اُردو (پاکستان)

ازہر سينٹر برائے "ترجمہ" اسلام كى اعتدال پسندى كو متعارف كرانے كا ايك اہم اور معتبر ذريعہ ہے

 

معجزہ
Anonym
/ Categories: مقالات

معجزہ

معجزہ

نبوت اور معجزہ

نبوت کا تعلق معمول أور عادت كے برخلاف چيزوں كے ساتھ ہوتا ہے، یہ نبوت مانوس قاعدے یا دنیاوی قوانین کے مطابق نہیں ہوتی ہے، نبوت ایک متعین شخص اور ایک عظیم غیبی طاقت کے درمیان ایک براہ راست تعلق کا نام ہے، جس کا ادراک ایک عام انسان نہیں کر سکتا اور وہ اس کو سمجھنے سے مكمل طور پرعاجز ہوتا ہےتو نبوت میں ایک ادراک ہوتاہے جس کا دعوی نبی کرتا ہے، اور یہ ادراک مخفی ہوتا ہے، لوگوں کے کانوں، انکی نگاہوں اور ان کے ادراک کی ظاہری اور باطنی طاقت وقوت سے پوشیدہ ہوتا ہے، اور نبوت میں یہ بھی دعوی ہوتا ہے کہ نبی ایک لمحہ میں آسمان سے خبر حاصل کرتے ہیں اور یہ تمام چیزیں انسانی عادات وتقالید اور اس کے نظام وقوانین سے متصادم ہیں۔

لوگ اپنی زندگی میں جن چیزوں سے مانوس اور عادی ہوتے ہیں اس کے برعكس نبوت بعید الاحتمال چیز ہے، يہى وجہ ہے كہ بہت سے لوگوں نے انبیاء کی دعوت کا انکار اورسختی سے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے انکار کی وجہ یہی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کوئی ایسی چیز پیش کرے جس کے پیش کرنے پر بقیہ دوسرے لوگ قادر نہ ہوں؟ ان کی فکر یہ تھی کہ اگر نبوت صحیح ہوتی تو اس کے پیش کرنے پر سارے لوگ قادر ہوتے یا اس کا تعلق غیر بشری وجود سے ہوتا، يا کہ نبوت انسان کے نظام، ان کی عادتوں اور مانوس چیزوں کے برعكس ہے، پھر اس کا ظہور ایک انسان پر ہوتا ہے؟ اور یہی ان کے گمان کے مطابق ایک ایسا تضاد تھاجس کے سمجھنے سے ان کی عقلیں عاجز تھیں، اور يہ دلیل پیش کرتے تھے کہ انبیاءعلیہم السلام ان ہی کی طرح انسان ہیں، لیکن ان کے پاس وہ خبریں نہیں آتی جو انبیاء کے پاس آتی ہیں، کبھی تو انبیاء کے بشری تقاضوں اور انسانی مشابہت کی وجہ سے انہیں یہ حیرت ہوتی کہ یہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، بازاروں میں جاتے ہیں اور کبھی ان کی حیرت اس طرح ظاہر ہوتی کہ ان کے بدلے فرشتے اس کام کو انجام نہیں دیتے، اور کبھی اجمالی اور تفصیلی مقابلہ کرنے سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اور سارے مسئلہ کو کسی اور سمت موڑ دیتے اور کہتےہيں کہ يہ جادو گر اور پاگل ہیں يا کچھ گمنام اور خفیہ لوگوں سے یہ حاصل کرتے ہیں اور ان سارے اعتراضات کی وجہ صرف ایک ہی ہے یعنی کافروں اور ملحدوں نے نبوت كو عام نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش كى جس کے لوگ عادی تھے۔

  • }قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ{ (انہوں  نے ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ انسان ﮨﻮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﻛﮧ ﮨﻤﯿﮟ ان خداؤں ﻛﯽ عبادت ﺳﮯ روك دو ﺟﻦ ﻛﯽ عبادت ہمارے باپ دادا كرتے رہے۔ اچھا ﺗﻮ ہمارے ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻛﮭﻠﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﭘﯿﺶ كرو( (سورۂ ابراہیم: 10)۔
  •  }قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ (15){ (ان لوگوں ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺗﻮ ہمارى طرح ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻮ اور ﺭﺣﻤٰﻦ  ﻧﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ نازل نہيں ﻛﯽ۔ ﺗﻢ ﻧﺮا جھوٹ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﻮ) (سورۂ یس: 15)۔
  •  }وَقَالُوا مَا لِهَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا (7) أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا (8){ (اور انہوں ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﯾﮧ ﻛﯿﺴﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﮨﮯ؟ ﻛﮧ ﻛﮭﺎﻧﺎ ﻛﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ اور بازاروں ﻣﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﮯ، اس كے پاس كوئى ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻛﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎﺗﺎ؟ ﻛﮧ وه ﺑﮭﯽ اس ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ہو كر ڈرانے والا ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ۔ (٨) ﯾﺎ اس كے پاس ﻛﻮﺋﯽ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﮨﯽ ڈال ديا جاتا يا اس كا ﻛﻮﺋﯽ باغ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻛﮭﺎﺗﺎ۔ اور ان ظالموں ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ايسے آدمى ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﻮ ﻟﺌﮯ ﮨﻮ ﺟﺲ ﭘﺮ جادو ﻛﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ) (سورۂ فرقان:7- 8)۔
  •  }وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ (6) لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (7){ (انہوں ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ اے وه ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﭘﺮ قرآن اتارا گيا ﮨﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻛﻮﺋﯽ ديوانہ ہے۔ (٧) ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺳﭽﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ تو ہمارے پاس فرشتوں ﻛﻮ كيوں ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺗﺎ) (سورۂ حجر:6- 7 )۔
  •  }وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ{ (اور كافروں ﻛﻮ اس بات ﭘﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ ﻛﮧ ان ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﻚ ﺍﻧﮩﯿﮟ ڈرانے والا آ گيا) (سورۂ ص:6)۔
  •  } أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا { (ﻛﯿﺎ ﮨﻢ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ كلام ﺍﻟٰﮩﯽ نازل ﻛﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ؟) (سورۂ ص:8)۔
  •  }وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (34){ (ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻛﯽ ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭﯼ ﻛﺮﻟﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﮯﺷﻚ ﺗﻢ ﺳﺨﺖ خسارے والے ہو ) (سورۂ مومنون: 34)۔

