برٹش ہاوس آف لورڈز ميں شيخ الازہركا خطاب

  • | جمعرات, 11 جون, 2015
برٹش ہاوس آف  لورڈز ميں شيخ الازہركا خطاب

ہاوس آف لورڈز کی سربراہ مسز بارونہ ڈی سوزا

برٹش ہاوس آف لورڈز کے محترم ممبران-

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

آج مجھے تہذیب اور ترقی کے پاسبانوں ، معاشرتی انصاف ، آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے والوں کے درمیان بیٹھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے . آج میں اسی اُمید کے ساتھ آپ سے بات کرنا اور آپ سے سننا چاہتا ہوں کہ ہمارے افکار و خیالات اور نقطہ نظر کا تقارب ہو .

مجهے اجازت دیں کہ میں آپ سے ازہر شریف کے بارے میں مختصر طریقہ سے بات کروں کیونکہ آج مجھے اس کی نما‏ئندگی کا شرف حاصل ہے . ازہر شریف ایک علمی اور تعلیمی ادارہ  ہےجس کی شاخیں ماضىء بعید میں پیوستہ ہیں . اس کا قیام 972میں ہوا . یہ عبادت گاہ یعنی مسجد اور درس گاہ بھی تھا اور اس دن سے لے کر آج تک اس ادارہ نے دین اسلام کی تعریف کی امانت سنبهالى ہوئی ہے .

جدید دور میں ازہر نے کافی ترقی کی اور اب اس ادارے میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی قائم ہے جو 71 فیکلٹیز پر مشتمل ہے اور جو جنوب میں اسوان سے لے کر شمال تک اسکندریہ اور دمیاط میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس میں 300.000 طالب اور طالبہ ہیں جو نہ صرف دینی اور شرعی بلکہ دنیاوی علوم  جیسے فزکس ، میڈیسن ،  فارمسى ، انجيئرنگ اور اگریکلچر وغیرہ کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ، ان کے علاوہ اس یونیورسٹی میں دنیا کے 110 مختلف ملکوں سے38 ہزار طالب اور طالبہ زیر تعلیم ہیں .

یونیورسٹی کے علاوہ اسی ادارہ کے تحت دس ہزار اسکول ہیں جن میں 2 کڑور طالب اور طالبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں . ان طلبہ میں سے ایک بہت بڑی تعداد غیر عربوں کی ہے .

میں یہ بھی کہنا پسند کروں گا کہ ازہر شریف میں پڑھائےجانے والے نصاب میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک مختلف افکار اور ارا‌ء  كى تدريس كى جاتی ہے،  ازہر شریف میں طالب علم دس سال کی عمر میں یہ سیکھتا ہے کہ اسلام میں مختلف مذاہب ہیں اور ہر مسئلہ پر فقہاء کے مختلف ارا‌ء ہیں  لہذا  اسی لئے ازہر کے طلبہ بچپن  سے دوسروں کے افکار و خیالات قبول کرتے ہیں . آپ کو دہشت گرد تنظمیوں یا متشدد گرو ہوں کے لیڈروں میں کبھی کوئی ازہری  گريجويٹ نہیں ملے گا -

اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ادارہ ( ازہر ) معتدل اسلام کی صحیح نمائندگی کرتا ہے اور یہ بات سراسر غلط ہے کہ یہ مسلحہ اور متشدد گروہ اسلام کی وجہ سے ظاہر ہوئے ہیں . ہم عیسائیت یا یہودیت کو عیسائیوں یا یہودیوں کے بعض افعال کی وجہ سے برا  قرار نہیں دے سکتے . اسی طرح بعض مسلمانوں کی غلط کاروائیوں سے اسلام کو برا  قرار نہیں دیا جاسکتا-ہم مسلمان عیسائیت یا یہودیت پر الزام نہیں لگاتے کیونکہ ہم تمام انبیاء ، رسولوں اور ہر آسمانی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ مسلمان مورخین نے عیسائیوں کے درمیاں جنگوں کو "صلیبی  جنگیں " نہیں بلکہ " افرنجی جنگیں" کا نام دیا ۔

 

محترم حضرات!

