اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

پرتگال میں فضیلتِ مآب امامِ اکبر شیخ الازہر کا خطاب 2018
Anonym
/ Categories: Main_Category

پرتگال میں فضیلتِ مآب امامِ اکبر شیخ الازہر کا خطاب 2018

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دینی اقدار وقیم اور موجودہ سماج ومعاشرہ کا بحران

حمد وثناء کے بعد

میں آج آپ حضرات کے سامنے روبرو ہو کر اپنی بات پیش کرنے میں سعادت مندی محسوس کر رہا ہوں۔ میری یہ گفتگو ازہر شریف اور مسلم علما كونسل کی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد مشرق ومغرب کے درمیان گفت وشنید کا طریقۂ کار اختیار کرنا ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کی مختلف دار الحکومتوں میں اس سرگرمی اور کوشش كو نافذ کرنے کی کوشش کرنا ہے، جس كا مقصد انسانوں کے درمیان تہذیب وتمدن پر مبنی تعارف کے خلا کو پُر کرنا ہے خواہ ان کے درمیان نسل وجنس، زبان وادب، دین وعقیدہ، تہذیب وثقافت، عادات واطوار، رسم رواج اور تقالید کی دیواریں کتنی ہی کیوں نہ حائل ہوں۔۔۔ یہ کام آسمانی مذاہب پر ایمان لانے والے افراد کے درمیان دینی مشترکہ امور پر زور دیکر انجام دیا جا سکتا ہے یہاں تک ایمان نہ لانے والے ان افراد کے درمیان بھی انجام دیا جا سکتا ہے جو ادیان ومذاہب کا احترام کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ موجودہ دنیا کی حالاتِ حاضره كى رفتار کی تعیین کرنے میں ان کا کردار بہت اہم ہے اور وہی اسے صحیح راستہ کی طرف دوبارہ گامزن کر سکتے ہیں جبکہ یہ دنیا اپنی سمت اور اپنا راستہ کھو چکی ہے اور ممکن ہے کہ وہ اخلاقی خود کشی کا شکار ہو جائیں اور اس پھیلی ہوئی انارکی میں غرق ہو جائيں جس کا مشاہدہ اس سے پہلے انسانی تاریخ میں نہیں کیا گیا۔

محترم حضرات!

یقینی طور پر مشرق ومغرب کے تمام باشندوں کے درمیان یہ بات مسلم ہے کہ آج ہماری موجودہ دنیا مختلف قسم کے بحران سے گزر رہی ہے جن میں سر فہرست وہ اقتصادی بحران ہے جس کی وجہ سے فقر وفاقہ، بےروزگاری اور قرض کے مسائل عام ہو گئے ہیں، امیروں اور فقیروں کے درمیان دوری بڑھتی جارہی ہے، دوسرا ماحول کا بحران ہے اور تیسرا موجودہ بین الاقوامی سیاسی بحران ہے جس کے نتیجہ میں اثر ورسوخ قائم کرنے کے سلسلہ میں کشمکش کی فضاء عام ہو رہی ہے، بین الاقوامی طور پر مثبت ومنفی دو متضاد حالتیں یکجا ہو رہی ہیں، لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں، انارکی پھیل رہی ہے، خاندان کے خاندان تباہ وبرباد ہو رہے ہیں اور عورت کو دوسرا درجہ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی اخلاقی، سماجی اور انسانی امراض ہیں جو اس اکیسویں صدی کے انسان کے اندر ناامیدی ومایوسی کو جنم دیتے ہیں اور ان سے ان کی دلی راحت وآرام اور زندگی کی لذت چھین رہے ہیں۔

