امام اکبر برمی یوتھ فورم برائے امن مذاکرات کے پہلے دورکی سرگمیوں کے افتتاحی تقریب میں

  • | هفته, 7 جنوری, 2017
امام اکبر برمی یوتھ فورم برائے امن مذاکرات  کے پہلے دورکی سرگمیوں کے افتتاحی تقریب میں

معزز حاضرین کرام !

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنی بات کی ابتدا نئے سال کی مبارکباد سے شروع کرتا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس سال کو ساری دنیا کیلئے امن و سلامتی اور خوشیوں کا سال بنائے، ايك  ایسا سال بنائے جس میں خون کی حفاظت ہو اور جنگ کی  وه آگ بجھ جائے جو برادرانٍ  وطن و ملت اور انسانی بھائی چارگی کے درمیان لگی ہوئی ہے  ۔

 برما کے دینی و نسلی اختلاف رکھنے وا لے چیدہ نوجوان لڑکےاور لڑکیوں کو دعوت پیش  کرنے کی سعادت حاصل کرنے والے مسلم علما کونسل  کو  خوشی ہے کہ آپ لوگوں کا آپ کے اپنے دوسرے ملک مصر میں استقبال کرے ۔۔۔۔

یہ وہ سرزمین ہے  جس میں مذاہب باہم گلہ ملتے ہیں اور انکی جلوہ گری ایک ہی قومی دھارے میں بہتی ہے، گویا کہ ایک ایسا فولادی چٹان ہے جس پر ان مجرمین و مفسدین کی طالہ آزمائی بیکار ہوچکی ہے، جنہوں نے یہاں کے باشندوں کے تئیں اپنے دلوں میں شرو فساد اور  تباہی کو چھپا رکھا ہے۔

اے برما کے فرزندوں اور بھائیوں آپ کو  مزید ان  تباہ کن خطرات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو آپ کے ملک کو ریاست "راخائن" میں جاری بحران کے سبب دھمکا رہا ہے۔ ایسا بحران جو دینی ، انسانی اور تہذیبی اسباب سے عاری ہے، بیشک برما کی قوم پریہ واقعی عجیب بحران ہے، کیونکہ یہ ایسی قوم ہے جس کی جڑیں پرانے زمانے سے دین و  دانشمندى  اور سلامتی کی تاریخ میں مضبوط نظر آتی ہیں، اور جس نےانسانوں کو بہت کچھ سکھایا ہے، اور جس کی تہذيب  تمام انسانیت کیلئے  امن وسلامتی كے پيغام  کا مشعل تھا۔

ميرى نظر ميں  دین اور نسل کے نام پر قتل و غارت گری اور خونریزی سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہیں ،  چنانچہ کوئی بھی نبی یا رسول قتل کی غرض سے نہیں بھیجے گئے اور نہ ظلم و زیادتی اور بے گھر کرنے کے لئے کوئی  دانشور  اور خدا پرست آئے۔

ایسا کیوں ہے ! جبکہ تمام الہی دین اور انکی مقدس کتابوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اللہ عزوجل کی مشی‍ت  یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین و زبان کا اختلاف رہے، اگر وہ چاہتا تو ایک ہی رنگ و نسل اور زبان اور ایک ہی دین پر  سب کو پیدا کر دیتا، اور وہ ایسا کرنے پر قادر بھی ہے، اور خلق و تکوین کے فلسفہ کی اس محوری حقیقت کی تاکید تمام مذاہب کرتے ہیں: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ﴾ {الروم: 22}

