اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

؟؟؟
Anonym
/ Categories: Main_Category

؟؟؟

الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين محمد وآله وصحبه أجمعين،

وبعد!

ارشاد بارى:  "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير" "پاك ہے وه الله تعالى جو اپنے بندے كو رات ہى ميں مسجد حرام سے مسجد  اقصى تك لے گيا جس كے آس پاس ہم نے بركت دے ركھى ہے، اس لئے كہ ہم اسے اپنى قدرت كے بعض نمونے دكھائيں، يقينا الله تعالى ہى خوب سننے ديكھنے والا ہے"۔ (سورۂ بنى اسرائيل: 1)۔

اے الله كے بندو!

ان دنوں لوگ واقعۂ اسراء ومعراج كى ياد منا رہے ہيں، مقررين اور علماء ان دونوں  واقعات سے  ملنے والے  اسباق اور عبرتيں اور نصيحتيں بيان كر رہے ہيں، تاكہ لوگ انہيں اختيار  كريں، اور ميں  سمجھتا ہوں كہ ہمارى  تمام مذہبى مناسبتوں  سے منايا جانے والے  حقيقى جشن يہ ہونے چاہيں  كہ ہم اپنے صحيح دين كى طرف  واپس  آئيں،  اور لوگوں  كے سامنے  كى تصحيح  كريں  جن كو  فساد بپا كرنے والوں  اور تخريب  كاروں  نے خود  سے گڑھ  كر لوگوں كے ذہنوں  ميں راسخ  كرديا ہے  چنانچہ يہ مفاہيم ہمارے  اسلام  كو اس  طرح ظاہر  كرتے ہيں گويا وه خود اپنے پيروكاروں ہى كا دشمن  ہے، بلكہ ان لوگوں  نے اسلام  كو  اس طرح ظاہر كيا ہے كہ گويا  وه ان لوگوں  كا ہى دشمن  ہے  جو اس  كے افكار  وخيالات  لئے ہوئے ہيں،  اور حقيقت تو يہ ہے  كہ ہمارا اسلام  اور ہمارى  شريعت ان لوگوں  كى كہى  ہوئى  باتوں  سے برى  ہے، كيونكہ ہمارا  دين تو سلامتى كا دين ہے، ہم  الله  كا شكر  اداكرتے  ہيں كہ اس نے ہميں  اس دين  كا پيروكار بنايا، اور ہم الله  سے دعاگو ہيں كہ ہم اپنے اس صحيح  دين پر  باقى رہيں  جس كى دعوت  كى ذمہدارى  ہمارى رسول  كو ديتے  ہوئے  ہمارے  پروردگار  نے فرمايا : (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ(

اور ہم نے آپ كو تمام جہاں والوں كے لئے رحمت بنا كر ہى بھيجا ہے۔ سورۂ انبيا: 170 اور فرمايا:فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ ) يعنى : (الله تعالى كى رحمت كے باعث آپ ان پر نرم دل ہيں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو يہ سب آپ كے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر كريں اور ان كے لئے استغفار كريں اور كام كا مشوره ان سے كيا كريں۔ )

