منعقدہ عالمی امن وسلامتی کانفرنس میں "امن وسلامتی کے راستے" کے عنوان ‏پر امام اکبر شيخ الازہر کی تقریر

  • | پير, 11 ستمبر, 2017
منعقدہ عالمی امن وسلامتی کانفرنس میں "امن وسلامتی کے راستے" کے عنوان ‏پر  امام اکبر شيخ الازہر کی تقریر

بسم الله الرحمن الرحيم

19 تا 21 ذی الحجہ بمطابق 10 تا 12 ستمبر کو جرمن کے مانسٹر شہر میں منعقدہ عالمی امن وسلامتی کانفرنس میں "امن وسلامتی کے راستے" کے عنوان پر عزت مآب قابل قدر جناب امام اکبر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب کی صاحب کی تقریر

جرمن کی مشیر کار جناب محترمہ ڈاکٹر انجیلا میرکل

            سب سے پہلے میں حضرات کی خدمت میں اسلام اور تمام آسمانی ادیان ومذاہب کا سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح اس کانفرنس میں آنے کے لئے آپ تمامی حضرات کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کانفرنس میں بڑے دینی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مفکرین، اقتصاد کے ماہرین اور ذرائع ابلاغ کے افراد بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر میں آج اپنے سامنے ایسے نوجوانوں کو دیکھ رہا ہوں جن کے چہرے پختہ عزائم وارادے کی وجہ سے تاباں وروشن ہیں اور میں یہ بھی محسوس کر رہا ہوں کہ یہ نوجوان ایک ایسا انسانی مستقبل بنانے والے ہیں جو امن وسلامتی کا گہوارہ ہوگا۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہیں گے اور ان کے درمیان مساوات وبرابری، عدل وانصاف اور آزادی کے جذبات قائم ہوں گے۔ یہ میری گفتگو ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے اس تھوڑے سے وقت میں  موجودہ دنیا اور لوگوں کی پریشانی ومصیبت کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کر سکوں۔ میں خاص طور ہماری مشرقی عرب دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلہ میں گفتگو کروں گا۔ وہاں انسانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نظر نہیں آرہی ہے۔ ان کا خون بہایا جا رہا ہے اور ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ ان سارے واقعات کی وجہ سے ماضی کی ان جنگوں کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں جن کے بارے میں ہم سمجھتے تھے کہ وہ اب تاریخ کی کہانی بن چکی ہیں اور دوبارہ ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ ان گزشتہ زمانوں کی جنگیں میدان جنگ ہی تک محدود رہتی تھیں اور یہ واقعات بھی سرحدوں پر جنگ کرنے والے فوجوں کے درمیان ہی پیش آتے تھے لیکن جہاں تک آج کی بات ہے، اس سائنس وفن اور ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ زمانہ کی بات ہے، اقوام متحدہ کی تنظیموں کی بات ہے، حقوق  انسان کی بین الاقوامی جمعیتوں کی بات ہے، شہری سوسائٹیوں کی تنظیموں اور ان بین الاقوامی دستاویزات کی بات  ہے جنہوں نے فقیر ومحتاج بے بس ولاچار اور بیواؤ کی حمایت کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیا ہے، اسی طرح اس نے لوگوں کے لئے امن وسلامتی بحال کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری جمعیتیں اور تنظیمیں ایک وادی میں ہیں تو قتل وغارت گری، وخوںریزی، بکھرے منتشر لاشیں، بچوں کی آہ وفغاں، یتیموں کے آنسو اور اپنی اولاد کھونے والی خواتین کی چیخ وپکار ایک دوسری وادی میں ہے۔ اس اکیسویں صدی کے نئے زمانہ میں موت کی ترقی یافتہ مشینوں کی وجہ سے جنگ کا مفہوم ہی بدل چکا ہے کیونکہ جب اس زمانہ میں جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو گھروں میں آرام وسکون سے رہنے والے، سڑکوں پر چلنے والے، اپنے گاؤں وشہروں میں زندگی گزارنے والے اور اپنے مدرسوں ومجلسوں میں بیٹھے تمام لوگوں کو اپنا نشانہ بنا لیتی ہے یا وہ لوگ اس مہلک اسلحہ سے فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انجام سے بے خبر ہو کر نامعلوم علاقہ کا رخ کر لیتے ہیں جہاں ان کو مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ گھبرا کر اور پریشان ہو کر سمندر کا رخ کر لیتے ہیں تاکہ وہ اسی سمندر کی وسعت میں ڈوب کر اپنی زندگی کو موت کے حوالہ کر دیں۔

