اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

انسان کے حقوق
Anonym
/ Categories: مقالات

انسان کے حقوق

 

 

عام طور پر جب ہم تاریخ انسانی میں حقوقِ انسانى کے مسئلہ پر غوروفکر کرتے ہیں اور اس بنیاد پر بھی غوروفکر کرتے ہیں جس پرعام تصورات میں یہ حقوق قائم ہیں تو ہم دیکهتے ہیں کہ یا تو یہ حقوق فطری حق کی بنیاد پر یا دینی یا اخلاقی تعلیمات کی بنیاد پر وضع کئے گئے ہیں ۔

انسانی جماعتوں کےمابین جاری کشمکش کی وجہ سے چند صدیوں میں انسانی فکر میں حقوق انسان کا مفہوم بالکل بدل گیاہے اور اس کا ایک جدید تصور وجود میں آیا ہے جس کا ارتکاز خاص طور پر ان بنیادوں اور اصولوں پر ہے جن سے متعلق یورپ نے آواز بلند کی تھی ۔

انسانى حقوق سے متعلق ہونے والى گفتگو کے دوران کبھی کبھی اسلام پر تہمت لگا کر یہ آواز بلند کی جاتی ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کا انسانی حقوق سے کوئی تعلق نہیں،اور جان بوجھ کر یا انجانے میں اسلام ميں انسان کو دئے گئے حقوق سے مکمل تجاہل برتا جاتا ہے،اس معاملہ کو صحیح رخ دینے اور غلط تصورات کو صحیح کرنے كے لئے ہم اس مسئلہ کو اسلامی تصور کی بنیادوں پر بیان کرتے ہیں ۔

شریعت اسلامیہ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ انسانى حقوق کے مقاصد دین ودنیا سے متعلق" مفاد اور منفعت" پر مبنى ہیں اور اسکے ہر حکم میں اس كا لحاظ بھى كيا گيا ہے یا تو پانچ چیزوں ( یعنی دین، جان، عقل، نسل اور مال) میں سے کسی ایک چیز کی حفاظت مقصود ہوگى ۔ ہر ملت میں ان پانچوں کا شمار زندگی کی اہم بنیادوں میں ہوتا ہے، یا تو ضروریات میں سے کسی چیز کی حفاظت مقصود ہو جیسے کہ معاملات کی قسمیں ہیں، یا تو جمالیات میں سے کسی چیز کی حفاظت مقصود ہو جس کا تعلق مکارم اخلاق سے ہے، یا حفاظت کے لئے معاون قسموں میں سے کسی قسم کی تکمیل مقصود ہو ۔([1])

مذکورہ تینوں قسموں کی حفاظت کا مطلب ظلم وزیادتی سے حفاظت مقصود ہے اور یہ حفاظت وحمایت ہر فرد کا حق ہے، پس یہ انسان کے حقوق کی مکمل نمائندگی کرتی ہے، اسلام میں انسانى حقوق دو طرح کے ہیں ایک تو مساوات کا حق اور دوسرا آزادی کا حق اور انسان کے دوسرے تمام حقوق انہیں سے نکلے ہیں ۔

قرآن کریم مساوات میں انسانى حقوق کو دو بنیادی قاعدوں پر منضبط کرتا ہے ایک یہ کہ انسان کی اصل ایک ہے دوسرا یہ کہ انسانی عزت سارے نوع انسانى کے لئے ہے ۔

جہاں تک انسان کے ایک ہونے کی بات ہے تو قرآن کریم بڑے ہی پرزور انداز میں بیان کرتا ہے جس میں شک وتأويل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ سارے لوگ ایک ہی جان سے پیدا کئے گئے ہیں، لہذا اس میں فطری امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے، نہ کسی قوم نہ کسی جماعت نہ کسی طبقہ اور نہ کسی جنس کو کسی قوم کسی جماعت کسی طبقہ اور کسی جنس کے مقابلہ میں فوقیت حاصل ہے ۔

حدیث شریف میں بهی اس کی بڑی تاکید آئی ہے جیسا کہ حجہ الوداع کے مشہور خطبہ میں آیا ہے۔ اے لوگو! یقینا تمہارا رب ایک ہے، تمہارے والد ایک ہیں، تم سب حضرت آدم uسے ہو اورحضرت آدم علیہ السلام مٹی سے ہیں، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز سب سے زیادہ متقی شخص ہے او رکسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر تقوی کے ذریعہ۔([2])

قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اسلام میں افراد کے مابین برتری اور تفاضل کا معیار ان تمام معروف اور مشہور معیاروں سے مختلف ہے، بے شک وہ دل كى تمنا اور بے نيازى کا معیار ہے، اسی طرح انسان کو مفید کام، حق وصداقت، عدل وانصاف اور امن وآشتی قائم کرنے کے لئے جدوجہد کی طرف آمادہ کرنے والے روحانی موقف کا معیار ہے اور حدیث شریف کی زبان میں یہ معیار تقوی کا معیار ہے، اس سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جسے انسان اس دنیا میں الله رب العزت كى رضامندى، لوگوں كى نفع رسانى اور ان كى تكليف اور پريشانياں دور كرنے كے لئے کرتا ہے خواہ اس کا تعلق دین سے ہویا دنیا سے ہو۔

جہاں تک مساوات کے دوسرے ضابطہ کی بات ہے تو انسانی شرافت اور عزت ہر انسان کے لئے ہے اور اس کا ذکر مذکورہ حدیث میں موجود ہے اور اللہ رب العزت نے یہ شرافت اور عزت بغیر کسی شرط کے ہر انسان کو عطا فرمائی ہے تاکہ یہ عزت انسان کے ہر فرد کی حمایت وحفاظت کا سبب ہو، پس مالدار اور غریب کے درمیان، حاکم ومحکوم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، تمام لوگ اللہ رب العزت کے قانون کے روبرو اور عام حقوق میں سب کے سب برابر ہیں ۔

یہ بهی معلوم ہونا چاہئے کہ اسلامی سماج میں مساوات کا حق مسلمان اور غیر مسلمان سب کے لئے یکساں طور پر ہے اور اسی موقع پر اسلامی ضابطہ منضبط ہوتا ہے کہ "ان کے لئے وه ہے جو ہمارے لئے ہے اور ان پر وہ ‌ذمہ داری ہے جو ہم پر ہے" ([3]) ۔

اگرچہ حقوق انسان کا پاس ولحاظ مکمل طور پر عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں نہیں کیا جا رہا ہے، جس كے ذريعہ مخالفين اسلام كو يہ كہنے كا موقع مل جاتا ہے کہ اسلام کا انسانى حقوق سے کوئی تعلق نہیں، حقیقت میں اسلام ان غلط كاروائيوں کا ذمہ دار نہیں ہےاگرچہ يہ اس کے نام ہی سے کیوں نہ کئے جائیں اور جو شخص اسلام كى حقیقی تعلیمات سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسلام کے اصل مصادر ومراجع میں تلاش کرے نہ کہ غلط طرز عمل اور باطل تفسیروں میں جسے اسلام مکمل طور پر رد کرتا ہے ۔

 

([1]) الموافقات ۔شاطبی۔  

 

([2]) امام احمد-" ابو نضرہ کی حدیث" ۔ 

([3]) امام نسائی "تحریم الدم"۔

Print
7288 Rate this article:
4.0

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.