اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

ازہر شریف کی دستاویزات
Anonym
/ Categories: Main_Category

ازہر شریف کی دستاویزات

 

 

 

 

ازہر شریف کی دستاویزات

 

عربى ميں كتاب كا عنوان:   « وثائق الأزهر»

ترجمہ: « ازہر شریف کی دستاویزات»

 

  •  

telephone-29012_640[1] (+202) 23868005

  •  
  • Al-Azhar Conference Center (ACC) Building.

4 Ismail El-Qabbany St. off El-Tayaran St.,

Nasr City, Cairo, Arab Republic of Egypt.

 

سرورق: جامع ازہر كى ايك ناياب پينٹنگ جو فرانسيسى مستشرق «پريس ڈافيں: prisse dAvennes » (1807- 1879) كى ايك  شاہكار تخليق ہے-

پہلا ايڈيشن    1433ہجرى- 2012ء

© No parts of this publication may be reproduced, stored in    a retrieval system, or transmitted, in any form or by any means, electronic, mechanical, recording or otherwise, without the prior permission of the publishers. 

 

 

 

ازہر شریف کی دستاویزات

 

مصر کے قومى مستقبل کى دستاویز

اقوامِ عرب کے ارادہ کی تائید کا بیان

بنیادی حريت وآزادی کے منظومہ کا بیان

 مقاصدِ تحريك کى تكميل كا بیان

 بيانِ بيت المقدس الشريف

 

 

 

 

 

 

 

مقدمہ دستاویزات

حمدوثنا کے بعد!

ازہر شریف پوری تاریخ میں مصر کی قومى  قیادت کا منبر رہا ہے،  ازہر شریف امت مسلمہ کا وہ ضمیر ہے جو اس کے درد کو محسوس کرتا ہے، اس کے بلند  پایہ توقعات کا اظہار کرتا ہے، اس کے حقوق کا دفاع کرتا ہے، پھر وہ  اپنے اصل اور ذرخیز سرمایہ کی بدولت ، مقامی، اقلیمی اور بین الاقوامی طور پر اپنی وسطیت کی ضیا پاشیوں سے عرب اور اسلامی کلچر کا شاندار مركز بھی  ہے۔

ان تمام قدر ومنزلت اور حیثیتوں کے پیش نظر ازہر شریف نے امت مسلمہ اور تمام آباد قوموں کے درمیان باہمی گفتگو کی دعوت دی، جس کا مقصد نافعیت کا تبادلہ کرنا، بلند انسانی مصلحتوں کا تبادلہ اور اس بین الاقوامی آپسی تعارف کو پورا کرنا ہے جس کو سورہ احزاب میں بیان کیا گیا ہے (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ) (اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تم کو قوموں اور قبائل میں تقسیم کردیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو، اور تم میں سب سے مکرم اللہ کے نزدیک وہی ہے جو متقی ہے، اللہ سب کچھ کی خبر رکھنے والا ہے ) (سورۂ الحجرات: 13)۔

 ازہر شریف ساتھ  ساتھ ان چیزوں کو مكمل طور پر رد کرتا ہے جس سے امت مسلمہ اور اس کی شریعت پر آنچ آئے، خواہ اس کا مصدر کچھ بھی ہو، اور وہ مختلف اطراف کے ساتھ ڈائيلاگ کے ذریعہ غیر تعمیری حرکتوں کی تصحیح کےلئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے، اسی وجہ سے ازہر نے اس کے اور دیگر اداروں کے مابين معاہدوں کا مراجعہ کیا اور ان معیاروں کی روشنی میں اس کا نئے سرے سے ايک جديد ڈھانچہ تیار کیا۔

ازہرشریف نے اپنے عہد ِجدید میں ڈائیلاگ کے سلسلے میں اپنے نظریے، اس کے اطراف، اس کے شرائط اور اس کے اصولوں میں تبدیلی اور تعدیل کی پہل کی، اور ابتدا میں اپنے تمام پہلوؤں کےساتھ مصری مصری /مصری عربی / اور اسلامی اسلامی ڈائلاگ پر توجہ مرکوز کی، بعد اس کے کہ ڈائلاگ محض  ایک خارجى شکل تھی جس کو معیار اور بیرونی حالات تھوپتے تھے، اب خود ازہر شریف  کے ہاتھ میں ایک پہل کے طور پر ہے، جو ایک ایسے ثابت شدہ  باہمی گفتگو کے بیک گراؤنڈ سے نکلتی ہے جو قرآن مجید، سنت نبویہ اور اسلامی تہذیب کے دور عروج کے سیاقات پر اعتماد کرتا ہے۔

چونکہ تعلیم ہی پیامِ ازہر کی ریڑھ کی ہڈی ہے، تو اس نے دو سال سےاپنے  نصاب تعلیم میں  تصحیح کا کام شروع کردیا ہے، ازہر کے سیکنڈری مرحلے کے ضمن میں اسلامک وعربی اسٹڈیز کا ایک خاص شعبہ قائم کیا، جس سے وابستہ طلبہ کو شرعی اور لینگویج کالجز میں ایڈمیشن کے لئے تيار كيا جاتا ہے جس میں ازہر شریف  کے وسطیت اور اعتدال  پر مبنی مضامین کی تدریس نہ صرف عربی میں بلکہ مختلف زبانوں میں کی جاتی ہے ، ازہر شریف کے اسی نصاب تعلیم نے  علامہ شلتوت، مراغی، دراز، عبد الرزاق سے لےکر عبد الحلیم، امام شعراوي اور محمد غزالی جیسے عظيم علما كوجنم ديا ۔

یہ بات  پچیس جنوری 2011 کے انقلاب سے پہلے تھی لیکن  جب 2011 میں انقلابی ماحول اصلاح اور بیداری کے لئے مزید مہمیز بن کر سامنے آیا تو دائرہ  عمل مزيد وسیع ہوا، اور متعدد کردار سامنے آئے، لیکن ان تمام کا مقصد دو بنیادی محور پر مرکوز تھا، ازھر کے اندرونی گھر کی اصلاح : گریجویشن کے مرحلے اور اس سے قبل کے مرحلے کے نصاب تعلیم کی اصلاح، اور یہ تمام فضلاء ازھراور مصریوں کے نزدیک سب سے ضروری مقصد ہے، پھر اسلامی اور وطنی کردار کو  اجاگر کرنا جس کی توقع سب لوگ اقلیمی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے قدیم ترین ادارے سے کئے ہوئے ہیں۔

مشیخہ الازہر نے  اپنی عوام کے اس شعور کو اہمیت کی نظر سے دیکھا اور  بحث و مباحثہ کے میدان کو ( جس سے  لوگ اکتا چکے تھے)  کو چھوڑ کر  مصری دانشوروں کو  دعوت دی جس میں ملک کے تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی، بغرضي کہ وہ ازہر شریف کے نمایاں علماء کے ساتھ مل کر صورت حال کا جائزہ لیں، انقلاب کے بعد پیش آمدہ تبدیلیوں اور اسکی ضرورتوں کا متابعہ کریں، اور پھر کچھ ایسے شرعی طور پر مقبول اصولوں پر متفق ہوں  جو ان مفکرین کے نزدیک بھی متفقہ ہوں اور  جو مصر کے موجودہ صورتحال سے موافق بھی ہو، بلکہ ایسے روشن نمونے ہوں کہ دیگر اسلامی معاشروں کے لئے بھی وہ ان کے حالات اور ارادے کے لحاظ سے قابل تقلید نمونے ہوں۔

ان مشترکہ علمی، فکری اور چند مہینوں تک چلنے والے پیہم گفتگؤوں اور مشاورات کے نتیجے میں یہ دستاویز تیار ہو کر سامنے آئی ، جس کو ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

اول: ملک کے بنیادی نظام کی دستاویز جو حاکم اور محکوم کے درمیان تعلقات کو منظم کرے، حقوق اور واجبات کی تحدید کرے، حکومت میں ڈیموکریٹک عوامی مشارکت کو منظم کرے، اور ملک کی ایسی تصویر نقش کرے جس سے ہماری امت خوش ہو، ہماری شریعت سے ہم آہنگ ہو، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے زمانے کی ضروریات بھی پوری ہو۔

فکری مباحثات اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ ملک جدید، قانونی اور ڈیموکریٹک ہے، اور جد ت سے مراد یہ ہے کہ وہ تینوں اداروں کے درمیان فرق اور فصل کی حفاظت کرے، تنفیذی، قانون سازی، اور قضائ، اور یہ دستاویز 17/7/1432ھجری موافق 19/5/2011 کو جاری ہوا۔

مختلف علمی اور سیاسی حلقوں نے اس کا پرتپاک استقبال کیا، اور یہ امید کی کہ ملک کی دستوری اور شورائی کمیٹیاں ملک کے دستور لکھتے وقت اس دستاویز کو سامنے رکھیں گے۔

