لوگوں كو گمراه كرنے كا داعشى طريقۂ كار 2

  • | منگل, 29 مارچ, 2016

لوگوں کو گمراہ کرنے، ان کو عقلوں سے کھیلنے اور اسلام کی صورت بگاڑنے کے  لۓ داعشی خطاب نے کئی وسیلے اور طریقے اپناۓ ہیں لیکن خدا اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ گمراہ کرنے والے داعشی ناخوش ہی ہوں۔

گمراہی کے ان وسیلوں میں "تعمیم" کا وسیلہ اس دہشت گروہ کا اہم ترین وسیلہ ہے، دوسروں یا اپنے آپ پر عمومی احکام کا اطلاق کرنے میں وہ بہت ہی ماہر ہیں، صرف اپنے آپ کو صحیح سمجھنا اور باقی کو غلط سمجھنا ان کے اصولوں میں سے ایک ہے بلکہ وہ تو ان کی آراء کے مخالف پر شخص کو بڑی آسانی سے کافر کہنے سے بھی نہیں جھجھکتے وہ فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والے رسالے "دار الاسلام" میں " قیامت سے پہلے غلامی کو بھر سے زندہ کرنا" کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: "آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ کافر خاندانوں کو قید کرنا اور ان کی عورتوں کو باندی بنانا شریعت میں واجب ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے یا اس کا مذاق اڑاتا ہے در اصل اللہ کی آیکت اور نبی پاک کی سنت کا انکار کرتا ہے اور اس طریقہ سے وہ اسلام کے دائری سے خارج ہو جاتا ہے"

لکھنے والے نے "السبی" جنگ میں پکڑی جانے والی باندیوں کو اسلامی شریعت میں بہت مضبوط ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے اس بات کا ہرگز ذکر نہیں کیا کہ "سبی" کا مفہوم ایک خاص عرصہ تک محدود تھا، اسلام اس مسئلے کو ایک ہی مرحلے میں یا ایک دم حل نہیں کر سکتا تھا اسی لۓ دیگر تشریعات اور قوانین کی مانند تدریج کا راستہ اپنایا۔ شریعت کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول پاک حضرت محمد –صلى الله عليه وسلم- شروع ہی سے غلامی کا خاتمہ کرنا چاہۓ تھے اور اگر رسول پاک نے کبھی غیر مسلمانوں کو قید بھی کیا تو اس کی وجہ دشمن کو مسلمانوں کی قوت دکھانا تھا تاکہ کافر مسلمانوں کو کمزور نہ سمجھیں اور وہ اکثر ان کو رہا کر کے مکمل آزادی دے دیتے تھے۔ جیسے کہ انھوں نے فتح مکہ کے موقع پر مکہ والوں کے ساتھ کیا تھا۔ امام مسلم سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور نبی اکرم –صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا:

"جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جاۓ گا اسے امان ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کرے اسے بھی امان ہے"

ایک اور روایت ہے کہ حضور پاک –صلى الله عليه وسلم- نے ان سے پوچھا کہ: " تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تم سے کیساس لوک کرنے والا تھا؛  تو انھوں نے جواب دیا: "بے شک آپ اچھا سلوک کرتے۔ آپ ایک اچھے بھائی اور ایک اچھے بھائی بیٹے ہیں" تو حضرت محمد –صلى الله عليه وسلم- نے انھیں کہا: "جاؤ۔۔۔ تم آزاد ہو"۔

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی ان باتوں پر اعتراض کرتا ہے ان کی نظر میں بہت ہی آسانی سے کافر اور مرتد بن جاتا ہے بلکہ اس کا قتل کرنا بھی ان کے لۓ فرض بن جاتا ہے۔ کیا یہی اسلام ہے؟!

ہرگز نہیں۔۔۔ بلکہ اسلام نے غلاموں یا جنگی قیدیوں کی آزادی اور رہائی پر زور دیا اسلام میں غلامی کوئی دائمی چیز نہیں بلکہ یہ عارضی اور خاص مصلحت پر مبنی تھی۔ غلاموں کو دیے جانے والے حقوق کی وجہ سے یہ طبقہ جو اسلام آنے سے پہلے ایک نہایت ہی ضعیف اور مظلوم طبقہ تھا جس نے اپنی صلاحیتوں کو بروۓ کار لا کر سماج میں بہت اونچا مقام حاصل کیا۔

ان کے لۓ تعلیم حاصل کرنے کے دروازے کھولے گۓ، ان کی امامت میں نمازیں ادا کیں گئیں، شرعی معاملات میں ان کے فیصلے کو تسلیم کیا گیا، جنگوں میں شرکت کی گئی اور ان کی قیادت میں ملکوں کو فتح کیا گیا۔

اسلام نے غلام کو آزادی حاصل کرنے کے لۓ ایک طریقہ "مکاتبت" کا تجویز کیا ہے۔ ارشاد باری تعالى ہے "والذين يبتغون الكتاب مما ملكت......

"اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں، ان سے مکاتبت کر لو، اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے اور ان کو اس مال میں سے در جو اللہ نے تمہیں دیا ہے"

اس "مکاتبت" کے تحت غلام اپنے آقا سے کہے کہ مجھے اتنی رقم کے عوض آزاد کر دیا جاۓ۔ رقم کی آدائگی میں زیادہ سختی نہیں ہوئی چاہۓ۔ فقہاء کے ایک طبقہ نے اس آیت کے الفاظ "کاتبوھم" سے دلیل اخذ کی ہے کہ یہ اللہ تعالى کا حکم ہے، اس لیے یہ واجب ہے۔ دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ "فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرًا" در اصل بھلائی پانے کی ایک شرط ہے اور استحباب پر دلالت کرتا ہے۔

اسلام نے در اصل جاہلیت کے مذموم عناصر کو ختم کر کے ایک نیا اور آفاقی ضابطۂ حیات نافذ کیا۔ اسلام اور انسانیت کا اصول آزادی اور حریت پر مبنی ہے اور کسی کو قید کرنا جنگ کی حالت میں تو ممکن ہے لیکن یہ تمام حالات میں ممکن نہیں۔ اسلام میں غلامی کا نہیں بلکہ لوگوں کی آزادی کا حکم دیا ہے۔

ایک اور مقالے میں جس کا عنوان "نجات بیعت اور تلوار میں ہے" لکھے والا امریکی یا فرانسیسی لوگوں کو قتل کرنے پر اکساتے ہیں: " اگر تمہارا دل ان کو قتل کرنے یا اڑانے پر راضی نہیں ہوتا جاں لو کہ تمہارے بھائی قتل کۓ جائیں گے اور ان کا خون اور مال دوسروں کے لۓ غنیمت ہوں گے۔ اپنے آپ سے اپنے دین کے متعلق چند سوالات پوچھو کیونکہ تمہارا دین عظیم خطرے میں ہے کیونکہ بغیر الولاء والبراء کے کوئی دین نہیں"۔ ارشاد باری تعالى ہے:

"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالى تمہیں نہیں روکنا بلکہ اللہ تعالى تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے"

اسی رسالے میں ایک اور مضمون جس کا عنوان "اللہ کی شریعت یا انسان کی شریعت" "شريعة اللہ یا شریعت بشر" میں تاکید کرتے ہیں کہ اس دہشت گرد گروہ کا حکم صحیح اسلامی حکم میں کہتے ہیں کہ "جو داعش کے خلاف جنگ میں شریک ہوگا وہ بلا شک کافر ہوگا"

اسی طریقہ سے یہ دہشت گرد تنظیم اس کے خلاف ہر شخص کو کافر ٹھہراتی ہے اور اس کے خون کو حلال سمجھتی ہے۔ صحابۂ کرام نے کبھی بھی ایک دوسرے پر کفر کا الزام نہیں لگایا، صرف خوارج نے ہی ایسا کیا تھا گویا کہ تمام مسلمانوں پر کفر کا الزام لگانے کا اس طریقے میں داعش خوارج کے ہی راستے پر چل رہے ہیں۔ عہد حاضر کے دہشت گرد بھی در حقیقت انہی خوارج کا تسلسل ہیں، لہذا ان کی سرکوبی اور مکمل خاتمے کے لۓ بھی اسی طرح اقدامات ضروری ہیں جس طرح قرون اولى میں اٹھاۓ گۓ تھے۔

ہم سے یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف ( بدری صحابی ) رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترےگا ۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے ۔

ان لوگوں کی تحریریں اور خطبے چھوٹ اور گمراہی سے بھرے ہوۓ ہیں۔ ازہر شریف کا فرض بنتا ہے کہ ان لوگوں کے خونی اور غلط افکار وخیالات کو بے نقابی کریں اور تمام دنیا کو اسلام کی صحیح اور حقیقی صورت دکھائیں کیونکہ دہشت گردی کے کارروائیاں دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور خودکش حملے کرنے والے شہادت کا مرتبہ پانے کے لۓ بجاۓ جہنم پاتے ہیں کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا یا اسے اذیت دینا فعل حرام ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہے کہ وہ ایک دن اپنے رب سے ملیں گے تو کبھی بھی کسی معصوم کے خون سے ملوث ہاتھوں سے اپنے رب سے نہ ملنا۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.