حقيقى ديندارى كيا ہے؟‏

  • | پير, 19 نومبر, 2018
حقيقى ديندارى كيا ہے؟‏

                    دينِ اسلام نے دنياوى زندگى اور معاشرے سے عليحدگى اور خلوت نشينى كى دعوت نہ دى ہے اور نہ ہى دے گا، بلكہ "اسلام تو  ايك مكمل نظامِ حيات ہے" يہ صرف دين كے نام ليواؤں كا نعره ہى نہيں بلكہ يہ زندگى كے تمام پہلووں ميں ترقى وعروج كا نظامِ عمل ہے، البتہ ضرورت اس بات كى ہے كہ دين كوہى ہمت وقوت كا محرك وباعث اور ترقى كا سبب بنايا جائے۔

                  وه لوگ جو صرف ظاہرى وضع قطع كو دين سمجهتے ہيں انہيں يہ ادراك وشعور حاصل نہيں ہوتا، كيونكہ ان كے نزديك دين (فقط) ظاہرى رسومات كے مجموعے كا نام ہے،  وه  اپنى اور دوسروں كى ديندارى كو بعض ظاہرى چيزوں پر ہى قياس كرتے ہيں، جيسے بعض كےنزديك داڑهى كى لمبائى، كپڑوں كى (گھٹنوں تك) اونچائى، مسواك كى پابندى، تسبيح كى لمبائى، نيكى ميں تصنع، لين دين اور كلام ميں تكلف، اور دوران  گفتگو مناسب وغير مناسب موقعوں پر كثرت سے اسمِ جلالت (الله) استعمال كرنے كا نام تقوى ہے۔

                   ہمارا دين معاشرے ميں دوسرے لوگوں كے ساتھ اچهے تعلقات  استوار كرنے كى تلقين ديتا   ہے ،  دينى اقدار كا  حقيقى اثر مارى روز مره زندگى كے معاملات وسلوك، ترقى وبہبود، علم كى حوصلہ افزائى اور لوگوں كى عملى زندگى ميں ظاہر ہونا چاہيے، جن لوگوں  نے دين كو بغير روح كے جسم اور بغير مفہوم كے الفاظ بناركها ہے،  وه ان چيزوں پر توجہ نہيں ديتے، حقيقت تو يہ ہے كہ   ہمارا اصل دين   ظاہرى شكل وصورت كى زياده پر واه نہيں كرتا اور نہ ہى مظاہر پر اعتماد كرتا ہے، حديث نبوى ؐ ہے: كہ الله تعالى تمہارى شكلوں اور صورتوں كو نہيں ديكهتا بلكہ وه تمہارے دلوں اور اعمال كو ديكهتا ہے"۔

                  تو تقوى كا مقام ومحل "دل" ہے، (ايك دفعہ) حضرت عمر نے ايك شخص كوعبادت ميں انتہائى تذلل كا مظاہره كرتے ديكها تو اسے اپنے درّے سے مارا اور فرمايا: "الله تمہيں ہلاك كرے ہمارے دين كو مرده مت بناؤ"، نبى كريم ؐ نے واضح طور پر تاكيد كرتے ہوئے فرمايا: اعمال كا دار ومدار نيتوں پر ہے اور بے شك ہر شخص كيلئے وہى (چيز) ہے جس كى اس نے نيت كى..."۔ لہذا ظاہرى شكل وصورت كى وجہ سے لوگوں پر نيك ومتقى ہونے يا نہ ہونے كا حكم لگانے كى خود دين اسلام ميں كوئى صحيح سند يا اصل نہيں ہے، اسلام نے ديندارى اور بے دينى ميں فرق كيلئے كسى بهى معين يا مخصوص قسم كے لباس كو لازم قرار نہيں ديا۔ وه مرد وعورت دونوں سے فقط حياء اور تميز كا تقاضا كرتا ہے۔ ہاں نبى كريم ؐ كى كچھ سنتيں ہيں جن ميں سے بعض عبادات اور بعض عادات شمار ہوتى ہيں، جو سنتيں عادات ميں شامل ہيں ان كى مكمل پيروى كرنا ہم پر  لازم نہيں ہے، جيسے كهانے پينے، لباس اور رہائش كى عادات ہيں، رسول كريم ؐ فرماتے ہيں: "(حلال چيزوں ميں سے) جو چاہو كهاؤ اور جو (پاك لباس) پسند ہو وه زيبِ تن كرو" جب تك كہ اس ميں فضول خرچى اور بڑائى نہ ہو۔

                 دين عقيده، شريعت، اخلاق اور ثقافت ہے، اور دين كا يہى جامع فہم وشعور اس عبارت (الدين للحياة)  كا مقصد ہے كہ "دين ايك مكمل نظامِ حيات ہے" اگر كسى شخص كو دين كا يہ فہم حاصل ہو، تو وه حقيقى ديندار ہے،  اور اگر لوگوں ميں دين كا يہ ادراك وشعور نہ ہو يا ان ميں سے بعض عناصر تك محدود ہو، تو ان كا دين محدود  اور ناقص ہے، اور انہيں چاہئے كہ وه اس (چيز) سے بچتے ہوئے، عملى ونظرياتى كمى اور نقص كى تلافى كريں، حقيقى ديندارى اعلى اقدار  پر مشتمل ايك مكمل  نظام ہے، اس كائنات ميں اخلاق وسلوك كى درستگى كيلئے انسان كے تمام تعلقات كى تين قسميں ہيں۔

                 اول: انسان كا اپنى ذات سے تعلق، كہ وه برى عادات كو ترك كرے اور اپنے آپ كو اچهے اخلاق سے آراستہ كرے، اس بارے ميں ارشاد بارى ہے (وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (8) قَدْ أَفْلَحَ  مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ  مَنْ دَسَّاهَا): "قسم ہے نفس كى اور اسے درست بنانے كى (8) پهر سمجھ دى اس كو بد كارى كى اور بچ كر چلنے كى (9) جس نے اسے پاك كيا وه كامياب ہوا (10) اور جس نے اسے خاك ميں ملا ديا وه نا كام ہوا" (سورۂ شمس: 7- 10)۔

                 دوم: انسان كا الله تعالى سے تعلق، يہ تعلق بندے اور اس كے رب كے ما بين ايك راز ہوتا ہے، جس كى حقيقت صرف الله تعالى كو معلوم ہوتى ہے، ليكن يہ صحيح معنوں ميں دين كى پابندى، يعنى دين كے جوہر اور دنيا وآخرت كى سعادت پر مبنى تعليمات پر عمل كرنے سے واضح ہوجاتاہے- چنانچہ اگر انسان كا اپنى ذات اور الله تعالى سے تعلق صحيح ہو، تو پهر جو تيسرى قسم يعنى لوگوں سے تعلقات ہيں، ان ميں اس كا مثبت عكس ظاہر ہوتا ہے- اسى لئے كہاگيا ہے: "الدين المعاملة" كہ دين (انسان كے اچهے) معاملات (سے عبارت) ہے۔ خواه  وه معاملہ اس كا اپنى ذات يا اپنے رب يا لوگوں كے ساتھ ہو۔ يہ تينوں دائرے ايك دوسرے سے باہم مربوط ہيں، اور يہ سب دين ميں شامل ہيں، اور اسى كو دلوں اور عقلوں ميں راسخ ہونا چاہئے، تاكہ لوگوں كو سكون فراہم كرنے كيلئے وه پورى زندگى ميں بهلائى كو قائم كريں اور ہر جگہ امن ومحبت كو عام كريں۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.