دوسرا بیان : جب مصری عام منظر نامہ پر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ازہر شریف کی طرف سے ایک ایسا جامع بیان جاری ہو جو بنیادی آزادیوں کی حفاظت میں حصہ لے اور جو مصري معاشرے کے حالات کے متقاضی ہو، اور مصری اس کے سایہ میں جینا چاہتے ہیں، اور ان آزادیوں کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں واجب ہوتی ہیں وہ قانونی اور شرعی دائرہ میں ہو، وہ شریعت کے مقاصد پر مبنی ہو، تقریبا دو مہینے کے بعد دوسری دستاویز پہلی دستاویز کی غیر معمولی مقبولیت کے بعد  جاری ہوئی ، تاکہ وہ ملک کی جدید انقلابی ماحول کی ضروریات کو پورا کرسکے، یہ دستاویز عقیدہ کی آزادی، علمی بحث و تحقیق کی آزادی، ادبی اور فنی إبداع کی آزادی کی قانونی، فلسفیانہ اور شرعی اصل پر مشتمل تھا، اور ہر وہ چیز جو اظہار رائے کی حمایت کرتی ہو، اور  یہی سب ذمہ دارانہ آزادی کی بنیاد ہے۔۔

پھر عرب اسپرنگ کے نتیجہ میں مصر اور تیونس کے علاوہ یمن، لیبیا اور سوریا میں سیاسی تحریک زور پکڑی اور نئے حالات رونما ہوئے، اور پورا عالمِ عرب نے اس پر لبیک کہا، بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ سب ایک رد عمل تھا  ان حکمرانوں کی سرکشی اور ظلم وتشدد کا جس سے قومیں دوچار تھیں، لہذا یہ ضروری تھا کہ ازہر شریف ان بپھری ہوئ قوموں کے تئیں اپنےموقف کو بیان کرے،۔

عرب قوموں کے ارادے کی تائید سے متعلق تیسرے بیان کی تیاری کے لئے علماء اور دانشور حضرات ایک دفعہ پھر جمع ہوئے، اور ازہر شریف نے یہ اعلان کیا کہ جو حاکم اپنی قوم کا خون بہائے اس کی شرعیت  معدوم ہوجا تی ہے، جب تکہ انقلاب امن پسندانہ اور عوامی ہو، اور قوموں کے بلند توقعات کی نمائندگی کرتی ہو، نہ کہ مسلمانوں اور عرب کے گھات میں بیٹھی طاقتوں کی،  اور یہ بیان تیرہ ذی الحجہ 1423ھجری موافق 30/12/2011 کو جاری ہوا۔

جب  مصر کی ملکی جتھوں کے درمیان بحثہ و مباحثہ چھڑ گیا، اور نتیجہ میں مختلف جماعتوں کے مابین شدید کشیدگی پیدا ہوئی، اور قریب تھا کہ انقلاب " غیر ذمہ دار عناصر کی مداخلت کی وجہ سے" تشدد کی طرف مائل ہو جائے، اس وقت ازہر شریف نے " انقلاب کو پورا کر نے اور اس کی  امن پسندانہ روح کو بحال کرنے کے لئے" ایک اہم بیان جاری کیا، اور اس بیان کو جاری کرنے میں پوپ شنودا نے بھی شرکت کی، علاوہ ازیں وزیر اعظم اور مختلف دینی، فکری اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی اور یہ 17/12/1433 ہجری موافق 11/1/2012عیسوی کو صادر ہو ا، چنانچہ حالات کچھ پرسکون ہوئے اور اللہ کے فضل وکرم سے قومی جماعت نے انتشار کے بحران کو عبور کر لیا۔

پانچواں اور آخری بیان مسجد اقصی سے متعلق تھا، جب غاصب اور ظالم دشمن  نے بیت المقدس کے ساتھ اپنی باغیانہ اور تہویدی سرگرمیوں کو تیز کردیا اس حرم مقدس کے خلاف جس مسلمانوں کا قبلہ اولی ہے، اور ان کی مقدس مساجد میں سے تیسرا ہے، اور ان کے رسول اللہ صلعم کے معراج پر تشریف لے جانے کی جگہ ہے، جس نے ساٹھ صدیوں سے اس کی عربیت کی تاکید کی تھی، اور شہر مقدس پر  ہوئی زیادتیوں کو واشگاف کیا، اور یہ کہ مسلمان اس سے ظلم کو دفع کرنے اور اس کو عربی اور اسلامی سیادت کے زیر انتظام تمام مذاہب و ادیان کے لئے کھلا رہنے پر تاکید کرتے  ہیں۔ پس  دستاویز نے اس بات کو واضح کیا کہ صہیونی اپنے سرکش ملک اور طاقت کے بل بوتے پر شہر مقدس کے خلاف زیادتیاں کر کے علاقہ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، یہ بیان 24 ذی الحجہ 1433ہجری موافق 20 نومبر 2011 کو جاری ہوا۔

مشیخہ ازہر نے مناسب سمجھا کہ ان  پانچ تاریخی  دستاویزات  کو درج کرلیا جائے تاکہ ایک لحاظ سے وہ مصری انقلاب کے سرمایہ کی حفاظت ہو تو دوسری جانب یہ انقلاب کی اس نسل کے لئے نفع بخش ہو جو اسمیں شریک نہیں ہوئی، اور پھر بھی یہ عرب قاری کے لئے بے فائدہ  نہیں ہوگا جو ایسے حقیقی اصلاح کا خواہش مند ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کرے اور اس کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کرے، اور وہ پندرہویں صدی کے پہلی تہائ میں امت توحید کے شایان شان ہو۔

(وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ)

 (اللہ اپنے معاملے پر غالب آنے والا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے )(سورۂ يوسف: 21)۔

شیخ ازہر احمد الطیب

مشیخہ ازھر

4 جمادی الأولى 1433ھجری

27مارچ 2012

 

1-مصرکے مستقبل کے بارے میں ازھراور چند دانشوران مصر کا دستاویزی بیان

شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد طیب کی پہل پر مختلف فکری اور دینی تعلیم یافتہ افراد ازھر کے علماء کےساتھ اکٹھا ہوئے، اور انہوں نے مختلف اجتماعات کے دوران پچیس جنوری کے بعد مصر جن تاریخی اور فیصلہ کن مرحلے سے گذررہا تھا اس کے تقاضے، مصر کے روشن مستقبل اور بلند مقاصد کی طرف رہنمائی میں اس کی اہمیت، آزادی، کرامت، مساوات اور سماجی عدل و انصاف میں مصری قوم کے حقوق پر غوروفکر کیا۔

اور شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وطن کے قافلےکو منزل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے  ہمہ گیر اور بنیادی اصولی اور قواعد و ضوابط کی بنیاد ڈالی جائے جس سے مصری سماجی طاقتیں بحث و مباحثہ کرکے اس سے رہنمائی حاصل کرے تاکہ حکمرانی کی صحیح فکری ڈھانچوں کو مضبوط کیا جا سکے۔

سبھی کی جانب سے صحیح وسطیت پر مبنی اسلامی فکر کو واضح کرنے میں ازھر کے قائدانہ کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس کی مرکزیت ومرجعیت کا، تمام شرکاء اس کی اہمیت کی تاکید کرتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسا روشن منارہ ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے، حکومت کا دین سے کیسا تعلق ہو اسکی تحدید کرنے میں اسی کو فیصل بنایا جاتا ہے،اور صحیح شرعی اور سیاسی بنیادوں کو بیان کرنے میں جس کو اپنایا جانا مناسب ہے، ازھر کے غیر معمولی تجربات اور اس کی علمی و ثقافتی تاریخ پر مرکوز کرتے ہوئے جو مندرجہ ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

  1. دینی علوم کے احیاء اور اس کی تجدید میں فقہی پہلو اہلسنت والجماعت کے مذہب کے موافق کو عقل و نقل کو جامع ہے، اور وہ نصوص شرعیہ کی تاویل میں رعایت کی جانے والی قواعد کو واشگاف کرتا ہے۔
  2. آزادی اور استقلال کی طرف قومی تحریک کی قیادت میں ازھر کے روشن کردار کا پہلو۔
  3. مختلف سائنسی علوم اور متنوع سرسبز و شاداب آداب وفنون کے علوم کا احیاء کا تہذیبی پہلو۔
  4. سماج کی تحریک اور مصری زندگی میں فکری قائدین کی تشکیل کا عملی پہلو۔
  5. وطن عربی اور اسلامی میں ایجوکیشن،  کلچر، قیادت، اور بیداری پیدا کرنے کا جامع پہلو۔

 

شرکاء کی اپنے بحث ومباحثے میں یہ خواہش رہی کہ وہ ازھر شریف میں اصلاح، ترقی، اور بیداری وفکر کے نمایاں شخصیات کے تراث کی روح کو حاصل کریں، شیخ الاسلام شیخ حسن عطار اور ان کے شاگرد رفاعہ طھطاوی سے لےکر امام محمد عبدو اور ان کے شاگردوں جیسے محمد عبد اللہ دراز، مصطفی عبد الرزاق، شلتوت اور ان کے علاوہ شیخ الاسلام اور آج تک کہ علماء وغیرہ۔

جیساکہ ساتھ ہی انہوں نے بڑے بڑے  مصری تعلیم یافتہ  کے کارناموں سے رہنمائی حاصل کی جنہوں نے انسانی اور معرفت کی ترقی میں شرکت کی، اور عصر حاضر کی بیداری میں مصری اور عربی عقل کی تشکیل میں حصہ لیا، جیسے کہ فلسفہ، قانون اور ادب وفن کے اساتذہ، اور اس کے علاوہ علوم و معارف جس نے فکر، احساس اور عام وجدان کے ساز کو چھیڑا، اور اس کے لئے ہر وقت محنت کیا، اور سب کے لیے مشترکہ ڈھانچے رکھے، اور یہ ڈھانچے جس کا بلند مقصد ہے اور امت کے دانشوران اور حکماء اس کو پسند کرتے ہیں اورجو مندرجہ ذیل چیزوں میں رونما ہو گی ۔