مذکورہ بالا ساری آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ منكرين نبوت انبیاء عليہم السلام کو جھوٹا قرار دیتے تھے، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان اور بشر ہونے کے ساتھ ساتھ ملا اعلی سے تعلق کیسے ممکن ہے؟تو ان کی سوچ اس بات پر مبنی تھی کہ انسانی عادت اور احساس ضروری چیز ہے جس کا ختم ہونا ممکن نہیں ہے، يہی وجہ سے انہوں نے انبیاء عليہم السلام سے ٹھوس دلائل کا مطالبہ کیا، تاکہ ان کے پاس کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے، }فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ{ (ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ہمارے ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻛﮭﻠﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﭘﯿﺶ كرو) (سورۂ ابراہیم: 15) تومنکرین نے جس چیز کا مطالبہ کیا تھا وہی معجزہ ہے۔

نبوت کی حقیقت ہى خلاف عادت ہے کیونکہ یہ ان امور پر مشتمل ہوتی ہے جو عام قوانین سے متصادم ہے، تو ان کے دلائل کا بھی اسی جنس سے ہونا ضروری ہے، یعنی ضروری ہے کہ نبی اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے خلاف عادت دلیل لائے تاکہ اس کی روشنی میں عام عقل نبوت کی تصدیق کر سکے، تو یہ خلاف عادت دلیل ہی معجزہ ہے جس کے ذریعہ اللہ رب العزت خلاف عادت ایک بات پیش کرتا ہے

 جب لوگ نبی کے لائے ہوئے معجزہ کی تصدیق کر لیں گے تو نبوت کے انکار کی ساری حجتیں اس بنیاد پر ساقط ہو جائیں گی كہ یہ خلاف عادت بات ہے، کیونکہ وہ معجزہ اور نبوت کی تصدیق کے مابین فرق نہیں کر سکتے ہیں پس دونوں ہى خلاف عادت بات چيزيں ہوئيں۔

تو نبوت اور معجزہ کی تصدیق کرنا لازم ملزوم ہے، اور انکار کی حالت میں معجزہ نبوت کی سچائی پر عقلی دلیل ہے ([1])۔

معجزہ کا مفہوم

علمائے عقیدہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں، کہ یہ خلا ف عادت بات ہے جو نبوت کا دعوی کرنے والے کے ذریعہ منکرین نبوت کے لئے ایک چیلنج کے طور پر اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کی تصدیق کریں اور ان کےلئے مخالفت کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔([2])

معجزہ کى شرطيں

معجزہ کےلئے مندرجہ ذیل شرائط ہیں۔

(1)-وہ لوگوں کی مانوس عادات وافعال کےخلاف ہو۔

(2)-کسی نبی پر اللہ کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا ہو۔

(3)- اس خلاف عادت امر کے ظہور کا مقصد منکرین کو چیلنج کرنا ہو خواہ صاحب معجزہ نبی نے صراحت کے ساتھ چیلنج کیا ہو یا قرائن سے اس کا ظہور ہوا ہو۔

(4)-معجزہ نبوت کے دعوے کے موافق ہو، اور اس کی تصدیق بھی کرتا ہو، اگر معجزہ کا ظہور ہوا اور نبی کو اس کے دعوے كو اس كے دعوے ميں جھوٹا قرار ديا تو اس نبى كو سچ نہيں مانا جائے گا، مثال كے طور پر جمادات نے كلام كيا اور صاحبِ معجزه كو جھوٹا بتايا۔

(5)-منكرين معجزۂ نبوت كى طرح معجزه دكھانے يا اس كى مخالفت سے عاجز اور قاصر ہيں۔

 

 

معجزہ اور کرامت کے مابین فرق

معجزہ اور کرامت دونوں ہى خلاف عادت امور ہيں، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ معجزہ کا ظہور نبی کے ذریعہ ہوتا ہے، بشرط يہ كہ اس میں نبی ہونے کا دعوی ہو، اور جہاں تک کرامت کی بات ہے تو اس کا ظہور اللہ کے نیک بندوں میں سے اولیائے کرام کے ذریعہ ہوتا ہے، اور اولیاء کی کرامتوں کی تفسیر صرف ایمان اور اس عمل صالح سے نہیں کی جا سکتی ہے جس کی توفیق ولی کو ہوتی ہے، بلکہ اس کی تفسیر خلاف عادت امر سے بھی کی جا سکتی ہے، جس کا ظہور اولیائے کرام کے ذریعہ ہوتا ہے، اور انکے ذریعہ چیزوں میں خلاف عادت ہونے والے تاثیرات کے ذریعہ بھی ہو سکتی ہے، اور اس میدان میں انکے بارے میں جو بھی انکشافات ہیں وہ سب رکاوٹوں سے گزر جانے کے بعد کے ہیں، اولیائے کرام کی کرامتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی قدرت کے دلائل مكمل طور پر جارى رہیں اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور اس کے پاس اس دنیاوی قانون سے بہت اعلی قانون ہے ،جس میں یہ دنیاوی قانوں سما جاتے ہیں اور جب وہ قادر مطلق ان قوانین کو باطل قرار دینا چاہے باطل قرار دے سکتا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اوليائے كرام كى كراموں ان كے ہاتھوں علوم مكاشفات كى مختلف اقسام ميں جارى ہونے والے خرق عادت واقعات اور مختلف قسم كى صلاحيتوں اور تاثير كى تصديق كرنا اہل ِ سنت كے اصول ميں سے ہے، اور اسی طرح سورہ کہف میں جو پہلی قوموں کی خبریں اور ا س امت کے ابتدائى زمانہ میں صحابہ کرام اور تابعین سے جو چیزیں منقول ہوئیں ہیں ان سب كى تصديق كرنا، اور یہ سب قیامت تک موجودر ہیں گی۔([3])

