اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

تجريبي
Anonym
/ Categories: Main_Category

تجريبي

                          مصرى دار الافتاء كى زير نگرانى كانفرنس (بعنوان)

"  مسلم اقلّيات كى مساجد كے  أئمہ كى علمى تربيت  اور فتوى جارى كرنے كی اہلیت"   ميں عزت مآب امام اكبر كا مركزى خطاب :

  • ميں قرآن كريم يا احاديث نبوى كے قوانين سے متصادم  ہر آئين وقانون كو رد كرتا ہوں-
  • فتوى ميں جمود اور اجتہاد سے خوفزده ہونے كى وجہ سے امت مشكلات ومصائب سے دوچارہے-
  • بيوى پرظلم ستم كرنا اور جان بوجھ كراسےتكليف دينا بہت بڑا جرم ہے-
  • شادى كے قوانين خاندان اور معاشرے كے فائدے كيلئے لازم كئے گئے-
  • بے گھر  بچے ان خاندانوں كے متاثرين ہيں جنہوں نے لاقانونى شادى اور طلاق كوكھيل بنايا-
  • گذشتہ صدى كے علماء كرام لوگوں كے جديد ضرورى مسائل اوران ميں اجتہاد كرنے ميں ہمارے آج كے علماء سے زياده بہادر تھے-
  • فقہاء كا ترکِ اجتہاد  اسلامى معاشروں كو" دوسرے لوگوں" کیلئے چھوڑ دے گا  ، وه اس ميں جو چاہيں گے بيان كريں گے-
  • مسلم اقلّيات كى اصطلاح ہمارى اسلامى تہذيب کیلئے ایک نوورادر اصطلاح ہے جس سے ازہرنے اپنے تمام بيانات اور وثائق میں گریز کیا ہے-
  • مسلم اقلّيت كى اصطلاح اپنے اندر جدائى  كا مفہوم واحساس ركھتى ہے-
  • ہمارى اسلامى ثقافت اقلّيت كى اصطلاح كو رد كركے اس كے مقابل بقائے باہمى كى اصطلاح متعارف كرائى ہے-
  • بقائےباہمى جديد استعمار اور دشمنوں كے خلاف مضبوط بند ہے-
  • يورپى مسلمانوں ميں باہمى ہم آہنگى كے مفہوم كو راسخ كرنا, ايسے مثبت انضمام كيلئے ضرورى اقدام ہے، جو (اسلامى) شناخت كومحفوظ ركھے- 
  • جديد استعمار بعض ممالک كو تقسيم اور الگ كرنے ميں اقلّيات كے مسئلے كو غلط استعمال كررہا ہے- 

 

مصرى دار الافتاء كى زير نگرانى كانفرنس (بعنوان)

"  مسلم اقلّيات كى مساجد كے  أئمہ كى علمى تربيت  اور فتوى جارى كرنے كى اہلیت "  ميں ،عزت مآب  فضيلت امامِ اكبر شيخ الازہر ڈاكٹر احمد طيب  كے خطاب كا مكمل متن :

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمدُ لله، والصَّلاةُ والسَّلامُ على سيدِنا رسولِ الله، وعلى آلِه وصحبِه.

محترم ومكرم علماء ومفكرين اورمفتيانِ كرام ؛

السّلام عليكم ورحمة الله وبركاته؛

آپ كو،آپ كے ملک مصر، ازہر شريف ، اورہرعلمى ودعوتى ادارے ميں خوش آمديد،آپ كى اس كانفرنس كيلئے ميرى تمنّا ہے كہ مسلمانوں كى توقعات كے مطابق  يہ كاميابى سے ہمكنار ہو،جس سے اہل فتوى اورمراكز فتوى  کی بڑی  اميديں وابستہ ہيں كہ ان كى حاليہ طرزِزندگى ،اسكى آسائشوں اوربنيادى ضرورتوں اور گمراه كن فقہ (فتوے)-(اگر نام درست ہو)- اوران كے درميان وه فاصلہ جوكہ آئے   روزبڑھتاجارہا ہے اس ميں كمى واقع ہو،  ايسے(فتوے) لوگ صبح وشام سنتے ہيں خواه وه كہيں بھى ہوں, يہ اس لئے نہيں كہ وه انہيں شريعت كى آسانى اور قرآن وسنت كى رحمت كى طرف لاتے ہيں بلكہ وه (انہيں) ان سخت آراء كى آميزش كى طرف لے جا رہے ہیں  جو كہ مخصوص  ہنگامی حالات اور خاص مواقع پربيان كى گئيں ہيں جن كا لوگوں كے موجوده حالات ومسائل سے كوئى تعلق نہيں ہے-

