اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم كى مناسبت سے شیخ الازہر پروفيسر ڈاکٹر احمد الطیب کا خطاب
Anonym
/ Categories: Main_Category

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم كى مناسبت سے شیخ الازہر پروفيسر ڈاکٹر احمد الطیب کا خطاب

                                              بتاریخ : 11 ربیع الاول، 1439ھ

                                                         بمطابق: 29 نومبر 2017ء

( بمقام ازہر کانفرنس ہال )

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کی حمد و ثناء اور اس معطر و بابرکت مناسبت کے حامل سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام۔۔۔

عزت مآب  صدر عرب جمہوریہ مصر ، جناب عبد الفتاح السیسی حفظہ اللہ ورعاہ

حاضرین کرام !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اما بعد :

آج ہمارا يہ جشن ِ میلاد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منانا، در حقیقت ختم نبوت اور خدا کے اس آخری پیغام كا جشن منانا  ہے جس نے انسانی عقل  کو تعصب، خاندانى اقتدار اور قبائلی نظام  كى قيد وبند  سے آزاد کرنے اور انسانی ضمیر کو ظلم و استبداد اور غلامی كى بيڑيوں سے چھڑانے کے بعد تمام انسانیت کو سیدھے راستے پر ڈال كر اسے جہالت و گمراہی  كى تاريکيوں سے نکالا۔

اس انمٹ پيغام کی حامل ہستی - صلی اللہ علیہ وسلم - کو رفیق اعلی کی طرف انتقال کئے ابھی دس سال بھی نہ ہوئے  تھے (1 ) کہ: سرکشوں، ظالم وجابر بادشاہوں اور خدائی كے دعویداروں کے تخت ایک ايک كركے زمین بوس ہونے لگے، اور انسانیت  اپنی تاریخ میں پہلی بار آزادى كى خوشبو سونگھنے لگی، عدل وانصاف کا مزه چكھنے لگى،  لوگوں كے درميان مساوات كا مفہوم جاننے لگی  اور انسان کو اپنے دوسرے انسان  بھائی کے ظلم سے نجات دلانے کی ذمہ دارى كا ادراک كرنےلگى ۔

امام طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ: اسلامی فتوحات کے ایک سپہ سالار حضرت ربعی بن عامر جب معرکہ قادسیہ شروع ہونے سے پہلے فارسى  لشکر کے سالار رستم کے پاس مذاکرات کے لئے گئے تو رستم نے آپ سے کہا کہ : تمہارا پیغام کیا ہے ؟ تو حضرت ربعی نے فرمایا:

" ہمیں اللہ نے بھیجا ہے ، اور ہميں الله لے كر آيا ہے تاکہ جسے وہ چاہے ہم اسے بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی كى طرف لے جائيں ، اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس كى  کشادگی کی طرف لے جائیں"۔

-----------------------------

  1. مسلمان معركہ نہاوند كو فتح الفتوح كا نام ديتےہيں جو 19ھ/ 630 ء ميں ہوا جب انہوں نے فارس و شيشان كے آخرى لشكرون پر غلبہ پايا تها اور ان كى سلطنت كا خاتمہ كيا تها ( حسين مؤنس , اطلس تاريخ الاسلام, ص:  129 ). جبكه بازنطينى سلطنت كا خاتمہ 12 اور 16 هجرى كے درميان ہوا جب بيت المقدس كو حضرت عمر رضي الله عنه كے حوالے كيا گيا تها. ( گذشته مرجع : ص: 126 ).