جادو اور معجزہ کے درمیان فرق

اگر معجزہ خلاف عادت امر ہے تو جادو خرق عادت امر نہیں ہوتا بلکہ وه تو ہاتھ کا کمال یا شعبدہ بازی ہے اور جادوگر لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کر لیتا ہے پھر وہ آنکھیں ایسی چیزیں دیکھتی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی دوسرے انداز میں یہ کہیں کہ جادو چیزوں کی حقیقت کو نہيں بدلتی، نہ اس میں پر اثر انداز ہوتا ہے اور نہ اس پر اثرانداز ہوتی ہے، یہ صرف ایک قسم کا تخیل ہوتا ہے جو دیکھنے والے کو نظر آتا ہے اور حقیقت میں اس کی کوئی سچائى نہیں ہوتی ہے ۔

الله تعالى فرماتا ہے: }قَالَ أَلْقُوا فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ{ (ﺟﺐ انہوں  ﻧﮯ ڈالا ﺗﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﯽ ﻧﻈﺮ بندى كردى) (سورۂ اعراف: 116)

گویا کہ قرآن کریم بيان کرتا ہے کہ چيزوں كى حقيقت جادو سے متاثر نہیں ہوتی بلكہ لوگوں كى آنكھيں متاثر ہوتى ہيں، جادو کی مثال سراب جيسى ہے جس كوانسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے جبکہ معجزہ چیزوں کی حقیقت میں ایک حقیقی تاثیر ہوتی ہے جو كسى چیز کی حقیقت كو بدل ديتی ہے یا ختم كرديتی ہے یا اس کی تاثیر بدل ليتى ہے۔ اگر ہم نے جادو کو خلاف عادت امر مان لیا اور چیزوں کی حقیقت میں موثر قرار دے دیا تب بھی جادو اور معجزہ کے درمیان بہت بڑا فرق باقی رہے گا کیونکہ معجزہ کے شرطوں میں ہے کہ انسان اس کی مخالفت یا اس جیسا پیش کرنے سے عاجز ہوتا ہے کیونکہ انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ دنیاوی قانون کے دائرہ سے خارج ہو کر معجزہ پیش كرنا انسان كے بس كى بات نہيں ہے اور جہاں تک جادو کی بات ہے تو اس كا سيكھنا اور اس ميں مہارت پيداكرنا يہ انسان كے بس كى بات ہے، اس طرح وہ کسی بھی ماہر جادو گر کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اس کی طرح یا اس سے بہتر پیش کر سکتا ہے، پس جادو اور معجزہ کے درمیان فرق مندرجہ ذیل چیزوں میں پوشیدہ ہے۔

(1) جادو ایک تخیل ہے جو آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے چیزوں پر نہیں اور معجزہ حقیقت ہے جو چیزوں كى حقيقت میں اثرانداز ہوتا ہے۔

(2) معجزہ کی مخالفت اور اس کے مقابلہ میں دوسرا معجزہ پیش کرنا نا ممکن ہے جبکہ جادو ایک علم ہے اسے سیکھ کر اس جیسا پیش کیا جا سکتا ہے ۔

(3) جادو یا معجزہ کا فرق دونوں میں ایک ساتھ مضمر ہے۔

 

معجزہ معمول کے مطابق ناممکن ہے لیکن عقل کے مطابق ممکن ہے

ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر معجزہ معمول کے مطابق ناممکن ہے یعنی ایسا ایک عام انسان کے بس كى بات نہیں ہے لیکن یہ عقلی طور پر ناممکن نہیں ہے بلکہ عقلی طور پر یہ ممکن ہے، اور عقلی طور پر ممکن ہونےکا مطلب یہ ہے کہ عقل جس کے واقع ہونے کے سلسلہ میں ہمارے وجود کے تصور کی طرح اس کا تصور کر سکے یا چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے تصور یا سمندر کے دو حصوں میں منقسم ہونے كا تصور کر سکے، یہ سارے تصورات ہیں جس کے واقع ہونے کے سلسلہ میں عقل تصور کر سکتا ہے، توعقل کا کسی چیز کا تصور کر لینا اس کے ہونے کے امکان کی دلیل ہے، پس کوئی مانع نہیں ہے کہ عقل کسی شخص کے بارےمیں یہ تصور کرے کہ وہ آگ میں کھیل رہا ہے لیکن جلتا نہیں ہے،یا چاند دو حصوں میں پھٹ کر منقسم ہو گیا ہے یا سمندر کے بیچ وبیچ  ایک راستہ نکل آیا ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ یہ ساری چیزیں لوگوں کے معیار کے اعتبار سے ناممکن ہیں لیکن عقل اسے ناممکن نہیں قرار دیتى ۔

