اسلام ميں اگر عقل وخرد كو استعمال كرنا دينى فريضہ شمار ہوتا ہے تو دوسرى جانب يہ ايك حتمى ذمہ دارى بهى ہے جس سے انسان فرار اختيار نہيں كر سكتا اور وه اس كے اچهے يا برے استعمال پر جواب ده ہوگا، اسى طرح باقى حسى ادراكات كے وسائل كے استعمال كے بارے ميں بهى اس سے پوچها جائے گا۔
الله تعالى كى مشيت كے مطابق اسلام نے عقل كو استعمال كرنے اور اس كے استعمال ميں حائل ركاوٹوں كو زائل كرنے پر بہت زور ديا ہے اور اسى وجہ سے اس نے ان ركاوٹوں كو ختم كرنے كا حكم ديا ہے تاكہ عقل، صحيح فہم اور فكرِ سليم كا راستہ اختيار كر سكے، اور يہ امر اس چيز سے مزيد واضح ہو جاتى ہے كہ اسلام نے فكرى پيروى وغلامى اور اندهى تقليد كو واضح طور پر رد كرديا ہے، چنانچہ سوچے سمجهے بغير، اور اچهے اور برے ميں فرق كرنے پر قدرت ركهنے والے انسان كيلئے كسى صورت ميں بهى يہ درست نہيں ہے۔
جس طرح اسلام نے اندهى تقليد كو رد كيا ہے اسى طرح اس نے ہر قسم كے دجل وفريب، اعتقادى خرافات اور اوہام كو بهى رد كرديا ہے، ايسے ہى انفرادى ذمہ دارى مقرر كى ہے جو كہ فرد كى جان ومال اور عقل كى حفاظت كى بناپر اس كى آزادى اور اطمينان پر قائم ہے . علاوه ازيں اسلام نے عقل كى حفاظت كو بنيادى اور ضرورى مقاصد ميں شمار كيا ہے، اور عقيدهِ توحيد كے ذريعے مردِ مومن كو حق گوئى ميں (ہر قسم كے) خوف سے آزاد كرديا ہے، پس مومن حق اور سچائى كے اظہار ميں كسى صورت ميں بهى خوفزده نہيں ہوتا۔
اس طرح اسلام نے انسان كو ايسے حقيقى ما حول كى ضمانت دى ہے جس ميں وه فہم وادراك (كے ساتھ) تفكر وتدبر كر سكے، يہى وجہ ہے كہ اسلام نے عقل كو تمام قيود وپابنديوں اور غلامانہ تقليد سے آزاد كرديا ہے- اسى بناپر شيخ محمد عبده كہتے ہيں: انسان كے دين كے تقاضوں كے مطابق دوامور مكمل ہوگئے حالانكہ وه دونوں سے محروم تها، اور وه (دونوں) فكر ورائے اور ارادے كى آزادى ہے۔
عقل كے بارے ميں اسلام كے اس بنيادى نظريے كا اسلامى تہذيب كے قيام اور اسلامى فكر ميں بہت بڑا اثر تها، كيونكہ پابنديوں سے آزاد ہونے كا مطلب يہ ہے كہ اسلام ميں داخل ہونےوالے ہر شخص كو مكمل خود مختارى اور استقلاليت حاصل ہے۔ اس كو اپنى عقل كو استعمال كرنے كا نہ صرف حق ہے بلكہ اس كو استعمال كرنا اس پر فرض ہے، اسى عقل كو استعمال ميں لاتے ہوئے ہميں اچھى طرح جاننا چاہيے كہ اسلام ايك مكمل نظامِ حيات ہونےسے پہلے ايك عقيده ہے، ايك اندرونى اور قلبى ايمان ہے، جو كسى بھى صورت ميں زبردستى يا مجبورى كے تحت نہيں پيدا كيا جاسكتا. اسلام نشر كرنے كا واحد طريقہ يہ ہے كہ ہم اسكى دعوت ميں خير ، بھلائى، اخلاقِ حسنہ اور زندگى كے مثبت پہلوؤں كو كام ميں لائيں ، ارشادِ بارى ہے " ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ " ((اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔) (سورۂ نحل: 125)۔