روئے زمین پر ستائے ہوئے بے بس لوگوں کی جسم کو پامال کرنا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا انسانیت کے جسم کو پامال کرنے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مرادف ہے کیونکہاس انسان کو وہ سب حقوق حاصل ہیں جو مشرق سے لے کر مغرب تک پوری دنیا کے انسان کو حاصل ہیں، احترام، امن وآشتی اور آزادی  کے ساتھ اپنے وطن میں رہنے کے سارے حقوق حاصل ہیں. غربت اور مالداری نیز علاقائی، رنگ ونسل اور دینی بنیادوں پر ان حقوق میں تفرقہ بازی اور دوہرا معیار اپنانا صرف اسلامی مفہوم ہی میں نہیں بلکہ سارے خدائی ادیان ومذاہب کی رو سے انتہائی غلط اور وحشیانہ عمل ہے. جن لوگوں نے بھی دینداری اور اخلاق کے ماحول میں تربیت پائی ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے اور انسانیت میں وہ اس کا شریک ہے اور انسانیت قرابت داری وتعلقات کا ایک بندھن ہے جس میں انسانوں کے درمیان آپسی حقوق اور واجبات مرتب ہوتے ہیں، خواہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی، قومی سطح پر ہو یا ملکی پیمانے پر.

سامعین حضرات اور پردہ نشیں خواتین و..!

میں اپنی اس غیر مناسب زبان پر معذرت چاہتا ہوں، اسی سے میں نے اس کانفرنس میں اپنی بات کا آغاز کیا ہے، اس کانفرنس میں ہر کوئی نیک شگونی اور لامحدود رجائیت اور امید کی دعوت دے رہا ہے، میں مشرق وسطی سے آرہا ہوں جس کے مرد وعورت، بچے اور بوڑھے سب کے سب خون، لاش اور اجتماعی قبروں کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں اور یہ سب ان علاقائی اور عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جس نے ملکوں کو تباہ کردیا، قوموں کو نیست ونابود اور قدیم تہذیبوں کے پڑخچے اڑا ڈالے، بعض ممالک کو تو محدود چند گھنٹوں میں مکمل طور پر تباہ کر دیا اور پھر ان کے کھنڈرات کو چھوڑ دیا اور آج اور ابھی بھی جبکہ میں آپ حضرات سے بات کررہا ہوں وہ کھنڈرات اس عالمی سیاست کی تباہ کاری کا رونا رو رہے ہیں اور بعض ممالک تو ابتک پانچ سالوں سے قتل وغارتگری اور تباہی کی مشینیں بنی انسانوں اور پتھروں کو پیسے جارہے ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ممالک ہیں جہاں تقریبا پندرہ سالوں سے یہ جہنمی مشین چل رہی ہے، جہاں قتل اور تباہی کی ایک لمبی فہرست میں وباؤں اور مہلک بیماریوں کی بھی فہرست شامل ہے .

مشرق میں قتل وغارتگری کے اس عجیب وغریب کھیل کی تازہ ترین خبر جو آرہی ہے وہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور جبری نقل مکانی سے متعلق ہے، وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور جسے پوری دنیا جانتی ہے اور ان پر جو غم اور مصیبت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جنہیں ٹیوی چائنلس کے اسکرین مسلسل دکھا رہے ہیں لیکن ان کو بچانے سے بین الاقوامی برادری عاجز ہے، یہ ایسی مصیبت ہے جسے انسانی ضمیر برداشت نہیں کر سکتی میں یورپین ممالک کی بات نہیں کرتا بلکہ تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ خود مشرقی ممالک میں بھی کوئی انسانی ضمیر اسے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ، خواہ کتنی ہی زیادہ بے حس، سخت اور سنگ دل ہو .

