بین الاقوامی ازہر کانفرنس برائے نصرت قدس کا اعلامیہ ‏

  • | جمعرات, 18 جنوری, 2018
بین الاقوامی ازہر کانفرنس برائے نصرت قدس کا اعلامیہ ‏

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عالم عرب و اسلام میں ازہر شریف کے فکری و روحانی حوالے، اور مختلف مسیحی حلقوں بلکہ تمام دنیا کے اصحاب حریت اور اہل دانش کے ہاں اپنے احترام و اعتماد کے پیش نظر، دینی و انسانی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوۓ، اور اس امانت کا پاس کرتے ہوۓ جسے ازہر اپنی شاندار تاریخ کی گیارہ صدیوں سے تھامے ہوۓ ہے؛ ازہر نے مسلم علماء کونسل کے تعاون، مصر کے صدر جناب عبدالفتاح السیسی کی زیر نگرانی اور فلسطینی صدر جناب محمود عباس کی موجودگی میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ازہر کانفرنس ہال میں بیت المقدس کی نصرت و مدد کے لئے ایک عالمی کانفرنس منعقد کروائی؛ جس کا ہدف اصحاب فکر و دانش، اہل مذہب و سیاست اور دنیا کے مختلف بر اعظموں کے 86 ممالک سے آۓ امن و سلامتی کے خواہاں افراد کا باہمی تبادلۂ خیال تھا، تاکہ بیت المقدس کی شناخت، فلسطینی عوام کی عزت و وقار ، ان کی سرزمین کی حفاظت اور قدس شریف کی عربی و روحانی پہچان کو محفوظ بنانے کے لئے نۓ اسالیب اور جدید طریقہ ہاۓ کار دریافت کرتے ہوۓ اس صہیونی تکبر اور زعم برتری کو لگام ڈالی جاۓ جو بین الاقوامی فیصلوں کو للکارتا ہے، اقوام عالم اور خاص طور پر چار ارب مسلمانوں اور عیسائیوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے؛ اور تاکہ ان امریکی فیصلوں کو بھی مسترد کیا جاۓ ، جن کے باعث ظالم صہیونی استعمار کی طرف واضح طور پر اس کا جھکاؤ ثابت ہوتا ہے۔

29 ربیع الثانی اور یکم جمادی الاول 1439 ھ  بمطابق 17، 18 جنوری 2018 ء کو دو روز پر مشتمل سیشنز ، باہمی بات چیت اور ورکشاپوں کے بعد " بین الاقوامی ازہر کانفرنس براۓ نصرت قدس " کا درج ذیل شقوں پر مشتمل اعلامیہ اتفاق راۓ سے جاری کیا گیا:

اول:

 بیت المقدس سے متعلق 20 نومبر 2011 ء کو جاری شدہ ازہر کی دستاویز کی یہ کانفرنس از سر نو توثیق کرتی ہے، جس میں بیت المقدس کی عربی شناخت اور تاریخی اعتبار سے اس کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقام ہونے پر زور دیا گیا تھا۔

دوم :

اس بات پر اصرار کہ بیت المقدس ہی فلسطینی ریاست کا دائمی دارالحکومت ہے، جس کے باقاعدہ رسمی اعلان، بین الاقوامی سطح پر اسے تسلیم کرنے اور بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں میں اس کی متحرک رکنیت کو قبول کرنے کے لئے سنجیدہ کردار ادا کرنا واحب ہے۔ بیت المقدس صرف کوئی مقبوضہ زمین یا کوئی فلسطینی یا عرب مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے؛ یہ ایک اسلامی و مسیحی مقدس مقام ہے، اور مسلمانوں اور عیسائیوں کا ایمانی مسئلہ ہے؛ اور جب مسلمان اور عیسائی مل کر اسے ظالم صہیونی قبضے سے آزاد کروانے کے لۓ جدوجہد کرتے ہیں تو وہ اس کے تقدس کو ثابت کر رہے ہوتے ہیں، اور تمام انسانی معاشروں کو اسے صہیونی استعمار سے چھڑانے کے لئے ترغیب دے رہے ہوتے ہیں۔

