رنگ ونسل، عقائد ونظريات اور زبانوں كے اختلاف كے با وجود انسانى اعتبار سے سب لوگ برابر ہيں، كيونكہ سب كى اصل ايك ہے، سب ہى حضرت آدم اور حضرت حواء عليہما السلام كى اولاد ہيں چنانچہ كسى فرد كو دوسرے فرد اور نسل كود وسرى نسل پر برترى وبڑائى كى كوئى معقول وجہ نہيں، كيونكہ در حقيقت بنى آدم كے درميان كوئى جوہرى فرق نہيں ليكن بمقتضائے حال تہذيبى ومعاشرتى يا عموما مادى سطح پر فرق ضرور ہے اور ان امور كا بشرى اعتبار سے انسان كے جوہر سے كوئى تعلق نہيں۔
لوگوں كے ايك دوسرے سے تعلقات سمجهنے ميں ان تمام امور كے فہم وادراك كى بڑى اہميت ہے، تو جيسے ہى يہ فہم وشعور واضح ہوتا ہے ويسے ہى يہ لوگوں سے باہمى لين دين ميں ہر سطح پر تواضع اور انكسارى كا سبب بنتا ہے كہ انسانى لحاظ سے سب برابر ہيں اور جوں جوں يہ فہم وشعور ذہن سے مفقود ہوتا ہے تو لوگوں كے باہمى لين دين ميں بيان كرده امور ميں ثانوى فرق ظاہر ہونے كى وجہ سے يہ انسانى پہلو نظر انداز ہوجاتا ہے، اور دوسروں كو ديكهنے ميں تكبر وغرور اور برترى ظاہر ہوتى ہے۔
تكبر وغرور اور فخر كے مقابلے ميں جو اسلامى قدر ہے وه عجز وانكسارى اور تواضع ہے، يہ كوئى منفى چيز نہيں اور نہ اس سے مراد يہ ہے كہ انسان كسى صورت ميں بهى اپنى عزت كو كم كرے، بلكہ اس سے مراد تو يہ ہے كہ وه لوگوں كے قريب ہو اور ان كے ساتھ انسانى لحاظ سے باہمى لين دين اور سلوك كرے، خواه وه دوسرے عارضى امور ميں (اس سے) مختلف ہى كيوں نہ ہوں۔
تواضع سے مراد، لوگوں كے دوسرے حالات سے قطع نظر ان كى آدميت كا احترام ہے اور يہ كسى صورت ميں بهى كمزورى نہيں بلكہ اس كے بر عكس يہ شخص كى ذاتى وباطنى قوت اور اپنى ذات پر اعتماد كى دليل ہے، يہى وجہ ہے كہ اسلام نے تواضع اختيار كرنے اور دوسروں پر تكبر نہ كرنے كى ترغيب دى ہے، اس بارے ميں نبى كريم كا فرمان ہے: "الله تعالى نے مجهے وحى كى ہے، كہ تم تواضع اختيار كرو، حتى كہ كوئى ايك دوسرے پر فخر نہ كرے اور نہ ہى ايك دوسرے پر ظلم وزيادتى كرے"۔
جہاں تك دوسروں پر تكبر وغرور اور فخر كا اظہار كرنے كا تعلق ہے تو يہ شخصيت ميں كمزورى كى دليل ہے يعنى متكبر شخص باطنى اعتبار سے كمزور ہوتا ہے اور اسے اپنى ذات پر اعتماد نہيں ہوتا، اس لئے وه دوسرے لوگوں كو اپنے سے كمتر سمجهتا اور انہيں ذلت آميز نظروں سے ديكهتا ہے، پس وه تكبر وغرور سے اپنى ذاتى كمى كو پورا كرنے كى كوشش كرتا ہے اور يہى ہم اپنى روز مره زندگى كے مختلف ميدانوں ميں (كسى بڑے) كام كى ابتدا كرنے والوں ميں مشاہده كرتے ہيں، جو دعوى كرتے ہيں كہ انہوں نے كسى كے تجربات سے استفاده نہيں كيا، گويا كہ تجربات ان پر آسمان سے نازل ہوئے ہيں۔
تاريخ انسانى ميں انبياء ورسل، دنيائے علم وفن اور ادب كےعظيم مفكرين، جن ميں سے ہر ايك اپنے ميدان ميں قابل ذكر اہليت وصلاحيت كا مالك تها انہوں نے اپنى كوششوں سے تاريخ كے روشن ترين صفحات رقم كئے، وه ہر قسم كے تكبر وغرور سے مكمل طور پر دور تهے اور وه تواضع وانكسارى اور لوگوں سے ميل جول ميں قابلِ تقليد مثال ہيں۔
متواضع انسان اپنى ذات كى اچهى طرح قدر كرتا ہے ليكن وه اپنے آپ كو غلطيوں يا خاميوں سے پاك بھى نہيں مانتا اور ہر وقت اپنے آپ كو بہتر بنانے كى كوشش كرتا ہے، اگر وه علم كے حصول ميں مصروف ہو تو عجز وانكسارى اس كيلئے علم ومعرفت ميں اضافے كا سبب ہوتى ہے اور اگر كوئى صنعت وحرفت يا ميڈيكل يا انجنيئرنگ يا دوسرے علمى وسائنسى ميدانوں ميں مصروف ہو تو تواضع وانكسارى اسے ميدان ميں مزيد جديد تحقيق اور ريسرچ پر آماده كرتى ہے لہذا الله تعالى نے حضرت محمدؐ كو حكم فرمايا كہ وه اپنے علم ميں اضافہ كے لئے اپنے رب سے دعا كريں، جيسا كہ قرآن كريم بيان كرتا ہے: "ہاں يہ دعا كر كہ پروردگار! ميرا علم بڑها" (وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) [سورۂ طہ: 114]۔
جبكہ متكبر ومغرور سخص يہ سمجهتا ہے كہ وه اس مقام تك پہنچ گيا ہے جس تك دوسرے نہيں پہنچے، اپنے لئے جهوٹى عظمت كا خول بنائے ہوئے ہے، جو اسے اپنى شخصيت كى ترقى كے لئے مزيد علم ومعرفت اور ضرورى تجربے كے حصول، خاص طور پر اعلى انسانى اقدار اپنانے ميں ركاوٹ بنتا ہے، جس سے اس كى جہالت ميں بهى اضافہ ہوتا ہے اور يہى جاہل مركب كى علامت ہے جو كہ نہ صرف جاہل ہوتا ہے بلكہ اپنى اس جہالت سے بے خبر بهى۔
تواضع وانكسارى پر آماده كرنے والى باطنى دولت ہى قرآن كريم كا ہدف ومقصد تها، جب اس نے عيسائى علماء اور گوشہ نشينوں كى تعريف كى تو يہ بيان كيا كہ وه تكبر نہيں كرتے يعنى وه تواضع اور انكسارى كرنے والے ہيں، ارشاد بارى ہے: "ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ" (يہ اس لئے كہ ان ميں علما اور عبادت كے لئےگوشہ نشين افرادپائے جاتے ہيں اور اس وجہ سے كہ وه تكبر نہيں كرتے) [سورۂ مائده: 82]۔