فضيلتِ مآب امامِ اكبر شيخ الازہر پروفيسر ڈاكٹر احمد الطيب كا "اوراسیا" یونیورسٹی ميں خطاب

  • | منگل, 9 اکتوبر, 2018
فضيلتِ مآب امامِ اكبر شيخ الازہر پروفيسر ڈاكٹر احمد الطيب كا "اوراسیا" یونیورسٹی ميں خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وبارک علیہ و علی آلہ و صحبہ ۔۔۔وبعد۔

عزت مآب پروفیسر ڈاکٹر یارلان باتا شیفیتش سیدیکون۔

صدر جومیلویف اوراسیہ نیشنل یونیورسٹی

تعلیمی سٹاف کے معزز اراکین ۔

میرے بیٹے اور میری بیٹیاں طلبہ و طالبات ۔

قابل احترام خواتین وحضرات!

حاضرین محترم !

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

                 مجھے خوشى ہےکہ میں آپ کے سامنے اپنی گفتگو کا آغاز آپ کی پر وقار یونیورسٹی کے صدر، اساتذہ، طلبہ و طالبات، اور کارکنان کا شکریہ ادا کرنے سے کروں کہ آپ نے مجھے اس نوعہد یونیورسٹی کے دورے کی دعوت دی جس نے اس علاقے کی عوام کی بہت سی امیدوں اور خوابوں کو پورا کرنے کے وعدہ کى تحقيق كرنے والی ہے کہ اس یونیورسٹی کے اندر تعلیم، علم و ثقافت اور مختلف فنون میں دنیا کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے درمیاں اپنا موزوں مقام حاصل کرے گی، آپ کی یہ نوعہد "اوراسیا یونیورسٹی" جس کو ابھی چار سال بھی مکمل نہیں ہوئے کہ اس نے یورپی اور علاقائی یونیورسٹیوں کی کئی تنظیموں، اور کئی ہائیر ایجوکیشن اکیڈمیز اور بین الاقوامی اداروں کی رکنیت حاصل کر لی ہے ۔

                 بلاشبہ ان مضبوط اور پختہ تعلیمی اقدامات کے پس پردہ اعلی اور عمدہ تعلیم اور بیدار مغز عقلیں ہیں جو دن رات ان کے بارے میں غوروفکر کرکے ان کو نافذ کرتی ہیں ۔

                یہی وہ قابل قدر کوشش ہے جس کی ہماری مسلم عوام کو ضرورت ہے اور جس كا انتظار انہیں یونیورسٹی اور اس سے قبل تعلیمی مرحلہ سے نکلنے والے اپنے نوجوان علماء، معلمین، مفکرین، ادباء اور صحافیوں سے ہے ۔

             اور یہ کوئی مشکل اور دوررس کام نہیں جب اس کے لئے تبدیلی کی وہ شرائط پائی جائیں جن کو قرآن کریم نے اپنے اس قول میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے: (إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ) (خدا اس (نعمت) کو جو کسی قوم کو (حاصل) ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔) [سورت الرعد: آیت نمبر 11]۔

                یہ آیت کریمہ ہر اس چیز کے بارے میں ایک عام قانون ہے جس میں تبدیلی کا ارادہ کیا جاتا ہے بلکہ یہ ہر اس کوشش کی کامیابی کے لئے قانون ہے جو ترقی و خوشحالی کی راہ میں کی جاتی ہے۔۔ باوجود اس کے کہ ہم اس قانون کو زبانی یاد کرتے ہیں اور ہماری اولاد اپنے مختلف تعلیمی مراحل میں اس کا ورد کرتی ہے مگر اکثر اوقات اس کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنا اور اور کو حقیقیت کی دنیا میں نافذ کرنا ہمارے لئے مشکل ہوتا ہے ۔

                 روز بروز ترقی کرتی ہوئی اس یونیورسٹی کو ہمارا دلی سلام، اس کے دامن میں ہمتوں اور ارادوں کو جوان کرنے والوں اور اس کی عقلوں کو تیار کرنے والوں کی عظمت کو بھی ہماری طرف سے سلام ۔

میرے بیٹوں اور میری بیٹیوں طلبہ و طالبات !