سوم :

بیت المقدس کی عرب شناخت کسی قسم کی تبدیلی اور چھیڑ چھاڑ کی متحمل نہیں ہے، یہ ہزاروں سالوں سے ایک تاریخی حقیقت ہے، جسے مسخ کرنے یا عرب اور مسلمانوں کے ضمیر و اذہان اور تاریخ سے مٹانے کی عالمی صہیونی کوششیں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گی؛ چنانچہ بیت المقدس کی عرب شناخت پچاس صدیوں پر محیط گہرے نقوش رکھتی ہے، کہ اسے قبل مسیح کے چوتھے ہزارے میں یبوسی عربوں نے یہودیت کے ظہور سے بہت قبل تعمیر کیا تھا، اور عبرانی وجود تو دسویں صدی قبل مسیح میں سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان علیھما السلام کے عہد میں 415 سال ہی اس شہر میں رہا ہے ؛ چنانچہ یہ عبرانی وجود تو بیت المقدس کی تاسیس کے تقریبا تیس صدیوں بعد پردۂ ظہور میں آکر معدوم بھی ہوجاتا ہے ۔

چہارم:

یہ کانفرنس حالیہ امریکی فیصلے کو سختی سے مسترد کرتی ہے، جس کی حیثیت مسلم و عرب دنیا اور تمام زندہ و آزاد قوموں کے نزدیک کاغذ پر بکھری سیاہی سے زیادہ نہیں ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کا کوئی  تاریخی، قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اقوام متحدہ کی قرادادیں تو صہیونی استعمار کو ناجائز قبضہ ختم کرنے کا پابند بناتی ہیں۔ اور یہ کانفرنس خبردار کرتی ہے کہ: اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو پوری دنیا میں تشدد اور انتہا پسندی کو نئی غذا مل جاۓ گی۔

 

پنجم:

فلسطین سے صہیونی استعمار کا قبضہ ختم کرنے کے لئے عرب اور بین الاقوامی ( اسلامی، عیسائی، یہودی ) ہر طرح کے تمام رسمی امکانات کو بروۓ کار لایا جاۓ۔

ششم:

یہ کانفرنس تمام اسلامی حکومتوں، عرب لیگ، تنظیم تعاون اسلامی، اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی کی تمام تنظیمات کو امریکی فیصلے کے نفاذ کو روکنے اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے حق میں ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف عالمی راۓ عامہ ہموار کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

ہفتم:

فلسطینی عوام کی بہادرانہ ثابت قدمی اور مسجد اقصی و بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین کے حق میں ان ظالمانہ فیصلوں کے خلاف ان کی تحریک انتفاضہ کی یہ کانفرنس مکمل حمایت کرتی ہے، اور اسی طرح بیت المقدس کے مسلم و مسیحی باہم تعاون اور ان ظالمانہ فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف ان کے ایک صف ہونے کو سلام پیش کرتی ہے۔ ہم انہیں اس کانفرنس کے ذریعے یقین دلاتے ہیں کہ ہم بیت المقدس کی آزادی تک ان کے ساتھ ہیں اور انہیں کبھی رسوا نہیں کریں گے۔

 

ہشتم:

یہ کانفرنس مسلم وعرب عوام اور دنیا کے تمام اصحاب حریت پر فخر کرتے ہوۓ انہیں امریکی کابینہ پر دباؤ جاری رکھنے کی دعوت دیتی ہے، تآنکہ وہ اپنے اس غیر قانونی فیصلے کو واپس لے لے۔ اور اسی طرح کانفرنس یورپین یونین اور ان تمام ممالک کے موقف کو سلام پیش کرتی ہے، جنہوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہوۓ بیت المقدس کے حق میں امریکہ کے ظالمانہ فیصلے کو مسترد کردیا۔