اور جب ہمارے رسول ﷺ نے لوگوں كو اپنے دين كى طرف بلانا شروع كيا       تو آپ ﷺ  كے پروردگار نے  آپ ﷺ  كو دعوت  كا طريقہ سكھايا اور يہ بتايا  كہ آپ ﷺ  لوگوں كو كس  طرح  (مہربانى، بزمى اور اچھى  نصيحت  سے) چنانچہ  ارشاد فرمايا :(ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) (اپنے رب كى راه كى طرف لوگوں كو حكمت اور بہترين نصيحت كے ساتھ بلائيے اور ان سے بہترين طريقے سے گفتگو كيجيئے، يقينا آپ كا رب اپنى راه سے بہكنے والوں كو بھى بخوبى جانتا ہے اور وه راه يافتہ لوگوں سے بھى پورا واقف ہے۔ )(سورۂ  نحل: 125) اور يہ بھى بتايا  كہ  جب آپ ﷺ  لوگوں  كو اپنے  دين كى دعوت  دينے لگيں  اور اسے  كچھ  لوگ  قبول  كرليں  اور كچھ  لوگ قبول نہ كريں تو قبول نہ كرنے  والوں كے ساتھ  آ پ ﷺ  كيا كريں  چنانچہ  فرمايا:  (فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ ) (الشورى 48) يعنى (پھر اگر يہ منھ پھيرليں  توہم نے  تم كو  ان پر نگہباں بنا كر  نہيں بھيجا تمہارا كام تو صرف  احكام  پہنچا دينا ہے) اور  ارشاد فرمايا: (فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ ) (سورۂ الكہف: 29)  يعنى:(تو جو چاہيئے ايمان لائے  اور جو چاہے كافر رہے) اور فرمايا  (لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (6)) يعنى : تو تم اپنے دين پر اور ميں اپنے دين پر، يہ الله كے رسول ﷺ سے  الله كا خطاب ہے، اسے كسى انسان  نے  نہيں  بنايا ہے، اور يہى  اسلام  كى وه بنياد ہے  جس پر  وه قائم  ہے يہ آيتيں  صاف  اور واضح  ہيں ان ميں صرف  وہى بحث ومباحثہ كر سكتا ہے  جو دين  كى معرفت كے لئے صحيح راستہ اختيار نہيں كرے، ہمارے مذہب اسلام كو قبول كرنے كے لئے لوگوں پر كوئى زور  زبردستى نہيں كى جاتى، ارشاد بارى  (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ ) يعنى (الله كے بارے ميں كوئى زبردستى نہيں) الله تعالى ہى  اپنى كتاب ميں فرماتا ہے

إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ)  (تمہارا كام تو صرف  احكام  پہنچا دينا ہے)

رسول ﷺ كا كام پہنچانا، وضاحت كرنا، جنت كى بشارت دينا اور دوزخ سے خبردار كرنا ہے، اور  اُس كے بعد لوگوں كا اختيار قبول كرنا آپ ﷺ  كے لئے ضرورى ہے،  اور ہر شخص اپنے اختيار كا ذمہ دار ہوگا، چنانچہ ہمارے رسول ﷺ نے كبھى كسى كو مذہب اسلام اختيار كرنے پر مجبور نہيں كيا، اور نہ آپ ﷺ كے بعد كسى صحابى نے ايسا كيا، وه لوگ الله كے رسول ﷺ كے طريقے اور الله كى كتاب  كى ہدايت اور نہائى پر باقى رہے، لوگوں كو دعوت ديتے رہے، ان كو الله كا صحيح راسته دكھاتے رہے اور اس كے نتيجے ميں  ملنے والى جنت كے بارے ميں ان كو بتانے رہے اور مخالفت كى صورت ميں ان كا ٹھكانہ جہنم ہونے سے  ان كو خبردار كرتے رہے اور ہمارے رسول ﷺ  كے بعد  ہمارے  علمائے  كرام كى۔ يہى ذمہ دارى ہے،  اور اگر  ہم  اپنے  نبى ﷺ  كے راستہ پر چليں تو لوگ وہى كريں گے جو انہوں  نے ہمارے اسلاف  كے زمانے  ميں كيا اور وه  فوج درفوج  الله كے دين ميں  داخل ہونگے، ہمارے ہى بھائى اور ہمارے  ہى دين  كے بعض  پيروگار اس دين  كے صحيح راستے  سے كيوں  الگ ہوگئے، اور انہوں  نے اسلام  كو اس طرح كيوں ظاہر كيا كہ وه لوگوں كو قتل  كرنے اُن كا خون  بہانے اُن كا مال لوٹنے  اور ان كى عزتوں  پر حملہ كرنے كے لئے آيا ہے، حالنكہ ان تمام  چيزوں  كى حفاظت  تو ہمارے  دين كا مقصد ہے او كسى فقيد سے پہلے  كوئى طالب علم اس سے  واقف ہے، ان لوگوں  نے ہمارے  دين كى كشتى كو اس كے صحيح  راستے  سے كيوں ہٹايا، اور حقائق كو بگاڑ كر كيوں پيش كيا ہے؟

 رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہيں: مسلمان وه ہے جس كى زبان اور ہاتھ  سے مسلمان محفوظ رہے، اور ايك روايت ميں ہے كہ لوگ محفوظ رہيں، اور لفظِ لوگ اُن تمام لوگوں پر مشتمل ہے جن كى نسبت  حضرت  آدم عليه السلام كى طرف ہو خواه  وه مسلم ہوں، يا كافر ہوں،  اور ہمارے  رسول ﷺ مسلمان كا تعارف كراتے ہوئے فرماتے ہيں،  جس كى زبان اور ہاتھ  سے لوگ محفوظ رہيں" تو پھر  بعض لوگوں نے  اس كو كيوں بدل ديا،  اور اس شخص  كو مسلم كيوں قرار  ديا جو  اپنى زبان سے  لوگوں كو تكليف ديتا ہے،  ان كے حق  ميں سخت  باتيں كرتا ہے، اور ان كو  ہمارے دين سے متنفر كرتا ہے؟

يہ افراد  لوگوں  كو تكليفيں  ديتے ہيں  ان كو قتل كرتے ہيں ان كو خوف  زده كرتے ہيں اور پھر دعوى كرتے ہيں  كہ يہ  الله كے راستے ميں جہاد ہے، بہذا يہ لوگ جھوٹے ہيں۔

ہمارے اسلام ميں جہاد ہم پر ظلم كرنے والوں كو اُن كے ظلم سے روكنے كے لئے  فرض كيا گيا ہے،  اور يہى جہاد ہے يہ جہاد لوگوں پر ظلم وزيادتى كرنے اور اُن كو قتل كرنے كے لئے  فرض نہيں كيا گيا ہے، اگر ہم اپنے دين كو جاننا چاہتے ہيں تو  الله كى كتاب اور  نبى كريم ﷺ كى سنت سے جان لے سكتے ہيں، اور  الله كے رسول ﷺ كى زندگى ميں ہمارے لئے اسوه  اور نمونہ  موجود ہے، ديكھئے: آپ ﷺ اور آپ ﷺ  كے صحابہ كرام كو طرح طرح  كى تكليفيں ديں،  اور آپ ﷺ كو اتنا ستايا كہ آپ ﷺ  كے علاوه  كوئى اور  اُسے برداشت نہيں كر سكتا تھا؟ الله كے رسول ﷺ  ان كے خلاف  بد دعا  كرنا  بھى مشترك گوڑا نہيں كيا، بلكہ  آپ ﷺ نے  ان كے لئے  دعائيں كيں، ايك مشرك آپ ﷺ  كے راستے ميں تكليف دِه چيز ركھا كرتا تھا، ايك مرتبہ  اس نے  نہيں ركھا تو آپ ﷺ  نے  اس كے بارے  ميں پوچھا  تو معلوم ہوا كہ وه بيمار ہے، يہ سن كر آپ ﷺ  اس كى عبادت كے لئے  تشريف لئے  گئے، يہ تھے پيغمبر اسلام  ہم ميں كون ہے جو اسلام كے  مفاد كو  الله كے رسول سے زياده سمجھتا ہو،  اور اس كا خيال ركھتا ہو ، ہميں  چاہيئے كہ ہم  اپنے رسول ﷺ سے سيكھيں اور ديكھيں  كہ آپ ﷺ نے ان يہودى قبيلوں كے ساتھ كيسا معاملہ كيا جو ہجرت سے پہلے مدينہ منوره ميں آباد تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے مكہ ميں مشركوں كى تكليف سے تنگ آكر مدينہ كى طرف ہجرت كى تو آپ ﷺ نے ان ميں سے كس كو مارا؛ كس كو اسلام ميں داخل ہونے پر مجبور كيا، آپ ﷺ نے ايسا كچھ نہيں كيا، بلكہ آپ ﷺ نے  ان كے ساتھ امن وسلامتى كے ايسے  معاہدے كئے  جو ان كے اعتقاد پر  اُن كى  بقا كى ضمانت  ليں، اور كوئى مسلمان ان كو نہ چھيڑے، آپ ﷺ نے ايك معاہده بھى مانيں توڑا اور حاشا وكلا آپ ﷺ سے  اس كى  توقع بھى  نہيں تھى ليكن يہود نے ہى معاهدے توڑے  اور مسلمانوں  كو تكليفيں ديں،  پھر تو يه بات فطرى تھى كہ ہمارے رسول ﷺ  ان كو وہاں سے نكال بھگائيں، كيا آپ ﷺ پيغمبر اسلام نہيں تھے، تو پھر كس  نے كہہ ديا كہ لوگوں كو قتل  كرنا جہاد ہے، بلكہ ہر كام ميں الله كى رحمت كى اميد كر جاسكتى ہے، سواتے دوكاموں كے،  ايك كسى كو ناحق قتل كرنے ميں اور دوسرے زمين ميں  فساد وبگاڑ پيداكرنے ميں، قرآن كريم نے صاف صاف كيا ہے،  ايك آدمى كو قتل كرنا تمام  لوگوں كو قتل كرنے كے برابر ہے، ارشاد بارى ہے:  (مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا) (سورۂ مائدة: 32)۔يعنى (اس قتل كى وجہ سے ہم نے بنى اسرائيل  پر يہ حكم  نازل كيا كہ جس شخص نے كسى كو ناحق قتل كيا، يعنى كسى كو قتل كرنے كى سزا دينے يا زمين ميں خرابى پيداكرنے كى سزا دينے كےلئے نہيں بلكہ يونہى قتل كيا، تو گويا  اس نے  تمام لوگوں كو قتل كيا۔)

