بيان الكنانہ كے جواب ميں المحروسه (ہميشہ محفوظ رہنے والى سرزمين "مصر") كا بيان..

  • | بدھ, 12 اگست, 2015
بيان الكنانہ كے جواب ميں المحروسه (ہميشہ محفوظ رہنے والى سرزمين "مصر") كا بيان..

بيان الكنانہ كے جواب ميں المحروسه (ہميشہ محفوظ رہنے والى سرزمين "مصر") كا بيان:
بيان الكنانہ ميں درج امور نہ صرف دين اور شريعت پر جرات مندى ہے بلكہ اس ميں حقيقت كى خلاف ورزى ہے. مصر كے حكام نے انقلاب نہیں كيا بلكہ مصرى قوم كے چهوٹے بڑے، امير غريب، بوڑهے جوان ايكـ نا كام حاكم كا حكم ختم كرنے كے لئے اپنے گهروں سے نكلے تهے.
مصر كے حاليہ حكام نے كسى كو قتل نہیں كيا بلكہ قاتل تو وه ہیں جنہوں نے متظاہرين كو بهڑ كا نے كے لے فوج، پوليس اور عام شہريوں كو مارنے كے فتوے نكالے تهے.
بسم الله الرحمن الرحيم
تا ابد محفوظ رہنے والى سرزمين "مصر" سے علما نے ازہر شريف كا پيغام
الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على رسوله الامين وعلى آلہ واصحابہ اجمعين...
ايكـ وقت سے دوسرے وقت "علمائے امت" نامى ايكـ جماعت جهوٹے بيانات ديتى ہے اس جماعت نے اپنے آپ كو اسلام اور مسلمين، علم او علما كے نام سے بولنے كا نا جائز حق ديا ہے.
"بيان الكنانہ" (مصر كى سرزمين سے بيان) كے نام سے اُن كا بيان اچهى طرح پڑهنے كے بعد جس ميں شريعت اسلامى اور مصرى قوم اور فوج پر غلط الزامات ہیں، علمائے ازہر اور ازہر شريف كے تابع اداروں نے درج ديل بيان جارى كيا ہے:
اول:
انهوں نے مصر کے قومى ليڈروں كو مجرم قرار ديا ہے كيونكہ انهوں نے مصرى قوم كے ارادے پر انقلاب كر كے مصرى صدر كو اغوا كيا ہے، ہزاروں مظلوموں كو قتل، سينكڑوں كو قيد اور چند كو پهانسى كى سزا دى ہے.
ليكن حقيقت جس سے يہ جماعت ہميشہ سے بهاگتى آرہی ہے يہ ہے كہ مصر كے حكمرانوں نے انقلاب نہیں كيا بلكہ مصرى قوم كے مختلف طبقوں كے افراد لاكهوں كى تعداد ميں ۳۰ جون ۲۰۱۳ كو اپنے گهروں سے ايكـ ناكام حكمران كو حكم سے پتانے كے لئے نكلے كيونكہ اس جماعت كا صدر تمام مصريوں كا حاكم نہ بن سكا اور اُس نے ملكـ كے تمام انتظامى امور اپنے انصار كو سونپنا چاہا جس كى وجہ سے مصريوں كے درميان خلافات پڑهنے گئے.
وه اپنى قوم كے افراد كو متحد كرنے ميں كامياب نہیں ہوسكا، كامياب ہوا تو اپنى قوم كو الگ كرنے ميں...
دوم:
اپنے بيان ميں وه كہے نہیں كہ مصر كے حكمرانوں نے لوگوں كو قتل كيا اور سينكروں كو قيد كيا ہے وغيره وغيره.
حقيقت تو يہ ہے كہ مصر كے حكمرانوں نے كسى كو قتل نہیں كيا قاتل تو وه ہیں جنہوں نے اپنے انصاروں كو اپنى فوج، پوليس اور معصوم شہريوں كو مارنے كے لئے فتوے نكالے جنہوں نے حكم ميں كے لئے فقيروں اور ساده لوگوں كو موت كے دائره ميں دهكيلا اور خود مصر كے دشمن ملكوں كى حمايت ميں محفوظ رہے.
سوم:
وه كہتے ہیں کہ مصر كے حكمرانوں نے دشمنوں اور صہيونيوں كا ساتهـ ديا ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ جس حاكم نظام كے خلاف مصرى نكلے تهے وه نظام اُمت كے دشمنوں كا مويد اور ناصر تها. ايک مكمل سال كے حكم کے دوران اس صدر نے مصر کے دشمنوں کے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں کی بلکہ اس سال میں مصریوں کے معاشی  حالات نہایت سنگین ہوگۓ تھے۔