                آپ کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی اگر میں کہوں کہ اسلام یعنی قرآن، سنت اور اسلامی تہذیب نے عقل اور علم کا کتنا اہتمام کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ میری طرح اچھی طرح یاد ہو، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں علم و معرفت اور سلوک کے لحاظ سے اسلامی تہذیب کے عمومی دائرہ کار کے بارے میں آپ سے گفتگو کروں اور وہ دائرہ کار ایک متساوی الاضلاع مثلث سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ اضلاع وحی الہی جس سے انسانی عقل کو مخاطب کیا گیا ہے، اور وحی کی تعلیمات سے منضبط غوروفکر کرنے والی عقل اور اخلاق ہیں جو کہ حسن و قبیح چیز کے درمیان انتہائی دقیق فرق کرتے ہیں۔

               اس تین رکنی لڑی میں جہاں تک وحی کا تعلق ہے تو یہ قطعی خداوندی نصوص ہیں اور یہ قرآن کریم کی نصوص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول قطعی طور پر ثابت شدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی ہیں جو ان تمام شرعی احکامات، تعلیمات اور توجیہات کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں جن کو پہنچانے کا اللہ نے ان کو حکم دیا ہے۔

                یہاں عقل آ کر مکلف بننے، خطاب الہی کو سمجھنے اور اس کے منطوق و مفہوم کی پابندی کرنے میں شرط اول کا کردار ادا کرتی ہے۔

                قرآن کریم نے انسان کو خطاب کرنے اور ہر وہ شخص جس کے پاس سمجھنے اور مکالمہ کرنے کی اہلیت ہے، اس سے مکالمہ کرنے اور اس سے سمجھنے سمجھانے پر مکمل انحصار کیا ہے۔

               قرآن کے صفحات پر ایک طائرانہ نظر ہی اس عظیم مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لئے کافی ہے جو اس نے عقل اور اس کی معرفتی سرگرمیوں کو عطا کی ہے، خواہ وہ اس کی فراست کی بناء پر ہو یا استدلال و استنباط کی بناء پر ۔لفظ عقل، اس سے مشتق ہونے والے الفاظ اور غوروفکر پر دلالت کرنے میں اس کے مترادف الفاظ، خبردار کرنے کے لئے ایک سو بیس سے زیادہ مرتبہ قرآن کی آیات میں ذکر ہوئے ہیں جیسا کہ یعلمون، یعقلون، یتدبرون، یفکرون، ینظرون، یسمعون، یفقہون وغیرہ اور یہ اس دقیق فرق کے علاوہ ہے جو ہم علم- جو کہ ایسا یقین ہے جو نقیض کو قبول نہیں کرتا- اور ظن، شک اور ارتیاب کے مرتبہ کے درمیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی جو علم اور ظن کے درمیان آمیزش کرتے ہیں اورفرمایا : (ومالہم بہ من علم ان یتبعون الا الظن و ان الظن لا یغنی من الحق شیئا ٭ فاعرض عن من تولی عن ذکرنا ولم یرد الا الحیاۃ الدنیا ٭ ذلک مبلغہم من العلم ان ربک ہو اعلم بمن ضل عن سبیلہ وھو اعلم بمن اھتدی) (حالانکہ ان کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ وہ صرف ظن پر چلتے ہیں۔ اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا* تو جو ہماری یاد سے روگردانی اور صرف دنیا ہی کی زندگی کا خواہاں ہو اس سے تم بھی منہ پھیر لو* ان کے علم کی انتہا یہی ہے۔ تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور اس سے بھی خوب واقف ہے جو رستے پر چلا) [سورت النجم، آیت نمبر 28-30]۔

                 جہاں تک اس دائرہ کار کے تیسرے پہلو کا تعلق ہے تو وہ اخلاق کا پہلو ہے جو سلوک، عمل، شخصی، خاندانی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے منسلک ہے ۔