يہ بات بہت مختصر ہے  ليكن يہ اس بات  كى عكاسى  كر رہى ہے  كه يہ عظيم  صحابى اس  نئے  دين كى آمد  سے پہلے  اس آزادى اور عدل وانصاف  كے متلاشى  اور پياسے تھے جن  كے سائے  ميں لوگ  زندگى  گزاريں۔

اور ہمیں چاہئے كہ ہم " دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس كى  وسعتوں کى طرف لے جانے والی " ان کی اس بات پر خوب غور کريں، تاکہ ہم  يہ معلوم كر سكيں كہ دین اسلام سے قبل لوگوں کی زندگى  اس تنگى كى  وجہ سے  كس طرح  كراه  رہى تھى  جسے  انہى كے  سماجی و سیاسی اور معاشی نظاموں نے ان پر تھوپ ركھا تھا چنانچہ یہ آخری پیغام عقل و فکر اور وجدان کو آزادی دلانے آیا ہے، اور اس انسانی آزادی میں اس کا طریقۂ کار عدل وانصاف كے اصول سے  مربوط  وه اصول  آزادى  ہے  جو ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتا ہے، کیونکہ عدل کے بغیر آزادی کا کوئی معنی نہیں رہتا اور وه ايسى  اناركى  ميں تبديل  ہوجاتى ہے  جو ديگر  تمام  اصول ومبادئ  كو ختم  كرديتى ہے۔


حاضرین کرام !

چونكہ  حضور نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت  انسانوں کی ہدایت کے لئے ضروری اور ناگزیر ہے اس لئے  اس جادۂ نبوت سے منہ پھیرنا تہذیبوں اور معاشروں كے لئے سب سے زياده خطر ناک چيز ہے۔

تاریخى حقائق سے ثابت ہے کہ: تہذیبوں کے سقوط کے کچھ ايسے اسباب اور عوامل ہیں، جن كا قرآن نے  ذکر کرتے ہو ئے ان سے متنبہ کيا ہے، اور ان كو  " انسان و کائنات میں سنن الہى "  كا نام ديا گياہے، اور ان کا سب سے بڑا سبب لوگوں اور معاشروں كى زندگى میں منہج نبوت سے انحراف ، تمام مخلوقات پر  رحم  اور مہربانى  نہ كرنا اور ان اخلاقی اقدار کو اختیار نہ کرنا ہے  جو انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

" میں اعلى اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں "۔

اور فرمایا:

" اے لوگو ! میں رحمت بنا کر لایا گیا ہوں "۔

اور اس سے پہلے  اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا :

" ہم نے آپ کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے "۔

اور جس طرح  دین کا انکار، اس کے خلاف جنگ، الحاد کی دعوت ، اللہ اور اس کے فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں اور آخرت کا انکار  منہج انبیاء سے انحراف ہے اسى طرح بلكہ  اس سے  بھى زياده  خطرناك،  مہلك اور تباه  كن انحراف اس منفرد اور شاذ جماعت  كا انحراف  ہے جس  كى یہ بیمار سوچ بن جائے کہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا صرف اس کا کام ہے اور زمین پر وہی اللہ کی نمائنده ہے اور وہی صرف دین کا فہم رکھنے والی اور اس کے احکام کی تفسیر کرنے والى ہے۔

يہ جماعت يا مختلف ناموں  اور رجحانات  والى دہشت  گرد جماعتيں  ایک ايسے غلط نظریے پر چل رہىہیں، جس سے اللہ اس كے رسول اور تمام مسلمان بری ہیں۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ : جو مسلمان ان کے عقیدے کو نہیں مانتا وہ کافر ہے ، اور کافر کی جان ، مال اور عزت مباح ہے۔ اس طرح کی گمراہ جماعتیں صرف مسلمانوں كى تاریخى پیداوار نہیں ہیں، بلکہ تمام مذاہب وادیان میں پائی جاتی ہیں۔ اور جو یہ مشہور کردیا گیا ہے کہ: دہشت گردی صرف مسلمانوں کی پیداوار ہے ، اور یہ صرف غیر مسلموں کو نشانہ بناتی ہے، یہ ایک  بے سروپا بات ہے؛ وه حقيقت  اسے  جھٹلاتى ہے  جو ان  افواہوں  كا كھوٹ ظاہر كرتى ہے، اور ان كو پھيلانے  والوں كى برى نيتيں واشگاف كرتى ہے،    چنانچہ تاریخی اور سیاسی کتابیں اس دہشت گردى كا ذكر بكثرت  كرتى ہيں جو  مختلف ادیان اور اور مختلف سماجی و سیاسی مذاہب كى طرف منسوب  كى جاتى ہے۔

