اولاد مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی، اولاد کی تربیت کا پہلا مرحلہ والدین کی فکرمندی اور احساس ذمہ داری ہے۔والدین اپنے اندر یہ احساس جگائیں کہ بچے کی تربیت ان کی ذمہ داری اور فرض ہے، والدین اپنے اچھے اخلاق اور اعمال کے ذریعے اپنی اولاد کی تربیت کریں۔بچے فطری طور پر نقا ل ہوتے ہیں، والدین کو بچوں کا تربيت دينے کے لئے سب سے پہلے اخلاقی پہلو کو ہی ٹارگٹ کرنا چائیے کیونکہ اخلاقی تربیت کے لئے بچہ پیدائش سے ہی اثر لینا شروع دیتا ہے، بچوں کے اندر مثبت عادات کو بڑھانے کے لیے اور منفی عادات کو روک تھام کے لئے بچوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اچھی عادات کیوں اچھی ہیں ؟! اور بڑی عادات کیوں بُری ہیں؟!اور ان کے کیا نقصانات ہیں؟!، جو والدین اپنے رشتے داروں سے نرمی برتے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب کی عزت کرتے ہیں تو ان کی اولاد بھی ان سے نرمی اور حسن سلوک سیکھتی ہے۔ جو والدین دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ان کی اولاد بھی ان سے دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا سیکھتے ہیں اور اس طرح وہ بچپن سے چیزیں ہی سیکھ رہے ہوتے ہیں تو ۔ اولاد انسان کے لئے متاع ہے۔ ان سے قیمتی دنیاکی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ ضروری ہے کہ ماں باپ اولاد کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں بھی قرآن مجید کی روشن تعلیمات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کریں، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے كا ذكر ہے” کہ کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے “"سنن ترمذی "
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت کی وہ یہ ہے کہ:” وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ: اور (اُس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے “."لقمان: 13"
اور سورۂ لقمان کی آیت نمبر 12 سے 19 تک ان نصیحتوں کا ذکر ملتا ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کیں، اور ان ميں سےيہ آيات ہیں” يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ- وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ- وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ: (لقمان نے یہ بھی کہا کہ) بیٹا اگر کوئی عمل (بالفرض) رائی کے دانے کے برابر بھی (چھوٹا) ہو اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں (مخفی ہو) یا زمین میں۔ خدا اُس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا باریک بین (اور) خبردار ہے۔ بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔ اور (ازراہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ کہ خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔ اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ (اُونچی آواز گدھوں کی ہے اور کچھ شک نہیں کہ) سب آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی ہے “."لقمان: 16-19"
حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرماتے ہیں وہ ہمارے نوجوانوں کو زندگی میں بہتر انسان بننے کیلئے بے حد فائدہ مند ہیں۔
اور ایک واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا،میں بچوں کے ساتھ کھیل کھود میں لگ گیا، اس کے باوجود بھی نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ "صحيح مسلم- 2310"
اگر شعائر اسلام اور حديث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اولاد کی تربیت کی گئی تو اولاد مطیع وفرمابردار اور خدمت کرنے والی بھی ہوگی انشاء اللہ۔ والدین کی طرف سے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