رسوم ورواج یا بدعت ؟!‏

  • | بدھ, 23 اگست, 2017
رسوم ورواج یا بدعت ؟!‏

’’بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو عربی لفظ "بدعة" سے ماخوذ    ہے۔ اسکا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنايعنى كہ  کسی  چيز کے عدم سے وجود میں آنے کو" بدعت" کہتے ہیں۔

ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :

"البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق."

’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘

 (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253)

ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘، مثال كے طور پر ظہر كى نماز ميں چار ركعات پڑهنے كے بجائے چه ركعات پڑهنا، يا رمضان ميں روزے ركهنے كے بجائے شوال كو ماهِ صيام ٹهہرانا وغيره وغيره.

 (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253)

 ان سے واضح ہوگیا  کہ کوئی بھی کام  مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی  اور اخلاقی اُمور، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں۔ یہ مفہوم سراسر غلط ہے کیونکہ اگر یہ معنی لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے:

1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔

2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔

مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا  دینی کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اصل، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب وسنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے۔

کیا سالگرہ منانا بدعت ہے؟

سالگرہ منانا بدعت نہیں ہے بلکہ یہ   ايك جائز امر  ہے۔ نہ توسالگرہ منانے والے کو بدعتی کہا جائے گا  اور  نہ ہی سالگره نہ منانے والے كو  ۔ کیونکہ سالگرہ منانا رسوم ورواج کے اعتبار سے ایک ہے۔ کیک کاٹنا اور پروگرام کرنا سب جائز عمل ہیں۔  البتہ سالگرہ مناتے وقت اس چیز کا خیال رکھا جائے گا کہ کوئی کام خلاف شرع نہ ہو۔  اگر شریعت کے خلاف کوئی بھی عمل ہو گا تو وہ حرام ہوگا،ليكن  سالگرہ منانا  جائز عمل ہے۔

اب سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كے كيا جو كام حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ کیا ہو تو کیا وہ بدعت ہوتی ہے؟ ۔ دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرنا جو شریعت کے خلاف ہو تو وہ بدعت سیئہ ہوتی ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سارے کام ہم ایسے کرتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیے تھے۔ مثلاً قرآن مجید کتابی شکل میں موجود نہ تھا، قرآن مجید پر اعراب نہ تھے، نماز تراویح باجماعت نہیں ہوتی تھی، قرآن مجید کو پرنٹ نہیں کیا جاتا تھا، مسجدیں پختہ نہیں تھیں، لاؤڈ اسپیکر نہیں تھے اور یہ سب کام آج ہم کرتے ہیں  بدعت سیئہ نہیں  بلکہ بدعت حسنہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازيں  وقت کے ساتھ ساتھ بہت ساری نئی چیزیں معرض وجود میں آئی ہیں ۔  اگر ہر چیز جس کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے نہیں کی سب ان چیزوں کو "بدعت" کہا جائےتو ہر رسوم ورواج اور ساری ایجادات  کو  بھی "بدعت" کہا جائے گا۔  اس  مقالہ كو انٹرنٹ كے ذريعہ قارئين حضرات كے لئے پيش كيا جارہا ہے ، يہ اليكٹرانك ميڈيا رسول اكرم كے زمانہ ميں تها ہى نہيں ليكن آج كے دور ميں يہ علم ومعرفت كا ايك معتبر وسيلہ مانا جاتا ہے جس كے ذريعہ دنيا بهر كے لوگ   دينى اور دنيوى علوم سے با آسانى فيضياب ہوسكتے ہيں، اليكٹرانك دنيا يا سوشيل ميڈيا پر غير اخلاقى ميٹريل بهى  باكثرت دستياب ہے، اس كے ذريعہ افواہيں اور جهوٹى خبريں بهى بہت ہى آسانى سے پهيل جاتى ہيں ليكن اہم بات يہ ہے كہ ہم اس كا استعمال  كيسے كرتے ہيں . چاقو مختلف چيزيں كاٹنے كے كام آتى ہے اور كسى كو قتل كرنے كے بهى ، اس كو استعمال كرنے كا طريقہ ہى اس كى اہميت نقصان كا تعين كر سكتا ہے ، اسلام  ايك آ سان اور خوبصورت دين ہے جو  نيكى، ايماندارى، سچائى، محنت اور لگن سے كام كرنے كى تاكيد كرتا ہے، جو ہميں دوسروں پر احسان كرنے ، نہ صرف اپنوں بلكہ غيروں كى مدد كرنے كا حكم ديتا ہے ، جو اپنے خالق كے ساته تعلق كو اہميت ديتا ہے اور ساته ساته دوست ، احباب اور رشتہ داروں كے ساته اچهے تعلقات استوار ركهنے كى ترغيب ديتا ہے ، جو تحفے دينے لينے كو مستحب قرار ديتا ہے ،جو ہاته اور زبان سے دوسروں كو محفوظ ركهنے كا حكم ديتا ہے، جس كے ہاں  اپنے  بهائى كے آگے مسكرانا كو صدقہ كا مرتبہ ملتا ہے ............. جو ايك مكمل نظامِ حيات ہے   

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
3.3

Please login or register to post comments.