اس نازک مرحلے میں اسلام کا حکومت سے تعلق کیسا ہو، اس کو سمجھنے کے لئے حکومت کے اصول و ضوابط کی تحدید کرنا، اور وہ اجتماعی اتفاق کے دائرے میں جو مطلوبہ اپٹوڈیٹ ملک اور اسمیں حکومت کے طریقے کار کو بیان کرے، اور امت کو تہذیبی ترقی کی طرف تیز گام کرے، جس سے ڈیموکریٹک انتقال کا کام انجام پائے، اور سوشل عدل و انصاف کا ضامن ہو۔

اور مصر کے لئے انسانی اور روحانی اقدار اور کلچرل سرمایہ کی حفاظت کےساتھ معرفت، ایجوکیشن، اور خوشحالی اور امن سلامتی کی ضامن ہو، اور یہ ان اسلامی اصولوں کی حمایت کے لئے جو امت ذ اور علماء و مفکرین کے  ذہن میں رچ بس گئ ہے اور انہیں غفلت، بدنامی یا انتہاپسندی اور غلط توضیح سے بچانے کےلئے ہے، اور اسی طرح انہیں ان منحرف نعروں کا استغلال ہوجائے سے بچانے کےلئے جو وقتا فوقتاً مذہبی یا آئڈیالوجیکل نعرے بلند کرتے ہیں جو ہماری امت کے ثوابت اور مشترکہ افکار کے منافی ہے، اور وہ اعتدال وسطیت کے راستے سے دور، مساوات، عدل اور آزادی میں اسلام کے جوہر سے متناقض ہے اور تمام آسمانی مذاہب کی رواداری سے دور ہے۔

چنانچہ اسی بنیاد پر ہم یہاں اکھٹا ہوے تمام شرکاء مندرجہ ذیل اصولوں پر روشن اسلامی مرجعیت کے مزاج کی تحدید کے لئے اتفاق کرتے ہیں جو بنیادی طور پر چند ایسے کلی مسائل کی شکل میں ہیں جو قطعی طور پر دلائل کے لحاظ سے ثابت نصوص سے ماخوذ ہیں، بایں طور کہ وہ دین کی صحیح سمجھ سے عبارت ہے، اور اجمالاً ہم ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل راؤنڈز میں کرتے ہیں۔

پہلا : اس جدید ڈیموکریٹک قانونی قومی ملک کی تائید کرنا جو ایسے دستور پر مبنی ہو جس سے امت راضی ہے، وہ ملک کے اداروں اور اس کے قانونی حاکم اداروں کے درمیان فصل کرے، اور حکومت کے دائرے کی تحدید کرے، اور مساوات کی بنیاد پر اپنے تمام شہریوں کے لیے حقوق اور واجبات کا ضامن ہو، اس طور پر کہ قانون سازی کا حق عوام کے ہاتھ میں ہو، جو صحیح اسلامی مفہوم کے ساتھ موافق ہو، جیساکہ اسلام نے نہ تو اپنی تشریعات، اور نہ ہی تہذیبوں اور تاریخ میں ایسی چیز کو جانا جو دیگر کلچرل سے معروف ہے اسی کہنوتی دینی حکومت جو لوگوں پر قابض ہو گئ ہو اور تاریخ کے مختلف مراحل میں انسانیت ان مشاکل سے بہت دوچار ہوئ ہو، بلکہ اسلام نے لوگوں پر اپنے سماجوں کے انتظام و انصرام، اپنی مصلحتوں کے پیش نظر ذرائع اور اداروں کا انتخاب چھوڑ دیا، اس شرط پر کہ اسلامی شریعت کے کلی اصولوں کے موافق ہو، جو کہ قانون سازی کی بنیاد ہے، اور جو دیگر آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے لئے پرسنل اور عائلی مسائل میں انہیں اپنے مذہب کی طرف رجوع کے حق کا ضامن ہو۔

دوسرا : آزادانہ براہ راست انتخاب پر قائم ڈیموکریٹک نظام کو تقویت دینا، جو کہ اسلامی شورائی نظام کے اصولوں کو حاصل کرنے کے لئے  موجودہ مفہوم  ہے، جو در اصل امن پسندانہ طریقہ سے حکومت کی انتقالی کا ذریعہ، اسپیشلائزیشن کی تحدید، ادائیگی کی نگرانی اور قوم کے سامنے ذمہ داروں کا محاسبہ ہے اور تمام قانون سازیوں اور فیصلوں میں لوگوں کی مصلحت اور منافع کا خیال اور حکومت کو قانون سے چلانا، صرف قانون سے، کرپشن کی پکڑ دھکڑ، اور مکمل شفافیت بہم پہنچانا، معلومات کو حاصل کرے اور اسے نقل کرنے کی مکمل آزادی ہو۔

تیسرا: بچہ، عورت اور تمام انسانی حقوق کے مکمل احترام کے ساتھ رائے اور فکر کی بنیادی آزادیوں کے منظومہ کا التزام، اور اس بات پر زور کہ آسمانی مذاہب کا احترام اور تعدد کے اصول کا خیال رکھنا اور معاشرے میں وطنیت کو تمام ذمہ داریوں کا سبب تسلیم کرنا۔

چوتھا : ڈائلاگ کے اخلاقیات اور آداب اختلاف کا مکمل احترام، دوسروں کو کافر اور خائن قرار دینے اور دین کا استغلال اور ملکی باشندوں کے درمیان دشمنی، نفرت اور انتشار پھیلانے سے پرہیز کی ضرورت، اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ فتنے اور عنصری نعرے بلند کرنے کو ملک کے حق میں ایک جرم اعتبار کرنا، اور قوم کے مختلف جماعتوں کے درمیان احترام متبادل، اور مناسب باہمی گفتگو پر بھروسہ کرنا اور اس کو فروغ دینا، تمام باشندوں کے درمیان حقوق واجبات میں بغیر کسی  فرق کے۔

پانچواں : بین الاقوامی معاہدوں اور فیصلوں کی پاسداری کی تاکید، اسلامی اور عربی کلچر کے روادارانہ تقالید کےساتھ انسانی تعلقات میں تہذیبی کارناموں کو تھامنا، اور اسے جو مختلف زمانوں میں مصری عوام کی طویل تہذیبی تجربہ سے ہم آہنگ ہے، اور اسے جو  پرامن بقائے باہم اور پوری انسانیت کے لیے بھلائی چاہنے کے  روشن نمونے پیش کئے ہیں ان کے ساتھ ہم آہنگی۔

چھٹا: مصری امت کی کرامت کی حفاظت کی مکمل خواہش، اور اس کے قومی عزت کی حفاظت، تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے عبادت گاہوں کےلئے مکمل احترام اور مکمل حمایت کی تاکید، اور بلا کسی رکاوٹ کے تمام شعائر کو انجام دینے کی گارنٹی، اور عبادت کے مختلف اشکال کے ساتھ تمام مظاہر کا احترام، کسی قوم کے کلچر کو بیوقوفانہ یا اس کے اصلی رسم عروج کی شکل بگاڑے بغیر، اسی طرح اظہار رائے، فنی اور ادبی اختراع کی آزادی کی حفاظت اپنے تہذیبی اقدار کے دائرے میں۔

ساتواں : ایجوکیشن، اور علمی ریسرچ و بحث اور معرفت کے زمانہ میں انٹری کو مصر کی تہذیبی ترقی کا انجن سمجھنا، اور اس میدان میں چھوٹی ہوئ چیزوں کے استدراک کے لئے تمام کوششوں کو جھونک دینا، اور امت میں سے جہالت کو ختم کرنے کے لیے پوری توانائیاں صرف کرنا، انسانی قوت کو بار آور بنانا، اور بڑے بڑے مستقبل کے پروجیکٹ کو حاصل کرنا۔

آٹھواں : معاشرتی عدل و انصاف اور ترقی کو حاصل کرنے کے لئے اولویات کو سمجھنا، ظلم کا مقابلہ کر نا، کرپشن کا خاتمہ کرنا، بیروزگاری ختم کرنا، جو میڈیا، کلچر سوشل پروگراموں، اور معاشی میدانوں میں معاشرے کی قوت کو کھول دے، اور یہ سب ان اولویات کے سرفہرست ہو جس کو ہماری عوام نے موجودہ بیداری میں اپنایا ہے،  اور ساتھ ہی ساتھ تمام ملکی باشندوں کے لئے سنجیدہ اور مکمل جسمانی اور صحت کا خیال رکھنا حکومت پر واجب ہے۔

نواں: اپنے عرب پڑوسیوں اور اس سے متصل اسلامی دائرے اور افریقی اور عالمی دائرے سے ایک مضبوط بنیاد پر تعلقات قائم کرنا، فلسطینی حق کی نصرت کرنا، اور مصری ارادے کی آزادی کی حفاظت، اور مصر کا تاریخی قائدانہ کردار کو واپس لانا، مشترکہ بھلائی میں تعاون کی بنیاد پر اور قوموں کی مکمل آزادی اور خودمختاری کے دائرے میں اور انسانی ترقی کےلئے شریفانہ انسانی کوشس میں مشارکت، اور آب وہوا کی حفاظت اور قوموں کے درمیان منصفانہ امن سلامتی کو مستحکم کرنا۔