اس بحران نے مغرب کے دانشوران، حکماء، دینی رہنماء اور علماء کو آمادہ کیا کہ وہ ان تنبیہات کے سلسلہ میں غور وفکر کریں جو آج اس دنیا کے آسمان میں ویسے ہی جمع ہو رہے ہیں جیسے ہلاکت وبربادی کے سلسلہ میں پیشنگوئی کرنے والے کالے بادل جمع ہوتے ہیں، انہوں نے دوبارہ غور وفکر کیا اور بین الاقوامی کانفرنسز منعقد کیے اور ان میں سب سے نمایاں دنیا کے مذاہب کے سلسلہ میں دوسرا کانفرنس ہے جس میں مختلف ادیان ومذاہب کے نمائندگان نے ایک جدید عالمی نظام کے قیام کے لیے اس بات کی دعوت دی کہ آج ہم سب کو عالمی اخلاق کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ہم اس بحران سے نکل سکتے ہیں اور یہ نظام اس بات پر قائم ہے کہ معتدل ثقافت کی پابندی کی جائے، تمام زندہ کائنات کا احترام کیا جائے اور اسی طرح ہم آہنگی اور انصاف پر مبنی اقتصادی نظام کو لازم پکڑا جائے، عفو ودرگزر اور عورت ومرد کے درمیان شراکت اور حقوق میں برابری کا اہتمام کیا جائے۔

یہ بیان قابل تعریف ہے کیونکہ اس میں اس اہم کردار کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جسے دیندار حضرات ایک نئے عالمی نظام کے قیام کے سلسلہ میں سب سے پہلے خود اپنے درمیان دائمی امن وسلامتی قائم کرنے کی دعوت کے ذریعہ ادا کر سکتے ہیں پھر اس کے بعد وہ لوگوں کو اس کی خوشخبری دے سکتے ہیں تاکہ ان کے سلسلہ میں یہ نہ کہا جا سکے کہ " جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ دوسرے کو کیا دے سکتا ہے" اور اس بیان کا اختتام اس طرح ہوا کہ ادیان ومذاہب کے درمیان احترام وادب پر مبنی امن وسلامتی قائم کیے بغیر دنیا کے لیے امن وسلامتی قائم کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوسکتا اور اسی طرح گفت وشنید کے بغیر ادیان ومذاہب کے درمیان امن وسلامتی قائم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور عالمی اخلاق کے بغیر انسانیت کی بقاء ممکن نہیں۔

ہم سب ان مسائل کے سلسلہ میں متفق ہیں اگر ان کا مقصد لوگوں کی حقیقی زندگی کے معیار تک پہنچنے اور ان کے افعال وتصرفات پر کنٹرول کرنے کے لیے ادیان کے اخلاق کو دعوت اس طور پر دینا ہے کہ ان کے اندر غیر معمولی اخلاق ہو جن کی بنیاد پر وہ عدل وانصاف مساوات وبرابری قائم کر سکے، امن وسلامتی کی اہمیت کی یاد دہانی کرا سکے اور یہ بتا سکے کہ اس کی ضرورت کھانے پینے کی ضررت کی طرح ہے۔

 سب سے پہلے ادیان ومذاہب کے درمیان امن وآشتی قائم کرنے کی ضرورت سے مراد اس عبارت کے منفی معنی کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ادیان ومذاہب جو جنگیں مشتعل کرتے ہیں انہیں بند کرنا ضروری ہے اور وہی خونریزی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اس عبارت میں اس مقولہ کی تصدیق ہے جس میں کہا گیا کہ جنگوں کی بنیاد دین ہی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی ادیان ہیں ان کی پیروی کرنے والے اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں بلکہ وہ تو اس کے برخلاف سوچیں گے کہ الہی دین کا نہ ہونا یا اس سے علیحدگی اختیار کرنا اور اسے حاشیہ پر رکھنا اور اس کی اہمیت کو کم سمجھنا اور اللہ رب العزت پر ایمان لانے کا مذاق اڑانا، اس کا انکار کرنا اور دینی اخلاق سے دوری اختیار کرنا ہی پچھلی صدی میں جنگ کا سبب تھا اور انہیں اسباب کی وجہ سے جنگیں مشتعل ہوتی ہیں اور اکیسویں صدی کے آغاز میں جو کہ سائنس اور ترقی کا زمانہ ہے، حقوق انسان کا زمانہ ہے، بین الاقوامی امن وسلامتی کے دستاویزات کا زمانہ ہے۔۔ اور ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے ہیں کہ جنگیں ان دہائیوں میں مشتعل رہی ہیں جن میں دین کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور اسے مشتعل کرنے کے لیے دین کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن ان جنگوں میں دین ہی سب سے پہلے قربان ہوا اور اسے ہی سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔

میں آپ علمائے کرام سے معذرت کے ساتھ اپنی حیرت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہن ودماغ میں یہ بات سرایت کر گئی ہے کہ دین ہی جنگوں کا اصل سبب ہے بلکہ ہمارے بہت سارے مشائخ کے ذہن ودماغ میں بھی یہ بات جاں گزیں ہو چکی ہے کہ انسانیت ايك هى حالت مين امن وسلامتى اور مشترکہ زندگی سے بہرور ہو سكتى  ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کی زندگی میں دین کو ان کے رہنمائی کے مراکز اور سماج کے پلیٹ فارم سے دور کر دیا جائے اور اسے ایک ایسی ذاتی چیز میں بدل دیا جائے کہ وہ صرف دل کے اندر ہی رہے اور سماج ومعاشرے میں اس کا اثر نہ ہو خواہ یہ اثر زیادہ ہو یا کم ہو اور اسی سوچ وفکر کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کے سامنے الحاد کا دروازہ چوپٹ کھل گیا ہے اور اس زمانہ کے انسان نے اپنی فطرت وطبیعت کی بنیاد پر ایک اخلاقی مخلوق ہونے کے اعتبار سے اپنی سب سے زیادہ گراں قدر چیز کھو دی ہے اور سائنسی حقیقت بھی واضح کرتی ہے کہ جس چیز کے اسباب ایک سے زیادہ ہوں اس کی تفسیر بیان کرنے میں ان میں سے کسی ایک سبب پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ماضی اور موجودہ تاریخی تحقیق کی حقیقت بتاتی ہے کہ جنگ کے مشتعل ہونے کی تفسیر بیان کرنے میں تن تنہا دین کافی نہیں ہے بلکہ اس کے اسباب دو چند اور باہم ملے ہوئے ہیں، ان میں چند نفسیاتی، سماجی، معاشی اور سیاسی اسباب ہیں. دینی کشمکش کے علاوہ چند دیگر اسباب بھی ہیں جنہیں ہم حکومت وسلطنت اور طاقت وقوت کی محبت کے نام سے جانتے ہیں، انہیں اسباب میں ملک وملت، تہذیب وثقافت اور دیگر خصوصیات پر حملہ کرنے والوں سے مقابلہ کرنا ہے، دوسروں کے وسائل پر قابض ہونے کی خواہش ہے، دسترس حاصل کرنے اور غلبہ حاصل کرنے کا ارادہ ہے، اسلحه کی تجارت ہے جس میں ایسی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں کہ جن کی وجہ سے امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

بعض لوگ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ جو میں آپ حضرات کے سامنے گوش گزار کر رہا ہوں وہ محض ادیان ومذاہب کے گن گنگنانے کے مشابہ ہے، ان کے نزدیک ہماری زندگی اخلاقی اور ایمانی اصول وقواعد اور عقائد اور ما ورا الغیب کے بغیر ہماری خواہش کے مطابق گزر رہی ہے لیکن یہ یا اس طرح کا گمان انسانیت کی حقیقت سے غفلت برتنے، کج فہمی اور ذمہ داری اٹھانے سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے اور ان میں سب سے پہلے دوسرے كے دکھ درد کو محسوس کرنا ہے اور مکمل حق حاصل کرنے کے لیے اس کی مدد کرنا ہے اور ان میں سر فہرست زندگی اور امن وسلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہے اور خود یہ کج فہمی ہی اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کی زندگی میں اس کی ضرورت اور اس کی بہت زیادہ اہمیت بھی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو مرد مؤمن کو انفرادی رنجشوں اور تنازعات کا لقمہ تر بننےسے بچاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر منحصر ہو جائے اور اپنی سعادت مندی کی تعمیر دوسروں کے لاشوں پر کرے بلکہ دین ہی ذمہ داری کا احساس دلانے والا ہے، ضمیر کو بیدار کرنے والا ہے اور انسان کے نزدیک دونوں کے جذبات واحساسات کو مہمیز کرنے والا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی اخلاق فضیلت وبرتری کا میزان ہے اور ملک وملت، قوم ووطن اور افراد تمام لوگوں کی صحیح ترقی کا معیار ہے۔

