ازہر شریف اور وٹیکن کی طرف سے دنیا کے لیے امن و سلامتی کا پیغام

  • | بدھ, 3 مئی, 2017
ازہر شریف اور وٹیکن کی طرف سے دنیا کے لیے امن و سلامتی کا پیغام

ازہر شریف نہ صرف ایک عالمی یونیورسٹی ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے سنی مسلمانوں کے لئے ایک مرکزی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے – 972  سے یہ  ادارہ  نہ صرف عربوں کو بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو عربی زبان اور اسلامی شریعت کے بنیادی علوم کی تعلیم دیتا آرہا ہے -  ایسی تعلیم جس میں تمام مذاہب اور افکار و خیالات پر روشنی ڈالی جاتی ہے – تاکہ اس تعلیمی ادارے کے دارسین تمام آراء سے متعارف ہوں اور ان میں دوسروں کے خیالات کو اور رجحانات کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو- عصر حاضر میں یہی صلاحیت بہت سے لوگوں میں نہیں رہی- دوسروں کو قبول کرنے کی قدرت نہ صرف مسلمانوں کے یہاں بلکہ اس گلزار ہستی کے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے عقل ودل سے بالکل  مقود ہوگئی ہے –

در اصل ہم اپنے آپ سے کسی بھی  قسم کا اختلاف رکھنے والوں کو اپنا مخالف سمجھنے لگے ہیں – حالانکہ اللہ رب العزت نے کئی دفعہ قرآن مجید میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ " اگر وہ چاہتا تو دنیا کے تمام لوگوں کو ایک قوم بنا دیتا " لیکن اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا کیونکہ جیسا کہ حضرت  محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے "  وفی اختلافکم رحمہ "  (تمہارے مختلف ہونے میں (بھی) رحمت ہے ) ان تمام معانی پر تاکید کرنے کے لئے دو ماہ پہلے قاہرہ میں "آزادی ، شہریت اور تنوع و تکامل" کے عنوان سے 28 فروری – 1 مارچ کو ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا-  ازہر شریف کی سربراہی میں دنیا بھر کے علمائے دین اور فضلا دنیا کو ایک پیغام دینے کے لئےجمع ہوئے تھے اور وہ یہ کہ دین یا مذہب تو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کا ایک خاص مسئلہ ہے لیکن وطن سب کا ہونا چاہئے اور "اقلیت" نامی اصطلاح کو مکمل طور پر رد کردیا گیا – فضیلت مآب امام اکبر شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب نے اس بات پر زور دیا کہ تعداد میں کم ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے حقوق میں کسی قسم کی کمی ہو کیونکہ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ امن و سلامتی سے زندگی گزاری تھی–

 قرآن پاک میں ایک واضح حکم الہی ہے " لا اکراہ فی الدین" ( دین میں کوئی زبردستی نہیں ) اسی معنی پر مزید تاکید کرنے کے لئے ازہر شریف اور مسلم علما کونسل نے امن و سلامتی کے لئے ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دنیا کے مختلف ملکوں سے دیگر مذاہب کے علما اور فضلا نے شرکت کی ، اس کانفرنس کے آخری جلسہ میں شیخ الازہر اور وٹیکن کے پوپ فادر فرانسیس نے دو تاریخی خطبے دیے۔ فادر فرانسیس مصر 28 ابریل کو  پہنچے اور صدر عبد الفتاح السیسی نے ان کا پر جوش استقبال کیا، اس کے کچھ دیر بعد فادر فرانسیس نے مشیخہ الازہر ( شیخ الازہر  سنٹرل ہیڈ کوارٹر ) میں شیخ الازہر سے ملاقات کی –

اس تاریخی ملاقات میں دونوں عظیم اور اہم شخصیات نے اس بات پر تاکید کی کہ بعض لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر دین کے نام سے ایسے کام کرتے ہیں جس کا کسی بھی دین سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے اسلام کے نام سے دہشت گردی کرنے والوں کی شدید مذمت کی اور اس کا خاتمہ کرنے کے لئے متحد ہونے پر زور دیا اور کہا کہ امن و سلامتی کا مفہوم پھیلانے کے لئے دنیا بھر کے مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہونا چاہیے کیونکہ انسانیت کو بجانے کا یہی واحد طریقہ ہے ۔

شیخ الازہر اور پوپ اس کے بعد صدر جمہوریت جناب عبد الفتاح السیسی ایک بہت بڑے جلسہ میں شریک ہوۓ ، جس میں پوپ نے "تحیا مصر"  (مصر زندہ آباد) کا نعرہ بلند کیا جس کی مصریوں کے دل میں ایک خاص جگہ ہے، پوپ کی یہ زیارت نے تمام لوگوں کو ایک اہم پیغام دیا اور وہ یہ کہ مصر امن و سلامتی کا گہوارہ تھا اور ہمیشہ کے لئے رہے گا ۔ پوپ نے قاہرہ کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں 25 ہزار افراد کی موجودگی میں " ڈپوائن ماس "  ادا کی ، نہ صرف مصر کے عیسائیوں نے بلکہ مسلمانوں نے بھی ان کا نہایت پر جوش استقبال کر کے یہ ثابت کیا کہ مصر کی سر زمین ا پنے شہریوں کو امن وامان کے علم تلے جمع کرنے پر قادر ہے اور تمام مصری دین اور رنگ کے اختلاف کے صرف نظر ایک ہیں اور ایک  ہی رہیں گے۔۔۔۔۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.