چہارم:
وہ کہتے ہیں کہ مصر کی حالیہ حکومت نے بڑی تعداد میں ججوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور مسجد کے اماموں کو سسپنڈ کیا، اور ابھی تک کر رہے ہیں یہ بات بھی سراسر غلط ہے عدالت سے دراصل صرف وہ جج برطرف کۓ گۓ ہیں جنہوں نے خود اپنی مرضی سی عدالت اور انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور سیاست کے میدان میں کود پڑے۔ رہی اساتذہ اور خطباء کی بات تو صرف اور صرف ان اساتذہ کو اپنے کام سے بر طرف کیا گیا ہے جو طلبہ کے ذہنوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنے کے بجاۓ غلط خیالات سے بجھانے کی کوشش کرتے تھے یا جنہوں نے مسجد کے منبر کو اسلام کی دعوت دینے کے بجاۓ معاشرے کی خرابی پر اکسانے کے لۓ استعمال کیا تھا۔ عقل کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ان تمام چیزوں کے خلاف ہر ممکنہ قانونی طریقہ سے کھڑا ہونا چاہیۓ اور کسی بھی استاد یا جج یا امام کو اپنے کام یا وظیفہ سے نکالنے کی وجہ اس کا اس کے کام سے غائب ہونا یا اس کا غلط طریقۂ کار تھا۔
ازہر شریف اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ حالیہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ صحیح شرعی حکم یہ ہے کہ مصری قوم کے تمام افراد کا متحد ہو کر اپنے صدر، اپنی حکومت اور اپنی فوج کے ساتھ دشمنوں کے سامنے کھڑا ہونا لازم اور واجب ہے۔
پنچم:
وہ کہتے ہیں کہ مصری حکمران فلسطینی مقاومت کے خلاف ہیں اور وہ سینا کو برباد کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے مصر کہ حالیہ حکمران  کئی سالوں سے فلسطین کی وحدت کے لۓ مباحثات کرتے آرہے ہیں اور قاھرہ ہی ہمیشہ سے فلسطینی مباحثات کا مرکز رہا ہے۔ اچھا آپ یہ کہیں کہ آپ کے صدر نے ایک سال کے اندر جھوٹے نعروں کے خلاف فلسطین کے لۓ کیا کیا تھا؟
ششم:
اس بیان کو لکھنے والے آج تک اپنے صدر کو مصر کا صدر سمجھتے ہیں۔ مصر کا صدر کیسے جبکہ اس سے مصریوں ہی نے اپنی کرسی چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا؟ کیا یہ لوگ 30 جون میں نکلے گۓ متظاہرین کو بھول گۓ ہیں؟
ہفتم:
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ نظام حاکم کے ازالہ میں شیخ ازہر کا موقف ایک شرعی جرم تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ ازہر اور دیگر اہم وطنی رموز کا اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے مصر جنگ اور معرکوں کے اندھیرے کنویں میں گرنے سے بچا ہے۔ امام ازہر شریف نے اپنی قوم کا - جو آزادی اور مساوات حاصل کرنا چاہتی تھی- ساتھ دیا کیونکہ خرابی اور بربادی سے بچنے کے لۓ کسی کی ذاتی مصلحت اہمیت نہیں رکھتی۔
اور فقہ کا بھی قاعدہ ہے کہ :(درء المفاسد مقدم على جلب المصالح).
ہشتم:
ان کا دعوى ہے کہ مظلوم لوگوں کے خلاف پھانسی کی سزا دینے کی ذمہ داری مصر کے مفتی پر عائد ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مفتی اپنی راۓ شرعی احکام کو مد نظر رکھتے ہوۓ ہی دیتا ہے اور پھانسی کی سزا کے سلسلہ میں ان کا حکم غیر لازم  یعنی آخری نہیں ہوتا۔

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.