ہم اس سانحے سے دور ہو كر  اپنى  بات لمبى كرنا نہيں  چاہتے  جس نے پچھلے جمعہ کو صرف مصری عوام کے دلوں کو ہى نہيں بلکہ مشرق و مغرب میں موجود تمام انسانوں کو ہلا كر ركھ ديا ۔ روضہ مسجد کا سانحہ انتہائی بُرا اور گھناونا تھا ، اور اس قسم کا سانحہ رونما ہونا ایک گھٹیا اور نیچ سطح کا عمل ہے، جس کی توقع نہ کسی انسان سے اور نہ ہی جنگلوں میں رہنے والے درندوں  سے کی جاسکتی ہے۔

اور یہ گولیاں جنہوں نے اگرچہ مسجد کے نمازیوں کی جان لی ہے ، تاہم يہ  اللہ و رسول کے خلاف جنگ ہے ، اور الله  کے مقدس گھر میں اس کو چیلنج  كرنا ہے۔

 الله كے گھروں ميں اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے یہ پہلے مجرم نہیں ہیں بلکہ خلیفۂ  دوم  حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی كے محراب میں نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا، اور خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قرآن پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا ہے اور ان کا خون قرآنی صفحات پر بکھر گیا تھا، اور انہی خوارج كے  اسلاف اور آبا ء واجداد  نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس وقت شہید کیا جب وہ فجر کی نماز کے لئے لوگوں کو پكارتے ہوئے گھر سے نکلے تھے۔

غدارى اور خيانت  كے ہتھيار سے  خلفائے  راشدين كى شهادت  ميں ہمارے لئے اور همارے  اُن خاندانوں كے لئے  صبر وتسلى ہے  ، جنہوں نے اپنے جگر گوشوں ، كنبہ داروں  اور سہاروں كو کھویا ہے۔ – بئر عبد میں رہنے والے ہمارے اپنے لوگو ! – اگر تمہیں ڈرایا اور دہشت زدہ کیا گیا ہے تو یاد رکھو: ان خوراج کی تاریخ ہی صحابہ كرام  كو خوفزده  كرنے ، ان پر حملہ کرنے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرنے اور ان سے دست  كش ہونے  كے بعد  ان كو  شہید کردینے سے عبارت ہے۔

 – جناب صدر –  ہم آپ سے اور اپنی ثابت قدم مصری قوم سے اپنے شہیدوں کی تعزیت کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کو اپنى وسيع رحمت  اور خوشنودى  كے ساتھ  قبول  فرمائے  اور ان كو  اپنى وسيع جنتوں کا وارث بنائے۔ اور ان کے گھر والوں اور رشتے داروں کے دلوں کو مضبوط بنائے، اور زخمیوں کو شفائے عاجلہ سے نوازے۔

آخر میں،   – اے انبيا اور رسولوں كے سردار  انتہائى  شرمندگى  كے ساتھ  – آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے سے معذرت  چاہتے  ہوئے  آپ r سے  عرض كرتا  ہوں  كہ  ؛  اگر آپ کی بابرکت اور معطر ياد كى مناسبت سے بعض  جاہل، سخت دل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  درست وراست منہج سے خارج گروہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے پر دست درازی کی ہے، تو ان کے جرائم نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و شریعت سے انہیں مزید دور کر ديا ہے ۔

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس بے ادبى پر  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت بھرے پیغام كا مذاق اڑانے پر معذرت چاهتے ہیں ..  زمین پر فساد پھیلانے والے اور دین سے خارج  ہونے والے كل قيامت  كے دن جب  آپ کی شفاعت سے محروم ہوں گے ، تو انہیں پتہ چلے گا کہ وہ كونسى  جگہ  لوٹ  كر جارہے ہيں۔

حسن سماعت پر تمام حاضرین کا شکریہ-

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

Print
6473 Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.