ايسى لغو فقہ كو بھى مفتيوں كے ہم مرتبہ لوگوں كے گروه مل گئے ہيں، اور افسوس كے ساتھ كہہ رہا ہوں كہ وه ہمارے عرب ملكوں ميں  بہت سے  دار الافتا  (مراكزِفتوى) پر غلبہ حاصل كرنے ميں كامياب ہوگئے ہيں، جن ميں يہاں ازہركا اسلامى تحقيقى مركز سرٍ فہرست ہے-

  اس فقہ كو يہ كاميابى اس كى معقوليت يا آسانى يا زندگى كو آسان بنانے ميں اسكى صلاحيت كى وجہ سے نہيں ملى بلكہ اسے جو كاميابى حاصل ہوئى  ہے وه لوگوں ميں داعيوں اور دعوت دينے واليوں كى نقل وحركت، ديہاتوں ميں گھروں كے اندر جانے كے ساتھ ساتھ منبروں پر لوگوں كى خواہش كےمطابق گفتگو كرنے سے حاصل ہوئى ہے، ايسے وقت ميں كہ جب دار الافتاء ، مراكز فتوى ، تحقيقى فقھى كميٹيوں، اور فردى فتووں پر جمود طارى ہے،اورفتوى صرف دريافت كرنے والے تک محدود ہے، يا وه كتابوں ميں بند ہے جس كا كرڑوں مسلمانوں كو كوئى فائده نہيں،يا اس كا ذكر كانفرنسوں ميں ہوتا ہے جن ميں ہم ايک اسے دوسرے سے بيان كرتے  اور آخر ميں اپنے مقاصد اور توقعات كے مطابق ايک دوسرے كونصيحت كرتے ہيں،اور ماہرين ميں سے آپ كو كوئى ايسا نہيں ملے گا جو اس كى سرپرستى ونگرانى كرے اور اسے لوگوں كے حالات كے مطابق صادر كرے-

-فاضل علماء كرام- مجھے واضح طور پر كہنے كى اجازت ديجئے, اور ميرى گزارش ہے كہ آپ يہ مت سمجھيں كہ ميں اعتراض يا تنقيد كررہا ہوں، ميں اس سے الله تعالى كى پناه مانگتا ہوں، ميرے دل ميں ايسى كوئى چيز نہيں ہے, چنانچہ مجھے اچھى طرح معلوم ہے كہ ميں عالم عرب اور اسلام  كے چيده وجيد اور عظيم اہل علم ودانش سے مخاطب ہوں، اور الله تعالى اور مسلمانوں كے سامنے آپ سب سے  پہلے ذمہ دار ہوں، ليكن شايد تم ميں سے سب سے زياده مير ا  واسطہ ان لوگوں اور زبوں حال عوام سے پڑتا ہے جو فتوى ميں جمود , اجتہاد سے خوفزده ہونے اور تجديد كے ڈركى حد توڑنے سے عاجز ہونے كى وجہ سے، بربادى كى حد تک خاندانى مشكلات سے دوچار  ہيں-  يہاں تک كہ مجھے گمان ہوا كہ بے شک ہم – اہلِ علم وفتوى- متن کے حوالے سے  جو فتوى جاری کرتے ہیں اس سے باخوبی واقف تو ضرورہیں مگر ہم متن کے مقام ومحل اور امرواقع كے اس ادراک سےقدرے  غافل ہيں جسكے لئے نص سے فتوى ديا جاتا ہے، اور ہم اس كى جزئيات ميں غور وخوض اور تأمل نہيں كرتے, اور نہ اس پر مترتب ہونے والے ضررونقصان اور نفسياتى واجتماعى مشكلات كى مقدار كا اندازه لگاتے ہيں جو اسكى پاداش ميں لوگوں كے گلے پڑجاتى ہيں-