دسواں : ادارہ ازھر کی آزادی کے پروجیکٹ کی تائید، جینیس  اسکالر بورڈ کا اعادہ اور شیخ الازھر کی نامزدگی اور انتخاب میں اس کا اختصاص واپس لوٹانا، ازھری نصاب تعلیم کی تجدید کاری پر کام کرنا، تاکہ وہ اصل فکری کردار اور پوری دنیا میں اپنے عالمی اثر کو واپس دوبارہ حاصل کرسکے۔

گیارہواں : ازھر شریف کا شمار اس طور پر کہ وہ ہی خاص ادارہ ہے جس کی طرف اسلامی معاملات، اس کے علوم اور اس کے سرمایے، اور اس کے جدید فکری وفقہی امور میں رجوع کیا جائے، باوجودیکہ اپنی رائے کے اظہار کی آزادی کو سب سے چھینے بغیر لیکن جب لازمی علمی شرائط پائے جائیں،اور بشرطیکہ حوار کے آداب اور جس پر علماء کا اتفاق ہے اس کا احترام کیا جائے۔

ازھر اسکالر اور تمام دانشوران جو اس بیان کی تیاری میں شامل ہوئے مصری تمام سیاسی پارٹیوں اور جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بیان  میں وارد بنیادی اصولوں اور محددات کی روشنی میں مصری کی سیاسی، اقتصادی، اور سماجی ترقی کےلئے کوشش کریں۔

اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے اس چیز کی  جسمیں امت کی بھلائی ہے۔

شیخ ازہر احمد الطیب

 

2-عرب قوموں کے ارادے کی تائید میں ازھر اور دانشوروں کا بیان

فیصلہ کن تاریخی مرحلہ  جس سے امت عرب کی قومیں گذر رہی ہے ڈیموکریسی، عدل و انصاف اور آزادی کے خاطر اور اپنی تہذیبی قافلے کو از سر نو شروع کرنے کے لئے  اس کے مطالبات کا اداراک سینئر علماء ازھر اور ان کے ساتھ شامل دانشوروں نے کیا، شریعت اسلام میں آزادی کی روح سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے، اور حکومت کی مشروعیت کے فقہی قوانین اور اصلاح میں اس کے کردار، اور امت کے لئے بلند مقاصد اور مصالح کے حصول کے لئے ازھر کی پالیسی اور مصر ووطن عربی میں فکری قائدین کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے ظالم اور جابر سامراج سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک کی تائید کرتے ہوئے، اور سب کا یہ ایمان ہیکہ بیداری اور ترقی کے اسباب کو اپنانا  امت کی بیداری کے لئے اور تاریخی غلطیوں کو نذر انداز کرتے ہوئے، اور سماجی انصاف میں مواطنين کے حق کو مستحکم کرتے ہوئے، شریعت کے مضبوط بنیادی اصول پر، جو عقل، دین، نفس عزت و آبرو اور مال کی حفاظت کا ضامن ہے، اور اس ظالمانہ ادارہ کے سامنے سد باب بن جائے جو عربی واسلامی معاشرے کو روشن تہذیبی زمانے، معرفت کی ترقی، اور ہمہ گیر بیداری اور معاشی خوشحالی کو حاصل کرنے میں شریک ہونے اور داخل ہونے سے محروم کر دیتا ہے،  ان تمام کے پیش نظر وہ گروہ جس نے ازھر کا دستاویزی بیان جاری کیا اور جسمیں مصری سماج کے مختلف اطراف کی نمائندگی تھی اس نے عربی انقلابات نے جو سرسبز باہمدیگر اور مختلف مسالک اور جماعتوں کے درمیان جو زبردست مقبولیت حاصل کیا اس سلسلے میں  متعدد تعمیری ڈائلاگ کا اہتمام کیا، اور فکر اسلامی سے ماخوذ اصول و ضوابط اور عرب قوموں کے بلند توقعات پر اتفاق کیا اور اخیر میں ازھر شریف کی زیر نگرانی مندرجہ ذیل امور اور معاہدوں کے احترام کا اعلان ہوا۔

پہلا: دینی اور دستوری نقطہ نظر سے حکمراں ادارے کی شرعیت قوموں کی رضامندی، اور اس کے آزادانہ انتخاب جو ڈیموکریٹک طریقہ سے علی الاعلان صاف وشفاف طریقے سے ہو  اس طور پر کہ وہ اسلامی بیعت کا جو نظام تھا یہ اس کا جدید ترین عصری متبادل ہے، اور وہ جدید ملک کی کارروائیوں میں نظام حکومت کی ترقی کے موافق ہے، اور جس پر قضائ، تنفیذی اور قانون ساز اداروں کی تقسیم دستوری عرف کے لحاظ سے مستقر ہے، اور ان کے درمیان فیصل کرنے والا ہو، اور نگرانی، سوال وجواب اور محاسبہ کے ذرائع کو ضبط میں لایا جاسکے، بایں طور کہ امت ہی تمام اختیارات کا منبع ہو  اور وہی ضرورت کے وقت اسے شرعیت عطا کرے اور چھینے، بہت سارے حکمراں اپنی حکومت سے چمٹے رہنے کے لئے اس قرآنی آیت کی غلط تشریح کرتے ہیں، (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ) ( اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول اور حکمرانوں کی) (سورۂ النساء: 59) اس آیت کے سیاق و سباق کو بلکل بھلا کر جو اس سے پہلے آیا ہے، (إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ) ( اللہ تمہیں حکم دیتا ہےکہ تم امانت والوں کو انکی امانتیں واپس کردو، اور جب لوگوں کے درمیان انصاف کرو تو عدل کیساتھ انصاف کرو)  (سورۂ النساء: 58)۔

حکمرانی کی امانت اور عدل قائم نہ کرنے کیوجہ سے اس نے قوموں کے لئے یہ جواز فراہم کردیا کہ وہ عدل قائم نہ کرنے والے حکمرانوں کا مقابلہ کریں اور ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اور جو ہمارے فقہائے نے حکمرانوں میں سے ظالم اور جابر پر صبر کرنے کو کہا ہے وہ امت کو انارکی اور افراتفری سے بچانے کیلئے ہے، اور یہ بھی اجازت دیا ہیکہ ظالم کو عزل کردیا جائے اگر اس کی قوت حاصل ہو، اور نقصان اٹھانا اور نقصان پہونچانے کے احتمال کو امت اور سماجوں کی سلامتی کے لئے ختم کیا۔

دوسرا : جب امن پسندانہ اور عوامی قومی اپوزیشن کی آواز بلند ہو جوکہ حکمران کو درست اور راہ راست پر لانے کے لیے اصل حق ہے، اور حکمراں پھر بھی قوموں کی آواز کو نہیں سنتے، اور مطلوبہ اصلاحات میں پہل نہیں کرتے، بلکہ اس جائز قومی مطالبات سے تجاہل کرتے ہیں، جو آزادی، عدل و انصاف کی آواز لگاتے ہیں، تو یہ اپوزیشن کے افراد سرکش نہیں سمجھے جائیں گے، بلکہ سرکش وہ ہوں گے جن کے اندر فقہی طور پر ایسے اوصاف یعنی قوت و شوکت کے نشہ میں وہ قوم سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہوں، اور اپنے مخالفین کا سامنا ہتھیار سے کرتے ہوں، اور طاقت کے بل بوتے پر زمین میں فساد پھیلاتے ہوں، جہاں تک معارض امن پسند قومی تحریکوں کی بات ہے تو وہ تو اسلام میں انسان کا اصل حقوق میں سے ہے، جیساکہ بین الاقوامی معاہدوں نے اس کی تاکید کی ہے، بلکہ یہ ہر شہر ی کا فریضہ ہے اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کو درست کرنے کے لئے، اور اس پر لبیک کہنا حکمرانوں اور اہل حکومت پر واجب ہے بلا کسی سرکشی اور چالاکی کے۔

تیسرا :  کسی بھی قومی امن پسندانہ مظاہرہ کو  طاقت اور مسلح تشدد سے ختم کرنا، امن پسند شہریوں کا خون بہانا، امت اور حکمرانوں کے درمیان معاہدہ کو توڑنا ہے، اور اس سے حکومت کی قانونی حیثیت ساقط ہوجاتی ہے، اور وہ رضامندی سے اس کے حکمرانی کے حق کو باطل کر دیتا ہے، اور اگر حکومت اپنی سرکشی میں ہٹ دھرمی دکھائے اور ظلم و ستم اور زیادتی پر اتر آئے، اور اپنے ناجائز بقا کے لئے بے قصور شہریوں کا خون بہانے کو معمولی سمجھے تو وہ حکومت مجرم بن گئ اسکی تاریخ گندی ہوگئ، اور پھر مظلوم و مقھور عوام کا یہ حق ثابت ہو جاتا ہیکہ وہ ظالم حکمرانوں کی معزولی اور ان کے محاسبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، بلکہ پورا نظام بدل دیں، امن و امان اور استقرار یا فتنوں اور سازشوں سے نمٹنے کےلئے کتنے ہی اعذار کیوں نہ ہو۔

بے قصوروں کا خون بہانا حکومت کے قانونی حیثیت کے باقی رہنے اور جرم و زیادتی کے گناہ میں ساقط ہونے میں خط فاصل ہے،  ہماری تمام وطنوں کے نظامی فوجوں سے گذارش ہےکہ وہ اپنی قانونی ذمہ داری   کے بموجب ان حالات میں بیرونی عناصر سے ملک کی حفاظت کریں، نہ کہ شہریوں کو ڈرانے اور اندر ہی ان کا خون بہانے کا آلہ بن جائیں،ارشاد باری ہے،( مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً) (جس نے کسی جان کو بلاوجہ قتل کیا، یا زمین میں فساد پھیلایا، گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا، اور اگر اس نے ایک جان کو بچایا تو گویا کہ اس نے تمام جانوں کو بچایا )  (سورۂ  المائده:32)۔

