لوگوں كو گمراه كرنے كا داعشى طريقۂ كار 9

  • | پير, 4 اپریل, 2016

گزشتہ مقالات ميں ہم  نےلوگوں  كو گمراه كرنے اور نوجوانوں كو اپنى صفوف ميں شامل كرنے كے لئے داعش كے طريقۂ كاروں كے بارے ميں گفتگو كى تهى، اس مقالے ميں بهى ہم اس دہشت گرد تنظيم اور اسلام كے مابين بہت ہى عظيم اور بڑے فراغ يا فرق كے بارے ميں بات كريں گے. ان دہشت گرد ظالموں كا دعوى ہے كہ وه رسول الله پر نازل شده دين اور شريعت كى تطبيق اور اس كے علم كو اونچ لہرانے كے لئے آئيں ہيں جبكہ يہ بات حقيقت سے مكمل طور پر عارى ہے الله تعالى نے رسول الله   صلى اللہ عليہ وسلم كے ذريعہ اس دين كى تكميل فرما كر اس كے آخرى اور پسنديده ہونے كا اعلان فرمايا، جيسا كہ ارشاد بارى ہے :" آج ميں نے مكمل كرديا تمہارے لئے تمہارا دين اور تم پر پورا كرديا  اپنى نعمت كو"  ( المائد ة: 30) دينِ اسلام زندگى كے ہر شعبہ كو شامل ہے . ايمانيات ہوں يا عبادات ، معاملات ہوں يا اخلاق وآداب، يہ ايك مكمل ضابطۂ حيات اور دستورِ زندگى ہے اور تاقيامت تك ہر زمانے اور ہر  مكان كے لوگوں كے لئے مناسب ہے اور اس ميں ان چيزوں كے اصول وقواعد بهى شامل ہيں جو حضور باك صلى الله عليه وسلم كے زمانے ميں موجود نہ تهے . ان اصول  وقواعد كى بنياد پر  اسلامى تشريع ميں " النظرة المقاصدية " و "اعتبار المآلات" ظاہر ہوئيں ، جس كى وجہ سے اصولِ اسلام كے ثابت ہوتے ہوئے اسلام ميں تجديد كے امكانات موجود ہيں.

النظرة المقاصدية و فقه المآلات سے مراد چيزوں كو اس اعتبار سے ديكهنا ہے كہ وه مذہب لوگوں كى جان ، عقل، عزت اور مال كى كس قدر تك حفاظت اور بهلائى كر سكے گا . اسى لئے اگر اس چيز ( فعل ياقول) كا نتيجہ  مسلمانوں كے لئے نفع بخش نہيں بلكہ نقصان ده اور مضر ہو گا تو اُس پر عمل كرنا غير جائز ہے .

ارشاد بارى تعالى ہے" ولاتسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم ": ( گالى مت دو ان كو جن كو يہ اللہ كو چهوڑ كر پكارتے ہيں مبادا   وه  عداوت اور نادانى ميں الله كو برا كہنے لگيں ( سورة الأنعام : 108) الله نے مسلمانوں كو دوسروں كے خداؤں كو گالى دينے سے منع كيا تها. تاكہ وه بهى نادانى ميں الله تعالى كو گالى نہ ديں . يعنى كہ كوئى بهى كام كرنے سے پہلے اس كام پر مرتب ہونے والے نتائج كو مد نظر ركهنا چاہيے . يہ تو ايك چهوٹى سے مثال ہے كيونكہ بہت سى امور اس سے زياده گہرے اور اہم  ہوتے ہيں . عام طور پر " مقاصد " ميں ہر وه چيز شامل ہے جو ضرور اور نقصان كو دور ركهے اور بهلائى اور مصلحت كو نزديك لائے بہت سى  آيات اور احاديث ہے " مقاصد " اور "مآلات " كى اہميت ظاہر ہوتى ہے حضور پاك صلى الله عليه وسلم  كو وحى كے ذريعہ منافقين كے بارے ميں معلوم ہوا تو صحابہ كرام رضى الله عنهم نے اُن كو قتل كرنے پر اصرار كيا ليكن حضرت محمد صلى الله عليه وسلم  نے فرمايا :" معاذ الله  أن يتحدث الناس أن محمدًا يقتل أصحابه".