سامعین حضرات اور پردہ نشیں خواتین و..!

 یہ ایسا سانحہ ہے جسے آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم بھی آپ ہی کی طرح اسے خوب جانتے ہیں، بلکہ یہ خبریں ہماری کانوں تک اس کثرت سے پہنچی ہیں کہ ہم اوب سے گئے ہیں .

اس لحاظ سے میں اس سلسلے میں زیادہ لمبی بات نہیں کروں گا، میں نے روہنگیا میں مسلم شہریوں کے معاملے پر کل الازہر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ مذمت اور ناپسندیدگی کے بیانات کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، بلکہ یہ وقت کا ضیاع اور طاقت ختم کرنا ہے ، لیکن میں یہ بھی نہیں کروں گا کہ اس کانفرنس کو چھوڑ کر چلا جاؤں جہاں ایسے بڑے بڑے اور مؤقر لیڈران موجود ہیں، ایسی نوجوان قیادات جن سے (اللہ تعالی کے بعد) انسانیت کو بچانے اور امن سلامتی تک پہنچانے کے سلسلے میں بہت سی امیدیں وابستہ ہیں.

جی ہاں..! میں اپنی اس جگہ کو (جہاں میں کھڑا ہوں) اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جبتک میرے ذہن میں موجود اس بحران کے بارے میں کچھ باتیں مجملا آپ حضرات کو بتا نہ دوں اور میں مانتا ہوں کہ اس بحران میں  کچھ تو ایسے بھی ہیں جو خواب وخیال کی سطح کے قریب ہوچکے ہیں ، اور میرا عذر یہ ہے کہ خواب دیکھنا عاجز شخص کا ایک حیلہ ہوا کرتا ہے اور بعض وہ خواب بھی ہوتے ہیں جو شرمندہ تعبیر ہوجایا کرتے ہیں جیسا کہ بعض مصری شاعروں نے کہا ہے ، چنانچہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے مشرق میں زیادہ تر طے شدہ اور پری پلان فسادات اور تباہی جو ہوئے ہیں یہ سب (جیسا کہ بین الاقوامی سیاست داں بتاتے ہیں) اسلامی دہشت گردی کی وجہ سے ہے، اس لیے اس خطرے کو روکنے اور اس سے لوگوں کو بچانے کے لیے مداخلت کرنا بہت ضروری ہے اور مجھے آپ حضرات یہ کہنے کے اجازت دیں (مجھے امید ہے کہ میں لیاقت اور مہمان کے آداب کے حدود سے تجاوز نہیں کروں گا) کہ مشرق میں جو کچھہ بھی ہو رہا ہے مغرب میں ہتھیار کی تجارت، اس کی مسلسل صناعت اور فروخت کو یقینی بنانے کی وجہ سے ہے، نیز ایسے علاقوں کی تلاش بھی ہے جہاں دینی ومذہبی اور فرقہ وارانہ تنازعات اور فسادات کو بھڑکانا ہے جس کی وجہ سے خونریز تصادم ہو، میں نے معاصر مفکر الہیات ہنس کنگ کی (عالمی اخلاقی منصوبہ) نامی کتاب کے مقدمہ میں اعداد وشمار کے متعلق پڑھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دنیا اسلحہ اور ہتھیار پر ہر ایک منٹ پر1.8 ملین ڈالر خرچ کرتی ہے جبکہ بھوک اور بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہر ایک گھنٹے میں 1500 بچے مرتے ۔

میں نے تیسری عالمی جنگ کے علاوہ بھی آٹھویں دہائیوں کے ہر ہفتہ میں گرفتاری، عذاب، قتل وغارت گری اور جبرا نقل مکانی کے واقعات دیکھے ہیں اور اس وقت کی ظالم حکومتوں کی طرف سے ظلم وزیادتی کی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہے جنہیں تاریخ کے کسی دور میں نہیں دیکھا گیا ہے۔