                حاضرین محترم! میں آپ حضرات کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس تیسرے پہلو کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے دو باتیں بیان کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں ۔

  • پہلی بات:اسلام میں اخلاقی حکم ایک ثابت شدہ حکم ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا اورحتی کے مادی امور اور حسی معاملات میں بھی معاییر اور موازین کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کیونکہ ملاوٹ، دھوکہ بازی اور جھوٹ یہ سارے کے سارے گھٹیا اخلاق ہیں جو پیمانوں میں کمی بیشی اور اصولوں میں تذبذب کے مرہون منت ہیں، خواہ موزونی چیز کوئی حسی چیز ہو یا صرف عقلی، اور یہ چیز اس بات کو لازم کرتی ہے کہ اخلاقی قواعد ہی تہذیبی تحریک پر مسلط اور تاریخ کے دھارے کو درست کرنے والے ہوں ۔ " اسی وجہ سے یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ مسلمانوں پر ایسا وقت بھی آئے گا جس میں وہ دوسرے پر مسلط ہونگے، اس کے قتل اور اس کو دوسرے شخص کے ارادے کے تابع کرنے کو جائز قرار دیں گے، اسلامی اخلاق میں اچھا فعل آخری زمانے تک ہر قسم کے حالات و واقعات میں اچھا ہی ہے اور اسی طرح برا فعل آخری زمانے تک برا ہی ہے "۔
  • دوسری بات : بلاشبہ اخلاق ہی اسلام میں عبادات کی بنیاد ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں عبادات اخلاق سے مستغنی نہیں ہیں خواہ عابد ان عبادات کی پابندی کرنے اور ان کی ادائیگی میں سختی کرنے میں کسی بھی مقام پر پہنچ جائے، اس میں عجیب بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کی مختلف شکل و صورت میں عبادات تیز آندھی کی نظر ہو جاتی ہیں جب انہیں عملی اخلاق کے فضائل کا سہارا حاصل نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا : «فلان عورت رات کو قیام کرتی ہے، دن کو روزہ رکھتی ہے اور اپنے پڑوس والوں کو اپنی زبان سے اذیت دیتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، یہ جہنم میں ہے، انہوں نے کہا اور فلان عورت فرض نماز ادا کرتی ہے، ضیافت کے کھانے کا صدقہ کرتی ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چیز نہیں اور وہ کسی کو بھی اذیت نہیں دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جنت میں ہے »اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: «مومن تو محبت و الفت پیدا کرتا ہے اور اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ تو الفت و محبت پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اس سے الفت و محبت کی جاتی ہے» آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: «بیشک بندہ اپنے حسن اخلاق سے آخرت کے بلند درجات اور اعلی منازل تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہے اور وہ اپنے برے اخلاق سے جہنم کے سب سے نچلے درجے تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ وہ عابد ہے»۔

معزز حاضرین کرام!

                 حضرات گرامی! آپ جانتے ہیں کہ عبادت کے لئے ایک جامع مسجد اور علوم و معارف کے لئے ایک یونیورسٹی ہونے کی حیثیت سے ازہر شریف کی تاریخ سن972عیسوی تک لوٹتی ہے یعنی اس کے جنم کو ایک ہزار اور چھیالیس سال ہوچکے ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے سارے تعلیمی مناہج اس دائرہ کا ر کے اندر تیار کئے گئے ہیں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اور یہ علوم النص، علوم العقل اور علوم الذوق کےمطالعہ کے گرد گھومتے ہیں۔