تصور كريں كہ صحرا ميں رہنے والا ايك اعرابى يہ سنے كہ يہ نيا رسول اُس كے ساتھ  نماز پڑهنے والے اور جنگ كرنے والے كو قتل كررہا ہے تو اُس كا ردِ فعل كيسا ہو گا؟! كيا وه اس نئے دين سے دور نہيں بهاگے گا؟

كيا وه اُس رسول كے پيغام كو قبول كرے گا جو اپنے دوستوں كو قتل كرتا ہے ؟ تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے منافقين كو قتل كرنے كى نتايج كے مارے ميں اور اس فعل سے اُن كى دعوت پر ہونے والے نقصانات كے بارے ميں سوچا.

يہى ہمارا دين ہے اور نبى باك كے بعد صحابہ كراك رضى الله عنهم اپنى اصولوں كى عملى تطبيق كرتے اور اسى طريقہ سے اسلام كى رفعت اور شوكت ہوئى ليكن جو آج كل داعش كررہى ہے وه اسلامى فقہ اور عقل ومنطق سے سراسر دور ہے اگر كوئى فقيہ افعال اور احكام كے مآلات يعنى ان پر مرتب ہونے والے نتايج كو مدّ  نظر  نہ ركهے تو وه فقيہ ہر گز نہيں .

" قيامت سے پہلے غلامى كو پهر  سے زنده كرنا" كے عنوان سے فرانسيسى  رسالے " دار الاسلام" ايك مقالہ ميں لكهتے ہيں :" ہميں ياد ركهنا چاہيے كہ كافروں كے خاندانوں اور اُن كى خواتين كو قيد كرنا اور اُن كو غلام بنانا شريعت ميں ايك ثابت اور مضبوط ہے . اور جو شخص  اس كا انكار كرتا ہے  يا اس كا مذاق اڑاتا ہے تو وه در اصل قرآن كى آيات اور نبى پاك كى سنت كا مذاق اڑاتا  ہے اور اس طريقہ سے وه مرتد ہو گا !

اسلام ميں كافروں كو قيد كرنے اور اُن كو غلام بنانے كى وجہ يہ تهى كہ وه مشركين كے ساتھ وہى كريں  جو مشركين مسلمانوں كے ساتھ كرتے تهے تاكہ اُن كو (مسلمانوں كو) كمزور يا ضعيف نہ سمجها جائے . حضور صلى الله عليه وسلم ان جنگى قيديوں كے ساتھ نہايت اچها سلوك كرتے اور صرف ان ہى قيديوں كو موت كى سزا ملتى جو كسى جرم جيسے كہ بغاوت يا خيانت كے سلسلے ميں قيد كئے گئے ہوں.

اسلام ميں كافروں كو محض انتقام يا بدلہ لينے كے لئے قيد نہيں كيا جاتا تها اور نہ ہى اُن سے فائده اُٹهانے  كے لئے بلكہ اس كا اصل مقصد دين كى حفاظت كرناتها  حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے صرف سارش اور خيانت كرنے والوں كو قتل كيا ورنہ وه باقى قيديوں سے نہايت  حسنِ سلوك  كرتے .

اسلام نے غلاموں كو آزاد كرنے  كو سب سے بڑى نيكى قرار دى. مختلف گناہوں كے كفارے ميں غلام آزاد كرنے كى ترغيب دى. جبكہ داعش تو مسلمانوں كو بهى قتل كرنے سے گريز نہيں كرتى صرف اسى لئے  كہ وه ان سے مخالف نقطۂ نظر كے مالك ہيں يا اُن كا سياسى مذہب اُن سے الگ ہے .

ان قاتلوں اور مجرموں كا اسلام جيسے روشن مذہب سے كيا اور كيسا تعلق؟!

كيا يہ خونى اس بات سے نہيں ڈرتے كہ جس طرح وه لوگوں كو غلام بنارہے ہيں كہ اُن كى عورتوں ، اور بچوں كے ساتھ بهى ہى سلوك كيا  جاتے ؟!

