لوگوں كو گمراه كرنے كا داعشى طريقۂ كار 10

  • | منگل, 5 اپریل, 2016

ہم نے پہلے بهى داعش كے قرآنى نصوص اور اسلامى مفاہيم واصطلاحات كى تحريف اور تبديل كے بارےميں بات كى تهى جس كے ذريعہ وه اپنے گمراه افكار وخيالات كو ايك شرعى صورت دينے كى كوشش كرتے ہيں- غير عربوں كے ساتھ خطاب ميں اُن كا يہ طريقۂ كار زياده واضح ہو جاتا ہے وه اُن كى عربى سے عدم معرفت ا ور ان كے اس دين كے حقيقى تہذيبى ورثہ كو نہ جاننے كا فائده اٹهاتے ہيں تاكہ وه اپنى مرضى اور مقصد كے مطابق اُن پر قابو كر سكيں- الله تعالى نے يہ دين عربى رسول  پر اور عربى زبان سے نازل كيا، اسى لئے اس دين كے علوم كے دارسين كے لئے عربى زبان  بولنا اور اُس كے قواعد  واصول جاننا لازمى تها تاكہ وه دينى خطاب كو اچهى طرح  سمجه  سكے. علم يا فن كى كسى بهى شاخ ميں عبور حاصل كرنے كے لئے يہ ضرورى ہے كہ اس كے قواعد واصولوں كو اچهى طرح جانا جائے، اسى لئے يہ كہنا ہرگز عجيب  يا غلط نہ ہو گا كہ شرعى علوم ميں بات كرنے كى شرط ميں سے اس شريعت  يادين كى زبان كو اچهى طرح جاننا ہے تاكہ وه اس ہر چيز كو سمجھ سكے جو عربى زبان سے رسول الله پر نازل ہوئى تهى۔ اگر عربى سيكهنا ہر ايك كے لئے آسان نيہں ہے تو اس حالت ميں اُس كوصرف قابل اعتماد كتابوں سے فائده اٹهانا چاہيے۔ اس لئے ہر مسلمان پر فرض ہے كہ وه عربى سے دوسرى زبانوں ميں نقل  يا ترجمہ كرتے وقت ذمہ دارى اور احتياط سے كام لے تاكہ كسى بهى شرعى حكم يا خطاب ميں غلطى كى كوئى گنجائش نہ ہو۔ الله تعالى رسول الله سے خطاب كرتے ہوئے فرماتا ہے: "اے پيغمبر جو  ارشادات خدا كى طرف  سے تم پر نازل ہوئے ہيں سب لوگوں كو پہنچا دو اور اگر ايسا نہ كہا تو تم خدا كے پيغام پہنچانے ميں قاصر رہے (يعنى پيغمبرى كا فرض ادا نہ كيا) اور خدا تم لوگوں كو سے بچائے ركهے گا بيشك خدا منكروں كو ہدايت نہں ديتا) (مائده: 67)۔

          علمائے تفسير كہتے  ہيں كہ اس حكم الہى سے مراد يہ ہے كہ اے محمد! جو كچھ تم پر تمہارے رب كى طرف سے نازل ہوا ہے وه تم اسى طريقے ميں بغير كسى كمى بيشى كے پہنچا دو ، اسى لئے مسلمانوں كے ائمہ نے احاديث كى روايت كرنے والوں كے لئے بعض شرائط ركهے تهے وه كہتے ہيں: "اگر حديث كے رواى الفاظ كے مدلولات ومضمرات اور مقاصد سے اچهى طرح واقف نہ ہو، اس كے تمام معانى سے باخبر نہ ہو، متشابہ الفاظ كے درميان معانى ميں فرق كو اچهى طرح جا نچنے والا نہ ہو تو صرف "معنى" كے اعتبار سے روايت دينا اُس كے لئے جائز نيہں، بلكہ اُس كو فقط "سننے والے" لفظ منتقل كرنا چاہيے..." رسول الله كى احاديث كى روايت ميں اتنى  احتياط برتنے كى وجہ يہ ہے كہ "معنى " كے اعتبار سے احاديث كى روايت ميں غلطى كى گنجائش ہوتى ہے كيونكہ اس طريقہ سے ہو سكتا ہے كہ اُس نے اپنى سمجھ كے مطابق كسى لفظ كے معنى منتقل كئے ہوں ليكن اس سے مراد كچھ اور ہو، تواُس كى نظر ميں يہ معنى تو صحيح ہو گا ليكن كو درست طريقہ سے منتقل نہيں كيا جس لئے مفاہيم كى صحيح سمجھ ميں مشكلات در پيش آئيں گى اور پيغام كو صحيح طرح پہنچانے ميں خلل پيدا ہو گا۔ ايسا كہنے ميں مبالغہ نہ ہو گا كہ وه جو رسول الله كى حديث سے ايك لفظ اس كے اصل معنى ميں نقل نہ كرے تو وه آخرت ميں سوا ل ده ہو گا "حضرت على بن ربيعہ والبى سے روايت ہے كہ انہوں نے كہا كہ ميں مسجد ميں آيا اور ان دنوں مغيره نے كہا ميں نے رسول الله سے سنا ہے آپ فرماتے تهے ميرے اوپر جهوٹ باندهنا ايسے نہيں ہے جيسے كسى اور پر جهوٹ باندهنا۔ جو شخص مجھ پر جهوٹ باندهے وه اپنا ٹهكانہ جہنم ميں بنالے" يہ لوگ اپنے افكار وخيالات كى خدمت كے لئے رسول پاك كى احاديث ميں تحريف وتبديلى كر كے اُس كو اُس كے اصل سياق سے نكال ديتے ہيں جو كئى حالات ميں صرف ايك خاص زمانے كے لئے ہى مناسب تهے يا محدد واقعات ميں رسول الله پر نازل ہوئے تهے۔