چوتھا : انقلاب، تجدید اور اصلاح کی قوتوں پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ان تمام چیزوں سے بلکل دور ہوں جو خون کو بہانے کا سبب بنے، یا بیرونی طاقتوں سے مدد کا ذریعہ بنے خواہ اس کا مصدر کچھ بھی ہو،  اور یا جو بھی اسباب اور ذرائع ہوں جو انکے ملکوں اور وطنوں میں دخل اندازی کرتے ہیں، اگر وہ بیرونی تعاون لیتے ہیں تو وہ اپنی امت اور اپنے ملک کےلئے سرکش شمار کئے جائیں گے، اس وقت حکومت پر یہ لازم ہوگا کہ وہ انہیں وطنی صف میں لا کھڑا کریں، اور یہ سب سے پہلا فریضہ ہے، اور انقلابی وتجديد کی  طاقتوں پر یہ لازم ہے کہ وہ  انصاف اور آزادی کے  لیے متحد ہوں، اور مذہبی، نسلی یا فرقہ واریت سے گریز کریں، ملکی وحدت کو باقی رکھنے کے لئے، شہریت کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے، تمام کے مفاد کےلئے پوری طاقت کو یکجا کرنا ڈیموکریٹک انتقال اور تبدیلی کے لئے، قومی اور ملکی ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے، اور جس کا مقصد عدل و انصاف کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر ہو، اور ایسا نہ ہو کہ انقلابی تحریکیں فرقہ وارانہ اور مذہبی مال غنیمت میں تبدیل ہوجائے، یا مذہبی احساسات کو بھڑکائے۔

بلکہ انقلابیوں، مجددین، اور مصلحین پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے اداروں کی حفاظت کریں، اور اس کی دولت کو بیکار نہ کریں، یا شرپسندوں کے امیدوں پر نہ اتریں، اختلافات اور مقابلوں سے گریز کریں اور ایسی بیرونی طاقتوں سے مدد نہ لیں جو آپ کے وطن اور اس کی دولت کی طرف للچائی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

پانچواں : ان اسلامی اور دستوری اصولوں پر جو تہذیبی شعور کے جوہر سے عبارت ہے، علماء ازھر،  کلچر اور فکر کے قائدین تجدید و اصلاح میں عرب قوموں کی مکمل تائید کا اعلان کرتے ہیں، اور آزادی اور سماجی عدل و انصاف کے معاشرے کی جو تونس، لیبیا، اور مصر میں سرخرو ہوئ، اور اب تک یمن اور شام میں بھڑکی ہوئی ہے۔

اور ان تمام وحشیانہ تشدد کے آلات کی مذمت کرتے ہیں جو اس کے شعلے کو بجھانا چاہتے ہیں، اور وہ اسلامی وعربی سماج سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ  کم سے کم نقصان پر اس کو کامیاب بنانے کےلئے فیصلہ کن پہل کو اپنائیں، قوموں کا اپنے حاکم کے انتخاب  میں مکمل آزادی کی تاکید کرتے ہوئے، اور ان کو ظلم و ستم، کرپشن اور استغلال سے روکنے کےلئے، کسی بھی حکومت کی قانونی حیثیت اس کی قوم کے ارادے کا مرہون منت ہے، اور نقصان کو دور کرنے کےلئے اسلامی قانون میں غیر مسلح امن پسندانہ اپوزیشن کے حق کی ضمانت ہے،  چہ جائے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں میں یہ انسان کے اصل حقوق میں سے ہے۔

چھٹا : علمائے ازھر اور مشارکین دانشوران حکمراں اسلامی اور عربی نظاموں  سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ والینٹری طور پر دستوری، سماجی اور سیاسی اصلاح کی پہل کریں، اور ڈیموکریٹک تبدیلی کا آغاز کریں، مظلوم قوموں کی بیداری برپا ہونا لازمی ہے، اور کسی بھی حاکم کے بس میں نہیں ہے کہ وہ آزادی کے سورج کو اپنی قوم سے چھپائے، اور شرم کی بات ہے کہ عرب خطہ اور چند اسلامی ممالک دیگر دنیا کے علاوہ پسماندگی، اور ظلم وسرکشی میں ڈوبے رہیں، اور جھوٹ اور زیادتی کے طور پر اس کو اسلام اور اس کے بے قصور کلچر کی طرف اسکی نسبت کی جائے،  جس طرح ان ممالک پر لازم آتا ہے کہ وہ فورا علمی بیداری، ٹکنالوجی ترقی، اور معرفت کے تخلیق کے اسباب اختیار کرے، اور انسانی طاقتوں اور فطری دولت کو اپنے شہریوں کی خدمت اور پوری انسانیت کی خوشبختی کے لئے صرف کرے۔

یہ بات اور کہ ظلم و تشدد کے نگہبان یہ گمان نہ کریں کہ وہ ظالموں کے انجام سے بچ جائیں گے، یا اس کے بس میں ہے کہ وہ قوموں کو گمراہ کر دیں گے،  جبکہ اب اوپن کمیونیکیشن کا زمانہ اور نالج کا دھماکہ، روشن تہذیبی اور دینی سیادت کا زمانہ ہے اور قربانی وفدائیت کے نمونے دنیائے عرب میں مشہور ہیں۔ 

ان تمام چیزوں نے لوگوں کی بیداری سے ایک دہکتا ہوا شعلہ بنا دیا، اور آزادی سے ایک بلند جھنڈا اور مظلوم قوموں کی امید کی ایک کرن جو سرخروئی تک مرمٹنے والا جدوجہد کی طرف گامزن رکھے۔

دین سے نا آشنا اور اسلامی تعلیمات کو شبیہ بگاڑنے والے اور ظلم و ستم، اور سرکشی کی تائید کرنے والے اس کھیل سے باز آئیں جسمیں اب  کوئی فائدہ نہیں ہے۔ 

(وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ) ( اور اللہ ہی اپنے معاملے پر غالب آنے والا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ) (سورۂ يوسف: 21)۔

اے اللہ ہم آپ سے ایسی رحمت کے طلبگار ہیں جو ہمارے دلوں کو ہدایت سے روشن کردے، اور ہمارے بکھرے شیراز ے کو یکجا کردے، اور ہم سے فتنوں کو دور فرما، اے پروردگار عالم۔

یہ تحریر مشیخہ ازھر میں 3 ذی الحجہ 1433 ھجری مطابق 30 اکتوبر 2011کو تحریر کی گئی،

شیخ ازہر احمد الطیب

 

3- بنیادی آزادیوں کے متعلق ازھر اور انٹلیکچول افراد کا بیان

آزادی کے ان انقلابات کے بعد جس نے آزادیوں کی روح بیدار کردیا،  اور مختلف جماعتوں کے اندر مکمل بیداری کی چنگاری سلگا دی، مصری قوم اور امت مسلمہ و عربیہ امت کے علماء اور اس کے انٹلیکچول افراد کی طرف امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ عادل اسلامی شریعت کے کلی اصول اور بنیادی آزادی کے منظومہ جس پر بین الاقوامی معاہدوں کا بھی اتفاق ہےاور جو مصری قوم کے تہذیبی تجربہ کا بھی نتیجہ ہے اس کے مابین تعلق کی تحدید کریں، اس کی بنیادوں کی اصل کی طرح ڈالنے، اس کے ثوابت کی تاکید، اس کے ان شرائط کی تحدید کرتے ہوئے جو تبدیلی اور ترقی کی تحریک کی حمایت کرتا ہو، اور مستقبل کے آفاق کو کھولتا ہو،  وہ عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی، علمی  بحث وتحقيق کی آزادی، فنی اور ادبی ابداع کی آزادی ہے  ایک ایسی بنیاد پر جس میں شریعت کے روشن مقاصد کی رعایت کی گئی ہو، جدید قانونی کی روح کا اداراک کیا گیا ہو، اور انسانی معرفت کی پیش قدمی کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہو، جو امت کی روحانی طاقت سے اسکے نشات ثانیہ کے لئے ایندھن تیار کردے، اور ترقی کے لئے وہ مہمیز کا کام کرے، اور مادی و معنوی ترقی کے لئے ایک راہ ہو، ایک ایسی پیہم کوشش کے ذریعہ جس میں روشن دینی خطاب کے ساتھ صحیح کلچرل خطاب ہم آہنگ ہو، اور دونوں ایک ثمر آور فیوچر کی ہم آہنگی کے ساتھ دو نوں مل جائیں، جس میں ایسے مقاصد اور اہداف یکجا ہوں جس پر سب متفق ہوں، چنانچہ ازھر شریف کی زیر نگرانی جن ازھری علماء اور مصری تعلیم یافتہ افراد نے پہلا ازھری دستاویز جاری کیا تھا، انہوں نے اس کے بعد ڈیموکریسی اور آزادی کی جانب پڑوسی عرب قوم کی تحریک کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا، اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور انسانی حقوق و  آزادیوں کے منظومہ پر مشترکہ فکری پہلوؤں پر غور وفکر کیا، اور ان آزادیوں کے لئے فیصلہ کن اصول و ضوابط کو تسلیم کیا،  موجودہ تاریخی اور فیصلہ کن لمحہ کے تقاضوں کے پیش نظر اور سماجی اتفاق کے جوہر کی حفاظت کرتے ہوئے، اور  ڈیموکریٹک تبدیلی کے مرحلے میں مفاد عامہ کی رعایت کرتے ہوئے، تاکہ امت اللہ کی توفیق سے امن وسلامتی اور عدل کے ساتھ قانونی اداروں کی داغ بیل ڈالنے کی طرف منتقل ہوجائے۔