}ﺍﺱ (ﻛﯽ ﻗﺪﺭﺕ) ﻛﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻤﺎﻧﻮ ﺍﻭﺭ ﯿﻦ ﻛﯽ ﭘﯿﺋﺶ اور تمہارى زبانوں اور  اور رنگتوں كا ا ﺧﺘﻼ (ﺑﮭﯽ) ﮨﮯ،  دانش مندوںﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﮍ ﻧﺸﺎﻧﯿﯿ{  جیساکہ ہم نے دینی اخوت سیکھی ایسے ہی ہم نے انسانی اخوت بھی سیکھی ہے، تو مؤمن کے پیمانہ سے یا تو لوگ دینی بھائی ہونگے یا انسانی بهائى، چنانچہ مسلمانوں کے نبی صل اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد  اسى بات پر تاكيد كرتے  اور اس بات کی گواہی دیتے آپ صل اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو مخاطب کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: "میں گواہ ہوں بیشک محمد تیرا بندہ اور رسول ہے، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب میں گواہ ہوں کہ تمام لوگ آپس میں بھائی ہیں"۔۔۔ پس  اس گواہی سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہو سکتی جو انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور دین کی تمیز کے بغیر ہمیشہ کیلئے بھائى چارگی کا دروازہ کھولے،  ہمارے  دین نے ہمیں  يہ سبق ديا ہے  کہ جیسے اللہ تعالی نے مؤمن کو پیدا کیا ایسے ہی کافر کو بھی پیدا کیا ہے قرآن کریم میں فرمان ِ الہى ہے  :   ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ {التغابن: 2}" ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ﮨﮯ ﺳﻮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌض ﺗﻮ کافر  ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻛﭽه  ﺗﻢ ﻛﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ الله تعالى ﺧﻮﺏ ﺩﯾﻜﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ "

علمائے قرآن کہتے ہیں کہ اس آیت میں کافر کو مؤمن پر مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں میں کفر غالب اور زیادہ ہے، اور ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اللہ کی  حکمت اس سے بالا ہے کہ کافروں کو پیدا کر کے مؤمنوں کو ان کے قتل اور نسل کشی کا حکم دے، یہ مخلوق کی حکمت کے مطابق بیکار سی بات ہے تو بھلا  خالق کی حکمت کا کیا کہنا، کیونکہ تمام اسی کی خلقت اور پیداوار ہے، حدیث شریف میں ہے : "تمام مخلوق اللہ تعالی کی عیال ہے، اور ان کی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو عیال کیلئے زیادہ نفع بخش ہو" تو مؤمن اور کافر کے درمیان حکمت کے ساتھ دعوت اور اچھی بات اور نصیحت ہے، اس کے بعد ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔

اہل یمن کے نام  ایک خط میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو یھودی یا عیسائی اسلام کو ناپسند کرے اسے اپنے دین پر چھوڑ دیا جائے"،  جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :  " ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ﴾  {الكهف: 29} اور اعلان كردے  ﻛﮧ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺑﺮﺣﻖ قرآن ﺗﻤﮩﺎرے رب ﻛﯽ طرف ﺳﮯ ﮨﮯ۔ اب ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﯾﻤﺎن لائے اور جو چاہے كفر كرے.

جب تمام  مذاہب اپنی دعوت میں مؤمن اور غیر مؤمن کے درمیان تعلق میں اس بلند انسانی ادب کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا یہ معقول ہے کہ  مذاہب کی تعلیم اور انسانی حقوق اور اخلاقی واجبات کو فراموش کردیا جائے!

بورما کے تمام رنگ ونسل اور دین ومذہب کے  نوجوانوں!

آپ کی سرزمین بدھ مت،  ہندو مت،  عيسائیت  اور اسلام کی  دانشمندى سے  زرخيز ہے،  جو صبح وشا م آپ کو پکار پکار کر یہ کہتی ہے کہ قتل مت کرو ، جھوٹ مت بولو،  عفت وپاک دامنی کاد امن پکڑے رہو،  شراب نوشی مت کرو ۔ ہم نے ازہر شریف میں اصولِ دین کے کالج میں علمائے مشرق کا مطالعہ کرتے  ہوئے یہ سیکھا ہے کہ بدھ مت بنیادی طور پر  انسانی اور اخلاقی تعلیمات پر مبنى  ہے اور یہ  دانا، انسانی تاریخ میں عظيم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کی نمایاں صفات  ميں متانت وسنجیدگی، عقلمندی،بے تحاشہ محبت وشفقت  اور لطف وکرم ہے۔  ادیان ومذاہب کے بڑے مورخین ان کی تعلیمات كے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی تعلیمات غیر معمولی رحمت وشفقت پر مبنی تھیں اور وہ خود  بردبار، صلح پسند،  ملنسار اور متواضع  تھے ، اسی طرح وہ بہت ہی سہولت پسند ، نرم مزاج اور لوگوں کے قریب تھے ۔ ان کی وصیت یہ ہے کہ لوگ آپس میں محبت کریں،  ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں۔

