ہمارى جان، اور الله رب العزت كى طرف سے عطا كرده يہ زندگى ہر انسان كے ہاں ايك امانت ہے ، اور ہر امانت دار شخص امانت كى حفاظت كرنے كو اپنا اولين فرض سمجهتا ہے. امانت كى حفاظت كا مطلب اپنے دين، اپنى صحت، اپنى عقل ، اپنى اولاد اور اپنى جان كى حفاظت كرنا ہے،اس كے نتيجہ ميں يہ كہنا بجا ہوگا كہ خودكشى سے بچنا ايك لازمى چيز ہے۔ خودكشى ايك آزمائش سے بچنے كى بزدلانہ كوشش اور قضا وقدر كى مخالفت ہے، ہمارى جان الله تعالى كى دى ہوئى امانت ہے پس خودكشى كرنے والا خيانت كے بڑے گناه كا مرتكب ہوتا ہے۔
خودكشى كے اسباب ومحركات:
نبى اكرمؐ نے خودكشى كے ان ابتدائى اسباب كا شروع ميں ہى تدارك كر ديا كہ دنيا كى اس مختصر زندگى كے بعد دوسرا جہاں شروع ہو جاتا ہے جہاں كى زندگى پہلى زندگى كے اعمال كے حساب سے ہو گى۔اچهے كام كرنے والوں كو اچهے حالات ميسر ہوں گے جب كہ كہ برائى كرنے والے اپنے كيے كى سزا بهگتيں گے اور دنيا ميں واپسى كا كوئى امكان نہيں ہے۔ مرنے كے بعد كسى كى روح بهوت، چڑيل يا جن وغيره قسم كى كوئى دہشت ناك چيز بن كر پهر دنيا ميں واپس نہيں آئے گى۔ جس كا يہ خيال ہو كہ وه خود كو ہلاك كرنے كے بعد پهر سے واپس آ جائے گا يا دوسروں كو تنگ كرنے كا موقع اسے ميسر رہے گا تو يہ اس كى خام خيالى ہے۔
احاديث صحيحہ ميں نبى اكرم نے خودكشى كرنے سے سختى سے منع فرمايا ہے- آپ نے فرمايا: «جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر خودكشى كى، وه جہنم كى آگ ميں ہميشہ گرتار ہے گا اور اس ميں ہميشہ ركها جائے گا، جو شخص زہرپى كر خودكشى كرے گا تو اس كاز ہر اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور جہنم كے اندر ہميشہ اس كو پيتار ہے گا اور جو شخص ہتهيار سے خودكشى كرے گا تو اس كا ہتهيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا جس سے وه اپنے پيٹ كو جہنم ميں ہميشہ چاك كرتا رہے گا-» [بخارى ومسلم]- اور آپ نے فرمايا: «جو شخص دنيا ميں اپنا گلاگهونٹے گا وه دوزخ ميں بهى اپنا گلا گهونٹتا رہے گا اور جو كوئى دنيا ميں اپنے آپ كونيزه مارے گا تو اسى طرح آگ ميں بهى اپنے آپ كونيزه مارے گا-»
انسان حالات كى سختى اور مصائب كى كثرت كى وجہ سے تنگ ہو جاتا ہے اور اپنى زندگى سے بيزار ہو كر بجائے اس كے كہ وه ان حالات كے پيدا كرنے والے الله تعالى كى طرف نماز، دعا اور استغفار كے ذريعہ رجوع كرتا، يہ سوچ كر خودكشى كا فيصلہ كر ليتا ہے كہ جب زندگى ہى ختم ہو جائے گى تو يہ مصائب وحالات بهى باقى نہ رہيں گے۔ يہ زندگى جو الله نے ہم كو عطا فرمائى ہے ہم اس كے مالك نہيں، بلكہ امين ہيں اور مومن كى شان يہ ہے كہ وه امانت صاحب امانت كو لوٹا دے، ہميں اس زندگى ميں مالكانہ تصرف كا اختيار نہيں ہے كہ اس كو جس طرح چاہا اپنى مرضى سے استعمال كر ليا، ورنہ كل بروز قيامت اس كے لئے جو ابده ہونا پڑے گا۔ ۔
ديگر امراض كے ساتھ ساتھ آج كےدور ميں ايك خطرناك اور جان ليوا مرض ڈپريشن ہے ، جو كچھ لوگوں پر اس حد تك قابو پاليتا ہے كہ ان كے لئے اس كى گرفت سے نكلنا سراسر نا ممكن ہوجاتا ہے ، كچھ لو گ دوسروں كى مدد طلب كرنے ميں جهجهك محسوس نہيں كرتے ، مگر كچھ اس خوفناك ڈپريشن سے چهٹكارا حاصل كرنے كے لئے خود اپنے ہى ہاتهوں سے اپنى جان ہى لے ليتے ہيں.