اور میں آپ حضرات کے سامنے ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جس کا تعلق تعدد زواج اور طلاق کی انتہائی بدنظمی  سے ہے جس کے باعث  بیوی (بیویوں) کو پریشانی لاحق ہوتی ہے، بچوں کی زندگی برباد ہوتی ہے  اور ان کو بغاوت اور جرائم کے حوالے کردیتا ہے ۔

میں اس بات کی طرف پہل کر کے کہتا ہوں کہ میں تعدد زواج کے حق کو ختم کرنے والے قانون کی دعوت نہیں دیتا ہوں بلکہ میں قرآن مجید اور حدیث شریف سے  متصادم اور اس کے قانون کو منہدم کرنے والے ہر قانون کو رد کرتا ہوں، خواہ اس قانون کا تعلق قرآن وحدیث کے قریب سے ہو یا دور سے ہو، اور یہ اسلئےکہ یہاں وہاں کی باتوں کے گھات میں لگنے والوں اور اس میں اضافہ کرنے والوں کا راستہ ہی صاف کر دیا جائے کیونکہ اس طرح کے لوگ ذاتی فائدے اور منفعت کےلئے بات کو اس کے سیاق سباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں، لیکن میں یہ بهی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی چیز ہے جو ایک فقیر محتاج شخص کو دوسری شادی کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور پہلی اہلیہ کو چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اور اس کے بچے فقر وتنگدستی سے دوچار ہو کر ضائع ہو جائیں، اور اس کے دل میں  اتنا  احساس بهی نہیں ہوتا ہے کہ اس شرعی حق کے استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے نکلنے کے سلسلہ میں غوروفکر کرے اور ظلم وذیادتی سے باز آجائے ۔

اور اس کا جواب میرے علم کے مطابق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شریعت اسلامیہ کی دعوت ان لوگوں تک صحیح انداز میں نہیں پہنچی ہے، اور اس مسئلہ میں جواز کے فتوے بہت صادر ہوئے ہیں لیکن یہ فتوے  شرطوں پر مبنی  اباحت/جواز (مشروط)   کی بنا پر دیے گئے مگر تعداد کے  شرائط  (یعنی عدل وانصاف، اہلیہ کو تکلیف نہ پہونچانا) کو نظرانداز کردیا گیا ، اوربات تو طے ہےکہ اگر شرط نہ پایا جائے تو مشروط بهی نہیں پایا جائیگا کیونکہ شرط ایسی چیز ہے کہ جس کے نہ ہونے سے نہ ہونا لازم آتا ہے اور اس کے ہونے سے ہونا یا نہ ہونا لازم نہیں ہوتا ہے، جی ہاں یہ مفہوم اس طرح راسخ ہو چکا ہے کہ عام لوگ بهی یہ تصور کرتے ہیں کہ تعدد زواج بغیر قید وبند اور بغیر کسی شرط کے ایک مباح حق ہے، اور ان کے شعور میں یہ بھی جانگزیں ہو چکی ہے کہ جب تک ان کی یہ خواہشیں اور تمنائیں حلال دائرہ میں ہیں ان کے مقابلہ میں ان پر کوئی شرعی ذمہ داری لاحق نہیں ہوتی ہے جیسا کہ وہ لوگ کہتے ہیں ۔

فقہ کی کتابوں میں نکاح کے باب میں شریعت کے جو احکام ہم نے پڑھے ہیں اور ابهی تک پڑھ رہے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ شادی کے پانچ احکام ہیں، انہیں میں کراہیت اور حرمت بهی ہے اور احناف شادی کو اس صورت میں حرام قرار دیتے ہیں جب شوہر کو یہ یقین ہو کہ وہ اپنی اہلیہ پر ظلم کر بیٹھےگا، کیونکہ اسلام میں شادی کی حکمت یہ ہے کہ اسے نفس کی حفاظت کے لئے مشروع کیا گیا ہے اور عبادت گذار تہذیب یافتہ اولاد کی ولادت کے ذریعہ حصول ثواب کا سامان کیا گیا ہے، اور جب اس میں ظلم وزیادتی یا نقصان کا اختلاط ہوگا تو شوہر گنہگار ہوگا اور حرام کا مرتکب ہوگا، اور ایک قاعدہ "فساد کو ختم کرنا منفعت کے حصول پر مقدم ہے" کے تابع ہوگا ۔