"دولہ الخلافہ كے اخبار" نامى سائٹ پر "فرانس اُن كو قتل كر رہى ہے" كے عنوان سے ايك مقالہ ميں وه فرانس  ميں وه فرانس كے سفارت خانوں پر حملہ كرنے كى دعوت كہتے ہيں: "اگر ہم اپنے بهائيوں كى نصرت كے لئے نہيں بڑهے تو بخدا ہم كسى بهى بهلائى كے قابل نہ ہوں گے اور اُن كى نصرت پر سچے اور مخلص بندے پر آسان اور سہل ہے كيونكہ فرانس كے سفارت خانے دنيا كے بيشتر مسلمان ملكوں ميں موجود ہيں  اور يورپ كے ملكوں ميں ہمارے بہادر شير بهى موجود ہيں اسى لئے آگے بڑھ كر اُن كو اپنے افعال كى سچائى دكهاو" كيا يہ نہيں ہو سكتا كہ يورپ كے نوجوان مسلم ملكوں  ميں كے سفارات خانوں اور مسلمانوں پر حملہ كرے اور اُن كى عورتوں اور بچوں كو قتل كرے مسلمانوں كى مضرت ا ور الله كى شريعت كو قائم كرنے كے لئے وه جو كر رہے ہيں اسلام اور مسلمانوں كو نفع نہيں بلكہ نقصان پنچاتا ہے.

رسول پاك حضرت محمد نے صلح حديبيہ كے شرائط حضرت على كو لكهو رہے تهے صلح حديبيہ كے وقت رسول پاك حضرت محمد صلح كے شرائط حضرت على كو لكهوا رہے تهے حضور پاك نے كيا: "بسم الله الرحمن الرحيم" لكهيں تو "(صلح ميں قريش كے ـــــــــ)" سہيل نے كہا "بخدا ہم نہيں جانتے كہ الله كون ہے؟ امتى لئے "باسمك اللہم" لكها جائے تو نبى پاك نے حضرت على كو "باسمك اللہم" لكهنے كا حكم ديا. پهر رسول الله حضرت محمد نے كہا: محمد رسول الله اس اتفاق پر پہنچے" تو سہيل نے كہا "اگر ہم يہ مانتے كہ آپ الله كے رسول ہيں  تو ہم آپ كو كعبہ  ميں داخل ہونے سے منع  نہ كرتے اور نہ ہى آپ كو قتل كرتے، اسى لئے "محمد بن عبد الله لكها جائے" حضرت محمد نے كہا "تم مجهے جهوٹا ہى كہو ليكن ميں الله كا رسول ہوں" پهر رسول پاك نے على كو رسول الله كا لفظ مٹا محمد بن عبد الله لكهنے كا حكم ديا.حضرت على نے حضور پاك كا نام مٹانے سے انكار كرديا اور كہا كہ بخدا ميں آپ كا نام كبهى بهى مٹا نہيں سكتا.

حضرت محمد نے كہا "دكهاؤ" تو حضرت على نے انهيں دكهايا  اور حضور پاك نے خود اپنے پاك ہاتھ سے اپنے نام شريف كو مٹا ديا"

حضرت محمد كبهى بهى كام كے نتائج كو مدّ نظر ركهتے تهے اور صرف اسلام اور مسلمانوں كى مصلحت ا ور بهلائى ہى كو پيش نظر ركهتے اور بالفعل "صلح حديبيہ" سے مسلمانوں كو بہت فائده پہنچا مشركيں اور مسلمانوں كے درمياں اس صلح كى وجہ سے دس سال تك كوئى جبكہ نہ ہوئى جس كى وجہ سے رسول الله كو اپنى رسالت ا ور پيغام  نشر كرنے كا موقع ملا، اس  دوران رسول پاك نے بادشاہوں سے خطوط كے ذريعہ رابطہ كيا اور لوگ جوق در جوق اسلام لانے لگے. اسلام مضبوط ہونے لگا اور قريش اسلام اور مسلمانوں محتاط ہونے لگے.

حضرت محمد نے اپنے نام كے سامنے رسول الله لكهنے پر اصرار نہ كيا اور "مجهے جهوتا ہى كہو ليكن ميں الله كا رسول ہوں" كہنے پر اكتفا كيا اور اسلام اور مسلمانوں كى مصلحت كو اپنے نام كے سامنے رسول الله لكهنے پر ترجيح دى.كيا اس تنظيم كے افراد جو اپنے آپ كو مسلمان سمجهتے ہيں اور اپنے افعال كو الله كى نصرت كے لئے مانتے ہيں حضور كى سيرت كو جانتے ہيں -

حضور پاك كى سيرت اس بات پر گواه ہے كہ آپ جنگ اور قتال پر نہيں بلكہ امن وامان اور انسانيت وقار پر زور ديتے-

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.