          داعش كے پيروكار نقل كى اس امانت كا لحاظ نہيں ركهتے بلكہ وه مختلف زبانوں ميں مقالے لكھ كر مغربى دنيا كى طرف متوجہ ہوتے ہيں، جس ميں وه پڑهنے والوں كے لئے احاديث كے بعض اجزاء كو اس طرح پيش كرتے ہيں گويا كہ وه اس موقف ميں نازل ہونے والى واحد حديث ہو، اس طريقہ سے وه يورپين لوگوں كى عربى زبان، اس زبان ميں لكهى جانے والى "امہات الكتب" (اولين دينى كتابيں) اور مسلم فقہاء كا مختلف نصوص كو جمع كرنے كے منہج سے ناواقفيت كا فائده اٹهاتے ہيں۔ وه صحيح احاديث (جن كى روايت مسلم يا بخارى سے ہو) كے ايك جزء كا ذكر  كر  كے باقى اجز اكو نظر انداز كر ديتے ہيں جبكہ اگر وه حديث كا مكمل ذكر كرتے اور اُس كا پس منظر صحيح طريقہ سے بيان كرتے اور نقل ميں امانت سے كام ليتے تو حديث اُن كے حق ميں نہيں بلكہ اُن كے خلاف ثبوت پيش كرتى۔

قرآنى آيات سے استدلال ليتے ہوئے بهى وه آيت كے نازل ہونے كى وجہ  اور علماء كى تفسير بيان نہيں كرتے ، ان كا اصل مقصد دين كے نام  سے قتل كرنے كاثبوت پيش كرنا ہوتا ہے -

" قيامت سے پہلے غلامى كو پهر سے زنده كرنا" كے عنوان سے "دار الاسلام" ميگزين (فرانسيسى ايڈيشن)  ميں وه ايزيديوں كو قتل اور اُن كو غلام بنانے كا جواز پيش كرنے كے لئے درج ذيل آيت كاثبوت پيش كرتے  ہيں :

"جب عزت كے مہينے گزر جائيں تو مشركوں كو جہاں پاؤ قتل كردو اور پكڑ كر گهير لو اور  ہر گهات كى جگه ان كى تاك  ميں  بيٹهے رہو پهر  اگر وه توبہ  كرليں اور نماز پڑهنے اور زكواة دينے لگيں تو ان كى راه چهوڑ دو – بے شك خدا بخشے والا مہربان ہے"  (سوره التوبہ:5)-

اس طريقہ سے وه پڑهنے والوں كو گمراه كرتے ہيں جو ان كى بات پر- عربى زبان نہ جاننے اور صحيح مطالعہ نہ ركهنے كى وجہ سے – يقين كرليتے ہيں-

يہ آيت كريمہ در اصل مشركين مكہ پر نازل ہوئى تهى اور   حقيقت تو يہ ہے كہ مسلمانوں اور كافروں كے  درميان معاملات ہميشہ جارى رہے، بعض خلفائے  راشدين نے  مشركين كو اسلام لانے كى دعوت دى تهى، ليكن اسلام نہ لانے پر ان كو قتل كبهى  نہيں كيا  گيا اور نہ ہى اُن كو  اسلام لانے پر  مجبور كيا گيا . كيا اُس زمانے كے مسلمانوں يا علماء نے  يہ  آيت  نہيں پڑهى تهى . كيا داعشى الله كے دين  سے خلفائے راشدين اور اسلام كے اولين  علماء سے زياده واقف ہيں .