  • علوم النص: یہ وجود میں آنے والے وہ تمام علوم ہیں جو قرآن کریم کی نص اور سنت نبوی کی نصوص کے گرد گھومتے ہیں جیساکہ تفسیر، علوم القرآن، حدیث، علوم حدیث، فقہ، اصول فقہ، علوم السیرہ، اصول العقیدہ اور اس کے بنیادی مسائل۔
  • جہاں تک علم العقل کا تعلق ہے تو یہ علم الکلام اور علم الفلسفہ کے مختلف مدارس اور عہدوں کا مطالعہ، علم المنطق، ادب البحث، مناظرہ، علم الجدل، الخلاف، المنطق الحدیث اور مناہج البحث وغیرہ ہے۔
  • علوم الذوق سے مراد اسلامی تصوف کا اس کے مختلف مدارس اور اس کے متعدد مشارب کا علم ہے، اور یہ بذات خود اخلاق، آداب اور فضائل کا ایک علم ہے۔

                 اس طرح ازہر میں تعلیمی منہج اسلام کی روح، اس کی وسطیت اور اس کی عقلی اور نقلی تراث کی خاصیت کا سچا اور امانتدار ترجمان ہے۔

                اس بات كى طرف اشاره كرنا ضرورى ہے کہ علو م التراث میں تعلیمی طریقہ کار اگرچہ شرح اور وضاحت کرنے پر ہی انحصار کرتا ہے مگر یہ باہمی مکالمہ اور تبادلہ آراء اور بلا استثناء تمام علوم میں اختلاف مذاہب کے احترام کے منہج پر قائم ہے جو کہ بچپن سے ہی ازہری طالب علم کے ذہن میں اختلاف اور مختلف آراء کو فہم نص کے اجتہادات سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ مساوات کے بناء پر پیش آنے کی مشروعیت پختہ ہو جاتی ہے ۔۔ اور کسی مذہب یا رائے کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے مذاہب پر غالب آ جائے یا ان کو دور کر دے جب تک اس کی کوئی شرعی سند یا عقلی دلیل موجود ہے ۔۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے : ( اختلافہم رحمۃ ) ان کا اختلاف رحمت ہے یعنی دین و دنیا میں لوگوں کے لئے آسانی ہے ۔۔ امام شاطبی نے اپنی کتاب الموافقات میں خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کا قول نقل کیا ہے : میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ صحابہ نے اختلاف نہیں کیا کیونکہ اگر ان کا (کسی مسئلہ میں) ایک ہی قول ہوتا تو لوگ ضرور مشقت و تنگی میں ہوتے، یہ وہ آئمہ ہیں جن کی اقتداء کی جاتی ہے اگر کسی نے بھی ان میں سے کسی کے قول کو بھی لے لیا تو وہ آسانی میں ہے۔

               اسی وجہ سے ازہر شریف کے طلبہ متشدد فکر کے پنجوں کا شکار ہونے سے سب سے زیادہ دور اور ان مسلحہ جماعتوں کے سب سے زیادہ مخالف ہیں جو لوگوں کو اس دین حنیف کے نام اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قتل کرتی ہیں جس کو اللہ تعالی نے انسان، حیوان، بناتات اور جمادات میں سے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ۔

معزز حاضرین کرام!

