اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

انسانی اختیار و ارادہ
Anonym
/ Categories: مقالات

انسانی اختیار و ارادہ

انسانی اختیار و ارادہ

 

ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں که ماہرین اخلاقیات نے انسان کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ ایک اخلاقی حیوان ہے: یعنی ایسی مخلوق جس کے کچھ اصول وضوابط ہیں، یا اس نے اپنے اوپر ان کو لازم كيا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ ایسا سلوک اپنائے جو اخلاقی اقدار یا سلوک کے مطابق یا اس کے مخالف ہو، بلا شک و شبہ کچھ ایسے عوامل اور اسباب بھی ہیں جو انسان کے اخلاق کی تكوين ميں اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے وراثت اور ماحول، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ انسان کے اختیار کی صلاحیت یا اس کی آزادی کو چھین لیتے ہیں۔

ہم اپنے آپ میں اقوال و افعال کی آزادی محسوس کرتے ہیں، اور اگر خیر و شر کے اختیار میں انسان کے ارادہ کو آزادی نہ ہوتی تو اخلاقی ضوابط اور امر و نہی ایک بے کار بات ہوتی، اور ادیان میں ثواب و عقاب، اچھے اور برے تصور كا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لئےتمام اخلاقی افعال جو مقاصد و نیت اور اخلاقی ارادہ سے متعلق ہیں، اسکے لئے آزادی ایک بنیادی شرط ہے، لہذا اخلاقیات پر بات کرنا تب ہی ممکن ہے جب انسان کو آزادی حاصل ہو، اور اچھے کام کے کرنے اور برے کام کے چھوڑنے پر قادر ہو، كيونكہ اگر ہمیں خیر و شر کے درمیان اختیار حاصل نہ ہو تو ہمارے تصرفات کا محاسبہ ممکن نہیں ہے، اسی طرح نہ ہماری تعریف کی جا سکتی ہے اور نہ ہم قصوروار ٹھہراۓ جاسکتے ہیں۔

ارادہ کی آزادی کا مسئلہ ابھی تک ایک طرف سے فلسفیوں کے درمیان بحث کا موضوع بنا ہوا ہےاور دوسرى طرف سے علمائے دين اور فلسفیوں کے درمیان بحث کا موضوع بنا ہوا ہے، پرانے زمانہ سے اس مسئلہ میں دو بنیادی رائے موجود ہيں، ایک فریق اس بات کی طرف مائل ہے کہ اختیار میں ارادہ کو آزادی حاصل ہے، جبکہ دوسرے فریق کا خیال ہے کہ ارادہ مجبور ہے اور اسے اختیار کی آزادی حاصل نہیں ہے، ہم فکر اسلامی کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں فکری رجحانات کا ظہور ہوا ان میں یہ دونوں مذاہب بھی ہیں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ایک تیسرا رجحان بھی ہے جو آزادئ رائے کو مطلق آزاد ی اور اس کی عاجزی کو مطلق عاجزی نہیں مانتے ۔

بہر صورت آزادی (بيدار آزادى) ہی پر اخلاق کا دارومدار ہے، اگر آزادی نہ ہوتی تو ہرگز ذمہ داریوں کی حد بندی نہ ہوتی اور یہ ممکن نہ ہوتا کہ ہم کسی فعل کے بارے میں کہہ سکتے کہ یہ اخلاقی ہے اور یہ غیر اخلاقی ۔

ہم اصحابِ جبر اور اصحابِ اختیار کے درمیان چھڑی اس اختلافی بحث کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، لیکن ہم صرف اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دو قسم کی مخلوقات کو پیدا کیا ہے، جیسا کہ ہم پچھلی فصل میں اس کی جانب اشارہ کر چکے ہیں۔ ان میں ایک مسخر ہے جن کا نہ کوئی اپنا ارادہ ہے اور نہ اختیار ہے، اطاعت اور فرمانبرداری كے سوا ان كےسامنے كوئى دوسرا راستہ نہيں، یہ انسان کے علاوہ اللہ تعالی کی تمام دیگر مخلوقات ہیں۔

        جبکہ دوسری قسم: انسان ہے جو ايك مکلف اور ذمہ دار مخلوق ہے، اور ذمہ داری کام کے کرنے اور نہ کرنے کی آزادی پر مبنى ہے، جیسا کہ قرآن کریم کا فرمان ہے: }فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ{: (اب ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ اور ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﻛﻔﺮ كرے) (سورۂ کہف: 29)