اور جو اس كى زندگانى كا موجب ہوا تو گويا تمام لوگوں كى زندگانى كا موجب ہوا، ايك جان كو ختم كرنا گويا زمين كے تمام مسلمانوں اور كافروں كو ختم كرنا ہے، اور  ايك كو زندگى دينا گويا تمام لوگوں كو زندگى ديتا ہے، يہ ہے ہمارے پروردگار كى كتاب جو حق بول رہى ہے، اور يہ بات بالكل واضح ہے اس ميں كسى بھى اختلاف كى گنجائش نہيں۔

ہمارے سامنے الله كى كتاب ہے، ہمارے رسول ﷺ ك     ى سنت ہے اور ہمارے سلف صالح كے اجتہادات ميں تو پھر خواہشات كى پيروى  كيوں كرتے ہيں، اپنى طرف سے آئيں سازى كيوں كرتے ہيں، اور جو ہمارے منہج  اور طريقے كى مخالفت  كرتا ہے  اس پر  راه ِ حق سے دور ہوجانے گنہ كار ہونے اور بسا اوقات  كافرہوجانے  كا فتوى كيوں جارى كرتے ہيں؟

آپ كو كس نے حق ديا كہ آپ لوگوں  كو كافر قرار ديں يا ان كے خلاف  كوئى  اور فيصلہ كريں، كس كو نہيں معلوم كہ ہمارے رسول ﷺ نے اپنے محبوب اور محبوب كے صاحبزادے  حضرت اسامہ بن زيد پر اس وقت  كتنى سخت نكير كى جب انہوں نے ايك ايسے مشرك كو قتل كردياجو مسلمانوں كے ساتھ پورى توانائى  سے جنگ كررہا تھا، ليكن  اس نے  لا اله إلا الله پڑھ ليا تھا، اور انہوں نے يہ گمان كيا  كہ اس نے حقيقت ميں كلمہ نہيں پڑھا اور نہ اسلام ميں داخل ہوا بلكہ اس نے قتل  ہونے سے بچنا چاہا، اور جب الله كے رسول ﷺ نے يہ فرماتے ہوتے  ان پرنكپر كى كہ كيا  لا إله إلا الله كہنے كے بعد بھى تم نے  اس كو مار ڈالا؟ تو انہوں نے جواب ديا: بخدا اس نے  كلمہ  اس وقت پڑھا جب تلوار  كى چمك اس كى  آنكھوں  ميں گھوم  رہى تھى، اس نے تصديق كے طور پر  نہيں پڑھا،بلكہ  جب اسے  معلوم  ہوا كہ  وه مار  ديا جائے گا تو قتل سے بچنے  كے لئے كلمہ پرھ ليا كہ آپ ﷺ  نے اس  كى بات نہيں مانى، حالنكہ بظاہر ان كى دليل پختہ تھى كہ اگر وه اسلام قبول كرنا