تمام مذاہب  نے نہ صرف انسانوں کے لئے بلکہ جانوروں  اور پودوں کے لئے بھی امن و امان کا پیغام دیا ہے،ہمیں جاننا چاہیے کہ اسلام نے ہمیں کسی کو زبردستی اسلام میں داخل ہونے کا حکم نہیں دیا،اسلام عیسائیوں یا یہودیوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا بلکہ ہر مسلمان کا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان قائم  رشتہ محبت اور تعاون پر مبنی ہے۔ حضرت محمد – صلى اللہ علیہ وسلم – پر نازل ہونے والا دین "اسلام" عیسائیت یا یہودیت کے مقابلے میں نازل نہیں ہوا بلکہ یہ آدم اور ابراہیم سے لے کر موسى اور عيسى کے بعد کے مذاہب کی آخری کڑی ہے۔ اسلام مانتا ہے کہ تمام آسمانی رسالات کی اصل یا حقیقت در اصل ایک ہے۔ قرآن ، توراہ اور انجیل کو نہایت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، قرآن پاک  نے ان دونوں مقدس کتابوں کو "ہدى اور نور" (ہدایت اور روشنی)کا نام دیا ہے اور قرآن ان دونوں مقدس کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے۔اسلام کى نظر ميں  عیسائیت کا مقام  بہت اور رفيع  ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے "وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَى" (سورة المائدة :82) (اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصارى کہتے ہیں)۔

اور یہ بھی فرمایا گیا ہے: "وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً" (سورة الحديد : 27) (اور ان کے عيسى بن مريم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا)۔

اسلام اور عیسائیت میں دینی اخوت کی دی جانے والی تعالیم مشرق اور مغرب میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تعاون اور مفاہمت کے مضبوط رشتے قائم کرنے کی طاقت رکھتی ہے خاص طور پر اگر ہم نے دونوں مذاہب کو سیاست اور خود غرضی سے دور رہ کر علمی اور دینی نقطۂ سے دیکھا ۔

 ہاوس آف لورڈز کے محترم ممبران!

افسوس ہے کہ آج پوری دنیا دہشت گردی اور تشدد سے خوفزدہ ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح جاننی چاہیے کہ اگر وقت حاضر میں داعش کے افراد مشرق وسطى میں منتشر ہیں تو کل یہ دنیا کے کسی بھی حصے تك پہنچ سكتے ہيں۔ اس لئے ان کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں اس کے ظہور کے حقیقی اسباب جاننا چاہیے اور متحد ہو کر اس کا خاتمہ کرنے کى  جستجو کرنی ہو گی۔

محترم حضرات!

میں یہ بات ضروری سمجھتا ہوں کہ مشرق اور مغرب کے درمیان کا  تعلق  امن وامان اور دونوں کے عقیدوں اور ثقافتوں کے متبادل احترام پر مبنی ہو۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ازہر کے شیوخ نے بہت عرصہ پہلے اس اخوت کی اہمیت پر روشنی ڈالی تھی۔

3 جولائی 1936ء میں لندن ہی میں ایک کانفرنس میں شیخ "المراغی" نے کہا تھا کہ دنیا میں ہونے والی جنگوں پر اسی وقت قابو پايا  جا سکتا ہے جب تمام قوموں کے درمیان باہمی تعاون اور اخوت کے رشتے قائم  ہوں۔ انھوں نے اس تعاون کی تعمیل کے لئے ایک مکمل خطہ بھی رکھا تھا جس کو بیان کرنے کافی الحال وقت نہیں ہے۔

ازہر شریف کا وقت حاضر میں اہم ترین مقصد  ان غلط، متشدد اور انتہاپسند افکار پر سے نقاب اٹھانا ہے اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کا اسلام  کی تعالیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی غرض کے لئے ازہر شریف نے پچهلے دسمبر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں مختلف چرچوں اور دینی اقلیات کے نمائندے، اہل سنت اور شیعہ کے علماء نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں ازہر نے ایک واضح (بیان) پیش کیا جس میں ازہر شریف نے تمام آسمانی مذاہب کو کسی بھی قسم کے ظالم افعال سے بری کیا ہے۔ اس بیان میں عراق میں غیر مسلمانوں کو زبردستی ہجرت كرنے  کی مذمت بھی کی گئی ہے۔

                                                           شیخ الازہر

احمد الطیب

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.