سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں تعلیم کا کردار

  • | منگل, 25 ستمبر, 2018
سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں تعلیم کا کردار

تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے۔  یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تعمیر اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقتدار کا خیال رکھ سکے۔

تعلیم اور امن وسلامتی

اسكول كسى بهى ملک کی حفاظت کیلئے نہایت ضروری ہیں، طلبہ کی بہترین تعلیمی رہنمائی کے ساتھ ان کی کردار سازی بھی اعلیٰ تعلیم کے اہداف کا ماحصل ہے۔ انسانی ذہن کو اگر بچپن ہی سے تعلیم و تہذیب کی اعلیٰ روایات کی تشکیل کی جانب مائل کر دیا جائے تو معاشرتی و سماجی امن و استحکام کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ یونیورسٹیوں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے نوجوانوں کو امن وآشتی کے اعلیٰ آدرشوں سے روشناس کرواتے ہوئے قومی سطح پر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کا فریضہ سنبھالیں اور اپنے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبہ میں امن و برداشت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اپنا بہترین کردار نبھائیں۔

تعلیمی  اداروں  کا کردار

        معاشرہ میں امن، برداشت، استحکام جیسے رویوں کو فروغ دینے کے لئے اگر یونیورسٹی سطح پر ہی بہتر اقدامات کا سہارا لیا جائے اور نوجوان طلبہ کے نوخیز ذہنوں کو توازن و برداشت کی اعلیٰ اقدار کا سبق سکھا دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبا وطالبات معاشرتی و سماجی سفیروں کا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی کا وسیع تر وسیلہ بن جائیں۔  ملک کی معاشی ترقی کے لئے بھی امن و استحکام کی از حد ضرورت ہے کیونکہ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کے لئے جہاں بہت سی شرائط کی ضرورت ہوتی ہے وہاں پر ایک بنیادی شرط ملکی امن بھی ہے۔

یونیورسٹیوں کا فرض صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم کی فراہمی ہی نہیں بلکہ علمی و سماجی رہنمائی کے ذریعے طلبہ کی ایسی ذہن سازی ہے جو انہیں سماجی و معاشرتی شعور سے بہرہ ور کرتے ہوئے انہیں انسانیت کی خدمت کی جانب مائل کر دے۔ مختلف موضوعات پر مکالمہ و مباحثہ کی موجودگی طبقاتی جنگ کو ختم کرنے اور دہشت گردی جیسے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ ہم آہنگی، برداشت، توازن، طبقاتی مساوات، بہتر روزگار ایسے عناصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کو جنت نظیر بنانے کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کا اولین فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت طلبہ کو ان اعلیٰ سماجی اقدار سے روشناس کروانے کی از حد كوشش کریں جو مستقبل میں ایک متوازن معاشرہ کی تشکیل کی خشت اول ثابت ہو۔

استاد  کا کردار

        بنیادی طور پر تعلیم کا مركز اور حقيقي بنياد استاد ہوتا ہے۔ استاد تبدیلی کی کلید ہے، اور تعلیم ایک پیغمبرانہ پیشہ، پہلے پہل معاشرے میں استاد کے بننے کا عمل اخلاقی معیار پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ جدید تعلیم میں، یہ تصور بالکل مختلف ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ استاد کو ایک پروجیکٹ مانا جائے اس کی تنظیم ایک کارخانے کے اصول پر ہو، لیکن جیسا استاد ہم چاہتے ہیں،  اسے تیار کرتے وقت ہم نے اسے ویسی صلاحیتوں سے لیس نہیں کیا۔ اس کی شخصیت میں توازن پیدا کرنے اور اسے عام افراد سے مختلف بنانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، اساتذہ تو اپنے طلبا و طالبات کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ صرف اساتذہ ہی ہیں جو طلبہ کے لئے احترام انسانیت کا عملی نمونہ بن کر ان کے کردار و شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

 

امن وسلامتی اور سماجی ہم آہنگی حاصل کرنے کے لئے تعلیم کا کردار

                تنوع ایک فطری امر ہے اور اس كو قبول كرنا لازم ہے۔ ہمیں افکار، نقطۂ نظر اور تعبیر کے تنوع کو بطور خاص پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور اساتذہ کہنے کی حد تک نہیں اپنے عمل سے اس حقیقت کو ثابت کریں۔ استاد پہلے خود فرقہ واریت کی سطح سے بلند ہو کر سوچے گا تبھی ایسا ممکن ہے۔  سماجی اور مذہبی جذبات میں توازن پیدا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ان دونوں معاملات میں آدمی بڑا احساس ہوتا ہے۔ رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے ان دونوں چیزوں پر خصوصی طور پر توجہ فرمائی۔ سورہ حجرات میں ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ  صلى الله عليه وسلم نے عقبہ بن معیط کو ایک قبیلے کے زكاة لینے کے لیے بھیجا، انھوں نے وہاں جاۓ بغیر کہہ دیا کہ انھوں نے انکار کر دیا ہے جس پر تجویز دی گئی کہ اس قبیلے پر حملہ کر دینا چاہیے۔   رسول اللہ نے فرمایا پہلے تحقیق کر لیں لیکن لوگ جذباتی تھے۔ آپ نے یہ طریقہ اپنایا کہ حضرت خالد بن ولید –رضی اللہ عنہ- کی سربراہی میں ایک لشکر تیار کر کے بھیجا اور فرمایا کہ پہلے تحقیق کر لینا۔ انھوں نے جا کر مشاہدہ کیا تو بات بر عکس نکلی، سردار نے کہا کہ ہم تو خود زكاة دینے کے لیے آرہے تھے اور خوفزدہ تھے کہ کہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں۔

        کسی بھی قوم کا ادب، اندازِ زندگی، طریقہ، معاشرت اور تعلیمی حالت اقوام عالم میں اس کی درجہ بندی کا سبب بنتے ہیں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کو بہتر معیار زندگی کے لوازمات سے فیض یاب کریں۔ ملک کی معاصر سماجی و معاشرتی فضا کے پیش نظر اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوان طلبہ کی ازسرنو ذہنی تشکیل کے لئے یونیورسٹی کورسز میں امن و استحکام اور سماجی و معاشرتی شعور کو بھی سلیبس کا حصہ بنائیں کیونکہ یہی نسل ہمارے قومی مسائل کا حل تلاش کرے گی۔ جامعات اصولاً کسی بھی سماج کے وہ رہنما ادارے ہیں جن میں ملک کی آئندہ قیادت کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ استاد کا فریضہ ہے کہ اس کے طالب علموں کے ذہنوں میں معاشرتی امن اور سماجی استحکام جیسے اعلیٰ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے مثالی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ وہ نہ صرف اپنی زندگیاں سنوارنے کے قابل ہوں بلکہ سماجی سفیر کی حیثیت سے اپنے ساتھی انسانوں کی زندگیوں کو بھی آسان بنا سکیں۔

 

 

Print
Tags:
Rate this article:
4.0

Please login or register to post comments.