ہر ماہ 7.5 بلین عالمی اقتصاد کے نظام میں  قرض کا اضافہ کیا جاتا تھا جس کی مقدار 1500 بلین ڈالر تک ہوتی تھی جس کی وجہ سے ابھی تیسری دنیا کے شہریوں پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔

جہاں تک دہشت گردی کی کہانی کی بات ہے تو میرے علم کے مطابق یہ بھی ایک حیرتناک قصہ ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دہشت گردی ایک ایسی گری ہوئی چیز کے مشابہ ہے جس کا کوئی نسب نہیں ہے۔ کسی کو نہ اس کے والد کا علم ہے اور نہ اس کی والدہ کا۔۔۔ میں اس عحیب وغریب حیرت انگیز وجود کے سلسلہ میں حیرتناک سوال کرنا نہیں چاہتا ہوں۔ ابھی اس کے صرف تین ہی سال ہوئے ہیں کہ اس نے اسلامی حکومت کا اعلان کر دیا، اس کا نام عالمی خبروں میں سر فہرست آنے لگا اور ابھی تک اس کا نام سر فہرست ہی آرہا ہے۔ اسے مشق، ٹیکنک اور اسلحہ کے میدان میں اتنی غیر معمولی قوت وطاقت اور ایسی معلومات حاصل ہو گئیں کہ وہ اب ملکوں کا سفر کرنے لگا ہے اور اس کی فوج ان سرحدوں کو پار کر رہی ہیں جنکی نگرانی فضائی دفاع اس یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ بندوق یا توپ سے نکلنے والی ایک گولی بھی اسے نہیں لگ سکتی اور نہ ہی ان کے کسی ساتھی کو لگ سکتی ہے۔ وہ جہاں چاہے اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اور پٹرول کے علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے، وہ قتل کر سکتا ہے، ذبح کر سکتا ہے اور لڑکیوں کو باندی بنا سکتا ہے، وہ غلطی سے اسلحہ حاصل کر سکتا ہے اور راستہ بھٹکے ہوئے جہازوں کے ذریعہ اس کے کسی فوجی کیمپ میں ساز وسامان اتر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی عجیب وغریب کہانیاں ہیں جو ہم جانتے ہیں اور آپ بھی جانتے ہیں۔

میں عرب اور اسلامی مشرقی ممالک کو دہشت گردی جیسے تاریخی ذمہ داری کی ادائیگی سے الگ نہیں کر رہا ہوں۔ اس کے بہت سارے اسباب ہیں، سیاسی، دینی، تعلیمی اور  سماجی یہ سب اسباب ہیں لیکن میں نہیں سمجھ سکتا ہوں کہ علاقہ کے اسلحہ، ٹیکنالوجی اور سائنس سے متعلق وہ امکانات جن میں یہ تنظیم ظاہر ہوئی ہے ہر میدان کے اندر اس ترقی کی تفسیر بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اسی طرح میں اس تنظیم کا مقابلہ کرنے میں اقدام کرنے پھر پیچھے ہٹ جانے اور بے بس  ومحتاج مرد وخواتین کو ان کے شرور وفتن سے حفاظت کرنے کی پالیسی کو نہیں سمجھ سکتا ہوں.

