اسلام ميں شہريت كا مفہوم ‏

  • | منگل, 17 اکتوبر, 2017
اسلام ميں شہريت كا مفہوم   ‏

شہريت در اصل ايك اسلامى اصطلاح ہے جو عہد نبوى ميں دستور مدينہ اور اس كے بعد ہونے والے  معاہدوں سے ماخوذ ہے جو مسلمانوں اور غير مسلموں كے تعلقات كو متعين كرتے ہيں، شہريت كوئى بيرونى يا در آمد حل نہيں ہے بلكہ يہ اسلامى نظام حكومت كا پہلا عملى قدم ہے جسے نبى كريم نے اپنے قائم كرده پہلے اسلامى معاشرے ميں نافذ فرمايا  اور وه مملكت مدينہ منوره تهى.

يہ عملى قدم  ايسى مختلف دينى انفراديت پر مبنى ہے جس پر مكمل بقائے باہمى اور مساوات كے بغير عمل كرنا ممكن نہيں، جس كى مثال دستور مدينہ كى نص ہے جس كے مطابق "اہل ايمان تمام دنيا كے ديگر لوگوں كے بالمقابل ايك عليحده امت يعنى قوميت ہيں" اور يہ كہ جو مسلمانوں كے حقوق ہيں وہى غير مسلمانوں كے حقوق ہيں اور جو مسلمانوں كى ذمہ دارياں ہيں وہى غير مسلمانوں كى ذمہ دارياں ہيں.

ان تمام امور كو مد نظر ركهتے ہوئے يہ كہا جاسكتا ہے كہ عربى اور اسلامى معاشره تنوع اور تعدد پر قائم ہے جس كے افراد كو ايك ساتھ زندگى گزارنے اور ايك دوسرے كو قبول كرنے كى دولت سے مالامال  ہونا چاہئيے-

"‎پرامن مذہبى بقائے باہمى" اسلام کا ايک بنيادى نظريہ ہے اور قرآن مجيد کى متعدد آيات نے اس نظريہ کى گوناگون ‏صورتوں ميں اور مكمل وضاحت  کے ساتھ تاکيد کى ہے، رسول پاك محمدﷺ پر ايمان نہ لانے كے باوجود، اسلام يہوديوں اور عيسائيوں كو اہل كتاب سمجتها ہے، كيونكہ اسلام رنگ، نسل، جنس يا مذہب كے اختلاف كو"خلاف" نہيں گردانتا، پس عقيده كے اختلاف كے باوجود اسلام كے رحمت، روادارى اور امن وسلامتى پر مبنى اصلاحى پہلوؤں نے  اس اختلاف  كو اپنى كامل اور جامع تعليمات كے اندر خوبصورتى سے سموليا ہے، يہاں تك كہ اسلام نے حضرت موسى عليه السلام اور حضرت عيسى عليه السلام پر ايمان  (يعنى ان كو نبى سمجهنا) ايمان كى درستگى كى دليل مانا  ہے.

دوسرے مذاہب كے ساتھ  پُر امن بقائے باہمى كا اہم  ترين  ثبوت يہ بهى  ہے كہ دين ِ اسلام نے مسلمان مرد كا  يہودى يا عيسائى عورت سے  نكاح  جائز  قرار دياہے

          اللہ تعالی کا فرمان ہے: (آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (الہامی) کتاب دی گئی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لیے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قید نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (احکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا) (المائده:5)

حقوق ومساوات اور شہريت كا مفہوم  اس بات كا مطالبہ كرتا ہے كہ ان  افعال  كى مذمت كى جائے جو شہريت كے اصولوں سے متعارض ہوں، اسلامى شريعت ايسے اعمال كا اعتراف نہيں كرتى جس كى بنياد مسلمان اور غير مسلمان كےدرميان فرق پر مبنى ہو ، اس كے نتيجے ميں حقارت وذلت اور دونظرى كے علاوه ظلم وستم كى مختلف صورتيں جيسے كہ قتل اور شہر بدر كرنا پيدا ہوتى ہيں جن سے اسلام تو كيا تمام دين و مذاہب براءت ظاہر كرتے ہيں

بلا شبہ كسى بهى ملك كے باشندوں كى زندگى ، انكى آزادى اور ملكيت، ان كے تمام شہرى حقوق، انكى انسانيت وعزت نفس اور زندگى كى حفاظت پہلے درجہ ميں ملك كا فريضہ ہے اور كسى بهى حال ميں ملك اس فريضہ كى ادائيگى سے سبكدوش نہيں ہو سكتا –

جديد اور قديم تاريخ كے صفحات اس بات كى گواه ہيں  كہ كسى ملك كى كمزورى اس كے  باشندوں كے حقوق  كےضائع ہونے كا سبب بنتى ہے ،   اسلئے ملكى ذمہ داريوں ميں سب  كو برابر كا  شريك ہونا  چاہيے   ، ہمارے معاشروں كو  بہت چلينجز كا سامنا ہے، ‏دین اور نسل کے نام پر بہت سا خون بہايا گيا اور بہت سا مال غارت كيا گيا ہے لہذا بہت ضرورى ہے كہ قومیت وشہریت کی ایسی ثقافت کا آغاز كيا جائے جس ميں  "اقلیت" جیسے لفظ کا كوئى وجود نہ  ہو اور اس بات كو اچهى طرح ذہن نشين كرليا جانا چاہيے كہ دين، مذہب،عقيده،  الله اور انسان كے درميان كا معاملہ ہے ، وہى اس كو پيدا كرنے والا ہے، وہى اس كى رگ رگ سے واقف ہے اور وہى اس كا حساب كتاب كرنے والا ہے ، جبكہ وطن  اور زمين ميں ہم سب  برابر كے شريك ہيں . لوگوں كے درميان اختلافات  الله كے وجود  كى نشانى ہے  ليكن ان  دينى، شكلى يا مذہبى اختلافات كو ہمارے ملك وقوم كى ترقى كى راه  ميں ركاوٹ ہرگز نہيں بننا چاہئيے، ایک ہى  قوم کے  باشندوں كے درمیان تفریق سے معاملہ صرف سنگین ہی نہیں بلکہ اس ملک کی تمام ترقی کی امیدوں اور آرزوؤں میں رکاوٹ پیدا ہوتى ہے ، آگے بڑهنے كے لئے ہميں ايك دوسرے كے اختلافات كے بجائے ايك دوسرى كى قوتوں اور طاقتوں پر نظر ركهنى ہوگى، ان سے استفاده حاصل كرنا ہوگا   كيونكہ  اسى طريقہ سے ہم  يہ ثابت كر  پائيں گے كہ ہم  " ايك بہترين امت ہيں" ( كنتم خير امة اخرجت للناس)  جس كا اولين مقصد زمين كى تعمير ہے ... تدمير  نہيں ....

Print
Tags:
Rate this article:
5.0

Please login or register to post comments.