آپ ان امور کا موازنہ ان امور سےكے ساتھ کر سکتے ہیں جن کے ہونے کوعقل ناممکن قرار دیتى ہے، اور اس کے ذہنی تصور سے قاصر ہے، مثال کے طور پر اگر عقل نے یہ تصور کیا کہ ایک تین کونے والی چیز ہو اور اس کے چار کونے ہوں یا یہ تصور کیا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہو یا یہ کہ ایک چھوٹا جسم بڑے جسم سے بڑا ہو یا یہ کہ سفید رنگ سیاہ رنگ کے ساتھ ہو یا ایک ایک پانچ ہوتا ہے، اس طرح سارے تصورات کو عقل پہلے لمحہ ہی میں رد کر دیتا ہے، اور اس کے تصور سے عقل بھی عاجز ہے کیونکہ اس کا وجود میں آنا عقلی طور پر ناممکن ہے، پس ناممکنات کی دو قسمیں ہیں :

(1)عادت کے اعتبار سے ناممکن ہے لیکن عقلی طور پر اس کا حصول ممکن ہے۔

(2)عقل کے اعتبار سے ناممکن ہے ۔

اب یہ معجزے کس قسم سے ہیں؟ کیا ان کا تعلق پہلى قسم سے ہے ؟ یعنی معجزے اگرچہ عادت کے اعتبار سے ناممکن ہیں لیکن عقلی طور پر ممكنات ميں سے ہيں جن كے ظاہر ہونے ميں كوئى حرج نہيں، اور جو لوگ معجزے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عقلی طور پر ناممکن ہے تو وہ معجزہ کی اصل حقيقت سے ناواقف ہیں اور عقلی طور پر ناممکنات اور عادت کےطور پر ناممکنات کے درمیان خلط ملط کر رہے ہیں۔

دعوى نبوت كى تصديق ميں نبى كے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات وبراہين اسى سلسلہ كى ايك كڑى معجزہ کا تعلق اس ىچيز سے ہوتا ہے جس میں بھیجے جانے والے نبی کی قوم ماہر ہوتی ہے، پس موسی علیہ السلام کے معجزہ کا تعلق اس چیز سے تھا جس میں ان کی قوم ماہر تھی یعنی جادو، لہذا موسی علیہ السلام نے اپنی نشانی کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو باطل کر دیا، اور وہ لوگ آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے حالانكہ وہ لوگ اس فن کے ماہر تھے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارے بڑے جادو گروں نے آپ کی نبوت کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے، اسی طرح جب اللہ رب العزت نے عیسی علیہ السلام کو ایسے سماج ومعاشرہ میں مبعوث فرمایا جس میں بیماریاں تھیں اور اس معاشرہ کے لوگ فن طب میں ماہر تھے تو اللہ نے ان کو اسی طرح كامعجزہ بھی عطا فرمایا، پس آپ نے اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا، گونگوں کو گویائی عطا کی، برص کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو ٹھیک کیا اور اس کے ذریعہ اللہ نے ان کی قوم پر حجت قائم کی ۔([4])

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم سے پہلے انبیاء کے سارے معجزے دو طرح کے ہوتےتھے ۔

(1)حسی معجزے ۔ جیسے کہ موسی علیہ السلام کی لاٹھی اور ان کے نو معجزات اور عیسی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا، گونگوں کو گویائی عطا کرنا وغیرہ۔

(2)محدد مخصوص معجزے۔ جو خاص جگہوں اور خاص زمانوں كے لئے مخصوص ہیں کیونکہ گزشتہ انبیاء کے پیغامات متعین قوم وملت کے لئے خاص ہوتے تھے اور اس کا وقت متعین ہوتا تھا لہذا پیغام کے محدود ہونے کی وجہ سے ان کے معجزہ بھی محدود تھے۔

محمدr  کا معجزہ

آپ r کا پیغام سارے لوگوں کے لئے عام ہے، ساری انسانیت کے لئے قيامت تک باقی رہنے والا آخری پیغام ہے، اسی لئے آپr کا پہلا معجزہ عقلی معجزہ تھا یعنی اس معجزہ کے اندر عموم اور تسلسل تھا تاکہ یہ آپ کے پیغام اور اس کے استمرار وتسلسل پر دلیل بن سکے اور وہ عقلی معجزہ قرآن کریم ہے، اعجاز قرآنى تين امور پر مشتمل ہے ۔

(1) قرآن کریم كا اپنے بیان کی عمدگی، بات کی خوبصورتی اور باریک بینی میں معیاريہ ہے کہ قریش کے فصاحت وبلاغت کے امام اس کےسامنے سجدہ ریز ہو گئے تھے خواہ وہ اس کے ماننے والے ہوں يا نہ اور انہوں نے خود اس بات كو محسوس کیا کہ نبی جو کلام پیش کرتے ہیں وہ اسلوب وبیان کے اعتبار سے اس کلام سے مختلف ہے جس کے وہ عادی اور مانوس ہیں، اور انہوں نے اس بات كا اعتراف کیا کہ اس کلام كو انس وجن کے كلام كے معیار پر فوقیت حاصل ہے، اور قرآن كريم نے تو ان کو چیلنج بھی کیا تھا کہ وہ اس جیسا كلام پیش کریں یا اس جیسی ایک سورت ہی پیش کر دیں۔ ارشاد بارى ہے: }قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا{ (ﻛﮩﮧ دﯾﺠﯿﺌﮯ ﻛﮧ ﺍﮔﺮ تمام ﺍﻧﺴﺎن اور كل ﺟﻨﺎت ﻣﻞ ﻛﺮ اس قرآن ﻛﮯ ﻣﺜﻞ ﻻﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺗﻮ ان ﺳﺐ سے اس ﻛﮯ ﻣﺜﻞ ﻻﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﻜﻦ ﮨﮯ ﮔﻮ وه (ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ) اﯾﻚ دوسرے ﻛﮯ مدد گار ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ) (سورۂ بنى اسرائيل :88)

