام لوگوں كى مذہبى آزادى كا  مكمل احترام كريں،مذہب یا عقیدے کی آزادی ایک کامیاب معاشرے کے لئے بنیادی لازمہ ہے، یہ تعصب، امتیاز اورظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کو جنم دیتا ہے جو ایک معاشرے کو نہ صرف اپنے مکمل معاشی امکانات کی تکمیل سے روکتے ہیں بلکہ اسے کمزور کرکے انتہا پسندی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں،اسی لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں تاکہ مذہب یا عقیدے کی آزادی ، متشدد انتہا پسندی کے خلاف ہماری کوششوں کا مرکز بن جائے۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.