اور اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کا بهی خیال ہو کہ سارے گراں قدر فقہاء کا اتفاق ہے کہ جب  زنا میں پڑنے کا خوف ہو تر شادی واجب ہو جاتی ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بهی شرط ہے کہ اس میں نقصان کا خدشہ نہ ہو حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ شادی نہ کرنے کی صورت میں زنا میں پڑنے کا خوف ہو اور شادی کرنے کی صورت میں اہلیہ پر ظلم وزیادتی کرنے اور نقصان پہونچانے کا خدشہ ہو تو نقصان پہنچانے کے خدشہ کو مقدم کیا جائیگا اور شادی کو حرام قرار دیا جائیگا، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ظلم وزیادتی بندوں سے متعلق گناہ ہے جبکہ زنا سے بچنا اللہ کے حقوق میں سے ایک حق ہے، اور تعارض کے وقت بندہ  کے حق کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ بندہ محتاج ہے مگر اللہ رب العزت کسی کا محتاج نہیں اور ہو بہو یہی تفصیل فقہ مالکی اور فقہ شافعی میں موجود ہے ۔

اور میری سمجھ کے مطابق اس سے یہ سبق سیکھا جاتا ہے کہ اہلیہ پر ظلم وتشدد کا گناہ زنا کے گناہ سے بڑا ہے، اور زنا اپنی اہلیہ پر ظلم وزیادتی کرنے کے مقابلہ میں چھوٹا گناہ ہے، ایسا پہلی شادی میں پہلی اہلیہ کے ساتھ ہوا تو دوسری  تیسری شادی میں ظلم وزیادتی کے خوف  نہیں بلکہ ظلم وزیادتی کی نیت وارادہ کے ساتھ کیا ہوگا۔

کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ اگر (شوہر کی دوسری شادی کرنے پر)  اہلیہ کو کوئی نقصان واقع  تو اس کو طلاق لینے کا حق حاصل ہے، اگر شوہر (اپنے اختیار کا غلط استعمال کرکے) انکار کردے  تو خلع لینے کا حق حاصل ہے، لہذا شوہر کو اختیاردینا چاہیئے کہ وہ جس کے پاس جانا چاہے چلا جائےاور اسی طرح اہلیہ کو بهی اختیاردیا جائے کہ  وہ یا تو  راضی ہو جائے یا خلع لے لے ۔

میرا جواب یہ ہے کہ اس بات سے اہلیہ کو دو نقصان ہوگا ایک تو ہجرت کا نقصان ہوگا دوسرا اپنی سارے حقوق سے دستبرار ہونے کا نقصان (جو کہ خلع کا حکم ہے)،   جبکہ شوہر کو دو فائدے ہونگے ایک تو یہ کہ وہ اس خواہش اور رغبت  کی تکمیل کرگا، جسے نظم وضبط کرنے کا حکم شریعت نے دیا ہے، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے  حقوق حاصل کرے  جن سے  وہ   (اہلیہ)   جبرا   دستبراد ہوئی تھی ۔

اورشائد یہی سبب ہے کہ آپ اس مسئلہ کے سلسلہ میں گراں قدرفقہا کے کلام میں دور یا قریب سے کوئی اشارہ نہیں پائیں گے جس سے پتہ چلتا ہو کہ ظلم وزیادتی کے ساتھ شادی جائز ہے، اسی طرح اہلیہ کو راضی ہونے اور نہ ہونے کے سلسلہ میں اختیار دینے کے ساتھ شادی جائز ہے، بلکہ ان کی عبارتیں تو صرف اور صرف ایک سمت کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ شریک حیات کے ساتھ شراکت  کے آغاز سے قبل شریک حیات کی طرف اخلاقی ذمہ داری نبھانا لازمی ہے، اس بنا ء پر  کہ شادی اپنی رغبت و چواہش کو پورا کرنے سے قبل حقوق کا نام ہے، اور ایک بڑی ذمہ داری کا نام ہے جسے  قرآن مجید مستحکم عہد وپیمان سے تعبیر کرتا ہے:

  " ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﻛﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﮔﮯ ﺣﺎﻻﻧﻜﮧ ﺗﻢ ﺍﯾﻚ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﻜﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﻋﮩﺪ ﻭﭘﯿﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺭﻛﮭﺎ ﮨﮯ۔"

اور اسے شریک حیات کو فریب دینے کے لئے مشروع نہیں کیا گیا ہے، اور شادی کے قوانین خاندان اور سماج دونوں کی مصلحت کے لئے متعین کئے گئے ہیں ۔

ایک طرف تو یہ ہے اور دوسری طرف سڑک پر گھومنے والے بچوں پر ہوئے اعداد وشمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ تقریبا نوے فیصد بچے شادی یا طلاق کی انارکی سے دوچار خاندانوں کے بچے ہیں، اور اخلاقی واجتماعی ہر قسم کے جرائم جو اس طرح کے بچوں کا سماج کرتا ہے اس کا سبب صرف اور صرف شرعی حق کے استعمال میں ظلم وزیادتی ہے یا نصف شرعی حقیقت کو سمجھنا اور نصف کو نہیں سمجھنا ہے، اور اسی وجہ سے نص اور واقعیت کی سمجھداری کے درمیان انقطاع کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔

اور میرے اعتقاد کے مطابق اور مختلف واقعی تجربوں کی روشنی میں اس کا سبب وہ خوف کی دیوار ہے جو محل حکم اور اس کے مفاسد اور مصالح میں غوروفکر کرنے کےبعد صاحب علم وقفہ مفتیوں اور حکم ودلیل میں غور وفکر اوراجتهاد کرنے والے علماء کے درمیان حائل ہے ۔

اور بہت ہی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میں یہاں یہ ضبط تحریر کروں کہ مسائل کو حل کرنے، لوگوں کی ضرورت کے مطابق نئے احکام کو مستنبط کرنے اور ان میں اجتہاد کرنے میں ہمارے ماضی کے علماء اور مفتیان کرام ہمارے آج کے علماء کے مقابلہ میں زیادہ بہادر  ہیں ۔

مثال کے طور پر ہمارے علماء کے اجتہاد کو لے لیں کہ تین طلاق ایک لفظ سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ ہم اس مسئلہ میں اپنے علماء کرام کی طرف سے مذکور حکم کے خلاف ایک طرح کا اتفاق  پاتے ہیں، قاضی عبد الوہاب مالکی بدعتی لوگوں کے اقوال میں سے ایک قول کا ذکر کرتے ہیں اور ابن عبد البر ان سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ اہل علم کا قول نہیں ہے، لیکن علماء ازہر نے اس وقت اس مسئلہ کو حل کرنے اور زمین پر منتشر فقہی مذاہب کے خلاف رسمی فتوی جاری کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا اور علماء نے  فقہی تراث میں ان کے فتوے کی دلیل بهی پا لیا، لہذا انہوں نے یہ فتوی جاری کئے کہ اس صیغہ سے ایک ہی طلاق واقع ہوگی ۔

گذشتہ صدی سنہ 1929 میں یہ اجتہاد کیا گیا تها اور ل شخصی احوال کے قوانین میں ایک قانون کے نص کی حیثیت سے داخل ہوا، اور وہ مصری دار الافتاء جس کے فتوے تقریبا نوے سال تک اسی مذکورہ رائے پر برقرار رہے لیکن اب یہ دار الافتاء اور مجمع البحوث الاسلامیہ ایک لفظ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے زیادہ خطیر مسئلے کو حل کرنے کے سلسلہ میں  متردد ہے، اور اسے اور اکثر وبیشتر علماء کے لئے مذکورہ خوف کی رکاوٹ مانع ہے، اور امت کے غموں سے مغموم لوگوں کے روبرو اجتہاد کا دروازہ بند کیا جانا یہ بهی ایک رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ لوگوں کی واقعی زندگی اور ان کے سماج سے سمٹ کر درس وتدریس اور بحث وتحقیق کے دائرہ میں محدود ہو کر رہ گئی ہے یا قریب ہے کہ محدود ہو کر رہ جائے ۔