تاکہ ایسے  خود غرض نعرے پھیل نہ جائے، جو بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے نام پر عام و خاص کی آزادی میں دخل دینے لگے، جو بات جدید مصر کی سماجی اور تہذیبی ترقی کے ساتھ مناسب نہیں ہے، اور ایسے وقت میں جب ملک کو اتحاد، اور دین کی وسطیت پر مبنی صحیح  فھم کی سخت ضرورت ہے، اور یہی ازھر کا پیغام ہے، اور وطن اور سماج کے تئیں اس کی ذمہ داری ہے۔

پہلا: عقیدے کی آزادی جو حقوق وواجبات میں مکمل برابری پر کامل وطنیت کے حق سے مربوط ہے وہ جدید سماج کی تعمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، دینی نصوص قطعیہ اور صریح قانونی اور دستوری اصول سے اس کی ضامن ہے، جیساکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا، (لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ) (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں)، سورة البقرة 256، اورہدایت گمراہی کے مقابل واضح اور نمایاں ہے، اور فرمایا (فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ) (جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے) سورة الكهف 29۔  

اور اس بنیاد پر دین میں زور زبردستی یا اس کی وجہ سے ظلم اور تمیز کا  ہر مظہر ایک جرم ہے،  دوسرے کے حق کو ٹھیس پہونچائے بغیر آسمانی عقائد کی حفاظت کرتے ہوئے،معاشرے میں ہر فرد کو حق ہے وہ جو  فکر چاہے اختیار کرے،تینوں خدائی مذاہب کے لئے اس کا تقدس ہے، اسکے افراد کو دوسروں کے احساس کو ٹھیس پہونچائے یا اس کی حرمت کو پامال کئے بغیر قول کے ذریعہ ہو یا فعل کے ذریعہ یا عام نظام میں خلل ڈالے بغیر اپنے شعائر کو قائم کرنے کی پوری آزادی ہے۔

چونکہ وطن عرب آسمانی وحی کے اترنے کی جگہ اور خدائی مذاہب کا گہوارہ ہے تو اس پر ان کے تقدیس، اس کے شعائر اور اس پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کی آزادی، کرامت اور اخوت میں رعایت کرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔

 

پهلا: عقیدے کی آزادی

عقیدے کی آزادی کا مطلب کہ حقوق واجبات میں یکساں طور پر مواقع فراہم کیا جائے، شراکت اور شہریت کی ٹھوس بنیاد پر ان کے درمیان مساوات، اور ہر شہری کا دوسرے شہری کے جذبات کی رعایت کرنا، اور حق اختلاف کا خیال رکھنا، اور تعدد کی مشروعیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے، جس کے نتیجہ میں یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اعتقاد کی آزادی کا احترام، اقصاء اور تکفیر کے نظریوں کا رد، اور ان کی توجہات کا انکار، جو دوسروں کے عقائد کی مذمت کرتے ہیں، اور ان عقائد کی بنیاد پر مؤمنين کے دلوں میں میں تفتیش کرتے ہیں۔ دستوری نظاموں کی بنیاد پر بلکہ اس سے قبل علمائے مسلمین کے یہاں جو حدیث شریف سے جس کو قطعی صریح احکام نے مقرر کیا ہے کہ، "کیا تم نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا ہے" جس کو امام اہل مدینہ امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے اس اصول سے طے کیا ہے، اگر کسی کی جانب سے کوئی ایسی بات صادر ہو جس میں سو وجوہات کفر کے ہوں اور ایک وجہ ایمان کی تو، اس کو ایمان پر محمول کیا جائے گا۔ ائمہ مجتہدین اور اہل قانون نے اسلام میں عقل کے مرتبہ کو بلند کیا ہے، اور ایک سنہرا اصول یہ بنایا ہے کہ جب عقل و نقل میں تعارض ہو تو عقل کو مقدم کیا جائے گا، اور نقل کی تاویل کی جائے گی، مصلحت کے پیش نظر اور مقاصد شریعت کو بروئے کار لاتے ہوئے۔

 

دوسرا : اظہار رائے کی آزادی

آزادی رائے تمام آزادیوں کی جڑ ہے، اور رائے کی آزادی کا اظہار کتابت، خطابت، اور فنی تخلیق، اور تواصل کی آزادی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، اور وہی سوشل آزادی کا مظہر ہے جو افراد سے گذرکر دوسروں کو بھی شامل ہے، جیسے پارٹی تشکیل دینا، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بنانا، جیساکہ صحافت، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادی اپنی رائے ظاہر کرنے کے لئے، اور بنیادی معلومات کے حصول کی آزادی وغیرہ ہیں۔ اور یہ ضروری ہے کہ اس کی ضمانت قانونی نصوص کے ذریعہ ہوں، تاکہ وہ عمومی قابل تغییر قانون سے بلند ہو، مصر میں اعلی دستوری عدالت نے اظہار رائے کی آزادی کے مفہوم کو وسیع کیا تاکہ وہ تعمیری تنقید کو بھی شامل ہو اگر چہ عبارت سخت ہے اور صراحت کی ہے کہ تمام مسائل میں اظہار رائے کی آزادی کو عدم تجاوز سے قید کرنا درست نہیں بلکہ اس میں درگذر ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ تینوں خدائی مذہب کے عقائد اور اس کے شعائر اکا احترام ضروری ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے قومی سلامتی اور اتحاد کو خطرہ ہے۔

لیکن آزادی رائے کے نام پر یہ کسی کو حق نہیں کہ وہ فرقہ وارانہ فتنے، اور مسلکی نعروں کو بلند کرے، اگرچہ اجتہاد کا حق ہے وہ جو دلیل کی بنیاد پر علمی رائے سے متصل ہو اور مخصوص حلقوں میں فتنہ گری سے دور ہو، جیساکہ علمی تحقیق کی آزادی میں یہ بات گذرچکی ہے۔

شرکاء اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا حقیقی مظہر ہے، اور وہ نئ نسل کو دوسروں کے احترام، حق اختلاف، اور آزادی کے کلچر پر پرورش اور تربیت کی گذارش کرتے ہیں، اسی طرح میڈیا میں سیاسی، کلچرل اور دینی خطاب کے میدان میں کام کرنے والے افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اہم پہلو کا خیال رکھیں اور ایسی عام رائے بنانے میں جو درگذر، وسعت اور ڈائلاگ کو اپنانے، تعصب سے گریز ہو پوری حکمت سے کام لیں۔

اس کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عدل و انصاف، عفو ودرگذر سے آراستہ اسلامی فکر کی تقالید کا استحضار کیا جائے جس کے بارے میں ائمہ مجتہدین کہا کرتے تھے " میری رائے درست ہے اور غلطی کا احتمال ہے، اور دوسرے کی رائے غلط ہے لیکن اس کے درست ہونے کا احتمال ہے، اظہار رائے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کہ ڈائلاگ کے اصول و آداب کے موافق دلیل کا مقارنہ دلیل سے کیا جائے اور اسی پر ترقی یافتہ سماجوں میں  تہذیبی عرف  مستقر ہے۔

 

 تیسرا :علمی تحقیق کی آزادی

ریاضی، سائنسی اور انسانی علوم میں سنجیدہ بحث و تحقیق کو ہی انسانی ترقی کا انجن اور انسانیت کی بھلائی کے لئے دنیا کے طریقوں اور اس کے قوانین کو کھوج کرنے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے،  امت کی پوری طاقت اور توانائی جھونکے بغیر اس کی فکری اور تطبیقی نظریات کے پھل سامنے نہیں آسکتے، انسانیت اور دنیا کے تکوینی مظاہر پر کی کھوج بین، غور و فکر، تدبر، اور استنباط وقياس پر قرآن نے ابھارا ہے، اور مشرق کی تاریخ میں سب سے بڑی علمی اٹھان کی راہ ہموار کی، جو حقیقی صورتحال پر اتری اور مشرق و مغرب کے انسانوں کو سعادت سے بہرور کیا، علماء اسلام نے اس کی قیادت کی اور اس کی شعلوں نے یورپ کے بیداری کے عہد کو روشن کیا، جیساکہ معروف اور ثابت ہے۔