الله تعالى فرماتا ہے: }أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (13){ (ﻛﯿﺎ ﯾﮧ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ اس قرآن كو اﺳﯽ ﻧﮯ گھڑا  ﮨﮯ۔ جواب ديجئے ﻛﮧ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻛﯽ ﻣﺜﻞ دس ﺳﻮرﺗﯿﮟ ﮔﮭﮍى ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮯ آؤ اور الله ﻛﮯ ﺳوا ﺟﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ اپنے ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻼ ﺑﮭﯽ ﻟﻮ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺳﭽﮯ ﮨﻮ) (سورۂ ہود: 13)

الله تعالى فرماتا ہے:  }وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ{ (ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﺍﭘﻨﮯ بندے ﭘﺮ اتارا ﮨﮯ اسﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺷﻚ ﮨﻮ اور ﺗﻢ ﺳﭽﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ اس ﺟﯿﺴﯽ ﺍﯾﻚ ﺳﻮرت ﺗﻮ ﺑﻨﺎ لاؤ، ﺗﻤﮩﯿﮟ اختيار ﮨﮯ ﻛﮧ الله تعالى ﻛﮯ ﺳوا اﭘﻨﮯ مددگاروں ﻛﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼ ﻟﻮ) (سورۂ بقرہ: 23)

تو صبح وشام يہ چیلنج ان کے کانوں سے ٹكراتا رہا اور ان كے فصيح وبليغ لوگ تڑپ كر ره گئے مگر وہ لوگ اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے، اور اللہ کے اس کلام کے سامنے عاجز وبےبس ہو گئے حالانكہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ اس سے سخت چیلنج سے کر سکتے تھے اور وہ آپ rكے ساتھ بغض وعداوت بھی رکھتے تھے، اور آپ rکے پیغام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بھى چاہتے تھے۔

            (2) قرآن کریم نےان غیبی امور سے بھی آگاه کیا ہےجو نبی کے زمانہ ميں موجود نہیں تھے، لیکن وہ بعد میں اسی انداز ميں واقع ہوئے جیسا کہ قرآن کریم نےبیان کیا تھا، اسی طرح قرآن کریم نے ایسی چیزوں سے بھی باخبر کیاہے جو معروف نہ تھيں اور نہ وحی کے نزول سے پہلے نبیr کو پچھلى قوموں کی تاریخ کے بارے میں کسی چیز کا علم تھا، کیونکہ آپ امی تھے، پڑھنا لکھنا نہیں جانتےتھے، اور عربی ماحول بت پرستانہ ماحول تھا ۔۔عیسائی اور یہودى علماء آپ r کو وه اپنے تراث اور تاریخ سے متعلق سوالوں کے ذریعہ چیلنج کرتے تھے اور آپ r تمام حقائق سے واقف شخص کی طرح مکمل اعتماد کے ساتھ ان کے تمام سوالوں کا جواب دیتے تھے ۔([5])

الله تعالى فرماتا ہے: }وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ (44) وَلَكِنَّا أَنْشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (45) وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (46){ (اور طور ﻛﮯ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺟﺐ ﻛﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ موسى(u) ﻛﻮ ﺣﻜﻢ احكام ﻛﯽ ﻭﺣﯽ ﭘﮩﻨﭽﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﻧﮧ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻣﻮﺟﻮد ﺗﮭﺎ اور ﻧﮧ ﺗﻮ ديكھنے والوں ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ۔  (٤٥) ﻟﯿﻜﻦ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﮟ  ﺟﻦ ﭘﺮ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺪﺗﯿﮟ ﮔﺰرﮔﺌﯿﮟ، اور ﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﺪﯾﻦ ﻛﮯ رہنے والوں ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ  ﻛﮧ ان ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ہمارى آيتوں ﻛﯽ تلاوت ﻛﺮﺗﺎ ﺑﻠﻜﮧ ﮨﻢ ﮨﯽ رسولوں ﻛﮯ ﺑﮭﯿﺠﻨﮯ واﻟﮯ رﮨﮯ۔ (٤٦) اور ﻧﮧ ﺗﻮ طور ﻛﯽ طرف ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻛﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ آواز دى ﺑﻠﻜﮧ ﯾﮧ ﺗﯿﺮے ﭘﺮودگار ﻛﯽ طرف ﺳﮯ ﺍﯾﻚ رﺣﻤﺖ ﮨﮯ، اسﻟﯿﮯ ﻛﮧ ﺗﻮ ان ﻟﻮﮔﻮں ﻛﻮ ہوشيار ﻛﺮدے ﺟﻦ ﻛﮯ پاس ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻛﻮﺋﯽ ڈراﻧﮯ والا ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ،  ﻛﯿﺎ ﻋﺠﺐ ﻛﮧ وه ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﺮﻟﯿﮟ) (سورۂ  قصص: 44- 46)

(1)-قرآن کریم کا اعجاز اس میں موجود سماجی ومعاشرتی قانون، انسان، کائنات اور معاشرتی تعلقات سے متعلق اقدار ومفاہیم سے ظاہر ہوتا ہے، عدل وانصاف، گہرائی وگیرائی، اور آفاقیت وعالمگیریت کے اعتبار سے ان کی مثال پوری انسانیت نے نہیں جانى۔

نبیr کے حسی معجزے:

قرآن کریم نبی r کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو دو بنیادی صفات سے متصف ايك عقلی معجزہ ہے یعنی تمام انسانوں اور جنوں كے لئے عام ہے قرآن پاك قیامت تک کے لئے ہے، تو کیا نبی کامعجزہ صرف قرآن کریم تك محدود ہے جو کہ عقلی معجزہ ہے یا ان کے لئےدوسرے حسی معجزے بھی ہیں؟

جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ آپ rکے دوسرے حسى معجزات بھى ہيں۔ جيسے چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا ہے جس کی طرف قرآن کریم نے سور قمر کے شروع میں اشارہ کیا ہے ۔ }اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (1){ (ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻗﺮﯾﺐ آگئى اور ﭼﺎﻧﺪ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ) (سورۂ قمر: 1)

اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں مختلف طریقوں سے آئیں ہیں جو تواتر کی حد کو پہنچ گئیں ہیں جن میں واقعہ کی جگہ اور زمانہ کا ذکر تك موجود ہے([6])۔

ايسے ہى آپ rکی مبارک انگلیوں سے پانی کا پھوٹ پڑنا، اور اس سلسلہ میں حضرت ا نس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ميں نے ديكھا كہ عصر كى نماز كا وقت ہو گيا لوگ پانى تلاش نے لگے مگر وضوء كے لئے پانى نہ مل سكا اتنے ميں رسول الله r كے پاس وضو كا پانى لايا گيا تو رسول الله r نے اپنا ہاتھ اس برتن ميں ركھ ديا اور لوگوں كو حكم ديا كہ اس سے وضو كريں، كہتے ہيں: ميں نے ديكها كہ آپ r كى انگليوں كے نيچے سے پانى كا چشمہ پهوٹ رہا تھا يہاں تك كہ سب لوگوں نے وضو كر لياـ ([7])۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے كہ جب ان سے قوم کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ اگر ہم ايك لاكھ ہوتے تو بھى وه ہمارے لئے كافى ہوتا، ہم پندره سو تھےـ ([8])۔

ایک دوسری روایت میں حضرت جابرt فرماتے ہیں کہ ميں نے لاكھ ديكھا كہ رسول الله r كى انگليوں كے درميان سے پانى پھوٹ رہا تھا ([9])، انہيں واقعات میں سے سراقہ بن مالک کا واقعہ ہے([10]) اور کھجور کے تنے کے رونے کا واقعہ بھى ہے جب آپ rنے اسے چھوڑ کر منبر کا استعمال شروع کر دیا تھا ([11])اسی طرح آپ کا خیبر کی فتح کی خبر دینا ہے،([12]) اس طرح بہت سے معجزات ہیں جن کے بارے میں بہت سى روايات موجود ہیں اور مسلمانوں ميں ہر خاص وعام مقبول ہيں، تو كيا یہ خلاف عادت واقعات معجزے کے ضمن میں تھے یا اللہ رب العزت کی طرف سے آپ r کے حق میں اکرام کے طور پر تھے؟

ہم يہ سمجھتے ہیں كہ یہ معجزے نہیں تھے بلکہ ایک طرح کا اکرام یا آپ rکی نبوت کی دليل تھى، پس اس موضوع سے متعلق صرف قرآن کریم ہی معجزہ قرار پایا ہے۔

آخری پیغام

اسلام ہی آسمان سے نازل ہونے والے پیغامات کے سلسلہ کی آخری کڑی ہے، اور اس كے رسول آخری رسول اور ان كى نبوت آخری نبوت ہے، اور اس آخری نبوت کے دو معانى  ا ہیں ۔

  1. پہلا مدلول منفی ہے، یعنی اب اس کے بعد کوئی نبوت نہیں آئےگی اور نہ انبیاء آئیں گے ۔

 

  1. دوسرا مدلول مثبت ہے، یعنی یہ نبوت دائمى ہے۔

پہلا مدلول کی تصدیق اور تائید تاریخ اور حقیقت سے ہوتی ہے، اسلام کو آئے ہوئے چودہ صدی ہو چکے ہیں، لیکن اس مدت میں ايساکوئی نبی ظاہر نہیں ہوا، جس نے نبوت كا اعلان اس ميں كامياب ہونے اور امت بنانے كا دعوى كيا ہو، اور قرآن کریم كا ا رشاد ہے۔ }مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ{ ( (ﻟﻮﮔﻮ) تمہارے مردوں ﻣﯿﮟ ﺳﮯ كسى ﻛﮯ باپ محمد r ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻜﻦ آپ الله تعالى ﻛﮯ رسول ﮨﯿﮟ اور تمام نبيوں ﻛﮯ ﺧﺘﻢ ﻛﺮﻧﮯ والے) (سورۂ احزاب: 40)، }الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا{ (آج ﻣﯿﮟ ﻧﮯ تمہارے لئے دين كو كامل كر ديا اور ﺗﻢ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ انعام ﺑﮭﺮﭘور كرديا اور تمہارے ﻟﺌﮯ اسلام ﻛﮯ دين ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ رضامند ﮨﻮﮔﯿﺎ) (سورۂ مائدہ: 3)۔

بلکہ یہ وہی بات ہے جس کے بارے میں ہمارے نبی نے بتایا تھا، ميں محمد ہوں اور احمد ہوں اور ميں وه ماحى (مٹانے والا)ہوں جس كے ذريعے الله كفر كو مٹائے گا اور ميں وه حاشر ہوں كہ لوگوں كا حشر ميرے قدموں پر ہوگا اور ميں عاقب ہوں- ([13])