میں آپ کے سامنے مثال کے طور پر اس دین کا ایک ایسا پیغام پیش کرتا ہوں جس پر میں مكمل يقين ركهتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے راستہ میں جنگ کرنے اور کمزور مرد وعورت اور بچوں کی حفاظت کے لیے جنگ کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے " اور كيا وجہ ہے كہ تم الله كى راه ميں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں كى خاطر نہ لڑو جو كہتے ہیں اے ہمارے رب ہميں اس بستى سے نكال جس كے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے ليے اپنے ہاں سے كوئى حمايتى كردے اور ہمارے ليے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنادے" ایک دوسری مثال ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے دین کے پیروکار شخص کے لیے تابعیتا  پیروی برداشت کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جب مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی تو دو وجہ سے دی، ان میں ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس ظلم کا دفاع کرنا ہے جو سرکش بت پرست قوم کی طرف سے ہوتا تھا اور دوسرا آسمانی ادیان ومذاہب پر ایمان لانے والوں کے لیے خواہ وہ یہود ہوں یا عیسائی ہوں یا مسلمان ہوں سب کے لے دینداری اور عقیدہ کی آزادی کے حق کی حفاظت کرنا تھا، ارشاد باری تعالی ہے " وہ لوگ جنہیں نا حق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف یہ کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو تکئیے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا، بے شک اللہ زبردست غالب ہے۔"

اس قرآنی فرمان سے یقینی طور پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں قتال کا سب سے پہلا سبب مظلومین کی مدد کرنا ہے اور دوسروں کی طرح پرامن زندگی کے ساتھ ان کا حق انہیں دلانا ہے اور یہ ایسا مقصد ہےکہ ایک سلیم عقل والا ایک لمحہ بھی اس کی مشروعیت کے سلسلہ میں شک نہیں کر سکتا ۔۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس فرمان میں آسمانی مذاہب کی دفاع کے لیے جنگ شرک اور اہل شرک کے خلاف مشروع ہے، عجیب بات ہے کہ اسلام میں جس جنگ اور قتال کی اجازت دی گئی ہے وہ صرف اس دین میں عبادت کرنے کی آزادی کی دفاع کرنے پر منحصر نہیں ہے بلکہ اسی طرح دوسرے آسمانی مذاہب میں بھی عبادت کی آزادی کےحق کی دفاع کے لیے بھی واجب ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اسلام اور اہل اسلام کے ذریعہ ذمیوں کی حفاظت کی جائے گی، مفسرین نے اسلامی دفاع کے دائرہ میں کلیسا اور یہود کے عبادت گاہوں کے داخل ہونے کے سلسلہ میں آپس میں سوال کیا تھا اور ان کا جواب تھا کہ یہ ساری جگہیں مؤمنین کی جگہوں کی طرح ہیں اگرچہ ان کی عبادت کی شکلیں مختلف ہیں اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے کہ ان جگہوں کی حفاظت حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام کے زمانہ کے ساتھ خاص تھی بلکہ پرزور انداز میں کہا ہے کہ ان جگہوں کی اسلامی حفاظت کا مقصد یہ تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں انہیں منہدم نہ کیا جائے کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق ان جگہوں میں اللہ رب العزت کا ذکر کیا جاتا ہے لہذا یہ بتوں کی عبادت کے قائم مقام نہیں ہے اور آیت کریمہ میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا ذکر ہے۔