اور بعض معاصر علماء نے اس بات کا احساس کیا ہے کہ گراں قدر فقہاء کے اجتہاد نہ کرنے کی وجہ سے اسلامی سماج اور معاشرے دوسروں کے مرہون منت ہو جائیں گے، پہر وہ لوگ اسے جس رنگ سے رنگنا چاہیں گے رنگ دیں گے، اور وہ رنگ دین کو زندگی سے یا زندگی کو دین سے جدا کرنے کا رنگ ہے جس کے لئے ہم شعار کی طرح بدل جاتے ہیں پھر ایک واقع کی حیثیت سے اس کی کوشش کرتے ہیں ۔

جلیل القدر علماء کرام !

یہ اعتراف کرنا ضروري ہے کہ ہم ایک حقیقی بحران سے گزر رہے ہیں، جس کی بھاری قیمت مسلمان ادا کر رہے ہیں خواہ وہ جہاں بھی رہتے ہوں، خوف کی صورت میں اور اس شریعت سے روکے جانے کی صورت میں جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ وہ ہر زمان و مکان کیلئے درست ہے، اور رونما ہونے والے جدید حوادث و واقعات کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اسی طرح مقاصد شریعت کے غائب ہونے کی صورت میں جو اجتہادی نظریہ کی شبیہ خراب کرتا ہے، اور کسی واقعہ کے لئے محل وقوع کے اعتبار سے جو مناسب شرعی حکم ہو سکتا ہے فقیہ اس سے بہت دور لے جاتا ہے، اور اسی طرح باہر اور دوسرے ملکوں سے برآمد فتوی کی وجہ سے جو معاشرے اور حالات کی رعایت نہیں کرتے ہیں، اور زبان و نسل اور عرف و عادات اور تہذیب و ثقافات کے اختلاف کونظر اندارز کردیتے ہیں، یہاں تک کہ ہر مسلم کیلئے ان کا فتوی ایک ہي ہوتا ہے چاہے زمانہ کتناہی مختلف کیوں نہ ہو، اور جنگ و امن اور امیر و غریب اور عالم و جاہل ہونے کے اعتبار سے حالت مختلف ہی کیوں نہ ہو، تو کیا یہ معقول بات ہے کہ حادثات کے شکلی مشابہت کی وجہ سے ہر مسلم شخص کیلئے ایک ہی فتوی جاری کیا جائے  جبکہ واقع ہونے کی حیثیت  اور نفع و نقصان کے اعتبار سے صورت مختلف ہے، جیسے قاہرہ نیامی مقدیشو جاکرتا نیودھلی موسکو پیرس اور مشرق و مغرب کے شہر و دیہات وغیرہ ؟۔

  • بہر حال جو کانفرنس کے موضوع سے متعلق ہے تو میں اپنے بھائی جناب مفتی دیار مصر سے اجازت چاہتا ہوں کہ کانفرنس کے عنوان کے حوالے سے اپنی رائے پیش کروں: مسلم اقلّيات كى اصطلاح ہمارى اسلامى تہذيب کیلئے ایک نوورادر اصطلاح ہے جس سے ازہرنے اپنے تمام بيانات اور وثائق میں گریز کیا ہے، کیونکہ  یہ اصطلاح اپنے اندر جدائى  كا مفہوم واحساس ركھتى ہے  اور فتنہ و  فساد کي راہ ہموار کرتي ہے، بلکہ یہ اصطلاح شروع سے اقلیات کے بہت سے دینی اور معاشرتی حقوق کو ہضم کرجاتی ہے، جہاں تک میں جانتا ہوں کہ ہماری  اسلامی ثقافت میں اس طرح کی یاصطلاح کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اسے ناپسند اور اسکا انکار کرتی ہے، اور اس کے بجائے  مکمل شہریت کو مانتي ہے جیساکہ مدینہ منورہ کے دستاویز میں موجود ہے، اس لئے کہ اسلام میں شہریت کے حقوق و واجبات ہیں، اس کے زیر سایہ سبھی امان پاتے ہیں، اور بنیاد اور معیار کے مطابق عدل و انصاف قائم ہوتا ہے، "الله تعالى ﻋﺪﻝ اور بهلائى كا  ﺣﻜﻢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ"