دوسری بات: یہ مشرقی دنیا جو آج تمام میدانوں میں مختلف قسم کی پریشانیوں سے گھری ہوئی ہے مغرب پر اسی کے احسانات ہیں، اسی نے اسے تہذیب وثقافت کی دولت سے روشناس کرایا ہے، اس کے مختف علاقوں کو تعلیم وتربیت، تہذیب وثقافت اور ادب وفنون کے نور سے روشن کیا ہے اور اس سلسلہ میں موجودہ علمائے غرب جو کہتے ہیں اس کی طرف ایک اشارہ ہی کافی ہے وہ کہتے ہیں کہ یورپی ثقافت عالم اسلام کا بہت ہی احسان مند اور اس کا مرہون منت ہے کیونکہ مجھے تعجب ہے کہ کیسے مسلمانوں نے قدیم یونانی علوم کی حفاظت کی، اس میں عمدگی پیدا کی اور اس میں اضافہ بھی کیا ۔ انہوں نے ہی علوم، علم طب، علم فلک اور نئے سمندری تعلیم کی بنیادیں رکھی ہے اور موجودہ مغرب کی تمام کامیابیوں کی صلاحیت ان کے اندر موجود تھی۔

یہ انصاف پسند مصنف یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر پندرہ صدیوں کی پوری مدت میں عالم اسلام کے اندر غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا رویہ نہیں برتا جاتا تو ایک نسل اور ایک مستقل دین کے اعتبار سے یہود کا باقی رہنا مشکل تھا اور مغرب علم  وفن، علم طب، ادب اور موسیقی میں غیر معمولی لا محدود شراکت سے محروم ہو جاتا۔ یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مغربی ذہن ودماغ میں جو تصویر ہے کہ یہ غیر متحرک دنیا ہے، وہاں عجیب وغریب عادات وتقالید والی قوم زندگی گزارتی ہے اور عرب ممالک کے سلسلہ میں موجودہ مغرب کا یہ نقطۂ نظر ہے کہ وہ تو اسے لوگ ہیں جن کے پاس تیل کا بہت بڑا زخیرہ ہے، ان کے پاس خام میٹیریل بھی اتنی زیادہ مقدار میں ہیں کہ ان کے ذریعہ مغربی معیشت کو ترقی دیا جا سکتا ہے اور یاد رہے کہ عالم ہسلام سے متعلق یہ تصویر صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عالم اسلام کی حقیقی تصویر کشی نہیں ہے اور کسی بھی بنیاد پر مختلف عادات وتقالید اور تہیب وثقافت والی قوموں کے درمیان یہ تصویر قائم ہو۔

موصوف وسیع معلومات پر مبنی پختہ منطقی دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پروفیسر میرفی کہتے ہیں پوری یورپین قومیں ظلم وزیادتی، مطلق العنانی اور تباہ کن کشمکش کے مراحل سے گزری ہیں اور وہاں جمہوریت تقریبا حالیہ صدی میں ہی آئی ہے، چنانچہ اسلامی ممالک کی اندرونی سیاسی مشکلات کا حل ان ملکوں کی عوام کے سپرد کردینا چاہیے خواہ ان ملکوں میں موجودہ نظام چاہیے جیسا بھی ہو، بلاشبہ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ عالم اسلام کے پاس ایسے روحانی اور اخلاقی ضوابط ہیں جن کی بنیاد پر تمام نسلوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان باہم بھائی چارگی رواداری کی مشترکہ صفات عام ہو سکتے ہیں، عالم اسلام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صورتحال میں اپنی عوام کے مطالبہ کے مطابق تبدیلی لائے، جیسا کہ اس سے پہلے یورپی قوموں نے کیا تھا  اور یورپ وامریکا اور روس نے اقوام متحدہ ادارہ کے قیام کے موقع پر اپنے ایک منشور کو پاس کیا تھا جس کے پہلے بند میں صراحت کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے داخلی اور سیاسی امور میں دخل اندازی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میں آپ حضرات سے معذرت خواہ ہوں کہ میری گفتگو قدرے طویل ہو چکی ہے لیکن میں نے اپنی اسلامی دنیا پر انصاف پسند مغربی نقطۂ نظر سے روشنی ڈانے کا ارادہ کیا تاکہ قول وعمل کے درمیان پائی جانے دوری ختم ہو جائے۔ ہماری یہ عرب مشرقی دنیا جس کے بارے میں میں گنگنایا کرتا تھا کہ وہ استعمار سے آزاد ہو چکا ہے، اسوان میں سد عالی بنایا گیا ہے، یہاں نئے اقتصادی تنظیمیں موجود ہیں اور یہاں آزادی کی تحریکیں پائی جاتی ہیں یہ ہماری عرب مشرقی دنیا پھر دوبارہ کیسے اسلحہ کی کشمکش سے دوچار ہے، سیاست اور علاقائی وبین الاقوامی نگاہیں اس کی گھات میں ہیں، وہ بے یار وممدگار محتاج قوم جس کا میں ایک فرد ہوں اس نے کیسے اس علاقائی وبین الاقومی فساد وبگاڑکی قیمت ادا کی ہے اور مسلسل ادا کر رہی ہے اور دوسروں کی نیابت میں نا ختم ہونے والی جنگ کو ہوا دے رہی ہے۔