 اور اسی پر ثواب و عقاب کا مسئلہ مرتب ہوتا ہے، جس کی جانب قرآن نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: }مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا{: (ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﻧﯿﻚ كام ﻛﺮے ﮔﺎ وه اﭘﻨﮯ ﻧﻔﻊ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ اور ﺟﻮ ﺑﺮﺍ كام ﻛﺮے ﮔﺎ اس كا وبالﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﮨﮯ) (سورۂ فصلت: 46)

یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی ہر فرد کو جانتا ہے کہ وہ اچھا کرے گا یا برا، ایمان لائے گا یا کفر اختیارکرےگا، لیکن اللہ تعالی کا علم کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرنے والا علم نہیں ہے، بلکہ وہ ازلی علم حاصل ہے کہ کس شخص سے کیا صادر ہوگا، لیکن فعل کا سرزد ہونا یا نہ ہونا، یہ خود انسان کی آزادی کی بنیادپر ہے، تو اس صورت میں کسی طرح بھی قضاء اور قدر کو ملامت کرنا مناسب نہیں ہوگا، اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو ازل سے مقدر کر رکھا ہے اور اسی طرح انسان کا آزاد ارادے کے ساتھ پیدا کیا جانا بھی ازل سے مقدر ہے۔

          ہم سبھی اپنی عملی زندگی میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تعلیم وتربیت اور تہذیب و ثقافت کا انسان کے سلوک کی تبدیلی پر اثر ہوتا ہے، چنانچہ ہم قانون بناتے ہیں اور برا کرنے والوں کو سزا اور اچھا کرنے والوں کو معاوضہ دیتے ہیں، تو اگر انسان مجبور ہوتا، اسے آزادی اور ارادہ کا اختیار نہ ہوتا، تو تعلیم و تربیت، وعظ و ارشاد، قانون سازی اور ثواب و عقاب کی کوئی ضرورت نہ ہوتی، ان تمام وجوہات کی بناپر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہاں ایسی ذات ہے جسے ارادہ کی آزادی حاصل ہےاور جو کرنے اور نہ کرنے پر قادر ہے۔

            اجبار کی بات ایسی ہے جو زندگی میں امید کے تمام دروازوں کو بند کردیتی ہے اور امید کے بغیر نہ تو انسان زندگی میں ترقی کرسکتا ہے اور نہ علم میں آگے بڑھ سکتا ہے، بلکہ وہ رک جائگا اور پچھڑ کر رہ جائےگا، جس سے زندگی ٹھہر جائےگی اور انسانیت مفلوج ہوجائےگی۔

        یقینا دین نے ہمیں امید دی ہے، اور ہمارے اندر اس بات کا بھروسہ اور يقين پیدا کیا ہے کہ ہم بہتر تبدیلی پر قادر ہیں، اس بات کی وضاحت کے ساتھ کہ یہ تبدیلی خود آسمان سے نازل نہیں ہوگی، بلکہ اس کا تعلق ہمارے ارادہ سے ہے جو اس تبدیلی کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس سلسلہ میں قانونِ الہی سے زیادہ سچی بات کیا ہوسکتی ہے: }إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ{: (ﻛﺴﯽ قوم ﻛﯽ ﺣﺎﻟﺖ الله تعالى ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﺎ ﺟﺐ ﺗﻚ ﻛﮧ وه خود اﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﺪﻟﯿﮟ ﺟﻮ ان ﻛﮯ دلوں ﻣﯿﮟ ﮨﮯ) (سورۂ رعد: 11)

      پس الله تعالى نے اپنے آپ كو بدلنے اور بہتر يا بدتر بنانے كى ذمہ دارى انسان ہى كو سونپى ہے، اور فساد كو بھى نفس كى طرف منسوب كيا ہے- ارشاد بارى ہے }قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا{ (ﺟﺲ ﻧﮯ اسے پاك كيا وه كامیاب ﮨﻮﺍ۔  اور ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ خاك ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﺩﯾﺎ ناكام ﮨﻮﺍ) (سورۂ شمس: 9-10)

 

Print
7095 Rate this article:
2.7

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.