"اسلامی معاشروں میں امن وامان کی تقویت کے کانفرنس میں فضیلت امام اکبر شیخ الازہر کا افتتاحی کلمہ"

  • | منگل, 28 اپریل, 2015
"اسلامی معاشروں میں امن وامان کی تقویت کے کانفرنس میں فضیلت امام اکبر شیخ الازہر کا افتتاحی کلمہ"

الحمد لله والصلاۃ والسلام على سيدنا رسول الله صلى الله عليہ وسلم وبارك عليہ وعلى آلہ وصحبہ وسلم

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

ہمارا مقصد اسلام میں امن وامان کا مفہوم اور اس کی اہمیت اور مرکزیت بیان کرنا ہے، اہلِ قلم  اور متخصصین کا اس مقصد پر روشنی ڈالنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی طریقہ سے ہم اسلام میں امن وسلامتی کے معانی کو صحیح طریقہ سے سمجھ پائیں گے. گزشتہ عرصہ کے دوران اسلام میں موجود بعض مسلمانوں کی چند امور کی غلط سمجھ اور تفسیر نے ہمارے دین کی صورت بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کے نتیجہ میں بعض مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود اسلحے دشمنوں کے سینوں کے بجائے انہی کے مسلمان بھائیوں کے سینوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔

بلا شک وشبہ آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جس میں صحیح اور غلط مفاہیم کے درمیان فرق اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت بہت ہی اہم ہے تاکہ مسلمانوں کی نوخیز نسل اپنے دین کو صحیح طریقہ سے سمجھ کر اپنے آپ کو غلط اور متشدد افکار سے بچا سکے اور فکری اور عقائدی افراتفری میں پھنسنے کے بجائے اپنے دین اور عقیدے کے اصول اور قواعد کو جانیں۔

اور اپنے اس دین کی نصرت کریں جس نے ابتدا‎ء سے لے کر آج تک انسانیت، اخوت ، بهائى چاره اور تہذیب وتمدن کی نصرت کی ہے۔ یہ مذہب دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے سے قلیل عرصہ میں اس لئے منتشر ہوا کہ یہ دین لوگوں کے درمیان امن وسلامتی کو نشر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس دین کے نبی نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ تمام كائنات  کے لئے رحمت تھے۔

اللہ تعالى فرماتے ہیں "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ" (الأنبياء: 107) "اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے" (انبياء: 107)

رحمت اور امن وامان فی الواقع ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ حضرت محمد –صلى اللہ عليہ وسلم-  نہ صرف انسانیت کے لئے بلکہ جانور، پودوں اور بے جان چیزوں کے لئے بھی رحمت تھے اور تاریخ انسانیت میں نبی الاسلام کے سوا کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے ایک مکمل معاشرتی اور دستوري يا قانوني نظام پیش کیا ہو, یا جس نے انسان کے ساتھ عدل واحسان اور اُس کے ساتھ رحمت کے ساتھ پیش آنے کی دعوت دی ہو قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جس نے کسی انسان کے قتل کی سزا میں دو عقوبتیں دی ہیں: دنیا میں سزا اور آخرت میں عذاب عظیم.. اللہ تعالى سورۂ مائدہ میں فرماتے ہیں: " مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًاۚ" (المائدة: 32) "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا" (مائده: 32)

          اسلام تو کسی کو ڈرانے سے بھی منع کرتا ہے اگر یہ کسی کے ساتھ مذاق یا کسی کو چھیڑنے کے غرض سے کیوں نہ ہو۔ حضرت محمد –صلى اللہ عليہ وسلم- فرماتے ہیں "اگر کسی نے اپنے بھائی پر مارنے کی کوئی چیز اٹھائی تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں حتى کہ وہ اس کو ڈال دے وہ اس کا بھائی کیوں نہ ہو"

اور یہ بھی فرمایا کہ " کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ڈرانا جائز نہیں ہے"

ایک دفعہ آپ r نے ایک اونٹ کو روتے ہوۓ دیکھا اس پر تھکن کے علامات ظاہر تھے۔ آپ –صلى اللہ عليہ وسلم- نے اونٹ کے مالک کو بلایا جو انصار کا ایک لڑکا تھا اور اس سے فرمایا: " اللہ نے تمھیں اس جانور کا مالک بنایا تو تم اس کی صحیح حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا چھوڑتے ہو اور اس کو نہایت تھکاتے ہو"-

کچھ لوگ کہیں گے کہ بھلا کوئی جانور یا حیوان کبھی انسان سے بات کر بھی سکتا ہے!؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی نظر میں اس کائنات میں موجود ہر چیز جان دار ہے اور قرآن پاک میں اللہ نے ذکر کیا ہے کہ کائنات کے تمام عناصر اللہ کی عبادت، اس کی تسبیح اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ ہم کائنات کی عبادت کا یہ سلسلہ دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن قرآن پاک میں اس کے بارے میں کئی آیات ہیں قرآن پاک میں ارشاد ہے:

  • "وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا" (الإسراء : 44) "ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔ وہ بڑا بردبار اور بخشنے والا ہے" (الإسراء : 44)
  • ایک اور جگہ ارشاد باری ہے " أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الأرض وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدواب وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ"  (الحج : 18) "کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان بھی"  (الحج : 18)
  • ایک اور جگہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے " وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُدَ مِنَّا فَضْلا يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ" (سبأ: 10) "اور ہم نے داود پر اپنا فضل کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم ہے) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کردیا"  (سبأ: 10)

ان تمام آیات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان فرد کا کائنات میں موجود دوسرے مخلوقات کے ساتھ رشتہ -فی الاصل- دوستی، رحمت اور محبت پر مبنی ہے۔ اس بات پر روشنی ڈالنا ہم سب مسلمانوں کے لئے وسیلۂ نجات ہے اسی لئے ہمیں ان تشدد پسند گروہوں کی تحریروں کو اور خاص طور پر وہ جو میڈیا یا ویب سائٹس پر شائع ہوتی ہیں کو جمع کر کے اس کا ترجمہ اور تصنیف کرنی چاہيے تاکہ ہمیں ان کے افکار اور عقیدے کا مکمل علم ہو اور خاص طور پر تکفیر کے مسئلہ کا جس کو وہ اپنی مرضی سے سمجھتے ہیں اور اپنی تفاسیر کے مطابق اس کی تطبیق کرتے ہیں۔

اسلام کسی انسان کو قتل کرنے کی صرف اس وقت اجازت دیتا ہے جب وہ خطرے میں ہو یا اس پر حملہ ہوا ہو۔ اسلام نے تو دشمنوں کے لشکروں میں ضعیفوں (بچوں اور عورتوں) کے قتل کو حرام قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان کے گھروں کو برباد کرنے، ان کے جانوروں کو بغیر وجہ کے یا ضرورت کے ذبح کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ کمزور لوگوں، جانوروں یا درختوں سے حملے کا کوئی ڈر نہیں۔ مصر کے مشہور ادیب مصطفى الرافعي کہتے ہیں: "مسلمانوں کے تلواروں کے بھی اخلاق ہوتے ہیں"-

ہم اس بات پر تنبیہ کرنا پسند کریں گے کہ بعض احکام اور فتاوى محدد زمانہ میں چند خاص حالات کا سامنے  كرنے کے لئے ظاہر ہوئے تھے اور وہ آج کے زمانہ کے لئے غیر مناسب ہیں۔ آج کل کے متشدد گروہ "ابن تیمیہ" اور "ابن کثیر" کے اراء پر استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہادتین کا کہنا کسی انسان کے اسلام کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے احکام پر عمل کرنا شریعت، جماعت اور دولتِ اسلامیہ کا دفاع کرنا لازم ہے۔ اگر کسی نے ان شرائط پر عمل نہ کیا تو ان کی نظر میں وہ کافر ہوگا۔

ان کی اس غلط رائے کی وجہ در اصل "ابن تیمیہ" کا قول ہے جو انہوں نے ساتویں اور آٹھویں ہجری میں کہا تھا، اس وقت مسلمانوں اور تاتاروں کے درمیان خون ریز جنگ تھی۔ تاتار بغداد پر قبضہ کر کے شام اور مصر تک پہنچ گئے تھے۔ اس زمانے میں تاتار قلبی یا باطنی طور پر کافر تھے اور ظاہری طور پر مسلمان ہونے كا اعلان کرتے تھے۔ اس وقت "ابن تیمیہ" نے کہا کہ شہادتین کے ساتھ مسلمان کے اعمال  اور افعال  كا جائزه كرنا بھی ضروری ہیں تاکہ مسلمان اور منافق کے درمیان فرق ظاہر ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکیسویں صدی کے مسلم معاشرے اور ساتویں صدی کے مسلم معاشرے پر ایک ہی طرح کے احکام صادر کرنا جائز ہیں۔ مسلم امت کے فقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ فتوى زمانے اور جگہ یا حالات کی تبدیلی سے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ان گروہوں کا نماز اور روزہ رکھنے والے، زکا‏ة دینے اور حج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا نہایت خطرناک اور غیر مقبول ہے۔

اسی لئے عالمِ اسلامی اور عربی کے علماء کا ایک ہو کر اس عجیب افراتفری کا سامنا کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام دینی مدارس کا ایک نصاب ہو تاکہ ہم نوخیز نوجوانوں کو صحیح دینی تعلیم دیں اور ان کو تکفیر کے خطرے سے بچائیں۔

آج کل کی سوشل میڈیا دینی خطاب کو "داعش" کے ظہور کا ذمہ دار قرار دیتی ہے لیکن یہ بات مکمل طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشروں کے معاشی اور سیاسی حالات نے نوجوانوں کی تکفیر پر برا اور منفی اثر ڈالا ہے اور ان کی يأس اور نا اميدي  كى  وجہ سے انھوں نے  اپنے بھائیوں کى  طرف  ہتهيار اٹھایا۔ اسی لئے دینی خطاب کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی حالات کی تجدید بھی اہم ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمين

                                                           شیخ الازہر

احمد الطیب

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.