یہ تفسیر جو میں نے آپ حضرات کے سامنے بیان کی ہے اس میں مجاملہ کا طریقہ نہیں اختیار کیا گیا ہے بلکہ یہ وہ تفسیر ہے جس کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے اندر اسلام کے نبی کی زندگی میں ہوا ہے اور مسلمانوں نے اسے پے در پے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے قریبی شاگرد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پھر ان کے بعد چوتھی صدی ہجری میں تفسیر طبری پھر چھٹی صدی ہجری میں امام رازی کے ذریعہ نقل کی ہے اور میں جب پچاسویں اور ساٹھویں دہائیوں میں ازہر میں طالب علم تھا تو میں نے ایسا ہی سیکھا ہے اور آج بھی ہم ازہر یونیورسٹی ميں تفسیر میں اپنے طلبہ کو یہی تعلیم دیتے ہیں۔۔

آخر میں جو بات میں آپ حضرات کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو اخلاق ادیان ومذاہب سے اپنی مرجعیت اور اپنے اصول وفروع کے لیے ایک قاعدہ اخذ کرتے ہیں وہی دین پر غالب ہونے والے، اس پر اپنا قبضہ جمانے والے اور اس کی ہیئت بگاڑنے والے اخلاق کا مقابلہ ترجیحی طور پر کر سکتے ہیں اور اس پر ابھی دو صدیوں سے زیادہ کی مدت گزر چکی ہے جس میں جنگ کا ایک سلسلہ آیا تھا اور ابھی تک مسلسل جاری ہے جس میں ہزارہا ہزار لوگوں کی جانیں گئیں اور میں پہلی اور دوسری جنگ یا گزشتہ صدی میں یوروپ کے اندر ہونے والی دیگر جنگوں کے سلسلہ میں گفتگو نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں ان غیر مفید جنگوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں جو ابھی ہمارے ملک میں چھڑی ہوئی ہے بلکہ میں تو ایک ایسے ملک کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں جسے چند گھنٹوں میں پورا کا پورا تباہ وبرباد کر دیا گیا پھر اسے آج تک لوگوں کے لیے ویران چھوڑ دیا گیا، میں عراق کے اندر سنہ 2003 میں ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجہ میں لامتناہی حزن والم کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں۔۔ میں شام کے سلسلہ میں گفتگو کر رہا ہوں جس کے بارے میں واضح ہوچکا ہے کہ یہ دو اسلامی طریقۂ کار یعنی شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں ہے جیسا کے مکر وفریب کے ذریعہ اسے عام کیا گیا ہے بلکہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ دو عالمی طریقۂ کار کی جنگ ہے جنہیں اس سرزمین میں اپنا ہتھیار فروخت کرنے اور خون بہانے کا بازار ملا، میں فسطین میں اپنے اور آپ کی مقدس جگہوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں جہاں طاقت وقوت، ظلم وزیادتی، قتل وغارتگری اور نقل مکانی کا ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے اور یہی بات یمن، لیبیا اور دیگر ممالک کے سلسلہ میں کہی جا سکتی ہے، میں اس علاقہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہا ہوں جو خون کی آماجگاہ بن گئی ہے اور فقر وفاقہ، بھوک مری، بیماری اور مہلک ہتھیار کا تجربہ کرنے کا میدان بن گیا ہے۔

یہ سب خوفناک سانحے جن کے عذاب سے مشرق وسطی کے عوام دوچار ہیں، ان کے پیچھے ایک اہم اور اساسی سبب کار فرما ہے اور وہ ہے مغربی انسان کی ترقی  اور اس جدت طرازی کے نعرہ کے ساتھ طاقت پر قبضہ جمانا ہےجس جدت نے پہلے تو دین سے رشتہ توڑا، پھر انسانی تراث کی طرف رخ موڑا جو حقیقی معرفت اور وحی الہی سے تائید شدہ اخلاق سے مالا مال ہے اور اس جدت پسندی کی وجہ سے انسان نے اپنی حقیقی پہچان کھودیا یہاں تک کہ اس کی اصلیت ہی بدل گئی، بلکہ اس کی جو صفت "ذوی العقول" کی تھی، وہ بدل کر صرف ایک مادہ پرست ڈھانچہ کی رہ گئی ہے، اس کے پاس دل نہیں بچا ہے جو کسی کی پریشانی وبدنصیبی پر تکلیف محسوس کرے، جس قدر اس کا دل صنعت وتجارت کے میدان میں نئی نئی پیشکش اور مانگوں، نیز اس کے اتار چڑھاؤ پر دھڑکتا اور اس سے متاثر ہوتا ہے۔

معزز سامعین..!