چاہتا تھا تو جنگ سے پہلے كيوں نہيں قبول كيا، ليكن آپ  ﷺ نے ان كى يہ دليل نے اس كا سينہ چاك كر كے ديكھا تھا" آپ ﷺ اس بات كو دہراتے رہے يہاں تك كہ حضرت اسامہ كہتے ہيں كہ ميں نے تمنا كى كہ ميں آج سے پہلے اسلام قبول نہيں كيا ہوتا، آپ كو پتہ ہے كہ حضرت اسامہ نے يہ بات كيوں كہى؟ اس لئے كہى  كہ ان كو گمان ہوا كہ رب ان كى مغفرت ہرگز نہيں ہوگى، اور نبى كريم ﷺ كى شديد نكير كى وجہ سے انہوں  تمنا كى كہ وه آج تك كافر رہتے اور آج  اپنے شرف اسلام ہونے كا اعلان كرتے اس لئے  كہ اسلام  پچھلے گناہوں كو ختم كرديتا ہے، آپ تمام حضرات كو معلوم ہے كہ ہمارے رسول ﷺ نے حضرت خالد بن وليد رضى الله عنه كے ساتھ  كيا كيا جب انہوں نے مشركوں كى ايك ايسى جماعت كو قتل كرديا جو مسلمانوں پورى قوت كے ساتھ جنگ كر رہى تھى اور جب اس كے لئے جنگ سخت ہوگئى اور اس نے يہ سمجھ ليا كہ اب تو ہر لامحالہ مارے  جائيں گے تو كہا: "صبئنا صبئنا"ہم نے مذہب تبديل كرديا، ہم نے مذہب تبديل كرديا، يہ لفظ اس وقت پورى وضاحت كے ساتھ اسلام لانے پر دلالت نہيں كرتا تھا، كيونكہ عرب  ان لوگوں  كو صابى كہتے تھے جو مشرفِ  باسلام ہوتے جبكہ مسلمان ان لوگوں كو صابى كہتے جو اسلام سے خارج ہوجاتے، چنانچہ صابى وه كہلاتا تھا جو ايك دين سے پھر كر دوسرے دين ميں داخل ہوتا خواه وه مذہب اسلام ميں داخل ہو  يا كسى اور مذہب ميں داخل ہو، بہر حال يہ كہنے كے بعد حضرت خالد بن الوليد نےان كو قتل كرديا تو جب الله كے رسول ﷺ كو اس كا علم ہوا تو  اگرچہ يہ ايك اجتہاد تھا  ليكن پھر بھى كى شدت سے نكير كى،  اور فرمايا: "اے  االله! ميں نے حكم نہيں ديا، اور نہ ميں نے  اس كو ديكھا، اور جب مجھے اس كا علم ہوا تو ميں اس سے  راضى نہيں ہوا،  اے الله خالد نے جو كيا اس سے ميں تيرے  سامنے برئ الذمہ ہورہاہوں" ۔

