اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

انسان اور ذمہ داری
Anonym
/ Categories: مقالات

انسان اور ذمہ داری

 

انسان اور ذمہ داری

 

ذمہ داری انسان کی ایک امتیازی صفت ہے، یہ ایسی صفت ہے جسے وہ باہر سے لینے سے پہلے خود اپنی فطرت انسانی سے حاصل کرتا ہے، ہر انسان کو کسی نہ کسی صورت میں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، اور طبیعت جتنی زیادہ پاکیزہ ہوگی ذمہ داری کا شعور اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

ذمہ داری کا احساس ہر انسان کو ہوتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی بیدار زندگی میں اس سے پوری طرح الگ نہیں ہو سکتے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک شخص کی بنسبت دوسرے میں یہ شعور مختلف ہوتا ہے، اور جب ہم ضمیر کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماري مراد چھپا ہوا "شعور" ہوتا ہے، جس کا ہمارے سلوک کو صحیح رخ دینے میں بڑا کردار ہے، اسی وجہ سے نبی rنے فرمایا: "اپنے دل سے پوچھو"۔

ذمہ داری کی بنیاد بیدار آزادی پر مبنى ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ فعل جو انسان سے بغیر بیدار آزادی کے صادر ہو تو اس پر کوئی دینی اور اخلاقی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اور فعل کے صادر ہونے سے پہلے، اس کے بعد اور ہونے کے وقت یہ ذمہ داری صاحب ذمہ کو پابند کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فعل کے کرنے یا نہ کرنے یا اس کے قبول و انکار کرنے میں اسکی ایک مستقل شخصیت ہے، اور اسے اپنے ارادے کی تنفیذ کی قدرت ہے، اس اعتبار سے ذمہ داری انسان کے لئے عزت کی بات ہے، کیونکہ وہ آزادی، خود مختاری، عزت نفس، اور قوت کے مترادف ہے۔

اسلامی تصور میں ذمہ داری فردی ہوتى ہے، لہذا ایک شخص دوسرے شخص کا بوجھ نہیں اٹھائے گا: } كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ { ( هر شخص اپنے اعمال كے بدلے ميں گروى هے) (سورۂ مدثر: 38)

درج ذيل حدیث شریف میں ذمہ داری کے مختلف دائرے مذکور ہیں:

 آپ r نے فرمایا كہ تم میں سے ہر ایك نگراں ہے اور اس كے ماتحتوں كے متعلق اس سے سوال ہوگا- حاكم نگراں ہے اور اس سے سوال اس كى رعیت كے بارے میں ہوگا، انسان اپنے گھر كا نگراں ہے اوراس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا – عورت اپنے شوہر كے گھر كى نگراں ہے اور اس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا- خادم اپنے آقا كے مال كا نگراں ہے اور اس سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا، اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس كى رعیت كے بارے میں سوال ہوگا"([1])-

ان خارجی ذمہ داریوں کے علاوہ جن کی ادائيگى زندگی میں ہر فرد کے حالات اور معاشرہ میں خاص مقام ديتى هے کچھ ذاتی اور شخصی ذمہ داریاں بھی ہیں، جو دیگر ذمہ داریوں کے ہر دائرہ کا مرکز شمار هوتى هيں، اور یہ کہنا بجاہے کہ ذمہ داری كے دو پہلو ہيں، اول: ہر انسان پر اس کے نفس کی ذمہ داری ہے، کہ وہ عقل، علم، جسم، مال، اور وقت کا ذمہ دار ہے، اور عام طور پر اپنی زندگی کا، اس سلسلہ میں نبی rکا ارشاد ہے، "نبی r نے فرمایا نہ ہٹیں گے قدم كسى بندے كے یہاں تك كہ پوچھا جائے اس سے كہ عمر اپنى كس میں فنا كى اور علم سے اپنے كس پر عمل كیا اور مال كہاں سے كمایا اور كهاں خرچ كیا اور جسم كو كس میں لگایا"([2]

دوم: وہ ذمہ داری جو ایک انسان کی دوسرے انسان پر اور اس دنیا اور جہاں كى ذمه دارى، یہ بات مسلّم ہے کہ انسان ایک اجتماعی يا معاشرتى مخلوق ہے، اور وہ اپنی شخصیت کو ترقی دینے کے لئے انسانی معاشرہ کا محتاج ہے، اور دوسری جانب اس انسانی معاشرہ کے تئیں اس پر ادبی اور اخلاقى پابندیا ں عائد ہوتی ہیں، اور یہ پابندیاں اسکے انسانی وجود کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں۔

ہر سلیم العقل انسان جانتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کے تئیں اپنی ذمہ داری نہیں نبھائےگا، تو اسے بھی حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں سے امید رکھے کہ کوئی اسکی ذمہ داری نبھائے گا، اگر ہم کسی اور کے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو ہمیں بھی حق نہیں ہے کہ ہم ان سے اپنے حق میں انصاف کی امید رکھیں۔

 یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو خود اپنے آپ سے غلط صادر ہونے والے افعال کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ ازل سے مقدر ہے اور جو اللہ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے وہ اسکے برخلاف کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چور کو لایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تم نے چوری کیوں کی؟ تو اس نے جواب دیا: یہ اللہ تعالی نے میری تقدیر میں لکھ دیا ہے میں اس کو ٹال نہیں سکا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے اور تیس کوڑے مارنے کا حکم دیا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کہ آپ نے حد میں زیادتی کی ہے، چوری کی حد کو قائم کرنے کے بعد آپ کو کوڑے مارنے کا حق نہیں ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا: کہ میں نے کوڑے مارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس نے اللہ پر بہتان باندھا، وہ کیسے جانتا ہے کہ اللہ نے چوری کرنا اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے؟۔

اس طرح کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے سرزد ہونے والے جرم کی براءت میں مقدر اور قسمت كا بہانہ كرے، كيونكہ اس پر عائد ذمہ دارى قائم رہے گى اور اللہ نے ازل سے جو انسان کی تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ صرف ریکارڈ ہے جو ہم سے ہمارے آزاد ارادے اور اختیار سے صادر ہوتے ہیں جس میں کسی کی زبردستی کا دخل نہیں ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہر چھوٹے بڑے فعل کے صادر ہونے کا ذمہ دار ہے۔ }فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ { (ﭘﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ذره برابر نيكى ﻛﯽ ﮨﻮﮔﯽ وه اسے ديكھ ﻟﮯ ﮔﺎ۔  اور ﺟﺲ ﻧﮯ ذره ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻛﯽ ﮨﻮﮔﯽ وه ﺍﺳﮯ ديكھ ﻟﮯ ﮔﺎ) (سورۂ زلزلہ: 7- 8)

 

 

([1] ) بخاری ، کتاب الجمعہ، باب: گاوں اور شہروں میں جمعہ۔

([2] ) ترمذی ، کتاب، صفۃ القیامۃ، (یہ حدیث حسن اور صحیح ہے)۔

Print
15053 Rate this article:
3.1

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.