اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

اسلام ميں دفاعى جنگ كے قوانين
Anonym

اسلام ميں دفاعى جنگ كے قوانين

مقدمہ
بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ الله للعالمين، وعلى آله وصحبه ومن اقتدى به وسار على نهجه.. وبعد؛
ناممکن تو نہیں، لیکن مشکل ضرور ہے کہ میں ان چند سطروں میں عصر حاضر کے عظیم المرتبت ممتاز عالم دین شیخ محمد ابو زہرہ (رح) کے سلسلہ میں کچھ تحریر کروں- كيونكہ اس عالى مقام عالم اور اسكالرنے مختلف اسلامى تہذيب وثقافت كا گهرا مطالعہ كيا، اس کے گنجلک امور کو واضح کیا ، اور اس کے راز اور مخفی و پوشیدہ امور کا انکشاف کیا ہے یہاں تک کہ وہ عقلی اور اسلامى علوم وفنون کے امام قرار پائے اور ان کو اپنے معاصرین، مریدین اور شاگردوں کے درمیان ایک اعلی مقام حاصل ہوا۔
شریعتِ اسلامیہ کے دفاع اوراس کے اور موجودہ قوانین کے درمیان موازنہ کرنے کے میدان ميں ان کا علم ایک لامحدود سمندر کے مترادف تھا۔ اسی طرح وہ اصول فقہ، سیرت نبوى، مختلف ادیان ومذاہب کے تقابلی مطالعہ میں ماہر تھے۔ ایک ممتاز مؤرخ ہونے کے ناطے وہ پرانے ادیان ومذاہب اور نئے دور کے اتار چڑھاؤ سے مکمل طور پرواقف تھے۔ اسلام کے مختلف زمانوں میں مجتہد ائمۂ فقہ کی زندگی سے متعلق ان کا بہت ہی قیمتی کتابی سلسلہ ہے جس ميں امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہم) کی سوانح حیات شامل ہے- علاوہ ازیں انہوں نے ابن حزم ، امام صادق ،امام زید اور ابن تیمیہ وغیرہ جیسے جلیل القدر علمائے کرام کی زندگی سے متعلق کتابیں بھی تحریر کیں۔
طالب علمی کے زمانہ میں مجھے دو سال(1966 ، 1967ء)( ) ان عالی مقام امام کے ہاتھوں شاگردگی کا شرف حاصل ہوا ۔ دو سال کی مدت میں انہوں نے ہمیں شادی، طلاق، رضاعت ،نسب ،میراث، وصیت اوراصول فقہ پڑھایا ۔ آج تک مجھے "پرسنل لا" کے احکام یاد ہیں اور جب بھی مجھے مسلمانوں کے پرسنل لا کے کسی بھی مسئلہ کی حقیقت وماہیت جاننےکی ضرورت ہوتی ہے تومیں ان کی کتابوں کی طرف رجوع کرتا ہوں اور مجھے گہرائی وگیرائی کے ساتھ آسان اور سلیس انداز میں اس کا جواب مل جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ شیخ صاحب ذی وقار ، خوش منظر اور روشن چہرہ والے تھے۔ ان کو دیکھتے ہی ان کی علم ومعرفت ، اسلامى علوم میں ان کی گرفت ، جدید مسائل میں اجتہاد کی قدرت اور ایک سے زائد علوم میں ماہر اور قابل ہونے کی وجہ سے دل میں ہیبت ،محبت اور لامحدود پسندیدگی کے احساسات وجذبات پیدا ہو جاتے تھے- ان کا نام سنتے ہی ابن سینا، امام غزالی اور ابن خلدون جیسے علمائے کرام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جن کو جیتے جاگتے یا متحرک انسائکلوپیڈیا کے نام سے جانا جاتا تھا ۔
جب ہم ان سے کسی بھی مسئلہ کے بارے میں سوال کرتے تھے تو ہمیں ان کی طرف سے ایک ہزار جواب مل جانے کی توقع ہو جاتی تھی۔ وہ اس وقت بہت زیادہ ناراض ہوتے تھے جب کوئی طالب علم ان کے سامنےاپنے علم کا اظہار کرتا لیکن وہ ان کا جواب فطری انداز میں غیر سنجیدگی کے ساتھ دے دیتے۔ ہم نے ان سے یہ سیکھا کہ سوال کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچنا چاہیے، اور یہ بھی جانا کہ سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے اور غور سے سننے سے بہت سے سوالات پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
امام صاحب کو غیر معمولی علمی صلاحیات حاصل تھیں، جس کی بنیاد پر وہ احکام شریعت اور موجودہ زمانہ کے نئے مسائل کے درمیان قربت پیدا فرما لیتے تھے۔ وہ مجتہد امام کی ایک عظیم اور انمول مثال تھے ۔ ان کی عقل صرف نصوص (قرآن اور حديث نبوى) کو سمجھنے ،اس کو پڑھانے اور دوسروں کو اس کی تلقین کرنے کے دائرہ تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ تو نص کا مطالعہ بہت ہی باریک بینی کے ساتھ کرتے تاکہ زمان ومکان کے تغیرات کے مطابق مناسب حل پیش کیے جا سکیں۔ ان کو ایسی اجتہادی شان حاصل تھی جو ان کے بعد آنے والے بہت سارے علماء کو حاصل نہ ہوئی-

ہم یہ کتاب "اسلام ميں دفاعى جنگ كے قوانين" غیر مسلم قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں- اس كتاب ميں امام أبو زہرہ نے اسلام کے قوانین وضوابط میں رحمت کی مرکزیت پر روشنی ڈالی، اور واضح کیا کہ اسلام نے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں بھی رحمت کی صفت کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے بخوبی سمجھ ليں گے کہ اسلام مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت صرف اپنی جان کی حفاظت کرنے کی حالت میں دیتا ہے اور اسلام قتل وقتال اورتلوار کا دین نہیں ہے جیسا کہ آج کل اسلام پر جھوٹ اور بہتان باندھا جا رہا ہے۔ اسلام میں جنگ کی حالت میں رحمت اختیار کرنے اور لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے کے وہ اخلاق ہیں جو کسی دوسرے نظام میں موجود نہیں ہیں خواہ وہ نظام قدیم ہو یا جدید ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جنگ اپنی زمین کے رقبہ کو بڑا کرنے، یا کسی اورکی زمین پر قبضہ کرنے کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ اسلام میں یہ صرف ضرورت کے وقت، خاص حالات کے تحت اور مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے۔ اس طرح کے بہت سے مسائل اور شبہات ہیں جن کا ازالہ ان عالی مقام عالم کی تحریریں ضرور کریں گی، یہ گرانقدر مصنف اب اس جہان فانی میں نہیں رہے، ان کی وفات سے اسلامی مشرقی دنیا ایک درخشاں ستارہ سے محروم ہوا، جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کے حقیقی پیغام نشر کرنے ميں گزار دی۔
قاہره، ازہر شريف 24 ربیع الآخر 1438 ہجرى مطابق22 جنوری 2017 ء
شیخ الازہر
احمد الطیب
 

Print
7557 Rate this article:
3.8

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.