                   میرا اس پیارے ملک کا یہ دورہ جس کا آغاز میں آج آپ کی اعلی سطح کی علمی ملاقات سے کر رہا ہوں، یہ میرے حافظہ میں علمی اور لغوی تعلقات کو تازہ کر رہا ہے جن کی وجہ سے میری عقل اور میری زبان اس وقت سے کازاخستان اور اس کے گردونواح کی سرزمین کے ساتھ مربوط ہے جب میں پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی میں ازہر شریف میں فیکلٹی آف اصول الدین کے شعبہ العقیدہ و الفلسفہ کا طالب علم تھا، میں نے اسلامی فلسفہ میں اپنی پڑھائی کا آغاز عرب کے فیلسوف الکندی اور پھر آپکے بیٹے، کازاخستان کے بیٹے، اسلامی فلسفی، معلم ثانی ابونصر الفارابی سے کیا جو کہ صوبہ فاراب میں 260ھ/874م میں پیدا ہوئے اور وہ صرف فیلسوف اسلام ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عالمی سطح کے فیلسوف تھے، ابھی تک مشرق و مغرب کی یونیورسٹیاں ان کے فلسفہ اور تراث کو اس کے تمام سیاسی، معاشرتی اور میتافیزیقیۃ پہلو ؤں سے اور ان کی موسیقی کی ایجادات وغیرہ کو پڑھاتی ہے، مادیت سے کنارہ کشی اور زہد میں حد سے تجاوز کی ہوئی ان کی سادہ سی زندگی آج تک زاہدوں کے لئے دہشت اور عارفین کے لئے تعجب کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ تاریخ میں ایک اور فارابی ہے اور ہو سکتا ہے وہ معلم ثانی کا ہم عصر ہو اور وہ ابو ابراہیم اسحاق الفارابی ہیں جو"دیوان الادب " کے مصنف ہیں جس میں انہوں نے ایک مخصوص منہج اختیار کیا ہے جو ان سے پہلے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا جس نے اس کو پہلی عربی ڈکشنری کا درجہ دیا ہے جو حروف کی ساخت کے لحاظ سے مرتب ہے اور یہ ابھی ہی قاہرہ میں چارجلدوں میں طبع ہوئی ہے اور یہ ماہر لسانیات علامہ، علامہ الجوھری اسماعیل بن حماد کے ماموں ہیں جو فاران کے ایک عالم ہیں، اورمعجم الصحاح کے مصنف ہیں عربی زبان کا کوئی بھی ادیب یا رائٹر اس کی طرف رجوع کرنے سے مستغنی نہیں ہے۔۔

                 یہ آئمہ کرام اسلامی فکر کے قافلوں کے سپہ سالار ہیں جن کی اصل تعداد جاننا مشکل ہے، کےصرف چند نمونے ہیں جنہوں نے کازاخستان میں جنم لیا اور علم و فکر کی روشنیوں کو سارے اسلامی ممالک میں پھیلا دیا، ان کے سبقت لے جانے کی وجہ سے کازاخستان اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ مسلم عقل اور عربی زبان کی ایک بنیادی آگوش ہے۔

                 ازہر شریف اپنے دامن میں پڑھنے کے لئے کازاخستان کے بیٹوں کے لئے اپنے دروازے کھول رہا ہے، وہ اس تاریخ اور اس اولویت کو ملحوظ نظر رکھتا ہے اور ان کو جاری و ساری رکھنے کی خواہش رکھتا ہے ۔

معزز حضرات!

               آپ کی عظیم یونیورسٹی جو مجھے عزت و اکرام کے طور پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے رہی ہے، یہ درحقیقت نہ صرف جامع مسجد ازہر ، ازہر یونیورسٹی، اس کے اساتذہ اور طلبہ کی عزت و توقیر کر رہی ہے بلکہ مشرق ومغرب میں مسلمانوں کی عزت و توقیر کر رہی ہے اور اسلام کے صحیح اصول ومبادی کو پھیلانے میں ازہر کے عالمی پیغام کی طرف نگاہ کو متوجہ کر رہی ہے جو کہ امن و سلامتی، انسانی بھائی چارے، دوسروں کے احترام اور ان کو قبول کرنے پر قائم ہے خواہ جو بھی ان کا عقیدہ ہو اور جو بھی ان کا رنگ، جنس یا زبان ہو، سب اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں، لوگ کنگھی کے دانتوں کی طرح برابر ہیں جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی اور جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا: بیشک تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، خبردار کسی عربی کو کسی اعجمی پر، کسی اعجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ والے پر اور کسی کالے رنگ والے کو کسی سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقوی کی بناء پر، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہے۔

             اور جو دین اس اصول پر قائم ہے اس کے بارے میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ وہ خون ریزی، قتل و غارت، دھماکہ خیزی اوردھوکے سے قتل کرنے کا دین ہے، یہ بھیانک جرائم اللہ اور اس کے رسول سے خیانت، اسلام اور مسلمانوں پر جھوٹ، افتراء پردازی اور کھلا ظلم ہے۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.