تعاون كى قيمت

  • | منگل, 13 نومبر, 2018
تعاون كى قيمت

                   "ايك ہاتھ سے تالى نہيں بجتى"، ايك نامور ضرب المثل ہے جو كہاوتيں عام طور پر زندگى كے تجربوں كے خلاصہ كو بيان كرتى ہيں، جسے انسان اپنى زندگى كے مختلف مراحل ميں حاصل كرتا ہے. اس ضرب مثل كا مطلب ہے كہ كسى بهى مقصد كو  پورا كرنے كے لئے لوگوں كے ما بين تعاون كى ضرورت ہے كيونكہ ايك فرد تن تنہا اس كو مكمل طور پر پورا نہيں كر سكتا ہے جيسا كہ ايك ہاتھ سے تالى اس وقت تك نہيں بجائى جا سكتى جب تك كہ دوسرا ہاتھ نہ استعمال كيا جائے۔

                 اگر لوگ زندگى كے معاملات ميں ايك دوسرے سے تعاون نہ كريں تو وه نہ كها سكتے  ہيں نہ پى سكتے ہيں، نہ پہن سكتے ہيں نہ ره سكتے ہيں، اور نہ وه  دنيا كى كسى نعمت سے لطف اندوز ہو سكتے ہيں، مثال كے طور پر ہمارا كهانا ہم تك كتنے لوگوں كى قربانيوں اور كتنے لوگوں كے ہاتھوں  كى كوششوں اور كاوشوں كے نتيجہ ميں پہنچتا ہے اور مختلف اجزاء وعناصر نے اس كے لئے تعاون كا مظاہره بهى كيا ہے. يعنى اگر وه لوگ تعاون نہ كرتے تو زندگى شل ہو جاتى اور مكمل طور پر رك جاتى، اسى وجہ سے قرآن كريم نے ہميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كرنے پر ابهارا ہے (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) "نيكى اور پر ہيز گارى ميں ايك دوسرے كى امداد كرتے رہو اور گناه اور ظلم وزيادتى ميں مدد نہ كرو" (سورۂ مائده: 2)

                  اس آيت كريمہ نے اشاره كيا ہے كہ تعاون كى دو قسميں ہيں، ايك وه تعاون جو مطلوب ہے يعنى خير كے وه تمام راستے جس ميں فرد اور جماعت دونوں كا فائده ہو، اور جہاں تك دوسرے قسم كے تعاون كى بات ہے تو وه نا قابل قبول ہے كيونكہ اس سے گناه اور شروفساد كے راستے ميں تعاون مراد ہے، پس پہلى قسم مطلوب اور قابل ِ قبول ہے كيونكہ وه بناتى اور تعمير كرتى ہے جبكہ دوسرى قسم غير مقبول ہے كيونكہ وه ہلاكت وبربادى اور تخريب كارى كا سبب بنتى ہے۔  ليكن بہت افسوس ہے كہ ہم ان تجربوں كى اپنى عملى زندگى كے بہت سے شعبوں ميں تطبيق نہيں كرتے، اس كى وجہ يہ ہے كہ ہمارے دلوں پر انانيت اور خود غرضى كا غلبہ ہے، اور يہى چيز بہت سے لوگوں كو دوسروں كے حق كى ادائيگى سے بهى باز ركهتى ہے، اگر ايك جيسى كوششيں ايك ساتھ كى جائيں تو بہت زياده وقت محنت اور مال كى فراہمى ممكن ہو سكتى ہے، اور زياده بہتر نتائج حاصل كئے جاسكتے ہيں جس كى وجہ سے بحث وتحقيق اور جدت ميں اضافہ ہو سكتا ہے۔

                  تعاون جس طرح  افراد كے مابين ہوتا ہے بالكل اسى طرح ملكوں اور قوموں كے درميان  بهى ہوتا ہے، ليكن ہمارا عالم عرب اور عالمِ اسلام اپنى خداداد  زبردست فطرى ذخيروں كے باوجود كمزور اور ناتواں ہے، تعليم وتربيت اور صناعت وحرفت  كے ميدان  ميں دوسروں   كا  محتاج ہے، سائنس وٹيكنالاجى ميں دوسروں كے تابع ہے، تہذيب وثقافت  كى دنيا ميں بهى  دوسروں كے رحم وكرم پر چلتا  ہے،  دراصل ان تمام  كمزورىوں كى اصل وجہ  خود غرضى اور لاپر واہى كى بيمارى ہے، جبكہ باہمى تعاون غير معمولى طاقت وقوت كا سبب بن سكتا ہے ، جس كے نتيجے ميں لوگ ان كا احترام كرنے، ان كى باتوں كو سننے اور ان كے انصاف  پسند مطالبوں كے پورا كرنے پر مجبور  ہوں گے۔

                  كسى كمى ، بيمارى يا  عيب كو دور كرنے كے لئے ذاتى تنقيد ومحاسبہ ہى صحيح آغاز ہے، اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ہم اپنے دلوں ميں مايوسى اور نا اميدى كو جنم ديں، ہمارى اميد قوم وملت كے عقلمندوں اور دانشوروں سے وابستہ ہے كہ وه نئے آغاز اور حالات كى حقيقى تبديلى كے لئے ذہنوں كو منور اور عقلوں كوبيدار كر نے ميں كامياب ہوں- كيونكہ عقلوں كى روشنى   ہى وه واحد مصدر ہے جس كے ذريعہ انسان  اس دنيا  ميں ثابت قدموں سے چل سكتا ہے اور مل كر چلنے ہى سے انسان كاميابى كى حقيقى منزليں طے كرنے ميں كامياب ہو سكتا ہے۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.