 

تیسری اور آخری بات: جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس بیماری کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج تہذیب وثقافت پیش کرنے میں ہمارا اخلاقی عنصر اس وقت کمزور ہو جاتا ہے جب اس پر خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس کا حل مزید سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے سے حاصل نہیں ہوگا جبکہ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں اس کی بہت اہمیت اور ضرورت ہے۔ ان مادی فلسفوں میں حل پوشیدہ نہیں ہے جنہیں اللہ رب العزت کے ادیان ومذاہب اور اس کے اخلاق سے کوئی سرو کار نہیں ہے اور نہ ہی یہ حل مفید اور انسانی طریقۂ کاروں میں موجود ہے کیونکہ یہ سارے فلسفے ایک شخص کے ارد گرد ایک فرد کی حیثیت سے گردش کرتے ہیں نہ کہ ایک انسانی جماعت کے رکن کی حیثیت سے گردش کرتے ہیں کیونکہ اس انسانی جماعت کے حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہبانی افراد کی طرف سے لازمی ہوتی ہے ورنہ یہ انسانی جمعیت برباد ہو جائے گی اور وہ خود اسی انسانیت کے لئے خطرہ بن جائے گی۔

جہاں تک میری رائے ہے تو اس بیماری کا صرف ایک علاج ہے اور وہ عام انسانی اخلاق ہیں جو تمام بر اعظموں میں ہوں، مشرق ومغرب ہر جگہ لوگ اس پر متفق ہوں، اس موجودہ دنیا پر اسی کی حکومت ہو اور یہی اخلاق لوگوں میں ان متضاد اخلاق کی جگہ حاصل کریں جس نے ہمارے اس موجودہ دنیا کو تہذیب وتمدن کی خود کشی کی راہ پر لا کھڑا کیا ہے اور ہم اس اخلاق کریمانہ کو ادیان ومذاہب کے راستہ ہی سے تلاش کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ ہم خود مذاہب وادیان کے درمیان امن وسلامتی قائم کریں اور اس سلسلہ میں ایک مشہور کہاوت بھی ہے کہ دینی امن وسلامتی کے علاوہ دنیا میں امن وسلامتی قائم نہیں ہو سکتی ہے۔ اسی کہاوت کو زندہ کرنے کے لئے ازہر شریف نے یورپ کے بڑے دینی اداروں کا قصد کیا ہے کیونکہ یہ کہاوت کلی طور پر ازہر بلکہ اسلامی پیغام کے مطابق ہے۔ خاص طور پر ازہر نے سانٹ ایجیڈیو نامی اس ادارہ کا قصد کیا ہے جس کی طرف سے امن وسلامتی کا یہ کانفرنس منعقد کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ازہر نے اس سفر کا ارادہ اس وجہ سے کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ازہر اپنے اور تمام دیگر ادیان ومذاہب کے درمیان امن وسلامتی قائم کرنا چاہتا ہے اور اسی وجہ سے میں نے امن وسلامتی کے اس ملک اور اس شہر کا قصد کیا ہے۔

آپ تمامی حضرات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری گفتگو بحسن وخوبی سماعت کی ۔۔۔۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

احمد الطيب شيخ الازہر

19 ذوالحجہ 1438ھـ

8 ستمبر 2017 م

 

 

 

 

 

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.