" ان کے لئے وہ ہے جو ہمارے لئے ہے اور اپنر جو واجب ہے ہم پر بھی ہے"۔

تو مثال کے طور پر برطانیہ کا مسلم شہری حقوق و واجبات کی رو سے  میں برطانیہ کا مکمل شہری ہے، اسی طرح مصر کے عیسائی، حقوق و واجبات  کی رو سے مصر کے مکمل شہری ہیں، اور اس مکمل شہریت کے ساتھ اس بات کی  کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو اقلیت کہا جائے جس سے شہریت کے معنی میں تمیز اور اختلاف کی بو آتی ہے۔۔ اور اس بات پر میرا یقین ہے کہ یورپ وغیرہ اور متعدد ثقافتوں اور تہذیبوں والے معاشروں میں شہریت کي سوچ کو مضبوط کرنا ایجابی انضمام کی راہ میں ایک ضروری قدم ہے، جس کی میں نے اکثر مغربی ملکوں میں دعوت دي ہے، یہی ہے جو وطن کو محفوظ رکھتی ہے، اور انتساب  اور وابستگی  کی جڑوں کو مضبوط کرتی ہے، جو معاشرے میں یکتائی کی بنیاد ہے، اور اسی طرح ثقافت تنوغ  اور اختلاف کو قبول کرنے اور پر امن  طور پر ایک ساتھ زندگی گزارنے کی تایید کرتی ہے، اور اجنبیت کے احساس کو ختم کرتي ہے جو حب الوطنی کو کمزور کرتی ہے، اور پردیسی تذبذب کو ختم کرتی ہے جس میں وہ رہتا ہے اور اسکے خیر سے  فائدہ اٹھاتا ہے، اور کسی اجنبی کی طرفداری جس کا اسے گمان ہوتا ہے، اور اس کے ذریعہ اپنے اس خوف سے بچتا ہے کہ وہ ایسی اقلیت کا فرد ہے جسے خطرہ لاحق ہے، اگر ہم مسلمانوں کے ذہنوں میں شہریت کی فکر کو پختہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ سامراجیت کے سامنے ایک آہنی دیوار ہے جو اقلیات کو سیاسی کشمکش کا آلہ بنانے  اور دھوس جمانے اور غلبہ پانے کی امید رکھتے ہیں، اور ملک کو توڑنے اور تقسیم کرنے میں اقلیات کا مسئلہ ابھارنے پر سامراج بھروسہ کرتے ہیں۔

بہر حال اماموں کو فتوی کے لئے ابل بنانا بہت اہمیت کا حامل ہے، اور دار الافتاء مصر قابل ستائش ہے کہ اسنے اس اہمیت کو محسوس کیا،  اور اس فریضہ کے سلسلے میں گفتگو طویل ہے، اور باہري ملکوں کے لئے اماموں کو تیار کرنے اور انکو مسلمانوں کے درپیش مسائل سے اگاہ کرنے اور عالمی تنظیم برائے فارغین ازہر قاہرہ کے ماتحت منعقد ہونے والے کورسز کے ذریعہ ان کو ٹریننگ دینے میں ازہر کا بڑا حصہ ہے، تو پانچ سو اڑتیس امام ہیں جو افعانستان پاکستان کردستان عراق چین انڈونیشیا برطانیہ یمن اور افریقہ ملکوں اور جنوب امریکہ میں پھیلےہوئے ہیں۔

یہ امر قابل تعریف ہوگا اگر اس سلسلے میں عالمی تنظیم برائے فارغین ازہر قاہرہ کے ساتھ نظم وتنسیق  قائم کرکے صحیح بنیاد پر شروعات  کی جائے۔

محترم بھائیوں !

معذرت چاہتا ہوں آپ کے سامنے میری گفتگو لمبی ہوگئی ، اچھے لوگ عذر قبول کرتے ہیں،

غور سے سننے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ

والسَّلامُ عليكُم ورَحمة الله وبركاته

 

 

Print
5313 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.