پھر الله كے رسول ﷺ  نے مسلمانوں كے بيت  المال سے  قتل  دى ديت اداكى، يہ سمجھ كر كہ وه لوگ غلطى سے قتل كئے گئے، يہ توہے ہمارا دين تو پھر يہ افراد ان لوگوں كو كافر كيسے قرار ديتے ہيں جو صرف  اور صرف ديتےہيں، نماز پڑھتے ہيں كہ وه زكوة ركھتے ہيں،  اور حج كرتےہيں، وه ايسا كيوں كرتے ہيں، حالنكہ  الله كے رسول ﷺ نے فرمايا: جس نے لا اله إلا الله كيا وه جنت  ميں داخل ہوا، وه لوگ  ايسا كيوں كرتے ہيں حالنكہ الله كے رسول ﷺ نے تو يہ ارشاد فرمايا:

"مجھے لوگوں سے اس وقت تك جنگ كرنے كا حكم ديا گياہے جب تك وه لا إله إلا الله نہيں كہہ ديں" جنانچہ جب وه يہ كہہ ديتے  تو وه مجھ سے  اپنے خون اور مال كى حفاظت كر ليتے ہيں، الايہ كہ  كسى حق كى بنا پر (ان كا مال يا ان كى جان لى جاتے)  اور ان كا حساب  الله كے ذمہ ہوتا ہے، يہاں  ايك اہم بات يہ ہے كہ لوگ  اس حديث كى غلط تشريح كرتے ہيں اور اس  سے استدلال كرتے ہيں كہ غير سے جنگ كى جائے گى تاكہ وه اسلام ميں داخل ہو، يہ تشريح غلط  ہے، كيونكہ "مقاتلہ" (جنگ)  اور "قتل" ميں فرق ہے، چنانچہ وه مفاعلہ  كے وزن پرہے، جس كا مطلب كسى چيز ميں كئى لوگوں ك      ا شريك ہونا ہوتا ہے جيسا كہ اہل لغت كہتے ہيں، اس طرح اس حديث شريف كا مطلب يہ ہوا كہ جو غير مسلم ہمارے ساتھ جنگ اور لڑائى كرے گا اس كے ساتھ ہم بھى لڑائى كريں گے،  اور جنگ سے متعلق  جتنى آيتيں موجود ہيں سب كا مطلب يہى ہے چنانچہ جب وه لا إلا الله كہہ ديں تو  اس وقعت جنگ  روكنا واجب ہوجاتاہے خواه وه نماز نہ پڑھيں  روزے نہ ركھيں اور حج نہ كريں، صرف اس كلمہ كا پڑھنا ہى ان كا محافظ بن جاتا ہے، ہم نے  اسلامى شريعت ميں يہى پڑھا اور سيكھاہے، تو پھر يہ لوگ اپنى شريعت كہاں سے ليكر آئے ہيں؟ اور كس نے  ان كو اختيار ديا ہے كه قرآن وسنت كو چھوڑ كر الله كے دين ميں خود سے آئيں سازى كريں؟

اے مسلمانو!

آئيے ہم سب اپنے صحيح دين كى طرف واپس آئيں، اس كى روادارى ظاہر كريں، اور غير مسلموں كے ساتھ  اسى طرح زندگى گزاريں  جس طرح ہمارے رسول ﷺ  نے ان كے  ساتھ زندگى گزارى تھى، اور اپنے مسلم بھائيوں كے بارے ميں اچھا گمان ركھيں خواه ان كےاندر كچھ  برائى ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ بندوں كا حساب الله ليتا ہے، انسن نہيں ليتا۔

آپ لوگ ہمارى شريعت كے خزانوں كو اور ان چيزوں كو بظاہر كيوں نہيں كرتے         جن كے ذريعے ہم دوسرى قوموں كے سامنے فخر كر سكتے ہيں، ان ميں آپ ﷺ كا يہ ارشاد بھى ہے، جس نے كسى معاهده شده حليف كو قتل كيا تو وه جنت كى خوشبو نہيں سونگھے گاحالنكہ  اس كى خوشبو  چاليس سال كى مسافت سے محسوس ہونے  لگتى ہے، غور كيجيئے!