میں آپ لوگوں کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دوں گا، بس میں آپ لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں یہاں اسلام کی مدح سرائی کے لیے نہیں آیا ہوں اور نا ہی اس کے فضائل ومناقب بیان کرنے اور میں اس لیے بھی نہیں آیا کہ دیگر ادیان الہیہ پر ہونے والے بے مثال اسلامی فتح کا قصہ سناؤں، بلکہ یہ بتانے آیا ہوں کہ مختلف اور جدا جدا الہی ادیان نہیں پائے جاتے، بلکہ ایک ہی خدائی دین ہے، جس کی بشارت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح،  حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہم السلام اور آخر میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاء اور رسولوں نے سنائی ہے اور آسمانی سارے پیغامات میں عقیدہ کے بعد جو چیز متفق علیہ ہے وہ اخلاق ہیں جس میں دس وصیتیں، موعظت جبل اور موعظت قرآن شامل ہے۔۔ ہم مسلمانوں کا قرآن پر ایمان اسی وقت سمجھا جائے گا جب ہم حضرت ابراہیم کی کتاب، حضرت موسی کی توراۃ اور حضرت عیسی کی انجیل پر ایمان لائیں گے اور ہم قرآن کریم میں یہ پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے توراۃ اور انجیل کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ یہ راہ ہدایت اور نور ہیں اور یہ بهى کہ قرآن مجید ان دونوں کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور سارے انبیاء بھائی بھائی ہیں کیونکہ ان کے والد تو ایک ہیں لیکن مائیں الگ الگ ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بتایا ہے، اور ایک باپ وہی دین الہی ہے جس کی طرف سارے انبیاء برابر کی نسبت رکھتے ہیں اور مختلف مائیں وہ ساری شریعتیں اور حلال وحرام کے احکام ہیں جو الگ الگ شریعتوں میں موقعہ اور محل اور زمان ومکان کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں اور ہم لوگ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کے کلمہ ہیں جو اس نے مریم تک پہنچایا تھا اور اس کی روح ہیں جو اسی کی طرف سے پیدا ہوئی تھی (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) اور قرآن مجید میں ہم لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ یہ لوگ دیگر لوگوں کے مقابلہ میں مسلمانوں سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں اور اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رحمت اور شفقت رکھا ہے، جو ہمیشہ ان کے لیے وجہ امتیاز رہا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے : (اور جن لوگوں نے ان کی اتباع کی ہے ہم نے ان کے دلوں میں رحمت اور شفقت ڈال دیا ہے (الحدید : ۲۷) . اور اسلامی تاریخ آغاز اسلام سے لیکر ابتک مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی الفت ومحبت کا تذکرہ کرتی ہے، چنانچہ ثابت شدہ جو بات ہے وہ یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جوکہ (شروع کے دور میں) غريب اور کمزور لوگ تھے، انہوں نے مشرکین مکہ کی طرف سے بہت ساری اذیتیں سہیں اور انہیں طرح طرح کا عذاب دیا جاتا تھا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تنگ آگئے تو انہوں نے اپنے صحابہ کو جس ملک میں پناہ لینے کے لیے بھیجا تھا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی ملک تھا، جس کا نام حبشہ اور جس کے بادشاہ کا نام نجاشی تھا، چنانچہ مسلمان دو مرتبہ وہاں ہجرت کرکے گئے اور اس عیسائی بادشاہ کی مہمان نوازی میں بڑے آرام سے رہے، انہوں نے اچھی مہمان نوازی کی، خوب اکرام کیا، ان مہمانوں کے دین کی حفاظت کی اور مکہ والوں کی اذیتوں سے انہیں محفوظ رکھا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عزت مآب جناب ڈاکٹر احمد طیب صاحب (شیخ الازہر)

تحریر 26 جمادی الآخرۃ  1439 ھ - مطابق 14 مارچ 2018

Print
7193 Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.