اگرچہ مختلف معارف اور فنون میں سوچنا ایک اسلامی فریضہ ہے، جیساکہ مجتہدین کہتے ہیں، تجرباتی اور نظریاتی بحث و تحقیق اس فکر کا آلہ ہے، اور اس کے اہم شرائط میں سے ہے کہ بحث و تحقیق کے ادارے اور ماہر علماء احتمالات اور فرضيات کے تجربہ کیلئے ایک آزادانہ اکیڈمی کے مالک ہوں اور انکا انتخاب باریک علمی معیاروں کے ساتھ ہو، ان اداروں کا حق ہے کہ وہ ایسے تخلیقی اور تجربہ کے مالک ہوں جو جدید تحقیقات اور نتائج میں اضافہ کرے، اور اس سلسلے میں ان کی بہتر رہنمائی علم اور اس کے مناھج، اخلاقیات اور ثوابت ہی کر سکتی ہے، بڑے بڑے مسلم اسکالرز اور سائنسدان جیسے رازی، ابن ہیثم، ابن نفیس اور انکے علاوہ علمی معرفت کے أقطاب متعدد صدیوں تک مشرق و مغرب میں اسٹار رہے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ و عربیہ طاقت کی دوڑ، اور معرفت کے زمانے میں داخل ہوں، آج علم ہی ترقی، خوشحالی اور فوجی و اقتصادی قوت کا سبب اور مصدر ہے، اور آزادانہ علمی تحقیق ہی تعلیمی بیداری، علمی فکری بالادستی، اور پروڈکشن کے مراکز کی ترقی کا راز ہے، کیونکہ اس کے لئے بھاری بھرکم بجٹ خاص کیا جا تا ہے، اور اس کے لئے ورک ٹیم بنایا جاتا ہے اور بڑے بڑے پروجیکٹ کی تجویز پیش کی جاتی ہے، اور ان سب کے لیے ضروری ہے کہ انسانی بحث و تحقیق کا معیار اور سطح کافی بلند ہو۔ اور ایسا ہو گیا کہ یورپ تمام عملی ترقی پر قبضہ کر لیتا اور علم قافلے کا احتکار کر لیتا اگر جاپان، چین، اور ہندوستان و جنوب شرق آسيا کی بیداری نہ ہوتی، جس نے اس احتکار کو توڑنے اور علم و معرفت کے وسیع باب میں داخل ہونے کے روشن نمونے پیش کئے۔

اب وقت آگیا ہے کہ مصری اور عرب مسلمان تہذیبی، علمی کمپٹیشن کے میدان میں اتریں، کیونکہ ان کے پاس ایسی روحانی، مادی اور بشری طاقت ہے جو ان کو اس کا اہل بنا سکتی ہیں اس کے علاوہ ترقی کے وہ شرائط بھی ایک ایسی دنیا میں جو کمزوروں اور پسماندہ کا احترام نہیں کرتی۔

چوتھا : فنی ادبی اختراع اور جدت پسندی کی آزادی

اختراع کی دو قسمیں ہیں ایک علمی جو بحث علمی سے تعلق رکھتا ہے، اور دوسرا ادبی فنی اختراع، شعرو شاعری، ڈرامہ ناول، کہانی، بایو گرافی، بصری اور تشکیلی فنون، سینیما، اور ٹیلی-ویژن اور موسیقی کی شکل میں رونما ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ دوسری جدید فنکارانہ اشکال جو ظاہر ہوتے ہیں۔

اور ان تمام آداب وفنون کا مقصد بیداری پیدا کرنا، خیال کو سرگرم بنانا، خوبصورت احساس  کو پروان چڑھانا، انسانی حواس کو مثقف بنانا، اس کے مدارک کو وسعت دینا،زندگی اور معاشرے سے متعلق انسان کے تجربے کو گہرائی دیناہے، جیسے کبھی سماج پر تنقید کرنا جس کے ذریعے اس سے بہتر افضل اور اچھے کی طرف دیکھنا،اور یہ سب کے سب بلند وظائف ہیں جو درحقیقت زبان، ثقافت اور خیال کو قوت، فکری کو  بالیدگی اخلاقی فضائل، بلند دینی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے عطا کرتا ہے۔

عربی زبان اپنی ادبی سرمائے اور قابل دید بلاغت سے ممتاز ہوئ تاآنکہ قرآن مجید بلاغت اور اعجاز کے اعلی معیار کو لےکر آیا، تو اس نے اس کے حسن اور عبقریت کو مزید دو آتشہ کردیا، شعر و شاعری، نثر اور حکمت کو اس سے غذا ملی، تمام جنسوں کے شعراء جو اسلام کے تابع ہوئے ان کے جوہر اسی سے کھلے، بغیر کسی حرج کے انہوں نے تمام فنون میں  ہر دور میں تخلیق و اختراع کیا، بلکہ بہت سارے عربی کلچر کے علماء اور شیوخ  شعر و شاعری اور ناول کے بڑے جانکار تھے، جو بنیادی قاعدہ اختراع اور جدت پسندی میں آزادی کی حدود بندی کرتی ہے وہ ایک ناحیہ سے  ، ادبی اور فنی اختراع میں تراث اور تجدید کے سرمائے کا استیعاب کرنے میں معاشرے کی قابلیت ہے  اور دوسرے ناحیہ سے یہ کہ موجودہ اخلاقی اقدار اور دینی احساسات کو ٹھیس نہ پہونچائے، چنانچہ ادبی اور فنی اختراع بنیادی آزادیوں کے منظومہ کی ترقی کا اہم مظہر رہے گا اور معاشرے کے اندر بیداری اور اس کے وجدان کے ساز کو چھیڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا، اور جس قدر صحیح آزادی راسخ ہو گی وہ اس کے مہذب ہونے پردلیل ہوگی، اس لئے آداب و فنون معاشروں کی  ضمیروں کا آئینہ ہے اور ان کے ثوابت اور تبدیلیوں کی سچی تعبیر ہے، اور روشن مستقبل کی طرف ان کے تمناؤں کی ایک تروتازہ تصویر پیش کرتی ہے۔

یہ تحریر مشیخہ ازھر میں

8 جنوری 2012موافق14 صفر 1433 ہجری کو تحریر کی گئی

شیخ ازہر احمد الطیب

 

4-مصری انقلاب کے مقاصد کی تکمیل اور اس کی روح کو بحال کرنے سے متعلق ازھر شریف کا بیان

ازھر شریف کی قومی پہل اور کیبنٹ، مصری قومی گرجا گھر اورعوامی نمائندے کی شرکت  آج کے اس تاریخی دن اور مصری انقلاب کی پہلی عید میں وہ انقلاب جس نے اپنی غیر معمولی خصوصیات سے پوری دنیا کو حیران کر دیا، اور خالص اپنے  امن پسندانہ چھاپ سے، اور  مصر کی مردوخواتین سمیت قومی اتحاد و اتفاق کی حرص اور کمیونیکیشن کے میدان میں سب سے لیٹسٹ ہتھیار کے استیعاب کے ساتھ آج انقلاب کے مقاصد میں سے پہلے ہدف کو پورا کرنے کے لئے سب جمع ہیں، اور  وہ مصر کو اس دور سے آزاد دلانا ہے جو کرپشن، کمزوری، اور ظلم و زیادتی سے عبارت تھا، آج کے دن پورا مصر اسی جگہ لوٹ آئے جہاں انقلاب کے دن موجود تھا، اور اس نے مخلص قومی نوجوانوں کی قربانیاں دیکھی تھیں، ان میں سے جنہوں نے مصر کے خاطر اپنی جان قربان کردی تھی، آج مصر اسی میدان تحریر کی طرف لوٹ آیا جو اپنے عربی حروف کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں داخل ہوا اور اپنے ڈیموکریٹک روح سے مشرق و مغرب کی متعدد قوموں کو متاثر کیا۔

آج مصر میدان میں بھی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی، مصر کی فوج بھی، اور مصر کی عوام بھی، مصر کی حکومت بھی، مصر کا ازھر بھی، مصر وطن بھی، اور اس کی عربی شناخت بھی، مصر کا اسلام بھی، اور مصر کی مسیحیت بھی، مصر کی تاریخ بھی اور مصر کا تراث بھی، مصر کا حاضر بھی اور مستقبل بھی، مصر کی اصل دینداری اور مکمل شہری آزادی بھی، آج وہ پوری دنیا کا اپنے شریف انقلابی چہرے سے مطالعہ کر رہا ہے، اور ان قومی التزامات کا اعلان کرتا ہے۔

- 1 اس میدان کی روح کی حفاظت جیساکہ گذشتہ ان اٹھارہ دنوں میں تھا، جس نے مصری تاریخ کا دھارا بدل دیا، اور وطن کے ہر فرد کو ایک کلمہ پر جمع کردیا۔

2 -قوم پرستی کا معاہدہ، تمام سابقہ اقدار کے نام پر جو پچیس جنوری کے انقلاب کی تکمیل کے لئے تھا۔

3 -اس وطن کے تمام فرد اور جماعت  کی دیکھ بھال پر اتفاق بلا کسی غلبہ، یا زبردستی یا دھتکارنے یا جانبداری کے بغیر،

4 -ہر دستوری شہری کے حق کی تاکید کورٹ میں اس کے قاضی کے سامنے، شہریوں کا فوجی محاکمہ بند کرنا اور تمام سیاسی طور گرفتار لوگوں کی رہائی۔

-5کرپشن اور سرکشی کے سرداروں کا جلدی محاکمہ جو حق اور عدل و انصاف اور شفافیت کے ساتھ ہو۔

6 -شہیدوں کے خاندانوں کے حقوق کے ساتھ وفاداری اور زخمیوں کا مکمل علاج، انکو بدلہ دینا، کام فراہم کرنا، اور ان کی مکمل رعایت کرنا۔

 -7ملک کے اداروں کو ڈیموکریٹک طرز لے کر چلنا، اور حکومت شہریوں کو متعینہ وقت پر بلا کسی تاخیر کے سپرد کردینا۔