جہاں تک رسالت محمدیہ کے دوسرے مدلول كا تعلق ہے تو اس سے مراد رسالت کی عمومیت اور زمانہ کے ساتھ اس کا استمرار ہے، اسلام ہی آسمانی دین کے سلسلے کی آخری کڑی ہے، جس كا دروازه آسمان تك كھلا ہوا ہے اور جس کے ذریعہ انسان اپنے خالق سے رابطہ کرتا ہے، پس اس اعتبار سے  اسلامی پیغام كى تین صورتیں ہیں:

(1)-  پہلے یہ کہ یہ آخری پیغام ہے ،عام پیغام ہے، اور دائمى ہے، پہلی صفت آخر کی دونوں صفتوں کی متقاضی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پیغام محمدی آخری پیغام ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ پیغام سارے لوگوں کے لئے عام ہو اور یہ صحیح نہیں ہے کہ یہ پیغام بعض لوگوں کے لئے تو ہو اور بعض لوگوں کے لئے نہ ہو، ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ الہی ہدایت کا نزول ناقص ہے کہ بعض لوگ اس سے استفادہ کریں اور بعض لوگ اس سے محروم رہیں، تو قرآن کریم کئی جگہوں پر اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے ۔

الله تعالى فرماتا ہے: "قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا")آپ ﻛﮩﮧ دﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ اے ﻟﻮﮔﻮ! ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﺐ ﻛﯽ طرف اس الله تعالى كا ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨوا ہوں) (سورۂ اعراف: 158)، }قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ{ (اعلان كر دو ﻛﮧ ﻟﻮﮔﻮ! ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻛﮭﻠﻢ ﻛﮭﻼ ﭼﻮﻛﻨﺎ ﻛﺮﻧﮯ والا ہى ہوں( (سورۂ حج: 49)، }وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ{ (اور ﮨﻢ ﻧﮯ آپ ﻛﻮ ﺗﻤﺎم جہان والوں كے ﻟﺌﮯ رﺣﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﻛﺮ ﮨﯽ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ) (سورۂ انبیاء: 107)، }وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ{ (ﮨﻢ ﻧﮯ آپﻛﻮ تمام ﻟﻮﮔوں ﻛﮯ ﻟﺌﮯ خوشخبرياں ﺳﻨﺎﻧﮯ والا اور ڈرانے والا ﺑﻨﺎ ﻛﺮ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ ﮨﺎں ﻣﮕﺮ (ﯾﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ) ﻛﮧ لوگوں ﻛﯽ ﺍﻛﺜﺮﯾﺖ ﺑﮯﻋﻠﻢ ﮨﮯ) (سورۂ سبا: 28)۔ اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں قرآن کریم نے تمام لوگوں کو" اے لوگو" یا "اے انسانو" یا "اے اہل کتاب" کے ذریعہ مخاطب کیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے سابقہ پیغامات کو متعین قوموں کے ساتھ خاص کیا ہے ۔ } لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ{ (ﮨﻢ ﻧﮯ ﻧﻮح (u) ﻛﻮ ان ﻛﯽ قوم ﻛﯽ طرف ﺑﮭﯿﺠﺎ) (سورۂ اعراف: 59)۔ }وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا{ (اور ﮨﻢ ﻧﮯ قوم عاد ﻛﯽ طرف ان ﻛﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨود (u) ﻛﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ) (سورۂ اعراف: 65)، }وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا{ (اور ﮨﻢ ﻧﮯ ثمود ﻛﯽ طرف ان ﻛﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺻﺎﻟﺢ (u) ﻛﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ) (سورۂ اعراف: 73)، }وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا{ (اور ﮨﻢ ﻧﮯ ﻣﺪﯾﻦ ﻛﯽ ﻃﺮف ان ﻛﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺷﻌﯿﺐ (u) ﻛﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ) (سورۂ اعراف: 85)

 عیسی uسے متعلق کہا: }وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ{ (اور وه بنى اسرائيل كى طرف رسول ﮨﻮﮔﺎ) (سورۂ  آل عمران: 49)۔

(2)پیغام محمدی كى خاتميت کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ اس پیغام میں تسلسل ہو، ورنہ آسمانی ہدایت کا انقطاع اور اپنے مخلوق سے عنایت خداوندی کا موقوف ہونا لازم آئے گا، اور یہ ایک ایسی کمی سمجھی جائےگی جس سے اللہ رب العزت پاک ہے اور قرآن کریم ساری قوموں، ملتوں، مذاہب کو بغیر کسی قید کے مطلق طور پر خطاب کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پیغام کسی خاص زمانہ یا محدود وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم اسی معنی پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ }لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه{ ( ﻛﮧ ﺍﺳﮯ اور تمام ﻣﺬﮨﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﻏﺎﻟﺐ ﻛﺮ دے( (سورۂ براءت: 33) (الفتح: 28) الصف: 9)، يعنى كہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب كردے، اور عبید اللہ بن عمران سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! اللہ نے تمہارے نبی کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا، اوراس کتاب کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی، تو اللہ نے جس چیز کو اپنے نبی کی زبانی حلال قرار دیا وہ تاقیامت حلال رہے گی اور جس چیز کوحرام قرار دیا وہ تاقیامت حرام رہے گی"([14])۔

ہمارے نزديك پیغام محمدی کے آخری، عمومى اور دائمى پيغام ہونے كے دو بنيادى اسباب ہيں:

پہلا سبب: اسلامی پیغام قرآنی آیتوں کی وجہ سے محفوظ اور صحیح سالم ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی یا تحریف نہیں ہوئی ،اور یہ امتیازی شان صرف قرآن کریم کو حاصل ہے، جبکہ دوسری آسمانی کتابوں میں بہت زياده تحریف کی گئی ہے اور اس کے بہت سے حقیقی مضمون اور نصوص کو بالكل حذف کردیا گیا ہے:([15])

