دار الكفر

  • | اتوار, 20 اگست, 2017
دار الكفر

"دار الكفر"  دراصل ايك اجتہادى "اصطلاح" ہے جو ايك  خاص تاريخى عہد يا زمانہ ميں ظاہر ہوئى تهى، اس زمانہ  ميں مسلمان اپنے دشمنوں كے ساتھ جنگ كى حالت  ميں تهے ليكن  جنگ كے باوجود جن علاقوں ميں غير مسلمانوں نےمسلمانوں  كے ساتھ امن وسلام كا معاہده  كيا ہوا تها ان كو "دار العہد" كہا جاتا  تها- آج كے زمانہ ميں اس اصطلاح كا كوئى وجود نہں كيونكہ دنيا كے تمام ممالك كے جغرافيائى حدود ہيں اور بيشتر ملكوں كے درميان  امن وسلامتى كے معاہدے ہيں اور اپنے عہد سے وفا كرنا مسلمان اور مردِ مومن كى اہم صفت ہے ارشاد بارى ہے: (اے ايمان والو! اپنے اقراروں كو پورا كرو۔) (سورۂ مائده: 1)

          ايك اور جگہ الله رب العزت فرماتا ہے: (اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔) (سورۂ بنى اسرائيل: 34)ابو ہريره سے روايت ہے كہ حضور اكرمؐ نے فرمايا كہ "منافق كى تين نشانياں ہيں: «جب بولے تو جهوٹ بولے،  وعده كرے تو وعده كى خلاف ورزى كرے اور امانت ميں خيانت كرے۔» دوسرى بات يہ ہے كہ آج دينِ اسلام دنيا كے تمام ملكوں ميں پهيل چكا ہے اور دنيا ميں كوئى ايسا ملك نہں ہے جس ميں مسلمان نہ رہتے ہوں اور اپنے شعائر نماز، روزه وغيره نہ قائم كرتے ہوں تو اعش اسے "دار الكفر" ميں شمار كر كے اس ميں قتال كا حكم كيونكر دے سكتا ہے!؟

Print
Tags:
Rate this article:
1.5

Please login or register to post comments.