الله كے رسول ﷺ معاهدے شده حليف كو اس قتل كرنے سے منع فرمايا، حالنكہ وه غير مسلم ہوتا ہے اور اگر اس كا  تعلق دشمن ملك سے  ہو تو وه دهمكى وغيره كا بھى پيام لے كر آسكتا ہے، اور جب وه واپس جائے گا تو پھر ہمارا دشمن بن جائے گا، ليكن ان كا تمام چيزوں كے باوجود الله كے رسول ﷺ نے  اس كے قاتل كو جنت كى خوشبو سے محروم ہوجانے كى خبر سنائى، يہ ہے اسلام كى عظمت، كيا آپ كو كہ لوگوں كے خود اپنے ہاتھوں بنائے ہوئےقانون ميں اس طاقت وقوت كى كوئى نص نظر آئى ہے، جس طاقت وقوت كى نص  الله كے سچے شريف بندے حضرت محمد ﷺ سے ثابت ہے۔

اے مسلمانو!

تم سب الله كى طرف رجوع كرو تاكہ كامياب ہو دين كو مضبوطى سے پكڑنے اور  اس كا شوق ركھنے كا ہم خير مقدم كرتے ہيں ليكن ضرورى ہے كہ ہم صحيح دين كو مضبوطى سے تھا، ميں نہ كہ اس چيز كو جو دين ميں باہر سے ملا دى گئى ہے، ہمارا دين مسلمانوں اور غير مسلموں سب كے ساتھ روادرى، مہربانى عدل وانصاف اور حسن سلوك كا دين ہے، البتہ اگر كوئى ہم سے دشمنى كرے، اور ہمارى خلاف ہتھيار اٹھائے تو اس وقت ہم الله كى اس شريعت كے مطابق اس كے ساتھ معاملہ كريں گے

(فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ) (سورۂ بقرة: 194) يعنى: پس اگر كوئى تم پر زيادتى كرے تو جيسى زيادتى وه تم پر كرے ويسى ہى تم اس پر كرو"

يہ ہے الله كى كتاب، چنانچہ اگر ہم نے اسلام كى روادارى ظاهر كى اور اپنے رسول  اور صحابہ كرام كى اقتدا اورپيروى كى تو مسلمانوں كے درميان سے دہشت گردى      ختم ہو جائے گى، اور دہشت گرد روپوش ہو جائيں گے، اور ان كو لوگوں كو گمراه كرنے كا كوئى راستہ نہيں ملے گا، الله تعالى سے دعا ہے كہ وه ہميں ان سے اور راه راست سے بھٹكے ہوئے ہر شخص سے چھٹكارا دے، ہر بدعتى اور فاسق سے ہميں دور ركھے، اسى طرح باہر سے دين ميں داخل كى جانے والى چيزوں سے بھى ہميں دور ركھے كيونكہ وہى اس كا منتظم ہے اور وہى اس پر قادر ہے، اے الله ہمارے گناه معاف فرما، ہمارى خطائيں بخش دے، ہميں  صحيح راستے پر چلا، اسلام كا پرچم بلند كر، مسلمانوں كے رعب ودبدبے ميں اضافہ فرما "مسلم ممالك كے درميان روابط كو مضبوط كر مسلم حاكموں كو ايسى سوجھ بوجھ عطا فرما جس ميں رعايا كا خير وبھلائى  ہو اور ايسے نيك ہم نشينوں سے ان كى مدد فرما جو ان كو تمام لوگوں كے خير وبھلائى كے لئے كام كرنے كى راه دكھائيں۔

 

Print
5352 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.