8-صاف وشفاف انتخابات کے نتیجے کا التزام کرنا، اور انقلاب کے تمام نوجوانوں کے درمیان اور قوم کے  منتخب نمائندوں کے درمیان  ڈیموکریسی کے سایہ میں مصر کے مستقبل کی تعمیر میں تعاون ، اور یہ پارلیمنٹری شرعیت اور قومی توافق کی بنیاد پر ہو۔

-9 منظم کرپشن اور کچلنے کی سیاست کا خاتمہ، ساتھ ہی ساتھ طاقتور مصری اکنامک کے لئے سنجیدہ کوشس ہو، جس میں مصر کے تمام امکانات کو ثمر آور بنایا جائے، اور تمام افراد کے لئے عدالت کو یقینی بنائے۔

10-خطے کی قیادت میں مصر کے قومی کردار کی بحالی، اور بین الاقوامی سیاست میں بلاکسی غلامی اور جانبداری کے آزاد فیصلہ لینا۔

11 -مصر کی فوج - جو وطن کا سرمایہ اور انقلابی طاقتوں کا حامی ہے - اپنے کردار کو نبھانے کے لئے مصر کی سرحدوں اور اس کے قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے لوٹ آنا۔

-12 قوم کی طاقت کو نئ زندگی عطا کرنا،  بالخصوص انقلابی بیدار نوجوانوں کو سماج اور ملک کی تعمیر کے لئے، پسماندگی، غربت، بیماری اور جہالت کا خاتمہ اور مصر کی سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی اٹھان تاکہ ہو عرب اور امت مسلمہ کے لئے روشن نمونے ہو۔

 

مشیخہ ازھر میں یہ تحریر 17 صفر 1433 ھجری مطابق 11 جنوری 2012 ھجری۔

شیخ ازہر احمد الطیب

 

5-بیت المقدس سے متعلق بیان

ایسے وقت میں جبکہ شہر بیت المقدس کو صہیونی اور یہودیت رنگ میں رنگنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں، حرم قدسی میں اسلامی مقدسات پر صہیونی زیادتیاں بڑھ رہی ہیں، اور اس کے قلب مسجد اقصی ہے، اور حرم شریف کے آثار مٹانے میں صہیونی پروجیکٹس پے درپے سامنے آرہے ہیں، اور اس کا آخری پروجیکٹ قدس ٹرین پروجیکٹ، ازھر شریف جو عالم اسلام کا قبلہ علمی ہے، اور وہ امت کی سرحدوں پر خیمہ زن ہے اور اس کے عادلانہ مسائل کا دفاع کرتا ہے خواہ وہ قومی ہو یا اسلامی۔

پہلا : ساٹھ صدیوں سے بھی زیادہ سے قدس عربی ہے، بایں طور کہ عرب یبوسیوں نے عیسوی سے قبل چوتھی صدی میں تعمیر کیا تھا، یعنی ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اکیس صدی قبل اور یہودیت کے  ظہور سے پہلے جو موسی علیہ السلام کی شریعت ہے یعنی 27 صدی  قبل۔

دوسرا : یہ کہ موسی علیہ السلام کی شریعت اور ان کی تورات جو مصر میں ظاہر ہوا وہ ہیروغلیفی زبان بولتے تھے، بنی اسرائیل کے جنگجو بن کر غزہ میں داخل ہونے سے پہلے، اور عبری زبان کے ظاہر ہونے سے سو سال پہلے، اسی وجہ کر نہ تو یہودیت کا اور نہ ہی عبرانی کا قدس اور فلسطین سے کوئی تعلق ہے،

تیسرا : شہر قدس میں عبرانی وجود اس کے بعد 415 سال سے زیادہ تجاوز نہیں کیا حضرت داؤد اور سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جو زمانہ دس صدی قبل عیسوی کا ہے، اور وہ ایک عارضی اور انتقالی وجود تھا، بعد اس کے کہ قدس کا قیام عمل میں آیا اور اس پر تیس صدی گذر چکے تھے۔

چوتھا : کیونکہ شہر قدس کی تاریخ بہت سے جنگجو اور جنگ کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے تاریخ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہمیشہ تمام جنگجوؤں نے اس شہر پر اپنا قبضہ جمانے اور اس کو اپنے طرف منسوب کرنے کی کوشس کی ہے، ایسا بابلیوں، اغریقی، رومیوں اور اسی طرح صلیبیوں نے اور اب صھاینہ انہی جنگجوؤں کے راستے پر چلتے ہوئے اس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنے، اس پر قبضہ کرنے اور اس کے عربی وجود کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

جنگجوؤں نے ایسا کیا، لیکن اسلام واحد ایسا مذہب ہے جو تمام شرائع اور ملل کا اعتراف کیا اور تمام مقدسات کا احترام کیا، اور واحد وہ ہے جس نے اس شہر کی قدسیت کی تاکید کی اور اس کو تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اس کی اشاعت کی، اور عربی حکومت تمام کے مصالح کی ضامن  ہے، اور قدس عربی حکومت کے زیر نگرانی اللہ کا شہر ہے اللہ کے تمام مخلوقات کے سامنے اسکے دروازے کھلے ہیں۔

پانچواں : قدس پر قبضہ جمانا اور اسکو یہودیت کے رنگ میں رنگنا موجودہ حملے میں وہ ان تمام بین الاقوامی معاہدوں اور اتفاق کی صریح خلاف ورزی ہے جو زمین کی طبیعت، اس کے باشندوں اور قابض جگہو ں پر اس میں تبدیلی پیدا کی جائے، اسی وجہ سے قدس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا غیر قانونی ہے، چہ جائے کہ ان تاریخی حقائق سے ٹکرانا جو قدس کے عربی ہونے پر شاہد ہے اس وقت سے جب سے یبوسیوں عرب نے ساٹھ صدی پہلے اس کی تعمیر کیا۔

چھٹا : ازھر شریف اور اس کے پیچھے مشرق و مغرب کے تمام مسلمان ہیں، ان مشروعات کو رد کرتی ہے، اور صیہونی حکومت اور ان طاقتوں کو جو اس کے پس پشت ہے، ان انجام سے ڈراتی ہے جو منطقہ کے امن وسلامتی ہی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہے، اور ہم صہیونیوں اور اس کے پس پشت لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ صلیبیوں نے اس سے زیادہ وسیع رقبے میں اور قدس ان کے قبضے میں اس سے کئی سال گنا زیادہ ان کے زیر نگیں رہا، لیکن  اس کے باوجود بھی تاریخ کی سنت رہی ہے کہ وہ پیچھے نہیں مڑتی  اس نے احتلال کو نیست و نابود کردیا اور ظالموں کے آثار کو دور کردیا، اور صہیونی جو مغربی شہنشاہِی ظالم حکومتوں کے سہارے قدس شریف کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں، وہ خود یہودیوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، اور امت اسلامیہ کے ریڈ لائن کو کراس کر رہے ہیں، جنہیں تعدا دایک چوتھائی انسانیت ہے، اور وہ امت جلد ہی اپنے حقوق چھیننے پر قادر ہے۔

بلا شبہ قدس صرف مقبوضہ زمین نہیں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں وہ حرم اسلامی اور مقدس مسیحی ہے، اور اس کا مسئلہ صرف فلسطینی وطنی مسئلہ نہیں یا قومی عربی مسئلہ ہے بلکہ وہ ان تمام سے آٹھ کر ایک اسلامی اور عقیدے کا مسئلہ ہے، وہ اس کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں،

اور تمام اصحاب مقدسات کے نزدیک اس کی تشجیع ضروری ہے، تاکہ اس کو اسرائیلی قبضے اور صیہونی یہودیت سے چھٹکارا دلایا جاسکے۔

ازھر شریف دنیا کے تمام آزاد لوگ سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے عربی حق کی مدد کریں، اسی طرح یہود کے عقلمند افراد کو بلاتی ہے کہ وہ تاریخ سے عبرت حاصل کریں، جو ان کے مظلومیت پر شاھد ہے وہ جہاں بھی گئے، سوائے اسلامی ملکوں اور مسلمانوں کی تہذیب کے علاوہ۔

اور ازھر ایک بار پھر اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ قدس کو یہودیت کے رنگ میں رنگنا اور اس کے حرم شریف پر زیادتی کرنا ریڈ لائن ہے اور یہ مقدمہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین سے صہیونیوں کا پتہ صاف ہوجائے گا۔

اور اس سے پہلے صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرانے کا طریقہ متعین کردیا ہے، جب انہوں نے صلیبی بادشاہ ریچارڈ کو لکھا "اور اس سے کہا کہ تم یہ مت سوچو کہ ہم بیت المقدس سے دستبردار ہوجائیں گے، ایک امت مسلمہ کے طور پر، اور اللہ تمہیں اس مقدس زمین میں این اینٹ بھی تعمیر کرنے نہیں دیگا جب تک جہاد جاری ہے"

اور تاریخ نے ناصر صلاح الدین کی بات کو سچ کر دکھایا اور ہر عقلمند کو معلوم ہیکہ کہ تاریخ کے کچھ سنت الہی ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا ہے، (وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ) ( اللہ اپنے معاملے پر غالب آنے والا ہے لیکن  اکثر لوگ نہیں جانتے )( سورۂ یوسف : 21)۔ ۔

(وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ)  (اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں) (سورۂ الشعراء 227)۔

یہ تحریر مشیخہ ازھر میں 24  ذی الحجہ 1432ھجری موافق 20 نومبر 2011 میں درج کی گئی

شیخ ازہر احمد الطیب

 

Print
10290 Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.