2004 میں ہونے والی خودکشیوں کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ 2020 تک دنیا بھر میں سالانہ خودکشیوں کی تعداد پندرہ لاکھ تک جا پہنچے گی۔ عالمی ادارئہ صحت خودکشی کے واقعات میں 2020ء تک دس فیصد کمی لانا چاہتا ہے لیکن اس کے دائرے عمل میں صرف 28 ممالک ہیں، سال 2020ء میں دل کی بیماری کے بعد ڈپریشن دنیا میں دوسری بڑی بیماری ہوگی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سال2012ء ميں لگائے گئے تخمينے کے مطابق پاکستان میں خود کشی کی شرح ایک لاکھ افراد میں (7.5) فیصد تقريبًا (13) ہزار افراد تھی۔ 2016ء میں یہ تخمینہ ایک لاکھ میں (2.9) فیصد تھا،، يعنى (5) ہزار (500) افراد نے اپنے ہاتهوں اپنى جان لى۔ بھارت میں خودکشی کے حوالے سے اعدادوشمار مختلف ہیں، تاہم اوسطاًایک لاکھ35ہزارافرادسالانہ خودکشی کرتے ہیں۔ مصر میں خودکشی کے کئی واقعات پیش آئے ہیں تاہم مصر 183 ممالک میں سے 150 نمبر پر ہے۔
اسلام ميں خودكشى كے مسئلے كا حل يہ ہے كہ مسلمان اپنے دين پر صحيح طرح سے عمل كر ے، كيونكہ جس كےدل ميں سچا ايمان موجود ہو اور اس كا الله پر مكمل بهروسہ ہو تو وه خودكشى كے بارے ميں سوچ ہى نہيں سكتا۔ اس صورت حال ميں اميد كا ايك بہت بڑا مركز خدا كى ذات ہے۔ كيونكہ يہ بات اس كى گهٹى ميں پڑى ہوئى ہے كہ جب الله ہر چيز پر قادر ہے تو وه اس كى الجهنوں اور مشكلات كو حل كرنے پر بهى قادر ہے اس لئے مايوسى كا شكار اگر مسلمان ہو تو وه ناكاميوں كے اندهيروں ميں الله تعالى كو مدد كے لئے پكارے گا چونكہ الله تعالى كى شفقت بے پاياں، وسائل لا محدود، مصيبت ميں كام آنا ، شہ رگ سے قريب ہونا اس كى شان ہے، جو مصيبت ميں اس پر خلوص دل اور پورے يقين سے بهروسہ كرے گا وه يقينًا اس كى امداد كرتا ہے ان حالات ميں اسلام پر يقين ركهنے والا كوئى شخص خودكشى كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كرے گا۔
اس مقال كا اختتام ہم شيخ الازہر فضيلت مآب ڈاكٹر احمد الطيب كے ان الفاظ سے كرتے ہيں ، جو انسانى اخوت كى عالمى دستاويز ميں درج ہيں : ادیان ومذاہب کا سب سے پہلا اور اہم مقصد اللہ رب العزت پر ایمان لانا اور اس کی عبادت کرنا ہے، اور تمام لوگوں کو اس بات پر ایمان لانے کے لئے امادہ کرنا ہے کہ اس کائنات کا ایک معبود ہے جس کی حکومت یہاں چلتی ہے، اور وہی خالق ہے جس نے ہمیں اپنی حکمتِ الہیہ سے پیدا فرمایا ہے، اس نے ہميں زندگی کا ایک تحفہ عطا کیا ہے تاکہ ہم اس کی حفاظت کریں، اور یہ تحفہ ایسا ہے کہ کسی کو کسی سے اسے چھیننے یا اس کے ساتھ ناروا سلوک کرنے یا اس کے ساتھ جیسا چاہے تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ شروع سے آخر تک تمام لوگوں پر اس کی حفاظت ضروری ہے"
زندگى ايك نعمت ہے .. اس كى حفاظت كريں