نہم:

الازہر یونیورسٹی اور اس کے تمام اداروں میں بیت المقدس سے متعلق پڑھایا جانے والا نصاب تشکیل دینے کے لۓ ازہر شریف  کے اس پہلے قدم کی کانفرنس مکمل حمایت کرتی ہے، تاکہ بچوں اور نوجوانوں میں مسئلہ فلسطین کی انگاری دہکتی رہے، اور ان کے ضمیروں میں یہ مسئلہ ہمیشہ جاگزیں رہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم و عرب ممالک سمیت  پوری دنیا کے تعلیمی اداروں اور تمام متحرک تنظیمات کو اسی طرح کا قدم اٹھانے کی دعوت دیتی ہے۔

 

دہم :

یہ کانفرنس دانشمند یہودیوں کو تاریخ سے عبرت  حاصل کرنے کی ترغیب دلاتی ہے، کہ سواۓ مسلم دور حکمرانی کے وہ جہاں بھی گۓ ظلم و زیادتی کا ہی شکار رہے؛ چنانچہ اس کے پیش نظر وہ ان تمام صہیونی سرگرمیوں کو بے نقاب کریں، جو سیدنا موسی علیہ السلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں، کہ انہوں نے کبھی بھی قتل و غارت ، اہل علاقہ کو نقل مکانی پر مجبور کرنے، دوسروں کا حق چھیننے، ان کی زمین غصب کرنے اور ان کے مقدس مقامات کو لوٹنے کی دعوت نہیں دی۔

 

 

گیارہویں:

2018 ء کو بیت المقدس کا سال قرار دینے کے لۓ یہ کانفرنس ازہر کی تجویز کی توثیق کرتی ہے۔ اور مختلف پس منظر رکھنے والے تمام عوامی اداروں کو بھی یہ قدم اٹھانے کی دعوت دیتی ہے، تاکہ مسئلہ قدس کو مختلف پہلؤوں کے ساتھ اٹھایا جاسکے۔

بارہویں:

یہ کانفرنس تمام بین الاقوامی اداروں اور تنظیمات کو ترغیب دیتے ہوۓ انہیں بیت المقدس کی قانونی حیثیت اور اس کی شناخت کو محفوظ بنانے سمیت وہ تمام تدابیر اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہے، جو فلسطینی عوام اور خاص طور پر بیت المقدس میں ثابت قدمی دکھانے والوں کی حمایت کرنے ، ان کے وسائل کو ترقی دینے اور ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضمانت دیں، جو فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دینے اور انہیں اپنے مذہبی شعائر ادا کرنے سے روکتی ہیں۔ اور اس ضمن میں مسلم و عرب دنیا کے اہل حل و عقد کو فلسطینی عوام کی  بایں طور حمایت کی ترغیب دی جاۓ کہ ان کے بیت المقدس میں بقاء و استحکام کو یقینی بنایا جاسکے ، اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا جاۓ کہ جس کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کو نقصان پہنچے، یا ظالم صہیونی استعمار کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال ہوجائیں۔

 

تیرہویں:

اس کانفرنس میں شریک معروف شخصیات اور اداروں کی ایسی کمیٹی تشکیل دی جاۓ جو تمام تجاویز کے نفاذ کی نگرانی کرے اور مسئلہ فلسطین اور خاص طور پر مسئلہ قدس کی حمایت کو جاری رکھتے ہوۓ اسے علاقائی اور بین الاقوامی ہر سطح پر اجاگر کرے۔

 

اللہ بیت المقدس کا حامی و ناصر ہو

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

28 جمادی الاول 1439ھ  بمطابق 18 جنوری 2018 ء کو ازہر کانفرنس ہال میں تحریر شدہ

 

ڈاکٹر احمد الطیب

شیخ الازہر و صدر مسلم علماء کونسل

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.