  • }إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ{ (ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﯽ اس قرآن كو نازل ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ اور ﮨﻢ ﮨﯽ اسﻛﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﮨﯿﮟ) (سورۂ حجر: 9) ۔
  •  }وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (41) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (42){ (ﯾﮧ بڑى باوقعت كتاب ﮨﮯ۔ (٤٢) ﺟﺲ ﻛﮯ پاس ﺑﺎﻃﻞ ﭘﮭﭩﻚ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻜﺘﺎ ﻧﮧ اس كے آگے ﺳﮯ ﻧﮧ اس ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ، ﯾﮧ ﮨﮯ نازل كرده حكمتوں والے خوبيوں والے (الله) ﻛﯽ طرف ﺳﮯ) (سورۂ فصلت: 41-42)۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اسلامى شريعت موجوده اور آنے والے سماج ومعاشرہ کی تمام تر ضروریات کو قبول کرتا ہے، اور یہ انسانی اصول پر مبنی ہے، اس میں انسانوں کے نئے مسائل اور اس کے تمام ضروری مطالبوں کی تکمیل ہے، جس کی وجہ سے انسانی زندگی آسان ،خوبصورت، اور باعزت ہو جاتی ہے، اس میں ان تمام چيزوں كى ضمانت ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی زندگی کو ہر طرح کے شر وفساد سے محفوظ رکھ کر تسلسل کے ساتھ گزار سکتا ہے اور قرآن کریم اس معتدل شریعت کی وصف بیانی آخری نبی کی وصف بیانی کے ذریعہ کرتا ہے- ارشاد بارى: }يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ{ (وه ان ﻛﻮ ﻧﯿﻚ ﺑﺎﺗوں كا ﺣﻜﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور برى ﺑﺎﺗوں ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ  اور پاكيزه چيزوں ﻛﻮ حلال ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور گندى چيزوں ﻛﻮ ان ﭘﺮ حرام ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، اور ان لوگوں پر ﺟﻮ ﺑﻮﺟﮫ اور طوق تھے ان كو دور  ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ) (سورۂ اعراف: 157)

جیسا کہ اس دین كى بقا اور استمراريت کو مندرجہ ذیل آیتوں میں بیان کیا ہے:

  • }الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا{ (آج ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩارے ﻟﺌﮯ ﺩﯾﻦ ﻛﻮ كامل كر ديا اور ﺗﻢ ﭘﺮ اپنا انعام ﺑﮭﺮﭘور كرديا اور تمہارے ﻟﺌﮯ اسلام ﻛﮯ دﯾﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ رضامند ﮨﻮﮔﯿﺎ)۔ (سورۂ مائدہ:3)۔
  •  }وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ{ (ﺟﻮ ﺷﺨﺺ اسلام ﻛﮯ ﺳوا اور دين تلاش كرے، اس كا دين قبول ﻧﮧ ﻛﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ)(سورۂ عمران: 85)۔
  •  }إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ{ (ﺑﮯ ﺷﻚ الله تعالى ﻛﮯ نزديك دين اسلام ﮨﯽ ﮨﮯ) (سورۂ آل عمران: 19) ۔

اس جامع خصوصيات وصفات كى حامل شريعت كے تناظر ميں عقل كو كسى اور شريعت يا رسول كے ظہور كا جواز نہيں ملتا۔

 

([1]) المیزان فی تفسیر القرآن –ج   1ص84۔

([2]) شرح الجلال علی العقائد العضدیہ، ج   2ص   276۔

([3]) العقیدہ الواسطیہ: ص   124، 125 ۔

([4]) تفسیر المیزان –ج   6،  ص   222۔

([5]) موجز فی اصول الدین، ص   81 محمد باقر الصدر،  الاسلام یتحدی، ص   175 وحید الدین۔

([6]) صحيح البخاري،  فتح الباری ،  ج   6 ص   73۔

([7]) ايضا ،  ص   672۔

([8]) ايضا۔

([9]) ايضا صحيح البخاري ،  كتاب المناقب ،  باب علامات النبوة في الإسلام، ج   2، حديث نمبر – 3579، ص   167۔

([10]) ايضا ص    720۔

([11]) ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ "آپ r ایک شاخ سے ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے، جب منبر بن گیا تو آپ اسے پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے لگے تو اس شاخ سے رونے کی آواز آنے لگی تو آپ نے اس شاخ پر اپنا ہاتھ پھیر" –قتح الباری، ج   6ص   696 ۔

([12]) ايضا ، ص    722 ۔

([13])صحيح البخاري ،  ج    4، ص   162 كتاب المناقب ،  باب نمبر   7، مسلم شریف میں "الذي ليس بعده أحد"كے اضافہ کے ساتھ ہے۔ ج   2 حديث نمبر، ص   1828،  کتاب الفضائل ،  باب فی اسمائہ r۔

 

([14]) سنن الدرامی ، ج    1،  ص   115، مقدمہ،  باب ما يتقي من تفسير حديث النبي r۔

([15]) محمد باقر الصدر ،  ص:94-

Print
15798 Rate this article:
3.5

Please login or register to post comments.

أقسم بالله العظيم أن أكون مخلصًا لديني ولمصر وللأزهر الشريف, وأن أراقب الله في أداء مهمتى بالمركز, مسخرًا علمي وخبرتى لنشر الدعوة الإسلامية, وأن أكون ملازمًا لوسطية الأزهر الشريف, ومحافظًا على قيمه وتقاليده, وأن أؤدي عملي بالأمانة والإخلاص, وأن ألتزم بما ورد في ميثاق العمل بالمركز, والله على ما أقول شهيد.