میں تو اس موقعہ سے اس بات کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم علماء كونسل آپ نوجوان مرد وخواتین سے اس بات کی امید کرتا ہے کہ آپ لوگ یہاں امن وآشتی کا ماحول پیدا کریں جس کے سائے میں "ریاست راخائن" کی عوام بلکہ پورے بورما کی عوام ايك اچهى زندگی گزار سکے اور قومیت وشہریت کی ایسی ثقافت کا آغاز کریں کہ اقلیت جیسے لفظ کا خاتمہ ہو جائے،  اسی طرح اقلیت  اور اس كے مفہوم کو بهى کنارے اور حاشیہ پر رکھ ديا  جائے تاکہ قتل وغارت گری اور معصوموں کی جلا وطنی  جيسے جرائم كا خاتمہ  ہو اور ہم پر ضروری ہے کہ ہم میڈیا کے ذریعہ نقل کردہ قتل وغارت گری ،ظلم وزیادتی اور جلاوطنی کے تصویر کشی کو اپنی نگاہوں میں رکھیں اور یہ  جان ليں کہ یہ افعال  ایک ایسی قوم کو زيب نہیں  ديتى  جس کی ایک تہذیب وثقافت ہو یا قدیم تاریخ ہو جیسے کہ بورما کی قوم کی ہے ، ایک ہى  قوم کے  باشندوں كے درمیان تفریق سے صرف معاملہ سنگین ہی نہیں ہوگا بلکہ اس ملک کی تمام ترقی کی امیدوں اور آرزوؤں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

میں اور میرے ساتھ مسلم علماء كونسل کے یہ علمائے کرام،  دانشوران قوم اور مصری میڈیا کے یہ اہلکار اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں انسانیت کو تکلیف پہنچانے والی  اس  بد نما تصویر كا ازالہ ہو جائے اور ہم یہاں مسلم علما كونسل  اور ازہر شریف کے پلیٹ فارم سے میانمار کی عوام کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ بغض وحسد اور ناپسندیدگی کو اپنے دلوں سے نکال دیں اور ہم ایسا اس وقت تک نہیں کر سکتے  جب تک کہ ہم دین ومذہب اور رنگ ونسل سے قطع نظر ایک قوم کے ما بین  مکمل قومیت اور مساوات کی بنیاد کو نافذ نہ کر دیں ، مسلم علما كونسل  اس سلسلہ میں ہر طرح کی امداد وتعاون کرنے کو تیار ہے۔ اسی طرح مصر کے بیت العائلہ (فیمی ہاؤس) نامی تنظیم کے تجربہ بھی پیش کرنے کو تیار ہے جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں شریک ہیں اور اسی تنظیم کی وجہ سے مختصر سے وقت میں مکمل قومیت اور باہمی مشترکہ زندگی کے مفہوم کو فروغ دیاجا سکا ہے۔

نوجوانوں! میں آپ سے یہ بات چهپانا نہیں  چاہتا کہ ہم مسلم علما كونسل  کے نمائندہ کی حیثیت سے میانمار میں امن وآشتی سے متعلق بہت مشغول رہے ہیں اور بہت غور وخوض کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بورما کی عوام سے گفتگو کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ یہی عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہے، یہی اس بحران کو ختم کر سکتی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ایک نہ ایک دن سب اس کے شکار ہوجائيں گے،  یہ عوام اس مسئلہ کو حل کرنے پر قادر ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ  ان کے افکار وسیع ہیں، ان کے اندرون صاف ہیں، ان کے ضمیر بے داغ ہیں اور وہ زیادہ امن وآشتی کے دلدادہ اور گرم جوش ہیں۔

آخر میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات آئندہ ملاقاتوں کی تمہید ہو جس کے ذریعہ ہم میانمار میں امن وآشتی اور عدل وانصاف قائم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو سکیں گے۔اسی طرح میں خواہش مند ہوں کہ مسلم علما كونسل  آپ کی باتوں کو سنے ، آپ کی تکلیفوں اور آپ کی امیدوں سے باخبر ہو تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم   آپ لوگوں کی تکلیفوں کو کم اور آپ کی امیدوں كو  کیسے پورا کيا جا سكے گا   ۔

آپ سب كا بہت شكريہ۔

Print
Categories: ہوم, ايونٹز
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.