يہ آيت صرف مشركين مكہ پر نازل ہوئى تهى جنہوں نے مسلمانوں كے خلاف  جنگ كى تهى اسى لئے اُن سے اُسى طريقہ  سے پيش آنا ايك  فطرى سى بات تهى-

جہاد كو واجب قرار دينے كے لئے وه حضرت  حذيفہ ابن اليمان  رضى الله عنه كى حديث كو غير مكمل طريقہ سے ذكر  كرتے ہيں :

"وه لوگ رسول الله r سے خير كے متعلق پوچهتے تهے ، اور  ميں آپ سے شر كے بارے ميں پوچها كرتا تها- ميں نے رسول الله  r سے عرض كيا :" الله كے رسول ! مجهے بتائيے كہ اس خير كے بعد جسے الله نے ہميں عطا كيا ہے كيا شر بهى ہوگا ؟ آپ r نے فرمايا:"ہاں" ميں نے عرض كيا :" پهر اس سے بچاو كى كيا صورت ہوگى ؟" " آپ r   نے فرمايا  : "تلوار" ميں نے عرض كيا : الله كے رسول ! پهر اس كے بعد كيا ہو گا؟  آپ r نے فرمايا :" اگر الله كى طرف سے كوئى خليفہ (حاكم) زمين پر  ہو پهر وه  تمہارى پيٹھ پر كوڑے لگائے، تمہارا مال لوٹ لے حب بهى   تم اس كى اطاعت كرو "۔

اپنے نقطۂ نظر كو صحيح ثابت كرنے كے لئے يہ لوگ حضرت محمد r كى احاديث  كو     صحيح صورت ميں نقل كرنے سے بهى گريز نہيں كرنے- مكمل حديث يہ ہے:

لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے با رے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا: جس پر تمہیں تعجب ہورہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہوگا جیسے پہلے تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، میں نے عرض کیا: پھر اس سے بچائو کی کیا صورت ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' تلوار'' ۱؎ ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ'' ۲؎ ، میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''پھر دجال ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ نہر بھی ہو گی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا، اورا س کے گناہ معاف ہو گئے، اور جو اس کی (اطا عت کر کے) نہر میں داخل ہوگیا تو اس کا گناہ واجب ہوگیا، اور اس کا اجر ختم ہو گیا''، میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' پھر قیامت قائم ہو گی''۔

اس حديث كا حقيقى مقصد يہ كہ: ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کر دینا ہی اس کا علاج ہوگا  اوربے دینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کرلو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجانا فتنہ كى آگ كو بهڑ كانے سے بہتر ہے اور يہ كہ مسلمانوں كا خليفہ بن كر مسلمانوں كو ہى قتل كرنا كس شريعت كے نام پر كيا جا رہا ہے؟ وه كس خليفہ كے بارے ميں بات كر رہے ہے ہيں؟ ايك ايسا خليفہ  جو كہ دنيا كے تمام لوگوں كو كافر ٹهہراتا ہے۔ سوائے  اُن كے جو اُس كى بيعت كر كے بے قصور لوگوں اور  معصوموں كا قتل كرتا ہے۔  اسلام ميں جہاد صرف ولى الامر يا خليفہ كے حكم كے بنا پر  كيا جا سكتا ہے اور كوئى بهى گروه يا تنظيم كا اپنے آب كو خلافۂ  اسلاميہ كہہ كر اسلام كا علم لہرانے كے لئے  ملكوں كو برباد كرنے اور لوگوں كو قتل كرنے كا كوئى حق نہيں وه اسلامى شريعت كى نمائندگى نہيں كرتے، صرف اسے آپ كو اہل جنت قرار دے كر باقى مسلمانوں كو اہلِ دوزخ ماننے كا ان كا كوئى حق نہيں ہے۔

          ان لوگوں نے الله كے دين اور اُس كے ہى كى شريعت كے ساتھ وفائى نہيں بلكہ غدارى اور خيانت كى ہے اور اس سے بڑھ كر كوئى دوسرا گناه نہيں ہو سكتا ازہرِ شريف  مسلمانوں كو خبردار كرتا ہے كہ وه ان باغيوں اور جهوٹوں سے دور رہيں۔ اسلام رحمت اور مغفرت كا دين ہے- حضرت محمدr كو جب مشركين مكہ نے اذيت دى تهى اور صحابيوں نے  آپr سے اُن كے لئے بددعا دينے كى طلب تهى تو آپr نے فرمايا: "اِنِّيْ لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً" (مجهے لعنت كرنے  والا نہيں گيا بلكہ رحمت بنا كر بهيجا گيا ہے)۔ يہ ظالم حضورr كى رحمت ومغفرت كى دعوت اور اسلام كے حقيقى جنون سے ناصرف دور بلكہ اُس كےخلاف بهى ہيں۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.